ماہ صفر المظفر
اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام ’’صفر المظفر‘‘ ہے۔یہ صفر بالکسر سے ماخوذ ہے، جس کا معنی خالی ہے۔ حرمت والے چار مہینوں میں جنگ کرنا اہلِ عرب کے نزدیک حرام تھا، اس لیے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام میں باشندگانِ عرب گھروں میں بیٹھتےیا سفر حج اختیار کرتے، اور جب ماہِ صفر شروع ہوتا تو رُکے ہوئے تنازعات ’’از سرِنو جدال و قتال ‘‘ میں مصروف عمل ہوجاتے، پھر گھروں کو خالی چھوڑتے اور میدانِ جنگ کا رخ کرتے اس لیے اس ماہ کو صفر کہتے ہیں۔
باطل عقائد و رسومات :ماہ صفر المظفرکوجاہل لوگ منحوس سمجھتے ہیں، اس میں شادی کرنے اور لڑکیوں کو رخصت کرنے سے، نیا کاروبار شروع کرنے اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خصوصاًماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ منحوس گمان کی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے سفید چنے (کابلی چنا) کی نیاز بھی دی جاتی ہے۔ نیاز و فاتحہ کرنا مستحب ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دی اور سفید چنے پکا کر تقسیم نہ کیے تو گھر کے کفیل افراد (خصوصاً کمانے والے) کا روزگار متاثر ہوگا، یہ باطل نظریہ ہے۔ نیاز و فاتحہ ہر طرح کے رزقِ حلال پر دی جاسکتی ہے اور ہرماہ کی ہر تاریخ کو دی جاسکتی ہے۔ محض ماہِ صفر سے کسی نیاز کو مقید کرنا جہالت ہے۔
ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ’’آخری بدھ‘‘کے عنوان سے لوگ بہت مناتے ہیں، خصوصاً ٹیکسٹائل (کپڑے کا کاروبار) قالین بافی، لوہار، بڑھئی اور بنارسی (کھڈی لوم) کا کام کرنے والے اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں، سیر و تفریح کو جاتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں،خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس روز صحت کا غسل فرمایا تھا۔ اور بیرونِ شہر(یعنی مدینہ طیبہ کے باہر) سیرو تفریح کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل اور بے بنیاد ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ الرضوان نے تحقیق فرمائی ہے کہ ماہِ صفر کے آخری ہفتہ میں سیّد العرب والعجم ﷺ کا مرض شدت کے ساتھ تھااور فوراً بعد ربیع الاول شریف میں آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہری حیات کا عرصہ گزار کر وصال فرما گئے تھے۔ ان تاریخوں میں جو باتیں لوگوں میں مشہور ہیں، وہ خلافِ شرع و حقیقت ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں۔ اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں جن کے بارے میں کئی احادیث وارد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرۃَ وَ اُحِبُّ الْفَالَ الصَّالِحَ(مسلم شریف )(ترجمہ) معروف محدّث و مُعَبِّر امام محمد بن سیرین ؒ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بیماری کا لگنا اور بدشگونی کوئی چیز نہیں فالِ بد کچھ نہیں البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔
No comments:
Post a Comment