امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
کوفہ(عراق) وہ مبارک شہر ہےجسےستّر اصحابِِ بدراوربیعتِ رضوان میں شریک تین سوصحابۂ کرام نےشرفِ قیام بخشا۔ آسمانِ ہدایت کے ان چمکتے دمکتے ستاروں نے کوفہ کو علم وعرفان کاعظیم مرکزبنایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر اِسے کنز الایمان(ایمان کا خزانہ)اورقبۃُ الاسلام(اسلام کی نشانی) جیسے عظیم الشان القابات سے نوازا گیا۔جب۸۰ہجری میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ہوئی تو اس وقت شہر کوفہ میں ایسی ایسی ہستیاں موجود تھیں جن میں ہر ایک آسمان ِ علم پر آفتاب بن کرایک عالم کو منوّر کررہا تھا۔امامِ اعظم کانام نُعمان اور کُنْیَت ابُوحنیفہ ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ابتداء میں قراٰن پاک حفظ کیاپھر ۴۰۰۰ علما و محدّثین کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام سے علمِ دین حاصل کرتے کرتے ایسے جلیل القدرفقیہ و محدِّث بن گئے کہ ہر طرف آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے چرچے ہو گئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےصَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی ایک جماعت سے مُلاقات کا شَرَف حاصل فرمایا، جن میں سے حضرت سیّدنا انس بن مالک،حضرت سیّدناعبداللہ بن اوفیٰ، حضرت سیّدنا سہل بن سعد ساعدی اور حضرت سیّدنا ابوالطفیل عامر بن واصلہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا نام سرفہرست ہے۔ یوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو تابعی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نےامامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو ظاہری و باطنی حسن وجمال سے نوازا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہونے والے کلمات پھول کی پتیوں سے زیادہ نرم ہوتے اورلفظوں کی مٹھاس کانوں میں رَس گھول دیتی، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ رضائےالٰہی کو ہر شئی پر ترجیح دیتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علماو مشائخ کی اعانت پر زرِّ کثیر خرچ فرماتے۔
امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زہدوتقویٰ کےجامع،والدہ کے فرمانبردار، امانت و دیانت میں یکتا، پڑوسیوں سےحسنِ سلوک میں بے مثال تھے،بےنظیر سخاوت اورمسلمانوں کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی جیسےکئی اوصاف نے آپ کی ذات کونمایاں کردیاتھا۔
امام ِاعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم دن بھر علمِ دین کی اِشاعت، ساری رات عبادت ورِیاضت میں بَسرفرماتے۔آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے،تیس سال تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے، چالیس سال تک عِشا کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی، ہر دن اور رات میں قراٰن پاک ختم فرماتے، رمضان المبارک میں ٦۲قراٰن ختم فرماتے اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قراٰنِ پاک خَتْم کئے۔
امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۲ شعبان المعظم ۱۵۰ ہجری کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی پاداش میں زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے جنازے میں تقریبا ًپچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔لاکھوں شافعیوں کے امام حضرت سیّدنا امام شافِعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نےبغداد میں قیام کےدوران ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا: میں امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےبرکت حاصِل کرتا ہوں، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِمبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاس اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔ آج بھی بغدادشریف میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزارِ فائضُ الاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے۔
No comments:
Post a Comment