Wednesday, July 31, 2019

Waseela[وسیلہ]

Waseela[وسیلہ]

وسیلہ


بارگاہِ الٰہی میں نیک بندوں کا وسیلہ پیش کرنا دعاؤں کی قبولیت، مشکلات کے حل، مصائب و آلام سے چھٹکارے اور دینی و دُنیوی بھلائیوں کے حُصول کا آسان ذریعہ ہے۔مقدس ہستیوں کے بارے میں ہمیں صرف معلوم ہی نہیں بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگا ہ میں مقبول اور محبوب ہیں جیسے کہ انبیائے کرام،صحابہ کرام اور اولیائے کرام وغیرہ ۔اس لئے ان کے وسیلے سے دعا کرنے میں قبولیت کی امید زیادہ ہے۔ قراٰن و حدیث اور اَقوال و اَفعالِ بُزُرگانِ دین سے وسیلہ اِختیار کرنے کا ثُبوت ملتا ہے چنانچہ اللہ ربّ العزّت کا فرمان ہے: ( وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ) ترجمۂ کنز الایمان:اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔(پ٦ ، المآئدۃ:۳۵)۔اس آیت کر یمہ میں اللہ تعالی نے خود ہی اپنے بندوں کو اپنی بارگا ہ تک پہونچنے کے لئے وسیلہ تلاش کر نے کا حکم دیا ہے ۔تو معلوم ہوا کہ وسیلہ بلا شبہ جا ئز ہے۔
ہمارے پیارے مدنی آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان فقرا کے وسیلے سے دعا فرمایا کرتے تھے چنانچہ طَبرانی شریف میں ہے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ وَيَسْتَنْصِرُ بِصَعَالِيکِ الْمُسْلِمِينَ ترجمہ:نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان فقرا کے وسیلے سے فتح و نصرت طلب فرماتے تھے۔
امام تقِیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:”نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کرنا جائز و مستحسن ہے، چاہے ولادتِ باسعادت سے قبل ہو، حیاتِ ظاہری میں ہو یا وِصال مبارک کے بعد ہو۔ اسی طرح آپ علیہ السَّلام سے خاص نسبت رکھنے والے بُزُرگوں کو وسیلہ بنانا بھی جائز و مستحسن ہے۔

حضرت سیّدنا آدم علیہ الصلاۃ وَ السَّلام نے حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کی تو ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:بے شک! محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمام مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور اب کہ تو نے ان کے حق کے واسطے سے سوال کیا ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں: اَنْتَ الَّذِیْ لَمَّا تَوَسَّلَ اٰدَمُ مِنْ زَلَّۃٍ بِکَ فَازَوَھُوَ اَبَاکَ آپ ہی وہ ہستی ہیں کہ جب جَدِّاعلیٰ آدم علیہ السَّلام نے لَغْزِش کے سبب آپ کا وسیلہ پکڑا تو وہ کامیاب ہوئے۔
دعائے مصطفٰے: نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کی والدہ کے لئے یوں دعا کی: اغْفِرْ لِاُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مَدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي۔ ترجمہ: (اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کی مغفرت فرما اور انہیں ان کی حجت سکھااور میرے اور مجھ سے پہلےنبیوں کے حق کے وسیلے سے اس کی قبرکو وسیع فرما۔

بزرگانِ دین اور وسیلہ: بُزُرگانِ دین بھی اپنی دعاؤں میں وسیلہ اِختیار کیا کرتے تھے، مثلاً، امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ قحط کے وقت یوں دعا کیا کرتے: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! پہلے ہم تیرے نبی کے وسیلے سے دعا کرتے تھے، اب اپنے نبی کے چچا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں، ہمیں بارش عطا فرما!اس حدیث شریف سے معلوم ہو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صحابہء کرام کی جماعت کے ساتھ سر کار علیہ السلام کے چچا کے وسیلے سے دعا مانگتے تھے ۔مگر کسی صحا بی رسول ﷺ نے اعتراض نہ کیا ۔گو یا وسیلہ کے جواز پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم کا اجماع ہو گیا۔اس لئے اس کے جواز میں کسی مسلمان کو ذرّہ برابر بھی شبہ نہیں ہو نی چاہئے۔
حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت سیّدنا ابنِ اَسْوَد جُرَشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگا کرتے تھے۔علّامہ ابنِ عابِدِین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نبیِّ کریم، رَءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، امام اعظم اور دیگر صالحین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین کے وسیلے سے دعا کرتے تھے۔
فرمانِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم: مَنْ تَوَسَّلَ بِیْ اِلَی اللہِ فِیْ حَاجَۃٍ قُضِیَتْ حَاجَتُہ جو مجھے وسیلہ بنا کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی حاجت طَلَب کرے اس کی حاجت پوری کی جاتی ہے۔

copywrites © 2019,

Tuesday, July 30, 2019

Jannat[جنّت]

Jannat[جنّت]

جنّت


جنّت کیا ہے؟:جنّت ایک ایسی شاندار و بے مثال جگہ ہے جو اللہ عَزّ َ وَجَلَّ نے ایمان والوں کے لئے بنائی ہےاور اِس میں ایسی نعمتیں رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی کان نے سُنیں اور نہ ہی کسی دل میں اُن کا خیال آیا۔ جنّت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ صِرْف سمجھانے کےلئے ہوتا ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ ترین چیز کا بھی جنّت کی کسی نعمت سے کوئی مقابلہ نہیں۔ جنّت کہاں ہے؟:صحیح ترین قول یہ ہے کہ جنّت ساتویں آسمان کےاوپر ہے۔
جنّتیں کتنی ہیں؟:جنّتیں آٹھ ہیں، جن کے نام یہ ہیں: (۱)دارُالْجَلال (۲)دارُالْقَرار (۳)دارُالسَّلام (۴)جَنّۃُعَدْن (۵)جَنّۃُالْمَاوٰی (٦)جَنّۃُالْخُلْد (۷)جَنّۃُ الْفِرْدَوس (۸)جَنّۃُالنِّعیم۔
جنّت کے بارے میں عقائد: جنّت پیدا ہوچکی ہے، ایسا نہیں ہے کہ بعد میں پیدا ہوگی۔جنّت کا انکار کرنے والا کافِر ہے۔جنّت ہمیشہ رہے گی،کبھی فنا نہ ہوگی۔جنّتی جنّت میں ہمیشہ رہیں گے۔

جنّتی کھانے: جنّت میں جاتے ہی سب سے پہلے جس کھانے کی دعوت ہوگی وہ مچھلی کی کلیجی کا کنارہ ہوگا جو بہت ہی لذیذہوتاہے۔جنّت میں ہر قسم کا لذیذ کھانا موجود ہوگا جو کھانا چاہیں گے فوراً سامنے پیش ہوجائے گا کسی پرندے کو دیکھ کر کھانے کا دل کرے گا تو فوراً بُھنا ہوا حاضِر ہوجائے گا ۔جتنا کھائیں گے لذّت میں اِضافہ ہوتا جائے گا ہر نوالے میں ۷۰ قسم کے الگ الگ ذائقے ہوں گےجو ایک ہی ساتھ محسوس ہوں گے ہر جنّتی کو ۱۰۰آدمیوں کے برابر کھانے کی طاقت دی جائے گی کھانا کھانے کے بعد ایک مُشکبار ڈکار آئے گی، مُشکبار ہی پسینہ نکلے گا اور سب ہَضْم ہوجائے گا۔
جنّتی مشروبات: جنّت میں چار نہریں ہیں: (۱)پانی کی (۲)دودھ کی (۳)شہد کی (۴)پاکیزہ شراب کی ہر نَہْر کا ایک کنارہ موتی کاجبکہ دوسرا یاقوت کاہوگا نَہْروں کی زمین خالص مُشک کی ہوگی۔ جب جنّتی پانی کی نَہْر سے پی لیں گے تو اُنہیں کبھی موت نہ آئے گی، جب دودھ کی نَہْر سے پی لیں گے تو ایسے فربہ ہوجائیں گے کہ کبھی لاغَر نہ ہوں گے، جب شہد کی نَہْر سے پی لیں گے تو کبھی بیمار نہ ہوں گے، جب پاکیزہ شراب کی نَہْر سے پی لیں گے توایسے خوش ہوجائیں گے کہ کبھی غمگین نہ ہوں گے۔ جنّت میں چند چشمے بھی ہیں جن کے نام یہ ہیں: (۱)کافُور (۲)زَنْجَبِیْل (۳)سَلْسَبِیْل (۴)رَحِیْق (۵)تَسْنِیْم۔جب بھی کوئی مشروب پینا چاہیں گے فوراً کوزے ہاتھ میں آجائیں گےجن میں اُن کی خواہش کے مطابق دودھ، شراب یا شہد موجود ہوگا پینے کی طاقت بھی ۱۰۰ آدمیوں کے برابر دی جائے گی۔

copywrites © 2019,

Sunday, July 28, 2019

Taqdeer[تقدیر]

Taqdeer[تقدیر]

تقدیر


تقدیر کیا ہے؟: دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور بندے جو کچھ کرتے ہیں نیکی ،بَدی وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی کے مطابق ہوتا ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔
یہ حق ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے ۔لیکن کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں جیسا لکھ دیا ہے ہمیں مجبورا ویسا ہی کر نا پڑ تا ہے ۔بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم جیسا کر نے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے ویسا لکھ دیا ۔اگر کسی کی تقدیر میں برائی لکھی تو اس لئے کہ وہ اپنے اختیار سے برائی کر نے والا تھا اگر وہ بھلائی کر نے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی تقدیر میں بھلائی لکھتا ۔ تقدیرکا ثبوت قراٰن وحدیث میں موجود ہے جیساکہ اس آیتِ مبارکہ میں ہے: (اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ(۴۹) ترجمۂ کنزالایمان:بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔(پ۲۷،القمر:۴۹)۔
تقدیر کا انکار کفرہے۔حضوراکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےتقدیرکاانکار کرنے والوں کواس”اُمّت کا مجوس“قرار دیاہے۔حضورِ اکرم، سیّدِ دوعالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِیمان کےمتعلق پوچھنے والےکےجواب میں چھ چیزیں اِرشاد فرمائیں:(۱)اللہ عَزَّوَجَلَّ(۲)فرشتوں(۳)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نازل کردہ کتابوں (۴)رسولوں (۵)قیامت کے دن اور (٦)اچھی یا بُری تقدیر کا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہونے پر ایمان لانا۔

یاد رہے کہ عقیدۂ تقدیر، اسلامی عقائد میں نہایت نازُک اورپیچیدہ ہے۔ اس کے بارے میں بحث کرنے، کیوں؟ اور کیسے؟ کی طرح کے سوالات کرنے سے منع کیا گیاہے جیساکہ ترمذی شریف میں ہے: حضرت سیّدناابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نےفرمایا کہ حضورِاکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے حالانکہ ہم مسئلۂ تقدیر پر بحث کررہے تھے تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوئے حتّٰی کہ چہرہ ٔ انور سُرخ ہوگیا گویا کہ رُخساروں میں انار نچوڑ دیئے گئے ہیں اور فرمایا کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے؟ یا میں اسی کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیاہوں؟ تم سے پہلے لوگوں نے جب اس مسئلہ میں جھگڑے کئے تو ہلاک ہی ہوگئے میں تم پر لازم کرتا ہوں کہ اس مسئلہ میں نہ جھگڑو۔
تقدیر پرایمان کے فوائد: مصائب وبیماریوں میں صبر کرنا اور خود کشی جیسےحرام کام سے محفوظ رہنا، کیونکہ ان کاآنا تقدیر کے مطابق اورآزمائش ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی تقسیم اور مشیئت پر راضی رہنا۔انسان ماضی کی محرومیوں پَر پُرملال، حال کے حالات میں پریشان اورمستقبل سے خوف زدہ نہیں رہتا۔ تقدیر پر ایمان لانے والا مخلوق کے بجائے خالق سے لَو لگاتاہے۔ تقدیر پر ایمان”حسد“ کا بہترین علاج ہے۔
ہمیں یہ سوچ کر نہیں بیٹھ جانا چا ہئے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ تو ہو کر رہے گا پھر ہم کیوں محنت و مشقت کر یں ؟بلکہ تقدیر پر یقین رکھنے کے ساتھ ہمیں عمل کرنا چاہئے کیونکہ ہمیں اسی کا حکم دیا گیا ہے ۔

copywrites © 2019,

Asmani Kitabain[آسمانی کتابیں]

Asmani Kitabain[آسمانی کتابیں]

آسمانی کتابیں


جس طرح قراٰنِ پاک پر ایمان لانا ہرمُکَلَّف (عاقِل،بالِغ، مسلمان)پر فَرْض ہے اسی طرح اُن کُتُب پر اِیمان لانا بھی ضروری ہے جو اللہ تعالٰی نے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے قَبْل انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام پر نازِل فرمائیں، اَلْبَتَّہ اُن کے جو اَحکام ہماری شریعت میں مَنْسُوخ ہو گئے اُن پرعمل دُرُست نہیں مگر اِیمان ضروری ہے مثلاً پچھلی شریعتوں میں بیتُ الْمقد س قِبْلَہ تھا ، اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیتُ الْمقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، (یہ حکم)مَنْسُوخ ہو چکا۔ قراٰنِ کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سےاُس کے اَنْبِیَاپر نازل ہوا اُن سب پر مختصراً ایمان لانا فرضِ عین ہے۔اِس طرح کہ جو کتابیں اللہ تعالٰی نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس بطریقِ وحی بھیجیں بے شک و شبہہ سب حق و صدق اور اللہ کی طرف سے ہیں۔قراٰن شریف پرمختصراًیوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بَرْحَق ہے۔جبکہ قراٰن کا تفصیلاً علم حاصل کرنافرضِ کفایہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے بعض نبیوں پر صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، جن کی تعدادتقریباً۱۰۴ہے۔ اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: ’’تَوْرَات‘‘حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’زَبُوْر‘‘حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام پر، ”اِنجیل“ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’قرآنِ عظیم‘‘ کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول حضور پُر نور احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر۔

قراٰنِ پاک تبدیلی سے محفوظ ہے، چونکہ یہ دین ہمیشہ رہنے والا ہےلہٰذا قراٰنِ عظیم کی حفاظت اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے ذِمّہ رکھی اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ[سورۃالحجر:۹](ترجمہ:بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور بے شک ہم ضرور اس کی حفاظت کر نے والے ہیں)۔ جبکہ’’اگلی کتابوں کی حِفاظت اللہ تعالٰی نے اُمّت کے سِپُرد کی تھی، اُن سے اُس کا حِفظ(تحفُّظ)نہ ہو سکا، کلامِ الٰہی جیسا اُترا تھا اُن کے ہاتھوں میں وَیسا ہی باقی نہ رہا، بلکہ اُن کے شریروں نے تو یہ کیا کہ اُن میں تبدیلیاں کر دیں، یعنی اپنی خواہش کے مطابِق ردو بدل اورگھٹا بڑھا دیا۔ لہٰذا جب کوئی بات اُن کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کِتاب (قراٰنِ مجید)کے مطابِق ہے، ہم اُس کی تَصدیق کریں گے اور اگر مخالِف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ اُن کی تبدیلیوں سے ہے اور اگرمُوافَقَت مخالَفَت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تَصْدِیق کریں نہ جُھٹلائیں بلکہ یوں کہیں کہ:اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) اور اُس کے فِرِشْتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر ہمارا اِیمان ہے“۔
قراٰن میں کسی حرف یا نقطہ کی کمی بَیشی ناممکن ہے، اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے تو جو یہ کہے کہ اس میں کے کچھ پارے یا سورتیں یا آیَتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا، یا بڑھا دیا، یا بدل دیا، قطعاً کافر ہے۔
اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ قرآن میں کوئی تضاد و اختلاف نہیں ہے اور اگر کہیں ہمیں ایسا لگتا ہے تو یقینا یہ ہماری سمجھ ہی کی غلطی ہے ۔ایسی صورت میں ہمیں علماء کی طرف رجوع کر نا چاہیئے۔

copywrites © 2019,

Saturday, July 27, 2019

farishte[فرشتے]

farishte[فرشتے]

فرشتے


فرشتے نوری مخلوق ہیں۔ اللہ تَعَالیٰ نے انہیں نور سے پیدا کیا اور ہماری نظروں سے پوشیدہ کر دیا اور انہیں ایسی طاقت دی کہ جس شکل میں چاہیں ظاہر ہو جائیں۔ ”فرشتے“ حکمِ الٰہی کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔یہ ہر قسم کے صغیرہ، کبیرہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ کسی ”فرشتے“ کی ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔”فرشتوں“ کے وجود کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ ”فرشتہ“ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں، یہ کُفر ہے۔
فرشتے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ،وہ صرف انہیں کاموں میں لگے رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کرتے ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا کہ:لَّا یَعْصُوۡنَ اللہَ مَاۤ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوۡنَ مَا یُؤْمَرُوۡنَ[سورۃ التحریم:٦]ترجمہ:وہ {فرشتے} اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جا تا ہے۔

فرشتوں کی تعداد:”فرشتوں“ کی تعداد وہی رَبّ عَزَّوَجَلَّ بہتر جانتا ہے جس نے انہیں پیدا کیا اور اُس کے بتائے سے اُس کا رسول جانے۔چار”فرشتے“ بہت مشہور ہیں: حضرات جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام اور یہ سب ”فرشتوں“ پر فضیلت رکھتے ہیں۔
فرشتے کیا کرتے ہیں؟:اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے ذمے مختلف کام لگائے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی خدمت میں وحی لانا، بارش برسانا، ہوائیں چلانا، مخلوق تک روزی پہنچانا، ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانا، بدنِ انسانی میں تصرف کرنا، انسان کی حفاظت کرنا، نیک اجتماعات میں شریک ہونا، انسان کے نامۂ اعمال لکھنا، دربارِ رِسالت مآب میں حاضر ہونا، بارگارہِ رسالت میں مسلمانوں کا دُرُود و سلام پہنچانا، مُردوں سے سوال کرنا، روح قبض کرنا، گناہ گاروں کو عذاب کرنا، صُور پُھونکنا اور اِن کے علاوہ اور بہت سے کام ہیں جو ملائکہ انجام دیتے ہیں۔

copywrites © 2019,

Friday, July 26, 2019

Ambiya Kiram A.S[انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام]

Ambiya Kiram A.S[انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام]

انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام


انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام وہ انسان ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہےاور اُنہیں اللہ تعالیٰ مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھیجتا ہے۔ ان میں سے جونئی شریعت لائے انہیں رسول کہتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے انسان اورنبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام ہیں،آپ سے ہی انسانی نسل چلی، اسی وجہ سےآپ عَلَیْہِ السَّلَام کو’’اَبُو الۡبَشَر ‘‘(انسانوں کا باپ) کہتے ہیں۔انبیائے کرام سب انسان تھے اور مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا نہ عورت۔انبیائےکرام شرک وکفر بلکہ ہرقسم کے گناہ اور ہر ایسےعیب سے پاک ہوتے ہیں جو مخلوق کےلئےباعثِ نفرت ہو۔اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ کامل عطا فرماتا ہے،دنیا کا بڑے سے بڑا عقل مند ان کی عقل کے کروڑویں درجہ تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ نُبُوَّت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے،کوئی شخص عبادت وغیرہ کے ذریعے اسے حاصل نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ انبیائے کرام کو مُعجِزات عطا فرماتا ہے جو اُن کی نبوت کی دلیل ہوتے ہیں۔ اورانہیں غیب پرمُطَّلِع فرماتا ہے۔انبیائے کرام تمام مخلوق سےافضل ہیں۔
ان کی تعظیم و توقیر فرض اور ان کی ادنیٰ توہین یا تکذیب(انکارکرنا) کفر ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہ السَّلَام سے لے کر ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک بےشمار نبی اور رسول بھیجے، ان کی صحیح تعداد وہی جانتا ہے کیونکہ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیںلہٰذا یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔ کہنا ہی ہو تو یوں کہا جائے:کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام۔

بعض انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام رتبے میں بعض سے اعلیٰ ہیں اورسب سے بڑا رُتبہ ہمارے آقاومولیٰ سیّدالانبیامحمدمصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاہے۔ انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی قبروں میں اُسی طرح زندہ ہیں جیسے دنیا میں تھے، کھاتے پیتے ہیں،جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں، تصدیقِ وعدۂ الٰہیہ(یعنی اللہ تعالیٰ نے و عدہ فرمایاہے کہ ہر ذی روح کوموت کا مزاچکھنا ہے )اس کےلئے ایک آن کو اُن پر موت طاری ہوئی،پھر بدستور زندہ ہوگئے،اُن کی حیات، حیاتِ شہدا سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے
انبیاء کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔بلکہ اچھی بات بھی غلط انداز میں کہنا درست نہیں ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا کہ:تر جمہ : اے ایمان والو!تم اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرواور ان کے سامنے ایسے چلاّ کر بات نہ کیا کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہوکہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ [سورۃ الحجرات:۲]۔
اسی لئے انبیائے کرام کے لئے یہ کہنا کہ “وہ بھی ہماری طرح بشر ہیں “درست نہیں ۔کیونکہ تخلیق کے اعتبار سے اگر چہ وہ بھی یقیناََ بشر ہیں ۔یہاں تک کہ جو انہیں بشر نہ مانے وہ کافر ہے۔مگر اس طر ح بولنے سے”یعنی نبی بھی ہماری طر ح بشر ہیں ” یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جیسے ایک عام بشر ہوتا ہے ویسے ہی انبیاء بھی ہیں۔اور یہ کھلی گستاخی ہے۔

انبیائے کرام کو “اپنی طرح بشر “کہنا کافروں کی عادت ہے اس لئے ہمیں انبیائے کرام کی شان میں ہر اُس لفظ کے استعمال سے دور رہنا چا ہئے جس سے کسی بھی طرح گستاخی یا توہین کی بُو آتی ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کو قیامت تک کے لئے تمام مخلوق کی طرف آخری نبی بنا کر بھیجا۔اس لئے آپ ﷺ کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔اور جو شخص یہ کہے کہ آپ ﷺ کے بعد بھی کوئی نیا نبی ہو سکتا ہے وہ کافر ہے۔
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی حمد کا جھنڈا ہمارے نبی ﷺ کے ہاتھوں میں ہوگا۔اور قیامت کی سخت عذاب سے پر یشان ہو کر جب لوگ انبیائے کرام کی بارگاہوں میں فر یاد کرنے اور مدد مانگنے جائیں گے تو ہر نبی دوسرے کے پاس جانے کا مشورہ دیں گے آخر میں جب سارے لوگ ہمارے نبی ﷺ کے پاس آئیں گے تو آپ ﷺ ان کی مدد فر مائیں گے اور ان کے لئے شفاعت فر مائیں گے۔سب سے پہلے آپ ہی شفاعت فر مائیں گے اور سب سے پہلے آپ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فر مائے گایعنی ایک ایسی جگہ پر کھڑا کرے گا جہاں پر سارے لوگ آپ کی تعریف بیان کریں گے۔
جب تک کوئی شخص حضور ﷺ سے اپنے ماں،باپ،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرے وہ مومن نہیں ہو سکتا ہے۔

copywrites © 2019,

Thursday, July 25, 2019

ALLAH azza wa jalla[اللہ عَزَّ وَجَلَّ]

ALLAH azza wa jalla[اللہ عَزَّ  وَجَلَّ]

اللہ عَزَّ وَجَلَّ


اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی عبادت کے لائق ہے۔ا سے کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔اس کی ذات وصفات کےسوا کوئی چیز نہ تھی، پھرسب چیزیں اسی نے پیدا کیں۔یہ اونچےآسمان، وسیع و عریض زمین، چمکتا دمکتا سورج، روشن چاند، جھلملاتےستارے، بلند و بالا پہاڑ، بڑے بڑے سمندر، بل کھاتےدریا، سردی، گرمی، مختلف قسم کے موسم، ہوائیں، بادل، بارش، انسان، جنات، فرشتے الغرض کائنات کی ہر ہر شَےاسی نے پیدا کی ہے۔وہی سب کو پالنے والاہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں، سارا جہاں اس کا محتاج ہے۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ اس کے ارادے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔نہ وہ کسی کاباپ ہے نہ بیٹا، نہ اس کی کوئی بیوی ہے، وہ ایسی تمام چیزوں سے پاک ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی موت، زندگی کا مالک ہے۔وہ ہر چاہت پرقادر ہے۔اس میں ہر کمال و خوبی پائی جاتی ہےاور وہ ہر طرح کےعیب و نقص سے پاک ہے۔اسی طرح وہ نیند، اونگھ، اکتاہٹ اور تھکاوٹ جیسی چیزوں سے بھی پاک ہے۔وہ ہر ظاہر و چھپی شے کو جانتا ہے۔ ہر ہلکی سے ہلکی آواز کو سنتا اور ہر باریک سے باریک چیز کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تو دِل کے رازوں، اِرادوں، وَسْوَسوں اور خیالات کوبھی جانتا ہے۔وہ جسم سے پاک ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے۔ وہ اچھے کاموں سے خوش اور برے کاموں سے ناراض ہوتا ہے۔وہی مظلوموں کی مدد کرتا اور بیماروں کو شفا دیتا ہے۔اس کے غضب سے ہر دم ڈرنا چاہئے کہ اس کی پکڑبہت سخت ہے۔ وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اس کا ہر کام حکمت بھرا ہے۔ وہ ماں باپ سے زیادہ مہربان ہے۔اس کی رحمت دکھی دلوں کا سہارا ہے۔


اللہ تعالی نے قرآن شریف میں اپنی بہت ساری صفات کا ذکر فر مایا مثلا وہ “رؤف ورحیم ہے،سمیع وبصیر ہے،حلیم وکریم ہے،غیب یعنی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے وغیرہ ۔پھر یہی صفتیں انبیائے کرام اور دوسروں کے لئے بھی بیان فر مایا۔تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سب اللہ کے برابر یا اللہ کی طرح ہو گئے کیو نکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح کسی کی ذات نہیں اُسی طرح اس کی صفات کی طرح کسی کی صفات نہیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔لَیۡسَ کَمِثْلِہٖ شَیۡءٌ [سورۃ الشوریٰ:۱۱]ا س کی طرح کوئی چیز نہیں۔اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سب صفتیں اللہ تعالیٰ کی ذاتی ہیں یعنی بغیر کسی کے دئیے اُسے خود سے حاصل ہے اور دوسروں کو اسی کے عطا کرنے سے حاصل ہے۔اور ظاہر ہے کہ دینے والا اور لینے والا ایک طرح نہیں ہو سکتا۔اس لئے اگر ہم نبی کریم ﷺ کو غیب جا ننے والا یاحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے والا مانیں تو یہ ہرگز شرک نہ ہوگا کیو نکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے اور نبی ﷺ یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرح ذاتی نہیں بلکہ اس کی عطا سے ہے۔اس لئے یہاں پر شرک کا کوئی تصور ہی نہیں۔ہاں اگر کوئی نبی ﷺ کے لئے غیب کی صفت یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مردوں کو زندہ کر نے کی صفت نہ مانے تو وہ قرآن کا انکار کرنے والا ہوگا کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عطا کا ذکر قرآن حکیم میں خود بیان فر مایا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے علم غیب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ: وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ۔(سورہ تکویر،آیت:۲۴) اور وہ(محمد ﷺ)غیب کی بات بتانے پر کنجوس نہیں ہیں۔ یعنی غیب کی بات بتاتے رہتے ہیں اور اس کے بتانے میں کنجوسی نہیں کرتے۔صاف بات ہے کہ غیب کی بات وہی بتا سکتا ہے جو غیب جانتا ہو۔لہذا اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو غیب کا علم عطا فر مایا اور حضور غیب جانتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فر مایا کہ:اور(عیسیٰ) رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ کہتے ہوئے کہ بے شک میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کچھ نشانیاں لے کر آیا ہوں۔(تو) میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ پرندہ بن جاتا ہے اللہ کے حکم سے۔اور میں پیدائشی اندھے اور سفید داغ والوں کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتا ہوں اللہ کے حکم سے۔اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو۔بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم مومن ہو۔[سورہ آل عمران،آیت:۴۹]۔

