جنتی لاٹھی
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو ‘ عصاء موسیٰ ‘ کہتے ہیں اس کے ذریعہ آپ کے بہت سے ان معجزات کا ظہور ہوا جن کو قرآن مجید نے مختلف عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔اس مقدس لاٹھی کی تاریخ بہت قدیم ہے جو اپنے دامن میں سینکڑوں ان تاریخی واقعات کو سمیٹے ہوئے ہے جن میں عبرتوں اور نصیحتوں کے ہزاروں نشانات ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں جن سے اہل نظر کو بصیرت کی روشنی اور ہدایت کا نور ملتا ہے۔
یہ لاٹھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قد برابر دس ہاتھ لمبی تھی اور اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو رات میں مشعل کی طرح روشن ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔
چنانچہ حضرت سید علی اجہوزی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ:۔
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ عود (خوشبودار لکڑی )حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو عزت والی پیلو کی لکڑی کا تھا، انجیر کی پتیاں، حجر اسود جو مکہ معظمہ میں ہے اور نبی ء معظم حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی یہ پانچوں چیزیں جنت سے اتاری گئیں۔
۔ (تفسیر الصادی، ج۱، ص ٦۹، البقرۃ: ٦۰)۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد یہ مقدس عصاء حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو یکے بعد دیگرے بطور میراث کے ملتا رہا یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ملا جو ‘ قوم مدین ‘ کے نبی تھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں چراتے رہے۔ اس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکم خداوندی عزوجل کے مطابق آپ کو یہ مقدس عصاء عطا فرمایا۔
پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کیلئے روانہ ہوئے اور وادی مقدس مقام ‘ طویٰ ‘ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے آپ کو سرفراز فرما کر منصب رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔ اس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اس کو اس طرح بیان فرمایا کہ
وما تلک بیمینک یٰموسیٰ قال ھیَ عصای ج اتوکؤا علیھا و اھش بھا علیٰ غنمِی وَلی فیھَا ماٰرب اخریٰ (پ۱٦،طہ: ۱۷،۱۸)۔
ترجمہ کنزالایمان : اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے۔ میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اس میں اور کام ہیں۔
ماٰرب اخریٰ (دوسرے کاموں )کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات بن احمد نسفی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مثلاً
۔(۱)اس کو ہاتھ میں لے کر اس کے سہارے چلنا (۲)اس سے بات چیت کر کے دل بہلانا (۳)دن میں اس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا (۴)رات میں اس کی دونوں شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا (۵)اس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا (٦)کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا اور اس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا (۷)بوقت ضرورت اس کا درخت بن کر حسب خواہش پھل دینا (۸)اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ (مدارک التنزیل، ج۳، ص ۲۵۱، پ۱٦، طہ:۱۸)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس مقدس لاٹھی سے مذکورہ بالا کام نکالتے رہے مگر جب آپ فرعون کے دربار میں ہدایت فرمانے کی غرض سے تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو جادوگر کہہ کر جھٹلایا تو آپ کے اس عصا کے ذریعہ بڑے بڑے معجزات کا ظہور شروع ہو گیا، جن میں سے تین معجزات کا تذکرہ قرآن مجید نے بار بار فرمایا جو حسب ذیل ہیں:۔
عصا اژدھا بن گیا
عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا۔
عصا اژدھا بن گیا
اس کا واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک میلہ لگوایا اور اپنی پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کیلئے مقابلہ پر لگا دیا اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں ینسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنی جادو گروں کا سامان لیکر جمع ہو گیا اور ان جادوگروں کی فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بد مست ہو گئے اور جوش شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑے اور نہایت ہیبت ناک اژدہا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے اور با آواز بلند اعلان کرنا شروع کر دیا کہ
ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔
چنانچہ قرآن مجید نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :۔
ترجمہ کنز الایمان :۔بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اور ڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادو کا فریب ہے اور جادو کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادو گر سجدے میں گرا لئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔
۔(پ ۱٦ طہ ٦۵تا ۷۰)۔
نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شخم الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment