رمضان کریم
حضرتِ سیِّدُنااَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا :’’یہ رمضا ن تمہارے پاس آگیا ہے ،اس میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جا تے ہیں اور جہنم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی! ‘‘۔(مُعجَم اَوسَط ج۵ص۳٦٦حدیث۷٦۲۷)۔
ہمارے پیارے پیارے آقا، مکے مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے: ’’اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رَمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ کاش!پورا سال رَمضان ہی ہو۔ ‘‘(ابنِ خُزَیمہ ج۳ص۱۹۰حدیث۱۸۸٦)۔
رَمضان میں پانچ حروف ہیں ر،م،ض،ا،ن۔
ر سے مراد رَحمتِ الٰہی، میم سے مراد مَحبّتِ الٰہی ، ض سے مراد ضمانِ الٰہی، اَلِف سے امانِ اِلٰہی،ن سے نورِ الٰہی۔اور رَمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتی ہیں : روزہ، تراویح، تلاوتِ قراٰن، اِعتکا ف ، شبِ قَدر میں عبادات ۔تو جو کوئی صِدْقِ دِل سے یہ پانچ عبادات کرے وہ اُن پانچ اِنعاموں کا مستحق ہے۔ (تفسیر نعیمی ج۲ص۲۰۸)۔
اسلامی سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے۔ اس ماہ مبارک کی برکتوں کے تو کیا کہنے۔ جیسے ہی ماہ رمضان کا ہلال نظر آتا ہے۔ہر طرف نور ہی نور، ہوا، فضا اور موسم میں ایک عجیب سا کیف و سرور نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ آسمانوں سے رحمتوں کی بارش، زمین والوں پر ہر لمحہ نوازش، زمین پر معصوم ملائکہ کا نزول، عاصیوں کے لئے مغفرت کے پروانے تقسیم، نیکو کاروں کے لئے درجات میں بلندی کی بشارتیں، سحری کے ایمان افروز لمحات، افطار کی بابرکت گھڑیاں، دعائوں کی قبولیت کی ساعتیں، تراویح کی حلاوتیں، تہجد کی نماز کی چاشنی، تلاوت قرآن سے فضائوں کا گونجنا، نعت مصطفیﷺ سے مسلمانوں کا جھومنا، حالت روزہ میں دلوں کا جگمگانا، روزہ داروں کے پررونق چہرے، مساجد میں مسلمانوں کا جم غفیر، صدقات و خیرات و زکوٰۃ کا تقسیم ہونا، کوئی اشارہ مل رہا ہے، دل گواہی دے رہا ہے، خشوع و خضوع بڑھتا چلا جارہا ہے۔ عبادت کا ذوق و شوق بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یقینا یقینا کریم مہینہ جلوہ افروز ہوچکا ہے۔ کریم پروردگار جل جلالہ کے در سے، کریم رسول ﷺ کے صدقے میں، رمضان کریم تشریف لایا ہے۔
ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وَقت میں عبادت ہوتی ہے، مَثَلاً بقر عید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ اَفضل ،مگر ماہِ رَمضان میں ہر دن اور ہَر َوقت عبادت ہوتی ہے۔ روزہ عبادت، اِفطار عبادت، اِفطارکے بعد تراویح کا اِنتِظار عبادت، تراویح پڑھ کر سحری کے اِنتِظار میں سونا عبادت،پھر سحری کھانا بھی عبادت، اَلْغَرَض ہر آن میں خدا(عَزّوَجَلَّ)کی شان نظر آتی ہے۔
رَمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ا ور فرض کا ثواب۷۰ گنا ملتا ہے۔رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں ۔( یعنی سحروافطار کے کھانے پینے کا)۔
قیامت میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا: مولیٰ( عَزّوَجَلَّ)! میں نے اِسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اور قراٰن عَرض کرے گا کہ یا ربّ(عَزّوَجَلَّ)! میں نے اِسے رات میں تلاوت و تراویح کے ذَرِیعے سونے سے روکا ۔
رمضان المبارک کے تین عشرے پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔
اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ عَزّوَجَلَّ نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ پارہ ۲ سورۃ البقرۃآیت ۱۸۵ میں مقد س قراٰن میں خدائے رَحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالی شان ہے۔
تَرجَمَۂ کَنْزُ الْاِیْمَان:رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینا پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔اللہ عَزّوَجَلَّ تم پر آسانی چاہتا ہے اورتم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ عَزّوَجَلَّ کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔
روزے کی فرضیت:توحیدو رِسالت کا اِقرارکرنے اور تمام ضروریاتِ دِین پر ایمان لانے کے بعدجس طرح ہر مسلمان پر نماز فرض قراردی گئی ہے اسی طرح رَمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد وعورت ) عاقل وبالغ پر فرض ہیں۔’’دُرِّمُخْتار‘‘میں ہے:روزے۱۰شعبانُ الْمُعَظَّم۲ھ کو فرض ہوئے۔(دُرِّمُخْتار و رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۳۸۳)۔
حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ سلطانِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’آدَمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ۔ یعنی سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی جَزا میں خود دوں گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مزید ارشاد ہے: بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو صرف میری وَجہ سے تَرک کرتا ہے۔ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ، ایک اِفطار کے وَقت اور ایک اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کے وَقت، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘ (مسلِم ص۵۸۰حدیث۱۱۵۱)۔
بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان کہا جاتا ہے ،اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں ؟پس یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور اِس دروازے سے داخِل نہ ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پس پھر کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ (بُخاری ج۱ص٦۲۵حدیث۱۸۹٦)۔
جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷٦۸)۔
ہر شے کیلئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صَبْرہے۔ ( ابنِ ماجہ ج ۲ ص۳۴۷حدیث۱۷۴۵)۔
روزہ دار کا سونا عبادت اور ا س کی خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی دعا قبول او را س کا عمل مقبول ہوتا ہے ۔(شُعَبُ الْایمان ج۳ ص۴۱۵حدیث۳۹۳۸)۔
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان میں روزانہ افطار کے وقت دس لاکھ ایسے گنہ گاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب ہوچکا تھا، نیز شب جمعہ اور روز جمعہ (یعنی جمعرات کو غروب آفتاب سے لے کر جمعہ کو غروب آفتاب تک) کی ہر ہر گھڑی میں ایسے دس دس لاکھ گنہ گاروں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے جو عذاب کے حقدار قرار دیئے جاچکے ہوتے ہیں ۔(کنزالعمال جلد ۸ صفحہ نمبر ۲۲۳)۔
حضرت سَیِّدُناجابربن عبداللّٰہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ کون ومکان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں :{۱} جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ عَزّوَجَلَّ ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عَزّوَجَلَّ نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا {۲} شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تَعَالٰی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے {۳} فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں {۴}اللہ تَعَالٰی جنت کو حکم فرماتاہے: ’’میرے (نیک ) بندوں کیلئے آراستہ ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے‘‘{۵} جب ماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ عَزّوَجَلَّ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیا وہ لَیلَۃُ الَقَدْر ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجاتے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جاتی ہے۔‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۰۳حدیث۳٦۰۳)۔
حضرت سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’روزے کی حقیقت رُکنا‘‘ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مَثَلاً معدے کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زَبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حکم الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی مخالفت سے روکے رکھناروزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گاتب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔‘‘ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۵۴،۳۵۳)۔
حضرت ضمرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالمﷺ کا فرمان ہے کہ ماہ رمضان میں گھر والوں کے خرچ میں کشادگی کرو کیونکہ ماہ رمضان میں خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہیں (کنزالعمال جلد ۸، صفحہ نمبر ۲۱٦)۔
حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے مروی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اُس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے کہ جس کے پاس میرا ذِکر کیاگیا تو اُس نے میرے اوپر دُرُود نہیں پڑھااوراُس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے جس پر رَمضان کا مہینا داخل ہوا پھر اُس کی مغفرت ہونے سے قبل گزر گیا اور اس آدمی کی ناک مٹی میں مل جائے کہ جس کے پاس اس کے والدین نے بڑھاپے کو پالیا اور اس کے والدین نے اس کو جنت میں داخل نہیں کیا۔‘‘ (یعنی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کر سکا) (مسنداحمد ج۳ص٦۱حدیث۷۴۵۵)۔
شبِ قدر:امام مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔ آپﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (موطا امام مالک ص ۲٦۰)۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جب شب قدر ہوتی ہے، جبرئیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کے لئے) دعا کرتے ہیں (بیہقی)۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائناتﷺ کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری، مشکوٰۃ)۔
اﷲ تعالیٰ کا کروڑہا کروڑ احسان ہے کہ رب کریم جل جلالہ نے اپنے حبیبﷺ کے صدقے وطفیل ہمیں شب قدر جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمیں اس رات کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرنی چاہئے تاکہ ہمیں بھی مغفرت کا پروانہ نصیب ہو۔
نمازِتراویح
اعتکاف
رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔اعتکاف کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ۔اعتکاف کرنے سے ہمیں شب قدر کو حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔اﷲ تعالیٰ اعتکاف کرنے والے کو اپنا مہمان بناتا ہیں کیونکہ اعتکاف کرنے کا ثواب اور اجر ایک مقبول عمرہ اور ایک حج کے برابر ملتا ہے ۔اور ایسا عمرہ اور حج جو اﷲ تعالیٰ کو قبول و منظور ہوتا ہے خواتین اپنے گھروں میں بھی ایک مخصوص جگہ بناکر اعتکاف کرسکتی ہیں ۔رمضان المبارک کی ہر رات کی ہر ساعت اتنی فضیلت اور قدر و منزلت کی حامل ہے کہ ہمارے لئے اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔حضور اکرمﷺ آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے کیونکہ لیلتہ القدررمضان کی طاق راتوں میں ہوتی ہے جس میں ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷ اور ۲۹ کی راتیں شامل ہیں اور ان ہی راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرنے کا حکم ہے جس کی اہمیت اور فضیلت ہزارمہینوں کی عبادت کے برابر کا ثواب و اجر ہے۔سحری کرنا سنت ہے:بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ کبھی سحری کرنے سے رہ جاتے ہیں تَوفخریہ یوں کہتے سنائی دیتے ہیں :’’ہم نے توآج بغیر سحری کے روزہ رکھا ہے۔! یہ فخرکا موقع ہرگز نہیں ، سحری کی سُنَّت چھوٹنے پرتو افسوس ہوناچاہیے کہ افسوس ! تاجدار رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک عظیم سنت چھوٹ گئی ۔
اہم بات:روزہ بند ‘‘کرنے کا تعلق اَذانِ فجر سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے،ہر ایک کو یہ بات ذِہن نشین کرنی ضروری ہے کہ اَذانِ فجر صبح صادِق کے بعد ہی دینی ہوتی ہے اور وہ ’’روزہ بند‘‘ کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف نمازِ فجر کیلئے دی جاتی ہے۔
سیدہ ام ہانی رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم نور مجسمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت ذلیل و رسوا نہ ہوگی جب تک ماہ رمضان کے حق کو ادا کرتی رہے گی۔‘‘ عرض کی گئی یارسول اﷲﷺ! رمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل و رسوا ہونا کیا ہے؟ فرمایا اس ماہ میں ان کا حرام کاموں کا کرنا، پھر ارشاد فرمایا جس نے اس ماہ میں زنا کیا، یا شراب پی تو اگلے رمضان تک اﷲ تعالیٰ اور جتنے آسمانی فرشتے ہیں سب اس پر لعنت کرتے ہیں۔ پس اگر یہ شخص اگلے ماہ رمضان کو پانے سے پہلے ہی مرگیا تو اس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچا سکے۔ پس تم ماہ رمضان کے معاملے میں ڈرو کیونکہ جس طرح اس ماہ میں اور مہینوں کے مقابلے میں نیکیاں بڑھا دی جاتی ہیں، اسی طرح گناہوں کا بھی معاملہ ہے (طبرانی معجم صغیر جلد اول صفحہ نمبر ۲۴۸)۔
اس ماہِ مُبارَک میں کلمہ شریف زیادہ تعداد میں پڑھ کر اوربار بار اِستغفار یعنی خوب توبہ کے ذَرِیعے اللہ تَعَالٰی کو راضی کرنے کی سعی (کوشِش) کرنی ہے اور اللہ تَعَالٰی سے جنت میں داخلے اور جہنَّم سے پناہ کی بہت زیادہ التجائیں کرنی ہیں ۔
جہاں ماہ رمضان کے فضائل و برکات ہیں وہاں اس ماہ کی تعظیم و توقیر نہ کرنے والوں کے لئے بہت شدید عذاب کی وعید ہے لہذا ہم سے جس قدر ہوسکے، اس ماہ مقدس کی تعظیم و توقیر کرنی چاہئے۔ ہم ناتواں ہیں۔ اگر عبادت زیادہ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر گناہوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کریں۔
No comments:
Post a Comment