اس کے علاوہ قرآن شریف میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک صفت اپنے لئے بیان فر ماتا ہے پھر وہی صفت دوسرے کے لئے بھی استعمال فر ماتا ہے۔
رؤف رحیم۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔[سورہ نحل،آیت:۷]۔رؤف رحیم۔حضور ﷺ کے لئے۔[سورہ توبہ،آیت:۱۲۸]۔
کریم۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔[سورہ انفطار،آیت:٦ ]۔کریم۔ حضرت جبرئیل کے لئے۔[سورہ تکویر،آیت:۱۹]۔
حلیم۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔[سورہ مائدہ،آیت:۱۰۱]۔حلیم۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے۔[سورہ توبہ،آیت:۱۱۴]۔
مولی ٰ،یعنی مدد گار،دوست،آقا۔اللہ تعالیٰ کے لئے۔[سورہ تحریم ،آیت:۲]۔مولیٰ،یعنی مدد گار،دوست۔حضور ﷺ،فرشتے اور نیک مومنین کے لئے۔[سورہ تحریم،آیت:۴]۔
نوٹ: کچھ لوگ بول چال میں اللہ تعالیٰ کے لئے”اوپر والا”اور کچھ لوگ”اللہ میاں” بو ل دیتے ہیں۔اِن دونوں لفظوں کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے درست نہیں ہے۔”اوپر والا” کہنا اس لئے درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اوپر ،نیچے،دائیں اور بائیں سے پاک ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے لئے”میاں”کا لفظ بولنا اس لئے درست نہیں ہے کہ لغت میں”میاں”کا تین معنیٰ ہوتا ہے۔(۱) شوہر۔(۲) بزرگ۔(۳)زنا کا دلالی کرنے والا۔اِن تینوں معنوں میں سے صرف ایک معنی درست ہے اور باقی دو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔اور اللہ و رسول کی شان میں کوئی بھی ایسا لفظ جو کسی بھی اعتبار سے غلط ہو اس کا استعمال کرنا درست نہیں ہے ۔اس لئے اللہ و رسول کی شان میں ایسے الفاظ کے استعمال سے ہمیں بہت دور رہنا چاہئے۔

copywrites © 2019,

Wednesday, July 24, 2019

hazrat imam malik R.A[حضرت سیدنا امام مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ]

hazrat imam malik R.A[حضرت سیدنا امام مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ]

حضرت سیدنا امام مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ


آپ کا نام:مالک،کنیت:ابو عبد اللہ،والد کا نام انس ہے۔آپ کے پر دادا انس بن عمرو جلیل القدر صحابی ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کو اِمامُ الاَئِمہ، عالِم مدینہ اور امامِ دارِالہِجرۃ کےالقاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔آپ کا خاندان یمن میں تھا،سب سے پہلے آپ ہی نے مدینہ شریف میں سکونت اختیار کی۔
ولادت :آپ کی پیدائش ماہ ربیع الاول۹۳/ہجری میں مدینہ شریف ہی میں ہوئی۔جب آپ شعور کی عمر کو پہونچے اس وقت مدینہ شریف میں حضرت ابن شہاب زہری،یحیی بن سعید انصاری،زید بن اسلم ،ربیع اور ابوالزناد وغیرہم تابعین اور تبع تابعین کے علم وفضل کا ڈنکا بج رہا تھا۔
تعلیم :آپ نے قرآن مجید کی تعلیم امام القراء حضرت نافع بن عبد الر حمن سے حاصل کی،زمانہ طالب علمی میں آپ کے پاس بالکل مال ودولت نہیں تھا یہاں تک کہ آپ نے گھر کے سامان بیچ کر کتا بیں وغیرہ خریدی تھیں۔لیکن اللہ تعالی نے بعد میں آپ کے لئے دولت کے دروازے کھول دیا۔
آپ کا حافظہ نہایت ہی قوی تھا کہ جس چیز کو ایک مرتبہ یاد کر لیتے پھر کبھی اس کو نہیں بھولتے۔آپ کے استادوں میں زیادہ تر مدینہ شریف ہی کے بزرگان دین ہیں۔جیسے حضرت زید بن اسلم،نافع مولی ابن عمر،صالح بن کیسان، عبد اللہ بن دینار،یحیی بن سعید اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ تعالی عنہم اجمعین۔

آپ سے علم حاصل کر نے والے بڑے بڑے محدث اور فقیہ ہوئے۔آپ کے کچھ شاگردوں کے نام یہ ہیں۔یحیی بن سعید قطان،امام شافعی،امام محمد اور امام ابن مبارک وغیرہ۔
فضائل و مناقب :آپ کے علم وفضل کی گواہی بڑے بڑے بزرگوں نے دیا۔
امام یحیی بن معین نے فر مایا کہ:آپ امیر المومنین فی الحدیث تھے۔
امام اعظم نے فر مایا کہ:میں نے امام مالک سے زیادہ جلد اور صحیح جواب دینے والا نہیں دیکھا۔
امام شافعی نے فر مایا کہ:تابعین کے بعد امام مالک مخلوق خدا کی حجت تھے۔
بشارت نبوی :ایک حدیث شر یف میں ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:وہ زمانہ قریب ہے کہ لوگ اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں گے اور مدینہ کے عالم سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں پائیں گے۔
محدث امام عبد الر زاق نے فر مایا کہ:اس حدیث کے مصداق امام مالک ہیں ۔کیو نکہ مدینہ شریف میں آپ کی درسگاہ میں عالم اسلام سے لوگ علم حاصل کر نے کے لئے آتے تھے اور ہر وقت بھیڑ لگی رہتی تھی۔

آپ کا عشق رسولﷺ:آپ کی ذات گرامی عشق رسولﷺ سے منور تھی،مدینہ شریف کے ذرے ذرے سے ان کو پیار تھا ،اُس مقدس شہر کی سر زمین پر کبھی سواری پر نہیں بیٹھے اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے کہ حضورﷺ اس مقام پر پیدل چلے ہوں۔
حدیث شریف کے درس کا نہایت اہتمام فر ماتے تھے،غسل کر کے عمدہ اور صاف لباس پہنتے اور خوشبو لگا کر مسند پر بیٹھتے اور ادب سے ایک طرح بیٹھے رہتے،ایک مرتبہ سبق کے درمیان میں بچھو نے بارہ مرتبہ ڈنک مارا لیکن آپ اپنی جگہ پر سکون سے تشریف فر مارہے اور پوری توجہ سے حضور ﷑ کی احادیث بیان فر ماتے رہے۔ آپ نے پوری عمر میں صرف ایک حج کیا اور پوری زندگی مدینہ شریف ہی میں رہے۔
سَیِّدُنا امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا وصال مدیْنۂ منورہ میں۱۱/ربیع الاول ۱۷۹/ہجری میں ہوا،جنت البقیع میں سرکارِ ابدِ قرار،شفیعِ روزِ شمار صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہزادے حضرت سیدنا ابراہیم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے قُرب میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔

copywrites © 2019,

Tuesday, July 23, 2019

dozakh[ دوزخ]

dozakh[ دوزخ]

دوزخ


اللہ پاک نے کُفّار، مُشرکین ، منافقین اور گناہ گاروں کو ان کے اَعمال کی سزا دینے کے لئے آخرت میں ایک نہایت ہی خوفناک اور بَھیانک مَقام تیار کر رکھا ہے اُس کا نام ”جَہَنَّم“ ہے اور اُسی کو اُردو میں ”دوزخ“ بھی کہتے ہیں۔
عقیدہ دوزخ حق ہے، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے، یونہی جو شخص دوزخ کو تو مانے لیکن مسلمانوں میں رائج دوزخ کے عُمومی معنیٰ سے ہَٹ کر الگ تشریح کرے مثلاً عذاب سے روحانی عذاب مراد لے کہ اپنے بُرے اعمال دیکھ کر افسردہ ہونا تو ایسا شخص بھی کافر ہے دَرْحقیقت یہ دوزخ کا ہی منکر ہے۔ دوزخ کو پیدا ہوئے ہزاروں سال ہو گئے ہیں اور وہ اب بھی موجود ہے ایسا نہیں ہے کہ قِیامَت کے دن بنائی جائے گی۔
دوزخ کہاں ہے؟ دوزخ ساتویں زمین کے نیچے ہے۔ دوزخ کی آگ کا رنگ جہنّم کی آگ ہزار بَرَس تک دھونکائی گئی، یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی، پھر ہزار بَرَس دھونکانے کے بعد سفید ہوگئی، پھر ہزار بَرَس دھونکائی گئی تو سیاہ ہوگئی اب وہ بالکل سیاہ ہے۔
دوزخ کی گہرائی دوزخ کی حقیقی گہرائی تو اللہ پاک ہی جانتا ہے یا اس کے بتائے سے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، البتہ حدیثِ پاک میں اتنا فرمایا گیا ہےکہ اگر پتھر کی چَٹان جہنّم کے کنارے سے اُس میں پھینکی جائے تو ستّر برس میں بھی تہہ تک نہ پہنچے گی اور اگر انسان کے سر کے برابر سیسہ کا گولا آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جائے تو رات آنے سے پہلے زمین تک پہنچ جائے گا، حالانکہ یہ پانچ سو برس کی راہ ہے۔
دوزخ کی وسعت حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے شاگرد حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے جہنّم کی وُسعَت کے متعلّق دریافت فرمایا اور پھر خود ہی جواباً فرمایا : ایک جہنمی کے کان کی لَو اور کندھے کے درمیان ستّر سال کی مسافت کا فاصلہ ہوگا۔اس سے اندازہ لگائیے کہ جب ایک جہنمی کا قد اتنا بڑا ہوگا تو خود دوزخ کتنی بڑی ہوگی۔ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ

دوزخ کے طبقات اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : (لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍؕ-لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ۠(۴۴))ترجمۂ کنزُ الایمان: اُ س کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک حصہ بٹا ہواہے۔(پ۱۴،الحجر:۴۴) سات دروازوں سے مراد جہنّم کے سات طبقات (درجات ) ہیں جن کے نام یہ ہیں:(۱)جَہَنَّم (۲)لَظَی (۳)حُطَمَہ (۴)سَعِیْر (۵)سَقَر (٦)جَحِیْم (۷)ہَاوِیَہ۔
دوزخیوں کی غِذا جہنمیوں کو کھانے کے لئے خاردار تُھوہَڑ ( کانٹے دار زہریلا درخت) دیا جائے گا۔ جبکہ پینے کے لئے جہنمیوں کے بدن سے نکلنے والی پِیپ اور تیل کی تہہ کی طرح کھولتا ہوا گرم پانی دیا جائے گاجس کی گرمائش کا یہ عالَم ہوگا کہ منہ کے قریب آتے ہی منہ کی ساری کھال گَل کر اس میں گِر پڑے گی، اوروہ پانی پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا جس کی وجہ سے آنتیں شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی۔
دوزخیوں کا حُلْیہ ہماری انسانی شکل و صورت اللہ پاک کو پسند ہے کیونکہ اللہ پاک کے محبوب کےچہرۂ مُبارکہ جیسی ہے، لہٰذا کفار کی شکل جہنم میں انسانی شکل نہیں ہوگی بلکہ مختلف ہوگی جن کا مختلف احادیث میں یوں بیان ہے : جَہَنّمیوں کی شکلیں ایسی نفرت انگیز ہوں گی کہ اگر دنیا میں کوئی جہنمی اُسی صورت پر لایا جائے تو تمام لوگ اس کی بدصورتی اور بَدبُو کی وجہ سے مَرْ جائیں۔ اور کُفّار کا جسم اتنا بڑا کر دیا جائے گا کہ ایک کندھا سے دوسرے تک تیز سوار کے لئے تین ۳دن کی راہ ہے۔ ایک ایک داڑھ اُحد کے پہاڑ برابر ہوگی، کھال کی موٹائی بیالیس ہاتھ کی لمبائی جتنی ہوگی، بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جیسے مکّہ سے مدینہ تک ، زبان کوس دو کوس تک منہ سے باہر گھسٹتی ہوگی کہ لوگ اس کو روندیں گے اور جہنمیوں کا اوپر کا ہونٹ سِمٹ کر بیچ سر کو پہنچ جائے گا اور نیچے کا لٹک کر ناف کو آلگے گا۔

میدان حشر میں جہنّم کو کیسے لایاجائے گا؟ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جہنّم کو لایا جائے گا، اس کی ستّر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کو ستّر ہزار فرشتے پکڑ کر کھینچ رہے ہوں گے۔
جہنّم کا سب سے ہلکا عذاب کیساہے؟دوزخ میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ ہے جسے آگ کے دو جوتے اور دو تسمے پہنائے جائیں گے جن سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح جوش مارے گا وہ یہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی پر ہے حالانکہ اس پر سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ اِسی حدیث میں امام احمد کی روایت یوں ہے:اس کے تلووں میں انگارے رکھے جائیں گے جس سے بھیجا اُبلے گا۔
دوزخ کے عذابات کی مختلف صورتیں احادیثِ مُبارکہ کی روشنی میں پتا چلتا ہے کہ جہنمیوں کو مختلف طریقوں سے ان کے اعمال کی سز ادی جائے گی مثلا آگ، خونی دریا، گلپھڑے چیرنا، پتھراؤ سے سر کچلنا، منہ نوچنا، سانپ بچھواور حلق میں پھنسنے والے کھانے۔
عذابِ دوزخ سے حفاظت کی دُعا حضرت سیّدُنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص تین بار جہنّم سے پناہ مانگتا ہے تو جہنّم بھی کہتی ہے: یااللہ! اسے دوزخ سے محفوظ رکھ۔

copywrites © 2019,

Monday, July 22, 2019

zilhajj[ماہِ ذی الحج]

zilhajj[ماہِ ذی الحج]

ماہِ ذی الحج


اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ذوالحجہ ہے اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس ماہ میں لوگ حج کرتے ہیں اور اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن مجید میں ''ایام معلومات'' رکھا گیا ہے یہ دن اللہ کریم کو بہت پیارے ہیں۔ اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ عالم حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔
اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔ کیوں کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے۔ تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے ۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ (سوچ بچار) کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر۔ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ۔ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں اور اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے ۔ دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں ۔ کیوں کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی ۔ اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو " یوم القر" اوربارہویں، تیرہویں کو " یوم النفر" کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں تاریخ کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھائی چارہ قائم فرمایا تھا۔

ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت:ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے ۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں ۔ اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں، اور قسم ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی رات کی۔اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔
ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں:سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی شہادت)۔ (مشکوٰۃ)۔
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی دن زیادہ محبوب نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف کہ ان میں عبادت کی جائے ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔ (مشکوٰۃ)۔

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت:جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرما کر اس کی عزت افزائی کرتا ہے (١) عمر میں برکت (٢) مال میں افزونی (٣) اہل و عیال کی حفاظت (٤) گناہوں کا کفارہ (٥) نیکیوں میں اضافہ (٦) نزع میں آسانی (٧) ظلمت میں روشنی (٨) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (٩) دوزخ کے طبقات سے نجات (١٠) جنت کے درجات پر عروج۔
جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاء اللہ اور ابدال کی عیادت کی ، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔
ذوالحجہ مبارک کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:چار چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے ۔ عاشورہ کا روزہ اور ذولحجہ کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ اور نماز فجر سے قبل دورکعتیں۔( مشکوٰۃ)۔

ماہِ ذی الحجہ کے نفل:حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اول رات ذوالحجہ میں چار رکعت نفل پڑھے کہ ہر کعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پچیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیشمار ثواب لکھتا ہے۔
حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دسویں ذی الحجہ تک ہر رات وتروں کے بعد دو رکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورہ کوثر اور سورہ اخلاص تین تین دفعہ پڑھے تو اس کو اللہ تعالیٰ مقام اعلیٰ علیین میں داخل فرمائے گا اور اس کے ہر بال کے بدلہ میں ہزار نیکیاں لکھے گا اور اس کو ہزار دینار صدقہ دینے کا ثواب ملے گا۔
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی عرفہ کی رات یعنی نویں کی رات کو سو١٠٠ رکعات نفل ادا کرلے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک بار یا تین بارقُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا اور اس کے لئے جنت میں یا قوت کا سرخ مکان بنایا جائے گا۔
جو کوئی نحر کی رات یعنی دسویں ذوالحجہ کو جس کی صبح عید ہوتی ہے بارہ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پندرہ دفعہ پڑھے تو اس نے ستر سال کی عبادت کا ثواب حاصل کیا اور تمام گناہوں سے پاک ہوگیا۔ اسی رات کی ایک نماز یہ بھی ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک دفعہ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور ایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ اورایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ پڑھے اور سلام کے بعد ستر٧٠ دفعہ سُبحَانَ اللّٰہِ اور ستر٧٠ دفعہ درود شریف پڑھے تو اس کے تمام گناہ بخشے جائیں گے۔
بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی فقیر ہو اور قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نمازِ عید کے بعد گھر میں دورکعات نفل پڑھے ۔ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورئہ الکوثر تین مرتبہ پڑھے تو اللہ جل شانہ، اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا۔

copywrites © 2019,

Friday, July 19, 2019

qurbani[قربانی]

qurbani[قربانی]

قربانی کی فضیلت اور مسائل


قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر:۲)۔ (تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو)۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا:یارسول اﷲ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ حضوراکرم ﷺنے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔جو اس اُمّت کے لیے باقی رکھی گئی۔ عرض کیا:ہمیں اس میں کیاثواب ہے؟ فرمایا:ہربال کے بدلے میں ایک نیکی ہے (یعنی گائے‘ بکرے کے جتنے بال ہیں اُن کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی )۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:یارسول اﷲ اُون؟( یعنی دُنبہ، بھیڑ اور اونٹ کے تو اُون ہوتی ہے) ۔ حضوراکرم ﷺنے فرمایا:اِن کے ہربال کے بدلے(بھی) ایک نیکی ۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فر مایا: ’’ایام قربانی میں انسان کا کوئی عمل اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کے خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔۔۔اور بلا شبہ قربانی کے جانور کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مرتبہ قبولیت کو پا لیتا ہے‘تو خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘(سنن ابن ماجہ)۔
ہر مسلمان مکلف مردو عورت‘ مقیم‘ مالکِ نصاب پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے،اولاد وغیر ہ کی طرف سے مستحب۔ چاندی کانصاب ساڑھے باون تولہ اور سونے کاساڑھے سات تولہ ہے ۔نصاب پر سال گزرنا قربانی کے لیے شرط نہیں۔قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے بعد نماز عیدالالضحیٰ ، گاؤں دیہات کے لیے دسویں کی صبح صادق سے ہے اور آخروقت دونوں کے لیے بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے قبل تک ہے‘اگر کسی وجہ سے قربانی قضا ہوجائے تو قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرناواجب ہوگی ۔تین دن میں پہلا دن سب سے افضل ‘پھر دوسرا، پھر تیسرادن ،درمیان کی دورات میں بھی جائز ہے مگر بہ کراہت ۔(فتاوٰی عالمگیری)۔

جس پر قربانی واجب ہے اگر وہ ان ایام میں بجائے قربانی کرنے کے اس کی قیمت صدقہ کردے تو قربانی ادانہ ہوگی بلکہ دس گُنا قیمت بھی دے دے توبھی واجب ساقط نہ ہو گا کہ شریعت مطہر ہ کو قربانی کے جانور کاخون بہانا ہی مقصود ہیں ۔(فتاوٰی عالمگیری)۔
قربانی کے جانور:قر با نی کے جانوراونٹ، گائے ،بھینس ،بکری ،بھیڑ ،دُنبہ ہیں ‘ان کے سوادوسرے کسی جانور کی قربانی جائزنہیں،ان میں نرومادہ کاایک حکم ہے‘ خصّی کی قربانی افضل ہے۔ قربانی کاجانور تندرست سالم الاعضاء ہو۔ بیمار، بہت لاغرجومذبح تک نہ پہنچ سکے یالنگڑا ،اندھا ،کان ناک ،دم، سینگ ،تھن کوئی عضوتہائی سے زیادہ کٹاہو،جس کے کان یادانت سرے سے پیداہی نہ ہوئے ہوں یابکری کا ایک ،گائے بھینس کے دوتھن نہ ہوں یاعلاج سے خشک کردیے گئے کہ دودھ نہ اُتر سکے ‘اِن سب کی قربانی درست نہیں۔
گائے،بھینس،اونٹ میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔شریک کے جانور میں خرید تے وقت نیت ِشریک کرناچاہیے بغیر نیت خرید نا پھر شریک کرلینا مکروہ ہے۔اونٹ پانچ برس کا۔گائے‘ بھینس دوسال کی۔ بکری‘ بکرا‘ بھیڑایک سال ۔ دور سے د یکھنے میں سال بھروالوں کے برابرلگنے والا چھے ماہ کا دُنبہ بھی قربانی کے لائق ہیں۔اس سے کم عمر کی قربانی جائز نہیں۔اپنے ہاتھ سے قربانی کرناافضل ہے۔خود بخوبی نہ کرسکے تودوسرے کواجازت ہونا ضروری ہے۔سنت یہ ہے کہ اپنے سامنے قربانی کرائے‘ جانور کوبھوکا پیاسا ذبح نہ کیا جائے‘نہ اس کے سامنے چھری اوزار تیز کریں‘نہ ایک کودوسرے کے سامنے ذبح کریں ۔(فتاوٰی عالمگیری)۔

قربانی کا مسنون طریقہ:ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھنا مسنون ہے : اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَامِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسْکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ط
جانور کوبائیں پہلو(اُلٹے پہلو) پر قبلہ رولٹائیں اور اپنادہنا پاؤں(سیدھا پاؤں) اسکے شانے پر رکھ کر اَللّٰھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ
کہہ کر تیز چھری سے جلداز جلد ذبح کردیں‘جب تک ٹھنڈانہ ہو‘ کوئی عضو نہ کاٹیں ‘ قربانی اپنی طرف سے ہے تو اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ ﷺ
اوراگر دوسرے کی جانب سے ہویا سات حصہ دار ہوں تو’’ مِنِّیْ‘‘ کے بجائے’’ مِنْ ‘‘کہہ کر اُن کانام لے
قربانی کرنے والوں کیلئے ناخن اور بال وغیرہ کا حکم:قربانی كرنے والوں کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے ناخن یا بال نہ تراشیں، بشرطیکہ ان کو تراشے ہوئےچالیس دن نہ ہوئے ہوں، اور اگر چالیس دن ہوگئے تو پھر ان چیزوں کی صفائی ضروری ہے۔اسی طرح اگر مذکورہ چیزوں کی صفائی کو ابھی چالیس دن نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کسی نے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لئےتو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ قربانی پر کوئی اثر پڑے گا، کیونکہ مذکورہ حکم کی حیثیت صرف استحباب(کرنے پرثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں)کی حد تک ہے۔نیز اللہ کے نزدیک اس کی قربانی پوری ہوجائے گی۔‘‘ جسے قربانی کی توفیق نہ ہو، اُسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کاثواب حاصل ہو جائے گا۔

قربانی کا گوشت: مستحب ومسنون ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں ،ایک حصہ اپنے لیے ایک اعزاء واحباب کے لیے اورایک فقراء میں تقسیم کے لیے‘ اور اگرضرورتاً سب خود کھا لے یا سب بانٹ دے یا سب فقراء کو دے دے توبھی اس میں ہرج نہیں ۔
قربانی کی کھال:قربانی کے جانور کی کھال اپنے استعمال میں لانا جیسے جاء نماز ‘بستر ‘مشکیزہ وغیرہ بنا لیناجائز ہے۔کھال کسی مدرسہ،کار خیرکے کام،ضرورت مند،مسافر،طالب علم،مسکین یاکفن موتیٰ میں دے دی کہ اسے بیچ کررقم استعمال کر لیں‘یہ سب جائز ہے، مگر کھال اپنے لیے داموں فروخت کرناحرام ہے۔ یہ بھی خوب یادرکھیں جس طرح کھال کی قیمت اپنے مصرف میں لانا حرام ہے‘ قیمت ِقربانی اُجرت ِقصاب میں اس کاکوئی حصہ دینا بھی حرام ہے حضوراکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ: ’’جو شخص کھال بیچ کر اپنے مصرف میں لائے یااُجرتِ قصاب یاقیمت قربانی میں مجراکرے اس کی قربانی بارگاہِ قبول سے محروم ہے ‘‘۔ غرض ہر حال میں کھالوں کا امورِ کارِخیر میں لگانا ہی باعث ِثواب ہے ۔
تکبیر تشریق:نو ذی الحجہ کی فجرسے تیرھویں کی عصر تک نماز با جماعت کے بعد ہر مکلف مرد پر بآواز ِبلند تکبیر تشریق پڑھنا ایک مرتبہ واجب اور تین بار افضل ہے‘اگر امام بھول جائے تو مقتدی یاد دلائیں ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُ لَاْ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔(درمختار،جلد:۱،ص:۵٦۲)۔

copywrites © 2019,

Thursday, July 18, 2019

waldain ke huqooq[والدین کے حقوق]

waldain ke huqooq[والدین کے حقوق]

والدین کے حقوق


حضرتِ سیِّدُنا موسی عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کی کہ مجھے میرا جنت کا ساتھی دکھا دے۔ اللہ پاک نے فرمایا: فلاں شہر کا قصائی تمہارا جنت کا ساتھی ہے۔ حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام اس قصائی سے ملنے پہنچے تو اس نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت کی۔ جب کھانے کے لئے بیٹھے تو قصا ئی نے ایک بڑی سی ٹوکری اپنے پاس رکھ لی۔ دو نوالے ٹوکری میں ڈالتا اور ایک نوالہ خود کھاتا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ قصائی باہر گیا، حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام نے ٹوکری میں نظر کی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ٹوکری میں بوڑھے مرد و عورت ہیں جیسے ہی ان کی نظر حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام پر پڑی، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی پھر ان بزرگوں نےآپ عَلَیْہِ السَّلَام کی رسالت کی گواہی دی اور ُاسی وقت انتقال کرگئے۔ قصائی جب واپس آیا تو اپنے فوت شدہ والدین کو دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ گیا اور حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا ہاتھ چومتے ہوئے کہنے لگا: مجھے لگتا ہے کہ آپ اللہ پاک کے نبی حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام ہیں؟ فرمایا ہاں تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟ کہنے لگا کہ میرے والدین روز یہ دعا کرتے تھے: اے اللہ پاک ہمیں حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا دیدار کرتے ہوئے موت دینا۔ ان کے اچانک انتقال کرنے سے میں نے اندازہ لگایا کہ آپ ہی حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام ہیں۔ جب میری ماں کھانا کھالیتی تو مجھے اس طرح دعا دیتی:یا اللہ پاک میرے بیٹے کو جنت میں حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام کا ساتھی بنانا۔ حضرت موسی عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: مبارک ہو کہ اللہ پاک نے تمہیں میرا جنت کا ساتھی بنایا ہے۔

