Wednesday, July 17, 2019

dua ki azmat o ahmiyat[دعا کی عظمت و اہمیت]

dua ki azmat o ahmiyat[دعا کی عظمت و اہمیت]

دعا کی عظمت و اہمیت


دعا ایک عظیم عبادت،عمدہ وظیفہ اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے، دعا در حقیقت بندے اور اس کے خالق و مالک کے درمیان کلام، راز و نیازاور بندگی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ دعا بندے کو رب سے ملانے، اس کی بارگاہ میں حاضر ہونےکی ایک صورت ہے۔ عام طور پرجو سکون و راحت دعا کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور عبادت میں حاصل نہیں ہوتی۔ دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت ہونے کی وجہ سے جس طرح آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند ہے اسی طرح دنیا میں بھی بہت مفید ہے ،مثلاً مشکلوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے دعا ایک اہم ذریعہ ہے۔دعا کی عظمت و اہمیت پر قرآن و سنت میں کثیر آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔

دعا کے متعلق ارشادِ باری تعالٰی


قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا
اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا/ دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے(پارہ ۲، سورہ بقرہ،آیت نمبر۱۸٦)۔
ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا(پ۲۴، المؤمن: ٦۰)۔
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ؕ وَکَذٰلِکَ نُـنْجِی الْمُؤْمِنِیۡنَ۔پس ہم نے یونس کی دعا قبول فرمائی اور اسے غم سے نجات دی اور یونہی نجات دیں گے ایمان والوں کو(پ۱۷، الأنبیاء : ۸۸)۔

دعا کے متعلق احادیث نبوی ﷺ


نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:دعا ہی عبادت ہے۔دعا عبادت کا مغز ہے۔سب سے زیادہ بزرگی والی عبادت دعا ہے۔ سب سے افضل عبادت دعا ہے۔دعا رحمت کی کنجی ہے اور وضو نماز کی کنجی ہے اور نماز جنت کی کنجی ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک نیکی رزق کو زیادہ کرتی ہے۔ بے شک بندہ اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم رہتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث میں دعا مانگنے کے کتنے فضائل ہیں اور اللہ پاک دعا مانگنے والوں کو کس قدر پسند فرماتا ہے اور انہیں ان کی دعاؤں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں عطافرماتاہے ۔دعا کے بے شمارفوائد و ثمرات ہیں جن سے ہمیں محروم نہیں رہنا چاہیےاور کثرت سے دعا مانگنی چاہیے کہ جو بگڑے کام کو سنوارتی اور مصیبت سے بچاتی ہے۔
دعا کی قبولیت میں رکاوٹ:یادرہے!اللہ پاک سب کی دعائیں قبول فرماتا ہے مگر اس کا بدلہ کبھی فوراً تو کبھی تاخیر سے دیتا ہےیہ سب اس کی حکمت پر ہے مگر بعض اوقات ہمارے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ہماری دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں ۔

منقول ہےکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکے زمانے میں قحط پڑا، آپ بنی اسرائیل کو لے کر تین بار دعا کے واسطے گئے مینہ نہ برسا(یعنی بارش نہ ہوئی)، اللہ کریم نے وحی بھیجی:اے موسیٰ! میں تیر ی اور تیرے ساتھ والوں کی دعا قبول نہ کروں گا کہ تم میں ایک نَمام(چُغل خور)ہے کہ ایک کا عیب دوسرے سے بیان کرتا ہے۔عرض کی:اے رب!وہ کون ہے کہ اس کو ہم اپنے گروہ سے نکال دیں؟ حکم آیا: میں تمہیں نمیمی(چغل خوری)سے منع کرتا ہوں اور خود ایسا کروں؟سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کو توبہ کا حکم کیا، توبہ کے بعد دعا مانگتے ہی بارش برسی۔
قارئین کرام ! غور فرمائیں صرف ایک شخص کی چغل خوری سب کی دعاؤں میں رکاوٹ کا سبب بن گئی ۔آج ہم اپنی حالت پر غور کریں کہ ہم کس قدر گناہوں کے دلدل میں دھنس چکے ہیں ،بھلا ہماری دعائیں کیسے مقبول ہونگی !ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو گناہوں اور بری عادتوں سے محفوظ رکھیں تاکہ بد اعمالی ہماری اور ہمارے ارد گرد کے لوگوں کی دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ نہ بنے۔ رب کریم ہمیں کثرت سے دعا کرنے والا بنادے اور نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْنْ بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

copywrites © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...