Sunday, April 28, 2019

************ زکوٰۃ ************

زکوٰۃ اسلام کا تیسرارُکن اور مالی عبادت ہے ۔ قرآن مجید فرقانِ حمید کی متعدد آیاتِ مقدسہ میں زکوٰۃ اداکرنے والوں کی تعریف وتوصیف اور نہ دینے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ۔قرآنِ مجید میں نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ۳۲مرتبہ ذکر آیا ہے۔زکوٰۃ کی فرضیت کتاب وسنّت سے ثابت ہے ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :ترجمۂ کنزالایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔(پ ۱،البقرۃ:۴۳)۔
ترجمۂ کنزالایمان :اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے جب حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو یمن کی طر ف بھیجاتو فرمایا:ان کو بتاؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقراء کو دی جا ئے ۔(سنن الترمذی،کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃاخذ خیار المال فی الصدقۃ ،الحدیث٦۲۵،ج۲،ص۱۲٦)۔
حضورِ پاک، صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔(الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات ،باب الترغیب فی ادائِ الزکوٰۃ،الحدیث۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )۔
زکوٰۃ۲ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔زکوٰۃ کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ،اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔زکوۃ دینے والے پر رحمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی چھماچھم برسات ہوتی ہے۔ زکوٰۃ دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔زکوٰۃ دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سےچھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔ زکوٰۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔زکوٰۃ دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکوٰۃ دینی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔
زکوٰۃ نہ دینا مال کی بربادی کا سبب ہے ۔ زکوٰۃادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
رسول اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم نے فرمایا:’’جوقوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔(المعجم الاوسط ،الحدیث۴۵۷۷،ج۳،ص۲۷۵)۔
حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :’’زکوۃ نہ دینے والے پر رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلّم نے لعنت فرمائی ہے ۔‘‘(صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ،کتاب الزکاۃ،باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی...الخ،الحدیث ۲۲۵۰،ج۴،ص۸)۔
ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاںاورکروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔ (پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)۔
زکوٰۃ کی تعریف: شریعت اسلامیہ میں مسلمان کا اللہ تعالیٰ کیلئے مال کا مقرر کردہ حصہ کسی مسلمان مستحق کو مالک بناکر دینا زکوٰۃ کہلاتاہے۔زکوٰۃ کا لُغوی معنی طہارت ، افزائش (یعنی اضافہ اور برکت) ہے ۔ چونکہ زکوٰۃ بقیہ مال کے لئے معنوی طور پر طہارت اور افزائش کا سبب بنتی ہے اسی لئے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
ایسے مرد یا عورت جو مسلمان ، عاقل ، بالغ ہوں اور ان کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اس کے مساوی روپیہ یا کچھ سونا ہو اور کچھ چاندی ہو اور دونوں کو ملاکر چاندی کا نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ) ہوجائے یا کچھ سونا ہو اور کچھ روپیہ ہو اور دونوں کو ملاکر چاندی کا نصاب بن جائے، یا کچھ چاندی ہو اور کچھ روپیہ ہو اور دونوں کو ملاکر چاندی کا نصاب بن جائے۔ اور یہ تمام (سونا ، چاندی ، روپیہ) حاجت اصلیہ یعنی اس کی ضرورت سے فارغ ہوں اور اس پر چاندکی تاریخ کے اعتبار سے ایک سال بیت جائے تو ایسے مرد یا عورت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ کل مال کا تخمینہ لگا کر اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دی جائے ، یعنی ایک لاکھ روپے ہے اس کی مالیت پر ڈھائی ہزار روپے زکوٰۃ دی جائے۔
زکوٰۃ کس کو دیں:مسلمان ، عاقل ، بالغ کو جو مستحق زکوٰۃ ہویعنی اس کے پاس اپنی حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی رقم نہ ہو،چچا، چچی،خالو، خالہ ، پھوپھا پھوپھی،مامو ، ممانی ،بھائی۔ بہن اور ان تمام رشتداروں کی اولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے والے طالب علم کوبھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔مسافر اگر چہ مالدار ہو لیکن سفر میں اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ایسے شخص کو بقدر ضروت زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ایسا شخص جو مالک نصاب ہے لیکن اس نے اپنا مال کسی کو قرض دیا ہے اور خود مفلس ہوگیا تو ایساشخص بھی بقدرت ضرورت زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔داماد اور بہو کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔ نوٹ: مندرجہ بالا تمام کامستحق ہونا شرط ہے اگر مالدار ہوں تو ان کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ۔
حاجت اصلیہ: یعنی وہ اشیاء جن کی انسان کو زندگی بسر کرنے کیلئے ضرورت ہو ۔ جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے کپڑے ، کھانے کیلئے اشیائے خوردو نوش ، خانہ داری کا سامان برتن وغیرہ ، سواری کیلئے گاڑی ، موٹر سائیکل، سائیکل ، پیشہ ور افراد کے اوزار اہل علم حضرات کیلئے ضرور ت کی کتابیں ، ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔
اِن مسلمانوں کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اگرچہ شرعی فقیر ہوں:بنوہاشم (یعنی ساداتِ کرام)چاہے دینے والاہاشمی ہو یا غیر ہاشمی،اپنی اَصل (یعنی جن کی اولاد میں سے زکوٰۃ دینے والا ہو)جیسے ماں ، باپ ، دادا،دادی ، نانا،نانی وغیرہ،اپنی فروع (یعنی جو اس کی اولاد میں سے ہوں ) جیسے بیٹا، بیٹی، پوتا ،پوتی، نواسا ، نواسی وغیرہ،میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور غنی کے نابالغ بچے(کیونکہ وہ اپنے باپ کی وجہ سے غنی شمار ہوتے ہیں)۔
زکوٰۃادا کرتے وقت زکوٰۃ کے الفاظ بولنا ضروری نہیں فقط دل میں نیت ہونا کافی ہے چاہے زبان سے کچھ اور کہے ۔اسے تحفہ ، نذرانہ یا ہدیہ کہہ کربھی دی جاسکتی ہے بلکہ اگر کوئی شخص سخت ضرورت مند ہے زکوٰۃ کا مستحق بھی ہے لیکن وہ زکوٰۃ لینا نہیں چاہتا اور اسے زکوٰۃ کہہ کر دیں تو وہ نہیں لے گا تو اسے ادھار اور قرض کہہ کر دے دی جائے اور نیت زکوٰۃ کی ہو تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گا۔
جب سال پورا ہوجائے تو فوراً زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے اور تاخیر گناہ ،خواہ کوئی بھی مہینہ ہو اور اگر سال تمام ہونے سے پہلے پیشگی ادا کرنا چاہے تو رمضان المبارک میں ادا کرنا بہتر ہے جس میں نفل کا فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل صاحبِ نصاب مسلمانوں کو خوشدِلی سے زکوٰۃ مستحیقین کو دینے کی توفیق عطا فرما۔آمین

copywrites © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...