قربانی کی فضیلت اور مسائل
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر:۲)۔ (تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو)۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا:یارسول اﷲ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ حضوراکرم ﷺنے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔جو اس اُمّت کے لیے باقی رکھی گئی۔ عرض کیا:ہمیں اس میں کیاثواب ہے؟ فرمایا:ہربال کے بدلے میں ایک نیکی ہے (یعنی گائے‘ بکرے کے جتنے بال ہیں اُن کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی )۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:یارسول اﷲ اُون؟( یعنی دُنبہ، بھیڑ اور اونٹ کے تو اُون ہوتی ہے) ۔ حضوراکرم ﷺنے فرمایا:اِن کے ہربال کے بدلے(بھی) ایک نیکی ۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فر مایا: ’’ایام قربانی میں انسان کا کوئی عمل اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کے خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔۔۔اور بلا شبہ قربانی کے جانور کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مرتبہ قبولیت کو پا لیتا ہے‘تو خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘(سنن ابن ماجہ)۔
ہر مسلمان مکلف مردو عورت‘ مقیم‘ مالکِ نصاب پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے،اولاد وغیر ہ کی طرف سے مستحب۔ چاندی کانصاب ساڑھے باون تولہ اور سونے کاساڑھے سات تولہ ہے ۔نصاب پر سال گزرنا قربانی کے لیے شرط نہیں۔قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے بعد نماز عیدالالضحیٰ ، گاؤں دیہات کے لیے دسویں کی صبح صادق سے ہے اور آخروقت دونوں کے لیے بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے قبل تک ہے‘اگر کسی وجہ سے قربانی قضا ہوجائے تو قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرناواجب ہوگی ۔تین دن میں پہلا دن سب سے افضل ‘پھر دوسرا، پھر تیسرادن ،درمیان کی دورات میں بھی جائز ہے مگر بہ کراہت ۔(فتاوٰی عالمگیری)۔
جس پر قربانی واجب ہے اگر وہ ان ایام میں بجائے قربانی کرنے کے اس کی قیمت صدقہ کردے تو قربانی ادانہ ہوگی بلکہ دس گُنا قیمت بھی دے دے توبھی واجب ساقط نہ ہو گا کہ شریعت مطہر ہ کو قربانی کے جانور کاخون بہانا ہی مقصود ہیں ۔(فتاوٰی عالمگیری)۔
قربانی کے جانور:قر با نی کے جانوراونٹ، گائے ،بھینس ،بکری ،بھیڑ ،دُنبہ ہیں ‘ان کے سوادوسرے کسی جانور کی قربانی جائزنہیں،ان میں نرومادہ کاایک حکم ہے‘ خصّی کی قربانی افضل ہے۔ قربانی کاجانور تندرست سالم الاعضاء ہو۔ بیمار، بہت لاغرجومذبح تک نہ پہنچ سکے یالنگڑا ،اندھا ،کان ناک ،دم، سینگ ،تھن کوئی عضوتہائی سے زیادہ کٹاہو،جس کے کان یادانت سرے سے پیداہی نہ ہوئے ہوں یابکری کا ایک ،گائے بھینس کے دوتھن نہ ہوں یاعلاج سے خشک کردیے گئے کہ دودھ نہ اُتر سکے ‘اِن سب کی قربانی درست نہیں۔
گائے،بھینس،اونٹ میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔شریک کے جانور میں خرید تے وقت نیت ِشریک کرناچاہیے بغیر نیت خرید نا پھر شریک کرلینا مکروہ ہے۔اونٹ پانچ برس کا۔گائے‘ بھینس دوسال کی۔ بکری‘ بکرا‘ بھیڑایک سال ۔ دور سے د یکھنے میں سال بھروالوں کے برابرلگنے والا چھے ماہ کا دُنبہ بھی قربانی کے لائق ہیں۔اس سے کم عمر کی قربانی جائز نہیں۔اپنے ہاتھ سے قربانی کرناافضل ہے۔خود بخوبی نہ کرسکے تودوسرے کواجازت ہونا ضروری ہے۔سنت یہ ہے کہ اپنے سامنے قربانی کرائے‘ جانور کوبھوکا پیاسا ذبح نہ کیا جائے‘نہ اس کے سامنے چھری اوزار تیز کریں‘نہ ایک کودوسرے کے سامنے ذبح کریں ۔(فتاوٰی عالمگیری)۔
قربانی کا مسنون طریقہ:ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھنا مسنون ہے : اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَامِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسْکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ط
جانور کوبائیں پہلو(اُلٹے پہلو) پر قبلہ رولٹائیں اور اپنادہنا پاؤں(سیدھا پاؤں) اسکے شانے پر رکھ کر اَللّٰھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ
کہہ کر تیز چھری سے جلداز جلد ذبح کردیں‘جب تک ٹھنڈانہ ہو‘ کوئی عضو نہ کاٹیں ‘ قربانی اپنی طرف سے ہے تو اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ ﷺ
اوراگر دوسرے کی جانب سے ہویا سات حصہ دار ہوں تو’’ مِنِّیْ‘‘ کے بجائے’’ مِنْ ‘‘کہہ کر اُن کانام لے
قربانی کرنے والوں کیلئے ناخن اور بال وغیرہ کا حکم:قربانی كرنے والوں کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے ناخن یا بال نہ تراشیں، بشرطیکہ ان کو تراشے ہوئےچالیس دن نہ ہوئے ہوں، اور اگر چالیس دن ہوگئے تو پھر ان چیزوں کی صفائی ضروری ہے۔اسی طرح اگر مذکورہ چیزوں کی صفائی کو ابھی چالیس دن نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کسی نے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لئےتو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ قربانی پر کوئی اثر پڑے گا، کیونکہ مذکورہ حکم کی حیثیت صرف استحباب(کرنے پرثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں)کی حد تک ہے۔نیز اللہ کے نزدیک اس کی قربانی پوری ہوجائے گی۔‘‘ جسے قربانی کی توفیق نہ ہو، اُسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کاثواب حاصل ہو جائے گا۔
قربانی کا گوشت: مستحب ومسنون ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں ،ایک حصہ اپنے لیے ایک اعزاء واحباب کے لیے اورایک فقراء میں تقسیم کے لیے‘ اور اگرضرورتاً سب خود کھا لے یا سب بانٹ دے یا سب فقراء کو دے دے توبھی اس میں ہرج نہیں ۔
قربانی کی کھال:قربانی کے جانور کی کھال اپنے استعمال میں لانا جیسے جاء نماز ‘بستر ‘مشکیزہ وغیرہ بنا لیناجائز ہے۔کھال کسی مدرسہ،کار خیرکے کام،ضرورت مند،مسافر،طالب علم،مسکین یاکفن موتیٰ میں دے دی کہ اسے بیچ کررقم استعمال کر لیں‘یہ سب جائز ہے، مگر کھال اپنے لیے داموں فروخت کرناحرام ہے۔ یہ بھی خوب یادرکھیں جس طرح کھال کی قیمت اپنے مصرف میں لانا حرام ہے‘ قیمت ِقربانی اُجرت ِقصاب میں اس کاکوئی حصہ دینا بھی حرام ہے حضوراکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ: ’’جو شخص کھال بیچ کر اپنے مصرف میں لائے یااُجرتِ قصاب یاقیمت قربانی میں مجراکرے اس کی قربانی بارگاہِ قبول سے محروم ہے ‘‘۔ غرض ہر حال میں کھالوں کا امورِ کارِخیر میں لگانا ہی باعث ِثواب ہے ۔
تکبیر تشریق:نو ذی الحجہ کی فجرسے تیرھویں کی عصر تک نماز با جماعت کے بعد ہر مکلف مرد پر بآواز ِبلند تکبیر تشریق پڑھنا ایک مرتبہ واجب اور تین بار افضل ہے‘اگر امام بھول جائے تو مقتدی یاد دلائیں ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ لَاْ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔(درمختار،جلد:۱،ص:۵٦۲)۔
No comments:
Post a Comment