والدین کی شان بزبان قرآن:اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:’’اور ماں باپ کو اُف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے نرمی سے بات کرو!‘‘(پ ۱۵، بنی اسرائیل، آیت۲۳)اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اُف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں۔
احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے: حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جس شخص سے اسکے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔(ترمذی)۔حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ایک شخص نے پوچھا:یا سولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ کے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔(ابن ماجہ)۔ایک اور مقام پر ارشا د فرمایا: سب گناہوں کی سزا قیامت میں ملے گی لیکن ماں باپ کے نافرمان کو اللہ پاک دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔(شعب الایمان)۔جو بچہ اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھے اللہ پاک اسے مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا اللہ اکبر! ذرا سوچئے کہ محبت سے دیکھنے کا یہ اجر ہے تو خدمت کرنے کا عالم کیا ہوگا! ایک صحابی رسول نے عرض کی: حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اگر کوئی دن میں سو بار دیکھے؟ آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: کوئی سو بار بھی دیکھے تو اسے اللہ پاک مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (شعب الایمان)۔

ماں کی شان:ایک شخص رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرے حسنِ اخلاق کا زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس نے دوبارہ عرض کی: اس کے بعد کون؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ تیسری بار عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس مرتبہ بھی یہی ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس نے پھر عرض کی: اس کے بعد کون؟ تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’تیرا باپ‘‘، پھر قریبی کا زیادہ حق ہے پھر جو اس کے بعد قریبی ہو۔(صحیح بخاری)۔ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: ایک راستے میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا اُن پر ڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہوگیا ہوں؟ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(اَلْمُعْجَم الصَّغِیر لِلطّبَرانی)۔
باپ کی شان:رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرماتے ہیں: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ پاک کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(سنن الترمذي)۔ے شک تمام نیک اعمال سے بڑھ کر نیک عمل یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔ (الصحیح المسلم)۔
اللہ پاک ہمیں والدین کی قدر عطا فرمائے اور ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔



copywrites © 2019,

Wednesday, July 17, 2019

dua ki azmat o ahmiyat[دعا کی عظمت و اہمیت]

dua ki azmat o ahmiyat[دعا کی عظمت و اہمیت]

دعا کی عظمت و اہمیت


دعا ایک عظیم عبادت،عمدہ وظیفہ اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے، دعا در حقیقت بندے اور اس کے خالق و مالک کے درمیان کلام، راز و نیازاور بندگی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ دعا بندے کو رب سے ملانے، اس کی بارگاہ میں حاضر ہونےکی ایک صورت ہے۔ عام طور پرجو سکون و راحت دعا کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور عبادت میں حاصل نہیں ہوتی۔ دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت ہونے کی وجہ سے جس طرح آخرت کے اعتبار سے فائدہ مند ہے اسی طرح دنیا میں بھی بہت مفید ہے ،مثلاً مشکلوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے دعا ایک اہم ذریعہ ہے۔دعا کی عظمت و اہمیت پر قرآن و سنت میں کثیر آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔

دعا کے متعلق ارشادِ باری تعالٰی


قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا
اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا/ دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے(پارہ ۲، سورہ بقرہ،آیت نمبر۱۸٦)۔
ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا(پ۲۴، المؤمن: ٦۰)۔
فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ؕ وَکَذٰلِکَ نُـنْجِی الْمُؤْمِنِیۡنَ۔پس ہم نے یونس کی دعا قبول فرمائی اور اسے غم سے نجات دی اور یونہی نجات دیں گے ایمان والوں کو(پ۱۷، الأنبیاء : ۸۸)۔

دعا کے متعلق احادیث نبوی ﷺ


نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:دعا ہی عبادت ہے۔دعا عبادت کا مغز ہے۔سب سے زیادہ بزرگی والی عبادت دعا ہے۔ سب سے افضل عبادت دعا ہے۔دعا رحمت کی کنجی ہے اور وضو نماز کی کنجی ہے اور نماز جنت کی کنجی ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک نیکی رزق کو زیادہ کرتی ہے۔ بے شک بندہ اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم رہتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث میں دعا مانگنے کے کتنے فضائل ہیں اور اللہ پاک دعا مانگنے والوں کو کس قدر پسند فرماتا ہے اور انہیں ان کی دعاؤں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں عطافرماتاہے ۔دعا کے بے شمارفوائد و ثمرات ہیں جن سے ہمیں محروم نہیں رہنا چاہیےاور کثرت سے دعا مانگنی چاہیے کہ جو بگڑے کام کو سنوارتی اور مصیبت سے بچاتی ہے۔
دعا کی قبولیت میں رکاوٹ:یادرہے!اللہ پاک سب کی دعائیں قبول فرماتا ہے مگر اس کا بدلہ کبھی فوراً تو کبھی تاخیر سے دیتا ہےیہ سب اس کی حکمت پر ہے مگر بعض اوقات ہمارے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ہماری دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں ۔

منقول ہےکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکے زمانے میں قحط پڑا، آپ بنی اسرائیل کو لے کر تین بار دعا کے واسطے گئے مینہ نہ برسا(یعنی بارش نہ ہوئی)، اللہ کریم نے وحی بھیجی:اے موسیٰ! میں تیر ی اور تیرے ساتھ والوں کی دعا قبول نہ کروں گا کہ تم میں ایک نَمام(چُغل خور)ہے کہ ایک کا عیب دوسرے سے بیان کرتا ہے۔عرض کی:اے رب!وہ کون ہے کہ اس کو ہم اپنے گروہ سے نکال دیں؟ حکم آیا: میں تمہیں نمیمی(چغل خوری)سے منع کرتا ہوں اور خود ایسا کروں؟سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کو توبہ کا حکم کیا، توبہ کے بعد دعا مانگتے ہی بارش برسی۔
قارئین کرام ! غور فرمائیں صرف ایک شخص کی چغل خوری سب کی دعاؤں میں رکاوٹ کا سبب بن گئی ۔آج ہم اپنی حالت پر غور کریں کہ ہم کس قدر گناہوں کے دلدل میں دھنس چکے ہیں ،بھلا ہماری دعائیں کیسے مقبول ہونگی !ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو گناہوں اور بری عادتوں سے محفوظ رکھیں تاکہ بد اعمالی ہماری اور ہمارے ارد گرد کے لوگوں کی دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ نہ بنے۔ رب کریم ہمیں کثرت سے دعا کرنے والا بنادے اور نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْنْ بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

copywrites © 2019,

Tuesday, July 16, 2019

Quran e Pak Ki Zaroorat Ahmiyat aur Fawaid[قرآن پاک کی ضرورت، اہمیت اور فوائد]

Quran e Pak Ki  Zaroorat Ahmiyat aur Fawaid[قرآن پاک کی ضرورت، اہمیت اور فوائد]

قرآن پاک


قرآن کریم وحی الہٰی ہے، یہ قُربِ خداوندی کا ذریعہ ہے، رہتی دنیا تک کےلیے نسخۂ کیمیاء ہے، تمام علوم کا سرچشمہ ہے، یہ ہدایت کا مجموعہ، رحمتوں کا خزینہ اور برکتوں کامنبع ہے، یہ ایسا دستور ہے جس پر عمل پیرا ہوکر تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، ایسا نور ہے، جس سے گمراہی کے تمام اندھیرے دور کیے جاسکتے ہیں ایسا راستہ ہے، جو سیدھا اللہ پاک کی رضا اور جنّت تک لے جاتا ہے، اصلاح و تربیت کا ایسا نظام ہے جو انسان کا تزکیہ کرکے (یعنی انسان کو پاک کرکے) اسے مثالی بنادیتا ہے، ایسادرخت ہے جس کے سائے میں بیٹھنے والا قلبی سکون محسوس کرتاہے، ایساباوفا ساتھی ہے جو قبر میں بھی ساتھ نبھاتا ہے اور حشر میں بھی وفا کا حق اداکرے گا۔
ضرورت:انسان طبعی طور پر مل جل کر رہنے والاہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی گزارنے کےلیے خوراک، کپڑوں اور مکان کی جبکہ افزائش نسل کےلیے نکاح کی ضرورت ہے۔ ان چار چیزوں کے حصول کےلیے اگر کوئی قانون اور ضابطہ نہ ہوتو ہرزور طاقتور اپنی ضرورت کی چیزیں طاقت کے ذریعہ کمزور سے حاصل کرلے گا، لہٰذا عدل وانصاف کو قائم کرنے کی غرض سے کسی قانون کی ضرورت ہے اور یہ قانون اگر کسی انسان نے بنایا تو وہ اس قانون میں اپنے تحفظات اور اپنے مفادات شامل کرے گا، اس لیے ضروری ہے کہ یہ قانون انسان کا بنایا ہوا نہ ہو تاکہ اس میں کسی کی جانبداری کا شائبہ اور وہم و گمان نہ ہو ایسا قانون صرف خدا کا بنایا ہوا قانون ہو سکتاہے۔ جس کا علم خدا کے بتلانے سے ہوگا اور اللہ پاک نے پوری انسانیت کی ہدایت و فلاح کےلیے یہ قانون قرآن کی صورت میں عطا فرمایاجس کی تفسیر اس امت کے علماء نے احادیثِ رسول واقوالِ صحابہ کی روشنی میں کی اور ہمارے لیے اس کا سمجھنا مزید آسان بنا دیا۔

اہمیت:حضرت اِیاس بن معاویہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جو لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور وہ تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ان کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں تو ان کے دل ڈر گئے اور انہیں معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے؟ اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر جانتاہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہوگیا کہ خط میں کیا لکھاہے۔
فوائد وثواب:قرآن پاک پڑھنے کے بے شمار فوائد ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’النَّظْرُ فِی الْمُصْحَفِ عِبَادَۃٌ‘‘ یعنی قرآن پاک کو دیکھنا عبادت ہے۔
قرآن پاک پڑھنے سے بیماریوں سے شفاء حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزّت کا فرمان ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ۔ ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا۔
قرآن کریم پر عمل بلندی اور اس سے انحراف تنزلی کا باعث ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَاماً وَیَضَعُ بہ اٰخَرِیْن۔ یعنی اللہ پاک اس کتاب کے سبب کتنی قوموں کو بلندی عطاکرتاہے اور کتنوں کو پست کرتاہے۔

رحمت والے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَابِ اﷲِ فَلَہ حَسَنَۃٌ وَ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا لَااَقُوْلُ المٓ حَرْفٌ وَلٰکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ یعنی جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ہرنیکی دس نیکیاں، میں نہیں فرماتا کہ الٓم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف اور لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔
قارئین کرام!دنیا کا ہروہ انسان جو کامیاب زندگی گزارنا چاہتاہے قرآن کریم اس کےلیے ایک ایسالائحۂ عمل، جس پر عمل کے ذریعہ وہ معاشرہ میں ایک اچھا مقام حاصل کرسکتاہے اوراس کی بدولت معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

copywrites © 2019,

Sunday, July 14, 2019

madine ki hazri[مدینے کی حاضری]

madine ki hazri[مدینے کی حاضری]

مدینے کی حاضری


ذکرِ مدینہ عاشِقانِ رسول کے لئے باعِثِ راحتِ قلب و سینہ ہے۔ اِس کی فُرقَت میں تڑپتے اورزیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں۔دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینۃُالمنوَّرہ کے ہِجروفِراق اور اس کے دیدار کی تمنّا میں پڑھے گئے یا پڑھے جاتے ہیں اُتنے دنیا کے کسی اورشہر یا خِطّے کے لئے نہیں پڑھے گئے اورنہیں پڑھے جاتے ، جسے ایک باربھی مدینے کا دیدار ہوجاتاہے وہ اپنے آپ کو بَخت بیدارسمجھتا اورمدینے میں گزرے ہوئے حَسین لمحات کو ہمیشہ کیلئے یاد گار قرار دیتا ہے۔
مدینۂ منورہ کے آداب:مدینۂ منورہ میں داخل ہونے والے کو چاہے کہ پروقار وپرسکون حالت میں مدینۂ منورہ میں داخل ہو، شریعت کے حکم کے مطابق اس کا مشاہدہ کرے، آنکھیں بلند کرتے ہوئے اس پرنظرڈالے،پھراس حالت میں مسجد ومنبرِرسول عَلٰی صَاحِبِہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالَّسَلَام کے پاس آئے گویا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کیفیتِ نماز و خطبہ کوملاحظہ کررہاہے،اور روضۂ رسول عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالَّسَلَام پر اس حالت میں حاضر ہوگویا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کا دیدار کر رہا ہے۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرہوتوآوازپست رکھتے ہوئے اس طرح گفتگو کرے گویا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محفل کاآنکھوں سے مشاہدہ کر رہاہے، پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اورپھرآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دونوں اصحاب (حضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصدیقِ اکبر وحضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)کی بارگاہ میں سلام پیش کرتے ہوئے ان دونوں کی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اورسرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ان کے ساتھ محبت کا مشاہدہ کرے،اور حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نگاہ میں ان دونوں کی مقبولیت وعزت کومد ِ نظر رکھے،ان دونوں کا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ڈروخوف اوردونوں کی نگاہوں میں پیارے مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فضیلت ومقبولیت کودیکھے اورجب روضۂ انور سے پلٹے تواس کی طرف پیٹھ نہ کرے۔


بابُ الْبَقیع پر حاضر ہوں:سراپا ادب و ہوش بنے، آنسو بہاتے یا رونا نہ آئے تو کم از کم رونے جیسی صورت بنائے بابُ الْبَقیع پر حاضر ہوں اور’’ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ‘‘عرض کر کے ذرا ٹھہر جائیے۔ گویا سرکارِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دربار میں حاضِری کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ اب ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘پڑھ کر اپنا سیدھاقدم مسجد شریف میں رکھئے اور ہَمہ تَن ادب ہو کر داخلِ مسجد ِنبوی علٰی صاحِبِہا الصلوٰۃ والسَّلام ہوں۔ اِس وقت جوتعظیم وادب فرض ہے وہ ہر مؤمن کادل جانتا ہے۔ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان،زبان،دل سب خیالِ غیر سے پاک کیجئے اور روتے ہوئے آگے بڑھئے۔نہ اِردگِردنظریں گھمائیے،نہ ہی مسجد کے نقش ونِگار دیکھئے ، بس ایک ہی تڑپ ایک ہی لگن ایک ہی خیال ہو کہ بھاگا ہوا مُجرِم اپنے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں پیش ہونے کے لیے چلا ہے۔
اگر مکروہ وقت نہ ہو اور غَلَبۂ شوق مُہْلَت دے تو دودورکعت تَحِیَّۃُ المسجد وشکرانۂ بارگاہِ اقدس ادا کیجئے۔اب ادب وشوق میں ڈوبے ہوئے گردن جھکائے آنکھیں نیچی کیے،آنسو بہاتے ، لرزتے، کانپتے، گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوتے ،سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضل و کرم کی اُمّیدرکھتے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قَدَمَینِ شَرِیْفَیْن کی طرف سے سُنہری جالیوں کے رُو بُرومُواجَہَہ شریف میں حاضِر ہوں ۔
سرکارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلِّم کی خدمت میں سلام عرض کرنے کاطریقہ:اب ادب وشوق کے ساتھ درد بھری درمیانی آواز میں ان الفاظ کے ساتھ سلام عرض کیجئے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَ خَلْقِ اللہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاشَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ وَاُمَّتِکَ اَجْمَعِیْنَ۔


صِدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں سلام: پھر مشرِق کی جانب (یعنی اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف) آدھے گز کے قریب ہٹ کر(قریبی چھوٹے سوراخ کی طرف) حضرت سیِّدُناصدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے چہرۂ انور کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کریوں سلام عرض کیجئے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہِ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَزِیْرَرَسُوْلِ اللہِ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاصَاحِبَ رَسُوْلِ اللہِ فِی الْغَارِوَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ
فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں سلام: پھراتناہی جانبِ مشرِق مزیدسَرَک کر حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے رُوبُروعرض کیجئے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَااَمِیْرَالْمُؤْمِنِیْنَ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُتَمِّمَ الْاَرْبَعِیْنَ،اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَاعِزَّالْاِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ ط
دوبارہ ایک ساتھ شیخین کریمین کی خدمت میں سلام: پھربالِشت بھَر جانِبِ مغرِب یعنی اپنے اُلٹے ہاتھ کی طرف سَرَک جایئے اور دونوں چھوٹے سُوراخوں کے درمیان کھڑے ہوکرایک ساتھ صِدّیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں اس طرح سلام عرض کیجئے:اَلسّلَامُ عَلَیکُمَا یَاخَلِیْفَتَیْ رَسُوْلِ اللہ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَایَاوَزِیْرَیْ رَسُولِ اللہ ط اَلسّلَامُ عَلَیْکُمَا یَا ضَجِیْعَیْ رَسُوْلِ اللہ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ ط اَسْئَلُکُمَا الشَّفَاعَۃَعِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَیْکُمَا وَبَارَِکَ وَسَلَّم ط
دعا کے لیے جالی مبارک کو پیٹھ نہ کیجئے:جب جب سُنہری جالیوں کے پاس حاضِری نصیب ہو اِدھراُدھرہرگزنہ دیکھئے اورخاص کرجالی شریف کے اندردیکھناتوبُہت ہی جُراء ت ہے ،قبلے کی طرف پیٹھ کئے کم ازکم چارہاتھ جالی مبارَک سے دُورکھڑے رہئے اورمُوَاجَہَہ شریف کی طرف رخ کرکے سلام عرض کیجئے۔دُعاسُنہری جالیوں کی طرف رُخ کرکے ہی مانگئے کہیں ایسا نہ ہوکہ آپ کعبے کو منہ کرلیں اورکعبے کے کعبے کو پیٹھ ہو جائے۔

copywrites © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...