حضور سرکارِ دو عالم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں جن عورتوں کو زوجیت کا شرف حاصل ہو احق سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی نسبت کی بنا پر ان کو "امہات المؤمنین" فرمایا ہے۔ یعنی مومنوں کی مائیں ۔
ترجمۂ کنز الایمان: یہ نبی کریم ﷺ ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ نزدیک ہیں اور ان کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں۔(پ ۲۱، احزاب :۴)۔
سب سے پہلے حُضُورپُرنورصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے عقدِنکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہیں،آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد،والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔(اسد الغابہ،ج ۷، ص۸۱) ۔
آپ کی کنیت اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے ۱۵ سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
نسب شریف:سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴٦۴)۔
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہاو صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امرائہ فرعون ہیں ۔ (المسندللامام احمدبن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث۲۹۰۳،ج۱،ص ٦۷۸)۔
آپ رسول اﷲﷺکی سب سے پہلی بیوی اور رفیقہ حیات ہیں یہ خاندان قریش کی بہت ہی باوقار و ممتاز خاتون ہیں ۔ان کی شرافت اور پاک دامنی کی بنا پر تمام مکہ والے ان کو ""طاہرہ"" کے لقب سے پکارا کرتے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اخلاق و عادات اور جمال صورت و کمال سیرت کو دیکھ کر خود ہی آپ سے نکاح کی رغبت ظاہر کی چنانچہ اشراف قریش کے مجمع میں باقاعدہ نکاح ہوا یہ رسول ﷺ کی بہت ہی جاں نثار اور وفا شعار بیوی ہیں اور حضور اقدس ﷺ کو ان سے بہت ہی بے پناہ محبت تھی چنانچہ جب تک یہ زندہ رہیں آپ ﷺ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور یہ مسلسل پچیس سال تک محبوب خدا کی جاں نثاری و خدمت گزاری کے شرف سے سرفراز رہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد ﷺ اپنی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا، ج۴،ص۳٦۳ والاستیعاب ،کتاب النساء ۳۳۴۷،خدیجہ بنت خویلد،ج۴،ص۳۷۹)۔
بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النسائ...الخ،ذکرخدیجۃ بنت خویلد،ج۸،ص ۱۳)۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں ۔(السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النسائ،خدیجۃ بنت خویلد،ج۷،ص۹۱)۔
سب سے پہلے حضورﷺکی نبوت پر یہی ایمان لائیں اور ابتداءِ اسلام میں جب کہ ہر طرف آپ ﷺ کی مخالفت کا طوفان اٹھا ہوا تھا ایسے خوف ناک اور کٹھن وقت میں صرف ایک حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ہی ذات تھی جو پروانوں کی طرح حضور ﷺ پر قربان ہورہی تھیں اور اتنے خطرناک اوقات میں جس استقلال و استقامت کے ساتھ انہوں نے خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اس خصوصیت میں تمام ازواج مطہرات پر ان کو ایک ممتاز فضیلت حاصل ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں۔(صحیح البخاری ، کتاب فضائل أصحاب النبي ، باب تزويج النبي صلي الله عليه وسلم خديجة و فضلها ، ج : ۳، ص : ۱۳۸۸)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں، جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجئے، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی۔(صحیح البخاری ، کتاب فضائل أصحاب النبي ، باب تزويج النبي صلي الله عليه وسلم خديجة و فضلها ، ج : ۳، ص : ۱۳۸۹)۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں ۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۳)۔
آپؓ رضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا بوقتِ وصال آپؓ کی عمر مبارک ۶۵ برس تھی۔آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ خود نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے آپؓ کی قبرِ انور میں اُتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے آپؓ کو سپرد خاک فرمایا اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے انکی نماز نہیں پڑھائی۔آپؓ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔جس سال آپؓ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا۔
No comments:
Post a Comment