امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ
امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنوامیہ سے تھا۔ والد عفان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے جا ملتا ہے ۔ پیکر عفت و حیا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ امیرالمومنین، خلیفة المسلمین، بارگاہ خداوندی میں انتہائی مقرب، رہنمائے اہل صفا و غنا، استاذ الصابرین، پیشوائے سالکین، منبع جودوسخا، متصف بالحیا، ابوعبداللہ آپ رضى الله عنه کا نام عثمان کنیت: ابو عبد اللہ اور لقب ”غنی“” ذوالنورین “ یہ وہ فضیلت ہے جو آپ کے سواکسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی شخص کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئیں، اسی لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہتے ہیں۔
آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی پکار پر لَبَّیْک کہا۔ اسلام لانےکے بعد چچا حَکَم بن ابو العاص نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو رسیوں سے باندھ دیا اور دینِ اسلام چھوڑنے کا کہا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اسے صاف صاف کہہ دیا: میں دینِ اسلام کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے جد ا ہوں گا۔
حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو دفعہ کی، ایک مرتبہ حَبْشہ کی طرف تو دوسری بار مدینے کی جانب۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کااِعزازپایا ۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب پی، نہ بدکاری کے قریب گئے،نہ کبھی چوری کی نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا۔
خلافت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری وقت میں ایک کمیٹی بنائی جس میں حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبد اللہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کو شامل کیا ۔اور ارشاد فر مایا کہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ جب حضور ﷺدنیا سے تشریف لے گئے تو ان سے راضی اور خوش تھےاس لئے یہ لوگ جن کو خلیفہ بنادے وہی مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اس کمیٹی کے اتفاق سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ۱/محرم الحرام ،سن ۲۴/ہجری میں حضور ﷺ کے تیسرے خلیفہ کے طور پر نامزد کئے گئے اور لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کیا۔آپ نے کل بارہ سال تک خلافت کی ذمہ داری نبھائی جس میں چھ سال تو نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ گزرااور مسلمانوں کی بڑی ترقی ہوئی مگر آخر کا چھ سال حضور ﷺ کی خبر کے مطابق کہ”اے عثمان اللہ تعالیٰ تمہیں {خلافت} کی قمیص پہنائے گا جسے منافقین اتارنا چاہیں گے مگر تم نہ اتارنا۔
منافقین کی ایک جماعت نے آپ کو خلافت سے ہٹانے کا منصوبہ بنا یا اور پھر آپ کے خلاف فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کاناشروع کیامگر آخر وقت تک آپ حضور کی نصیحت پر جمے رہے اور صبر کرتے رہے یہاں تک ظالموں نے آپ کو شہید کردیا۔
شہادت: حضور اکرم ﷺ نے آپ کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺ اُحد پہاڑ پر چڑھے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم تھے ،اُحد پہاڑ کانپنے لگا تو حضور نے فر مایا:اےاُحد! ٹھہر جا،تجھ پر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دوشہید ہیں۔اور آپ ﷺ نے اپنے آخری وقت میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو آنے والی مصیبت پر صبر کرنے کی وصیت بھی فر مائی تھی۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:حضور اکرم ﷺ نے اپنے مرضِ وصال میں فر مایا کہ:میری خواہش ہے کہ میرے پاس میرا کوئی صحابی ہو۔تو ہم نے عر ض کیا کہ :یارسول اللہ!کیا ابوبکر کو بلائیں؟ تو حضور خاموش رہے پھر ہم نے عر ض کیا کہ:کیا عمر کو بلائیں ؟پھر بھی حضور خاموش رہے۔پھر میں نے عر ض کیا:عثمان کو بلائیں ؟تو حضور نے کہا کہ:ہاں۔پھر حضرت عثمان آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے گفتگو فر مائی تو حضرت عثمان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔حضرت ابو سہلہ کہتے ہیں کہ:فتنہ کے دنوں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا کہ: حضور نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا تو میں اس عہد پر صابر ہوں۔نیز حضور نے خود فتنہ کے دنوں میں آپ کے حق اور ہدایت پر ہونے کی خبر پہلے ہی صحابہ کو دے دی تھی۔حضرت مرہ بن کعب کا بیان ہے کہ:نبی کریم ﷺ نے فتنے کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ قریب ہی ہے اتنے میں ایک شخص کپڑا ،اوڑھے ہوئے گزرا تو حضور نے اس کی طرف اشارہ کر کے فر مایا کہ:یہ شخص اُس دِن حق پر ہوگا۔راوی کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی طرف گیا تو وہ حضرت عثمان تھے۔میں نے حضور سے عر ض کیا کہ:یارسول اللہ !یہ{حق پر ہوں گے؟}تو حضور نے فر مایا کہ:ہاں،یہ۔
۔۱۸ذی الحجہ ،سن ۳۵/ہجری کو جمعہ کادن تھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نےرات کو خواب میں رسول اکرم ﷺ کودیکھا کہ آپ ﷺ فر مارہے ہیں کہ:اےعثمان! ہمارے پاس آکر افطار کرو۔صبح کو حضرت عثمان نے روزہ رکھا اور اُسی دن عصر کے بعد جب آپ قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھے ظالموں نے آپ کو شہید کردیا ۔
No comments:
Post a Comment