آسمانی کتابیں
جس طرح قراٰنِ پاک پر ایمان لانا ہرمُکَلَّف (عاقِل،بالِغ، مسلمان)پر فَرْض ہے اسی طرح اُن کُتُب پر اِیمان لانا بھی ضروری ہے جو اللہ تعالٰی نے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قَبْل انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام پر نازِل فرمائیں، اَلْبَتَّہ اُن کے جو اَحکام ہماری شریعت میں مَنْسُوخ ہو گئے اُن پرعمل دُرُست نہیں مگر اِیمان ضروری ہے مثلاً پچھلی شریعتوں میں بیتُ الْمقد س قِبْلَہ تھا ، اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیتُ الْمقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، (یہ حکم)مَنْسُوخ ہو چکا۔ قراٰنِ کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سےاُس کے اَنْبِیَاپر نازل ہوا اُن سب پر مختصراً ایمان لانا فرضِ عین ہے۔اِس طرح کہ جو کتابیں اللہ تعالٰی نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس بطریقِ وحی بھیجیں بے شک و شبہہ سب حق و صدق اور اللہ کی طرف سے ہیں۔قراٰن شریف پرمختصراًیوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بَرْحَق ہے۔جبکہ قراٰن کا تفصیلاً علم حاصل کرنافرضِ کفایہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے بعض نبیوں پر صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، جن کی تعدادتقریباً۱۰۴ہے۔ اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: ’’تَوْرَات‘‘حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’زَبُوْر‘‘حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر، ”اِنجیل“ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’قرآنِ عظیم‘‘ کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر۔
قراٰنِ پاک تبدیلی سے محفوظ ہے، چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہےلہٰذا قراٰنِ عظیم کی حفاظت اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے ذِمّہ رکھی اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ[سورۃالحجر:۹](ترجمہ:بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور بے شک ہم ضرور اس کی حفاظت کر نے والے ہیں)۔ جبکہ’’اگلی کتابوں کی حِفاظت اللہ تعالٰی نے اُمّت کے سِپُرد کی تھی، اُن سے اُس کا حِفظ(تحفُّظ)نہ ہو سکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں وَیسا ہی باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تبدیلیاں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابِق ردو بدل اورگھٹا بڑھا دیا۔ لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کِتاب (قراٰنِ مجید)کے مطابِق ہے، ہم اُس کی تَصدیق کریں گے اور اگر مخالِف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تبدیلیوں سے ہے اور اگرمُوافَقَت مخالَفَت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تَصْدِیق کریں نہ جُھٹلائیں بلکہ یوں کہیں کہ:اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور اُس کے فِرِشْتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا اِیمان ہے“۔
قراٰن میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بَیشی ناممکن ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیَتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے۔
اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ قرآن میں کوئی تضاد و اختلاف نہیں ہے اور اگر کہیں ہمیں ایسا لگتا ہے تو یقینا یہ ہماری سمجھ ہی کی غلطی ہے ۔ایسی صورت میں ہمیں علماء کی طرف رجوع کر نا چاہیئے۔
No comments:
Post a Comment