غزوۂ بدر یوم الفرقان
ماہِ رمضان کے شروع میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ اہلِ قریش کا تجارتی مال و اسباب سے بھرا ہوا قافلہ شام سے مکہ آرہا ہے اس کے ساتھ تیس یا چالیس آدمی خاص اہلِ قریش کے ہیں جن کا سردار ابو سفیان ہے اور اس کے ہمراہیوں میں عمرو بن العاصی و محزمۃ بن نوفل ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانانِ مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کرکے اس قافلے کی طرف پیش قدمی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔(ابن خلدون /اول/۷۱)۔آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ: آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مہاجرین و انصار کوجمع کرکے مشورہ کیا ۔ پہلے مہاجرین نے نہایت خوبصورتی اور بسرو چشم ہر حکم بجالانے کا اقرار کیا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے انصار کی طرف رخ کیا ان میں سے حضرت سعد بن معاذ نے نکل کر عرض کیا ’’اے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم! ہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی ہے۔ اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دریا میں کودنے کوفرمائیں گے تو ہم اس میں بھی غوطہ لگا دیں گے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اللہ کے نام پر ہمارے ساتھ چلئے، ہم ساتھ چھوڑنے والوں میں سے نہیں ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ سن کر خوش ہوگئے اور یہ ارشاد فرمایا: ’’ کہ تم لوگوں کو بشارت ہو ،کہ اللہ جل شانہٗ نے مجھ سے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘(طبقات ابن سعد، ۱:۳۱۵)۔
اکثر اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گمان یہی تھا کہ حضور قافلہ پر حملہ آور ہونے کو جارہے ہیں وہ دل ہی میں خوش تھے کہ قافلہ ہی سے مڈبھیڑ ہو کیونکہ مسلمان بلحاظ جنگی سازو سامان کے مکمل نہ تھے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو مدینہ ہی میں مطلع فرما دیا تھا کہ حملہ آور دشمن سے جنگ کیلئے جانا ہے۔ جنگ ناگزیر تھی کہ امر الٰہی تھا: قافلۂ قریش تو چلا گیا تھا ، مسلمان چاہتے تو جنگ نہ ہوتی لیکن امر الٰہی مقدر تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ:اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے لیکن یہ اس لئے کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے۔ کہ جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو اور جو جئے دلیل سے جئے۔ اور بے شک اللہ ضرور سنتا جانتا ہے۔ (کنز الایمان:پارہ ۱۰، سورۃ الانفال، آیت ۴۲)۔
غزوۂ بدر کو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان بھی قرار دیا۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: یَوْ مَ الْفُرْقَانِ یَوْ مَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ(پارہ : ۱۰، الانفال : ۴۱ )۔ ( ترجمہ)۔ فیصلے کے دن جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں۔
۔۲ہجری، ۱۷رمضان المبارک جمعہ کا بابرکت دن تھا جب غزوۂ بدر رونما ہوا،اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳تھی جن کے پاس صرف ۲گھوڑے،۷۰ اونٹ، ٦زرہیں(لوہے کا جنگی لباس) اور ۸تلواریں تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں لشکرِ کفار۱۰۰۰ افراد پر مشتمل تھا جن کے پاس ۱۰۰گھوڑے، ۷۰۰ اونٹ اور کثیر آلاتِ حرب تھے۔
رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دشمن کے حالات معلوم کرنے کیلئے اپنے جاسوس بھیجے۔ان میں سے ایک حضرت بسبس بن عمرو جہنی اور دوسرے حضرت عدی بن ابی الزّغباء تھے یہ دونوں پہلے اشخاص ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے بدر کی جانب ابو سفیان کے حالات معلوم کرنے کیلئے بھیجا ۔ اور وہ بدر سے یہ خبر سن کر آئے کہ قافلہ کل یا پرسوں بدر میں پہنچے گا ۔
اتفاق سے مسلمانوں کی یہ خبر رفتہ رفتہ ابو سفیان تک پہنچ گئی اس نے مسلمانوں سے ڈر کر ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا اور یہ کہلا بھیجا کہ تمہارا قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اور انکے تابعین کی وجہ سے معرض زوال میں ہے، دوڑو اوراپنے قافلے کو بچاؤ۔ چنانچہ اہلِ مکہ یہ سنتے ہی سب کے سب نکل کھڑے ہوئے سوائے چند افراد کے جن میں ابو لہب بھی تھا۔ ابو سفیان اپنے قافلے کو ساحل کے ساتھ ساتھ لے کر مکہ کی جانب چلا تو راستے میں اہلِ مکہ بھی مل گئے اس نے خوش ہو کر کہا چلو واپس چلو ہمارا قافلہ صحیح و سالم بچ آیا مگر ابو جہل نے ابو سفیان کے مشورے کو رد کر دیا اور فوج کو بدر تک جانے پر اصرار کیا۔ اس نے بڑے تکبر اور غضب سے کہا ، خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے ہم بدر تک جائیں گے اور تین دن وہاں ٹھہریں گے اور اونٹ ذبح کریں گے اور کھائیں گے کھلائیں گے اور شراب نوشی کریں گے اور گلوکارائیں ہمارے لیے گانے گائیں گی اور عرب ہمارے متعلق اور ہماری پیش قدمی سے متعلق سنیں گے تو ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔ (سبل الہدی و الرشاد، ۴:۲۹)۔
آغازِ جنگ:۱۷ رمضان المبارک جمعہ کا دن نمازِ فجر حضور سالارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے لشکر اسلام کو پڑھائی اور فرمانِ الٰہی کے مطابق ایک مختصر مگر بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ ’’جب تک کفار کی جانب سے پیشقدمی نہ ہو مسلمان ہر گز حملہ نہ کریں ، اگر کفار مسلمانوں کی جانب بڑھنے لگیں تو ان کو روکنے کیلئے پہلے تیر برسائیں، اگر وہ نہ رکیں اور آگے بڑھتے رہیں تو مسلمان جم کر لڑیں ، خبردار کوئی گھبرائے نہ، کوئی پیٹھ نہ پھیرے، اللہ سبحانہٗ تعالیٰ تمہیں ہدایت فرماتا ہے:اے ایمان والو! جب کافروں کے لام (بڑے لشکر)سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دو اور جو اُس دن انہیں پیٹھ دے گا مگر لڑائی کا ہنر کرنے یا اپنی جماعت میں جاملنے کو تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا بری جگہ ہے پلٹنے کی۔(کنز الایمان:پارہ :۱۰،الانفال: ۱۵۔۱٦)۔ اور رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دوسرا حکم الٰہی بھی سنایا:اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔ (کنز الایمان:پارہ ۱۰،الانفال: ۴۵)۔
اشراق کے بعد کفار کی فوج اپنے دلدلی حصہ زمین سے اسلامی فوج کی طرف بڑھی اور بدر کی بے شجر وادی میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، ایک جانب لوہے میں ڈھکے ہوئے سرتا پا مسلح فنِ جنگ کے خوب ماہر قہر مجسم ایک ہزار قریشی سرداروں، پہلوانوں اور نامور بہادروں کی پیش قدمی ہے تو دوسری جانب ۳۱۳ اسلامی لشکر کے افراد کہ جن کے پاس مکمل جنگی سازو سامان بھی نہیں ہے اکثر کے لباس بھی پھٹے پرانے ہیں۔ تمام ظاہری آثار بتاتے ہیں کہ قریشی لشکر اسلامی لشکر کا صفایا چند لمحوں میں بڑی آسانی سے کردے گا۔ سب سے پہلے مغرور سردارعتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولیدکے ساتھ آگے بڑھا اور بڑے زعم سے مبارزت طلب کی ، انصار اصحاب میں سے حضرات عوف ، معاذ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مقابلہ کیلئے آگے بڑھے تو عتبہ نے کہا کہ ہم انصار مدینہ سے مقابلہ نہیں چاہتے تم ہمارے جوڑ کے نہیں مہاجرین میں سے کسی کو جرأت ہو تو آ گے آئے، تب چیلنج دینے والے اس مغرور کے سردار کے ایک فرزند (جو مسلمان ہو چکے تھے) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے چاہا کہ اپنے کافر باپ کا مقابلہ کریں مگر حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کو روک دیااور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے محترم چچا اسد اللہ و اسد الرسول حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت عبیدہ ابن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو آگے بھیجا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے شیبہ بن ربیعہ کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اسی آنِ واحد میں ولید بن عتبہ کا خاتمہ کیا اور عتبہ بن ربیعہ اور حضرت عبیدہ کے باہم مقابلے میں حضرت عبیدہ کے پاؤں کٹ گئے تو حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عتبہ کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ (تاریخ طبری ، ۱:۱۷۹) تین ممتاز و معزز و نامور سردارانِ قریش کے اس طرح مارے جانے پر کفار کی فوج میں صف ماتم بچھ گئی اور عجیب ہیبت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اسلامی لشکر میں فرطِ فرحت و تشکر سے احد…احد …اور اللہ اکبر…اللہ اکبر … اللہ اکبر.... کے فلک بوس نعرے گونجنے لگے جو کفار کے حق میں جگر شگاف تھے ۔ بعد ازاں کفار نے اپنے مقام سے تیر برسائے جن سے حضرت مہجع بن صالح اور حضرت حارثہ بن سراقہ شہید ہو گئے۔ اور پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہوگئی۔لشکر اسلام کے علم بردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی بھائی جو مشرک تھا عبداللہ بن عمیر کو قتل کیا اور حضرت سیدنا فارقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ تین تین چار چار سوارو پیادہ آہن پوشوں کا اکیلے مہاجرین یا تن تنہا انصار پر ٹوٹ پڑنا، تیغ و تبر کی چقاچق، برچھیوں اور نیزوں کی جھنجھناہٹ، تیروں کی فشافش، کفار کے گھوڑوں کے ٹاپوئوں کی ٹھپا ٹھپ، ہوا کی سنسناہٹ کفارکے جنگی نقاروں کی ہیبت ناک گرج، لات و منات ، ہبل و عزّیٰ کی امداد کیلئے کفار کی شورو پکار ، مجاہدین اسلام کی اَحد…اَحد کی صدائیں اور ہر ضرب پر اللہ اکبر …اللہ اکبر کے پُرجوش و فلک بوس نعروں سے میدانِ کارزار ایسا ہولناک منظر ہوا کہ گویا زمین پر زلزلہ تھا، پہاڑ لرز رہے تھے، اور آسمان پھٹ رہا تھا، حضور انور و اقدس ا سپہ سالارِ لشکر اسلام علیہ افضل التحیاۃ والصلوٰۃ والسلام متاثر ہو کر داخل عریش ہوئے اور دونوں مبارک ہاتھوں کو پھیلا کر حق تعالیٰ جلِ جلالہٗ عم نوالہٗ سے نہایت خلوص و عجز سے عرض کرنے لگے ’’یا الٰہ العالمین، یا ذوالجلال والاکرام اگر آج اس میدان میں یہ نہتے مسلمان کٹ جائیں اور مٹ جائیں توپھر تیری عبادت کرنے والے بندے دنیا میں کوئی باقی نہ رہیں گے، یا الٰہی تیری عبادت کرنے والے ان نہتے مسلمانوں کو آج فتح سے نواز، اے مولیٰ تیرا وہ وعدہ کہ مسلمانوں کو فتح سے سرخرو فرمائے گا اب پورا فرما…الخ۔ (سیرت ابن ہشام، ۲:٦۲۷ و مسلم ۲:۹۳) آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے وقت آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ عریش میں کوئی نہ تھا۔ سوا ئے قدیم یارِ غار سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے جو حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی حفاطت کیلئے تلوار لیے ہوئے آپ کی پشت پر داخل ہوئے تھے، عاجزانہ دعا کی حالت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس ہاتھ جو ہلتے تھے تو آپ کی مبارک چادر آپ کے پاک کندھوں سے باربار گر جاتی اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کو پھر آپ کے کندھوں پر ڈالتے رہتے۔ اس دعا کی طوالت نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو متاثر کیاتو آپ نے عرض کیا …’’یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، دعا بس فرمایئے…بس فرمایئے، اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا فرمانے والا ہے۔‘‘(مسلم ،۲:۹۳) یہ گذارش گویا الہام غیبی تھی کہ اسی وقت سیدنا جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بشارت کا پیغام لے آئے اور سنایا: (ترجمہ)جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے۔ (پارہ ۱۰،الانفال: ۹) اس پیاری وحی سے آپ کی تسلی میں مزید اضافہ ہوا اور آپ نے یہ نوید پہنچا کر لشکرِ اسلام کی مزیدخوب ہمت افزائی فرمائی۔ امدادِ ملائکہ: معاً سفید عمامہ پوش ابلق گھوڑوں پر سوار فرشتوں کی فوج کا نزول ہوا، فرشتوں کو بارگاہِ الٰہی سے حکم ملا : (ترجمہ) اے (فرشتو)! میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم مسلمانوں کی کو ثابت قدم رکھو، عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈالوں گا، پس کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کے ایک ایک پور پر ضرب لگاؤ (پارہ ۱۰،الانفال :۱۳) ابلیس لعین جو سراقہ سردار بنو کنانہ کی شکل میں مع ایک لشکر وارد تھا نزول ملائکہ دیکھتے ہی ہیبت زدہ ہو کر میدان سے یہ کہتے ہوئے فرار ہوا ’’میں تم سے الگ ہوں، میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (پارہ ۱۰،الانفال ۴۸) پہلے ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ہو گئے ۔ بعد ازاں بصورت صبر و تقویٰ پانچ ہزار ہوگئے۔ حضور اقد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایک کنکریوں کی مٹھی لے کر شاہت الوجوہ (یعنی ذلیل ہوں چہرے) فرماتے ہوئے لشکر کفار کی جانب پھینکی۔ دفعتاً ایک ایسی تیز آندھی چلی کہ کفار میں ہر ایک کے منہ اور ناک ریت سے بھر گئے، سانس لینا دشوار ہوگیا، دم گھٹنے لگے وہ مبہوت ہو کر حیران و پریشان بھاگنے ، مرنے اور اپنے ہتھیار پھینک کر قید ہونے لگے۔ اس معجزہ کا ذکر ذوالجلال والاکرام نے بڑے لطف و پیارے الفاظ میں یوں فرمایا ہے۔ (ترجمہ) تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور اے محبوب (ا ) وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے۔ بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔ (پارہ :۹، الانفال :۱۷) حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی قیادت کرتے ہوئے حضرات مہاجرین و انصار کی اس طرح مدد کر رہے تھے کہ حضرت ربیع بن انس انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنا مشاہدہ روایت کرتے ہیں کہ ہم جنگ بدر میں کشتگانِ ملائکہ کو پہچانتے تھے۔ کسی کا سر گردن سے اڑا دیا ہے ، کسی کے پوروں پر ضرب پہنچائی ہے ، گویا کہ وہ آ گ سے جلا ہوا ہے اور داغ ہو گیا ہے۔ (رواہ بیہقی ، سبل الھدیٰ ۴:۴) حضرت سہیل بن حنیف انصاری اور حضرت ابو داؤد عمیر بن عامر انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معرکہ بدر میں ہم سے کوئی تلوار اٹھاتا تو اس کی تلوار مشرک تک پہنچنے سے قبل ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا ۔ (رواہ البیہقی دلائل النبوۃ) رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ایک چچا عباس بن عبدالمطلب ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور مشرکوں کے ساتھ فوج میں تھے طویل قامت اور قوی جسم والے تھے انہیں ایک دبلے پتلے پستہ قد انصاری صحابی حضرت ابو الیسر خزرجی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے گرفتار کر کے حضور سید الانبیا والمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ، اے ابوالیسر! تم نے عباس کو کیسے گرفتار کیا، ایسے مرد نے میری مدد کی جسے میں نے پہلے یا بعد نہیں دیکھا وہ ایسا ایسا تھا، حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے فرمایا کہ تمہاری مدد (ملک کریم) یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمائی۔ (سبل الہدیٰ، ۴:۴۱)۔
ظہورِ معجزات: معرکہ بدر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی معجزات ظاہر ہوئے ، میدانِ جنگ میں اپنی صفوں کو لے کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میدان کے وسط میں تشریف لائے اور جنگ سے ایک روز قبل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے عصائے مبارکہ سے مختلف لکیریں میدان میں کھینچتے ہوئے فرمایا: ’’ کل یہاں عتبہ بن ربیعہ کی موت ہوگی، اور یہاں اس دور کے فرعون ابو جہل کی موت واقع ہوگی، الغرض مشرکین کی موت اور ان کے مقتل کی جیسی نشاندہی فرمائی گئی تھی اس سے ہٹ کر وقوع نہ ہوا ۔ ‘‘ (مسلم شریف ، ۲:۱۰۲) حضرت عکاشہ کے پاس ایک زنگ آلود پُرانی تلوار تھی جو ٹوٹ گئی تو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میدان سے ایک سوکھی جنگلی جلانے والی لکڑی اپنے دست مبارک سے اٹھا کر انہیں دے دی اور ارشاد فرمایا : ’’جاؤ اس سے لڑو‘‘ وہ لکڑی حضرت عکاشہ کے ہاتھ میں ایک سفید چمکدار فولادی تیز تلوار بن گئی اور عرصۂ دراز تک (۱۱ہجری) ان کے پاس رہی ۔ اسی طرح حضرت سلمہ بن اسلم انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بھی حضور ا نے کھجور کی سوکھی شاخ دی جو کہ فوراً ایک تیز دھار تلوار بن گئی ۔ حضرت رفاعہ بن رافع بن مالک خزرجی انصاری و حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زخمی آنکھوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے لعابِ دہن سے تندرست کر دیا ۔ (ابن کثیر،۲:۴۴٦۔۴۴۷)۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن سہیل مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مکہ مکرمہ میں اپنا اسلام ظاہر کیے بغیر قیام فرما تھے مگر پیکر استقامت تھے۔لشکر کفار میں داخل ہو کر میدانِ بدر میں وارد ہوئے اور مشرکین کے لشکر کو چھوڑ کر حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر کافروں سے خوب مقابلہ کیا۔(کوکبۂ غزوۂ بدر:۱۵)۔
جب میدان کا رزار سر دہو گیا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ایسا کون ہے جو ابوجہل کی خبر لائے؟ یہ سن کر حضرت عبداللّٰہ بن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ گئے اور ا سے اس حال میں پایا کہ عَفْراء کے بیٹوں معاذ اور معوذ نے اسے ضرب شمشیر سے گر ایاہوا تھا اور اس میں ابھی رمق حیات باقی تھا۔ حضرت ابن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس لعین کے سینے پر بیٹھ گئے اور اس کی ناپاک ڈاڑھی کوپکڑکر کہا: کیا تو ابوجہل ہے؟ بتا آج تجھے اللّٰہ نے رسواکیا؟ اس لعین نے جواب دیا: ’’رسواکیا کیا! تمہارا مجھے قتل کر نا اس سے زیادہ نہیں کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کرڈالا۔ کاش! مجھے کسان کے سوا کوئی اور قتل کر تا۔‘‘ اس جواب میں اس لعین کا تکبر اورانصار کی تحقیر پائی جاتی ہے کیونکہ حضرت معاذ اور معوذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا انصار میں سے تھے اور انصا رکھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ پھر حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لعین کا کام تمام کر دیا اور یہ خبر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں لائے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سن کر تین بار’’ اَللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو’‘پڑھا۔ چوتھی باریوں فرمایا: ‘’اَللّٰہُ اَکْبَر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَّقَ وَعْدَہٗ وَ نَصَرَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لے کر اس لعین کی لاش کے پاس تشریف لے گئے اور دیکھ کر یہ فرمایا: ’’یہ اس امت کا فر عون ہے۔
جانثار مسلمان اس دلیری سے لڑے کہ لشکرِ کفار کو عبرتناک شکست ہوئی، ۷۰ کفار واصلِ جہنم اور اسی قدر(یعنی۷۰)گرفتار ہوئے (مسلم ، ص۷۵۰، حدیث:۴۵۸۸ملخصاً)۔ جبکہ ۱۴مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔(عمدۃ القاری،ج۱۰،ص۱۲۲)۔
شہداء و شرکائے بدر کی فضیلت: رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے ، ’’جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا آپ اہلِ بدر کو مسلمانوں میں کیسا سمجھتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ! سب مسلمانوں سے افضل سمجھتا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ فرشتوں میں سے جو فرشتے بدر میں حاضر تھے ان کا درجہ بھی ملائکہ میں ایسا ہی سمجھاجاتا ہے۔ ‘‘ (بخاری: کتاب المغازی، باب شھود الملٓئکۃ بدرا، فتح الباری، ۷:۳٦۲)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے روایت کیا کہ، ’’ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اہلِ بدر کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ہے اب تم جو چاہو سو کرو۔‘‘(ابو داؤدشریف، ۲:۲۹۱۔۲۹۲، مطبوعہ امدادیہ ملتان) ۔
غزوۂ بدر میں جامِ شہادت نوش فرمانے والے صحابۂ کرام کے اسمائے مبارک یہ ہیں :۔(۱) حضرت عبید ہ بن حارِث(۲) حضرت عمیر بن ابی وَقَّاص (۳) حضرت ذُوالشِّمالین عمیر بن عبد عمرو(۴) حضرت عاقل بن ابی بکیر (۵) حضرت مِہجَع مولیٰ عمر بن الخطاب (٦) حضرت صَفْوان بن بیضاء (یہ ٦مہاجرین ہیں)۔(۷)حضرت سعد بن خَیْثَمَہ (۸)حضرت مبشربن عبدالمُنْذِر (۹)حضرت حارِثہ بن سُراقہ(۱۰)حضرت عوف بن عفراء (۱۱) حضرت معوذ بن عفراء (۱۲)حضرت عمیر بن حُمام (۱۳)حضرت رَافِع بن مُعلّٰی (۱۴)حضرت یزید بن حارث بن فسحم(یہ۸انصار ہیں)رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ (سیرت ابنِ ہشام، ص295)۔
شہدائِ بدر کے ناموں کا وردحصولِ برکت اور دفع مصائب کا ذریعہ ہے: اکثر علماء ، صلحاء، اصفیاء، عرفاء، نقباء، نجباء، اتقیاء اور اولیاء فرماتے ہیں کہ شہداءِ بدر کے ناموں کو پڑھ کر ان کے وسیلے سے دعا کریں تو حاجت روائی ہوتی ہے اور یہ نام لکھ کر گھر میں لگائیں تو اس کی برکت سے گھر کے مکینوں کے ایمان، جان اور مال و آبرو کی حفاظت ہوگی۔ (کوکبۂ غزوئہ بدر:۲۵۸، مؤلف مولانا بخشی مصطفی علی خان میسوری مدنی علیہ الرحمہ)۔
غزوۂ بدرمیں مسلمان بظاہر بے سروسامان اور تعداد میں کم تھے مگر ایمان و اخلاص کی دولت سے مالامال تھے ، ان کے دل پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عشق و محبت اور جذبہ ٔاطاعت سے لبریز تھے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مدد اور پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی دعائیں ان کے شاملِ حال تھیں۔ یہی وہ اسباب تھے جنہوں نے اس معرکے کو یاد گار اور قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ بنادیا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی محبت اوراطاعت کا جذبہ عطا فرمائے۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment