وسیلہ
بارگاہِ الٰہی میں نیک بندوں کا وسیلہ پیش کرنا دعاؤں کی قبولیت، مشکلات کے حل، مصائب و آلام سے چھٹکارے اور دینی و دُنیوی بھلائیوں کے حُصول کا آسان ذریعہ ہے۔مقدس ہستیوں کے بارے میں ہمیں صرف معلوم ہی نہیں بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگا ہ میں مقبول اور محبوب ہیں جیسے کہ انبیائے کرام،صحابہ کرام اور اولیائے کرام وغیرہ ۔اس لئے ان کے وسیلے سے دعا کرنے میں قبولیت کی امید زیادہ ہے۔ قراٰن و حدیث اور اَقوال و اَفعالِ بُزُرگانِ دین سے وسیلہ اِختیار کرنے کا ثُبوت ملتا ہے چنانچہ اللہ ربّ العزّت کا فرمان ہے: ( وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ) ترجمۂ کنز الایمان:اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔(پ٦ ، المآئدۃ:۳۵)۔اس آیت کر یمہ میں اللہ تعالی نے خود ہی اپنے بندوں کو اپنی بارگا ہ تک پہونچنے کے لئے وسیلہ تلاش کر نے کا حکم دیا ہے ۔تو معلوم ہوا کہ وسیلہ بلا شبہ جا ئز ہے۔
ہمارے پیارے مدنی آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان فقرا کے وسیلے سے دعا فرمایا کرتے تھے چنانچہ طَبرانی شریف میں ہے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ وَيَسْتَنْصِرُ بِصَعَالِيکِ الْمُسْلِمِينَ ترجمہ:نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان فقرا کے وسیلے سے فتح و نصرت طلب فرماتے تھے۔
امام تقِیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:”نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کرنا جائز و مستحسن ہے، چاہے ولادتِ باسعادت سے قبل ہو، حیاتِ ظاہری میں ہو یا وِصال مبارک کے بعد ہو۔ اسی طرح آپ علیہ السَّلام سے خاص نسبت رکھنے والے بُزُرگوں کو وسیلہ بنانا بھی جائز و مستحسن ہے۔
حضرت سیّدنا آدم علیہ الصلاۃ وَ السَّلام نے حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کی تو ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:بے شک! محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمام مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور اب کہ تو نے ان کے حق کے واسطے سے سوال کیا ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں: اَنْتَ الَّذِیْ لَمَّا تَوَسَّلَ اٰدَمُ مِنْ زَلَّۃٍ بِکَ فَازَوَھُوَ اَبَاکَ آپ ہی وہ ہستی ہیں کہ جب جَدِّاعلیٰ آدم علیہ السَّلام نے لَغْزِش کے سبب آپ کا وسیلہ پکڑا تو وہ کامیاب ہوئے۔
دعائے مصطفٰے: نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کی والدہ کے لئے یوں دعا کی: اغْفِرْ لِاُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مَدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي۔ ترجمہ: (اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کی مغفرت فرما اور انہیں ان کی حجت سکھااور میرے اور مجھ سے پہلےنبیوں کے حق کے وسیلے سے اس کی قبرکو وسیع فرما۔
بزرگانِ دین اور وسیلہ: بُزُرگانِ دین بھی اپنی دعاؤں میں وسیلہ اِختیار کیا کرتے تھے، مثلاً، امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ قحط کے وقت یوں دعا کیا کرتے: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! پہلے ہم تیرے نبی کے وسیلے سے دعا کرتے تھے، اب اپنے نبی کے چچا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ہمیں بارش عطا فرما!اس حدیث شریف سے معلوم ہو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صحابہء کرام کی جماعت کے ساتھ سر کار علیہ السلام کے چچا کے وسیلے سے دعا مانگتے تھے ۔مگر کسی صحا بی رسول ﷺ نے اعتراض نہ کیا ۔گو یا وسیلہ کے جواز پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم کا اجماع ہو گیا۔اس لئے اس کے جواز میں کسی مسلمان کو ذرّہ برابر بھی شبہ نہیں ہو نی چاہئے۔
حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت سیّدنا ابنِ اَسْوَد جُرَشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگا کرتے تھے۔علّامہ ابنِ عابِدِین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نبیِّ کریم، رَءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، امام اعظم اور دیگر صالحین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین کے وسیلے سے دعا کرتے تھے۔
فرمانِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم: مَنْ تَوَسَّلَ بِیْ اِلَی اللہِ فِیْ حَاجَۃٍ قُضِیَتْ حَاجَتُہ جو مجھے وسیلہ بنا کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی حاجت طَلَب کرے اس کی حاجت پوری کی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment