Tuesday, April 16, 2019

حضرت ہود علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی قوم پر عذاب

حضرت ہود علیہ السلام

حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے آٹھ سو سال بعد تشریف لائے اور چار سو چونسٹھ سال اس دنیا میں ظاہری حیات میں رہے اور پھر اس دنیا فانی سے رحلت فرمائی اور حیات جاودانی حاصل کی۔

حضرت ہود علیہ السلام کی اپنی قوم کو تبلیغ


کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(پ۸ سوۃ اعراف ۶۵)۔
کیا تمہیں ڈر نہیں؟ یعنی آپ نے ان کے ڈرنے کو بعید سمجھا اور گویا یہ کہا کہ تم ڈرتے ہی نہیں ہو۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو عذاب دیا جاچکا ہے، جس کا تمہیں علم ہے اگر تمہیں کچھ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ڈر اور خوف ہوتا تو ضرور تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتے، بت پرستی کی حماقت نہ کرتے۔ ہود علیہ السلام نے جب ان کو شرک سے باز رہنے بت پرستی کو چھوڑنے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو قوم نے آپ کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے تین سال تک بارش روک لی، قحط سالی پڑ گئی، ان کی عورتوں کو بھی تین سال تک بانجھ کردیا ان کے بچوں کی پیدائش معطل ہوگئی۔ آپ نے قوم کو کہا: کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، رب تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو اور اللہ تعالیٰ کی طرف خشوع و خضوع سے رجوع کرو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں زور کی بارش عطا کردے گا اور تمہیں کثیر مال عطا کرے گا اور تمہیں بیٹے عطا کرے گا اور تمہارے لیے بارش سے نہریں اور باغات بنائے گا اور تمہیں پہلے سے زیادہ طاقتور بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دینی اور دیناوی نعمتیں عطا فرماتا ہے، اگرچہ دیناوی نعمتوں کی کوئی حیثیت نہیں لیکن انسانی فطرت ہے کہ وہ دنیا میں رہنے اور دیناوی نعمتوں کو دیکھنے کی وجہ سے ان کی طرف زیادہ رغبت کرتا ہے اور چونکہ وہ لوگ کھیتی باڑی اور باغبانی کے کام کرتے تھے اس لیے ان کے لیے اسی قسم کی نعمتوں کا ذکر کرنا ہی مناسب تھا۔

قوم عاد کی طاقت


قوم عاد کے چھوٹے قد نوے فٹ اور بڑے قد ایک سو پچاس فٹ تھے،اسی وجہ سے اپنے جسموں اور طاقت کے گھمنڈ میں یہ کہتے تھے کہ ہم سے کوئی طاقتور نہیں، ہم پہاڑ سے بڑے بڑے پتھر، چٹانیں اٹھاکر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں، اگر عذاب ہمارے سامنے آگیا تو ہم اسے اپنے ہاتھوں سے روک لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم اپنی طاقت پر ناز کرتے ہو کبھی میری طاقت کو بھی تصور میں لایا کرو، میری طاقت کے مقابل کسی کو کوئی مجال نہیں۔ (جلالین ص۳۹۸، وتفسیر صاوی علی الجلالین) ۔

قوم عاد پر عذاب


س قوم پر سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار شدید آندھی چلی صرف اس میں گرج تھی، بارش نہیں تھی وہی لوگ جو بادلوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ عذاب تو ہم اپنی طاقت سے ٹال دیں گے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ شدید گرجنے والی آندھی فضا میں حیوانوں اور پرندوں کو اڑارہی ہے تو یہ اپنے مکانوں میں داخل ہوگئے تاکہ اس آندھی کی شدت سے بچ سکیں، لیکن سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرشتہ کو حکم دیا جو ہوائیں چلانے پر مقرر ہے کہ عاد کی قوم پر اپنے ہواؤں کے خزانے سے اتنی مقدار میں ہوا کو کھول دے جتنی مقدار ایک انگوٹھی کی ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ کے خزانوں میں سے یہ ہوا بظاہر معمولی تھی لیکن دنیا میں ہولناک طوفان تھی۔ تباہ کن آندھی تھی۔ سب سے پہلے ایک عورت نے دیکھا کہ ہوا میں مجھے آگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں۔ اس ہوا نے ان کے مکانوں کے دروازے گرادیے۔ریت کے ٹیلوں میں دب جاتے، یہ سلسلہ سات راتیں آٹھ دن مسلسل رہا، کسی وقت بھی آندھی نہ رکی وہ سب تباہ و برباد ہوگئے، بڑے بڑے قدوں والے اپنی طاقت پر ناز کرنے والے رب تعالیٰ کی گرفت میں جب آئے تو ایسے برباد ہوئے کہ مرے ہوئے یوں نظر آرہے تھے کہ یہ کھجوروں کے تنے گرے ہوئے ہیں۔ رب کی عظیم قدرت کا اندازہ کیجیے! جہاں کفار کو تباہ برباد کردیا وہاں ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی۔ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کے ارد گرد خط کھینچ دیا وہ شدید آندھی انہیں خوشگوار موسم بہار کی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ٹھنڈی سہانی ہوا محسوس ہو رہی تھی۔ کفار گر گر کر تباہ ہو رہے تھے۔ ان کی گردنیں ٹوٹ رہی تھیں۔ ریت کے ٹیلوں میں دب رہے تھے، لیکن اللہ والے، نبی پر ایمان لانے والے، اسی آندھی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سبحان اللہ مولائے کائنات کی قدرت کا انسان کیسے اندازہ کرسکتا تھا؟ اس کی حکمتوں سے وہ خود ہی واقف ہے۔
االلہ تعالیٰ ایمان پر قائم و دائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور انبیائے کرام کی شان میں گستاخی سے بچائے۔(تذکرۃ الانبیاء)۔
copywrites © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...