والدین کے حقوق
حضرتِ سیِّدُنا موسی عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ مجھے میرا جنت کا ساتھی دکھا دے۔ اللہ پاک نے فرمایا: فلاں شہر کا قصائی تمہارا جنت کا ساتھی ہے۔ حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام اس قصائی سے ملنے پہنچے تو اس نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت کی۔ جب کھانے کے لئے بیٹھے تو قصا ئی نے ایک بڑی سی ٹوکری اپنے پاس رکھ لی۔ دو نوالے ٹوکری میں ڈالتا اور ایک نوالہ خود کھاتا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ قصائی باہر گیا، حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام نے ٹوکری میں نظر کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ٹوکری میں بوڑھے مرد و عورت ہیں جیسے ہی ان کی نظر حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام پر پڑی، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی پھر ان بزرگوں نےآپ عَلَیْہِ السَّلَام کی رسالت کی گواہی دی اور ُاسی وقت انتقال کرگئے۔ قصائی جب واپس آیا تو اپنے فوت شدہ والدین کو دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ گیا اور حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا ہاتھ چومتے ہوئے کہنے لگا: مجھے لگتا ہے کہ آپ اللہ پاک کے نبی حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام ہیں؟ فرمایا ہاں تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟ کہنے لگا کہ میرے والدین روز یہ دعا کرتے تھے: اے اللہ پاک ہمیں حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا دیدار کرتے ہوئے موت دینا۔ ان کے اچانک انتقال کرنے سے میں نے اندازہ لگایا کہ آپ ہی حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام ہیں۔ جب میری ماں کھانا کھالیتی تو مجھے اس طرح دعا دیتی:یا اللہ پاک میرے بیٹے کو جنت میں حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا ساتھی بنانا۔ حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: مبارک ہو کہ اللہ پاک نے تمہیں میرا جنت کا ساتھی بنایا ہے۔
والدین کی شان بزبان قرآن:اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:’’اور ماں باپ کو اُف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے نرمی سے بات کرو!‘‘(پ ۱۵، بنی اسرائیل، آیت۲۳)اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اُف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں۔
احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔(ترمذی)۔حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ایک شخص نے پوچھا:یا سولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ)۔ایک اور مقام پر ارشا د فرمایا: سب گناہوں کی سزا قیامت میں ملے گی لیکن ماں باپ کے نافرمان کو اللہ پاک دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔(شعب الایمان)۔جو بچہ اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھے اللہ پاک اسے مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا اللہ اکبر! ذرا سوچئے کہ محبت سے دیکھنے کا یہ اجر ہے تو خدمت کرنے کا عالم کیا ہوگا! ایک صحابی رسول نے عرض کی: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اگر کوئی دن میں سو بار دیکھے؟ آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: کوئی سو بار بھی دیکھے تو اسے اللہ پاک مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (شعب الایمان)۔
ماں کی شان:ایک شخص رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرے حسنِ اخلاق کا زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس نے دوبارہ عرض کی: اس کے بعد کون؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ تیسری بار عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس مرتبہ بھی یہی ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس نے پھر عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’تیرا باپ‘‘، پھر قریبی کا زیادہ حق ہے پھر جو اس کے بعد قریبی ہو۔(صحیح بخاری)۔ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: ایک راستے میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا اُن پر ڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہوگیا ہوں؟ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(اَلْمُعْجَم الصَّغِیر لِلطّبَرانی)۔
باپ کی شان:رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرماتے ہیں: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(سنن الترمذي)۔ے شک تمام نیک اعمال سے بڑھ کر نیک عمل یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔ (الصحیح المسلم)۔
اللہ پاک ہمیں والدین کی قدر عطا فرمائے اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
No comments:
Post a Comment