عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے
بنی اسرائیل کا اصل وطن ملک شام تھا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے دور حکومت میں یہ لوگ مصر میں آ کر آباد ہو گئے اور ملک شام پر قوم عمالقہ کا تسلط اور قبضہ ہو گیا۔ جو بدترین قسم کے کفار تھے۔ جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے خطرات سے اطمینان ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قوم عمالقہ سے جہاد کر کے ملک شام کو ان کے قبضہ و تسلط سے آزاد کرائیں۔ چنانچہ آپ چھ لاکھ بنی اسرائیل کی فوج لے کر جہاد کے لئے روانہ ہو گئے مگر ملک شام کی حدود میں پہنچ کر بنی اسرائیل پر قوم عمالقہ کا ایسا خوف سوار ہو گیا کہ بنی اسرائیل ہمت ہار گئے اور جہاد سے منہ پھیر لیا۔ اس نافرمانی پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ سزا دی کہ یہ لوگ چالیس برس تک‘ میدان تیہ ‘ میں بھٹکتے اور گھومتے پھرے اور اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ میدان تیہ میں تشریف فرما تھے۔ جب بنی اسرائیل اس بے آب و گیاہ میدان میں بھوک پیاس کی شدت سے بےقرار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان لوگوں کے کھانے کیلئے ‘ من و سلویٰ ‘ آسمان سے اتارا۔
مَن شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا، اور سلویٰ بھنی ہوئی بٹیریں تھیں۔ کھانے کے بعد جب یہ لوگ پیاس سے بےتاب ہونے لگے اور پانی مانگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مار دیا تو اس پتھر میں بارہ چشمے پھوٹ کر بہنے لگے اور بنی اسرائیل کے بارہ خاندان اپنے اپنے ایک چشمے سے پانی لے کر خود بھی پینے لگے اور اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے اور پورے چالیس برس تک یہ سلسلہ جاری ریا۔
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا جو عصا اور پتھر کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ اور معجزہ کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔
۔(پ۱، البقرۃ: ٦۰)۔
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا
حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مدت دراز تک فرعون کو ہدایت فرماتے رہے اور آیات و معجزات دکھاتے رہے مگر اس نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ اور زیادہ اس کی شرارت و سرکشی بڑھتی رہی اور بنی اسرائیل نے چونکہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا اس لئے اس نے ان مومنین کو بہت زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس دوران میں ایک دم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی اتری کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لیکر رات میں مصر سے ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات میں مصر سے روانہ ہو گئے۔
جب فرعون کو پتا چلا تو وہ بھی اپنے لشکروں کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی گرفتاری کیلئے چل پڑا۔ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو بنی اسرائیل فرعون کے خوف سے چیخ پڑے کہ اب تو ہم فرعون کے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کی پوزیشن بہت نازک ہو گئی کیونکہ ان کے پیچھے فرعون کا خونخوار لشکر تھا اور آگے موجیں مارتا ہوا دریا تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کو تسلی دے رہے تھے۔
جب دریا کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی لاٹھی دریا پر ماردو۔ چنانچہ جونہی آپ نے دریا پر لاٹھی ماری تو فوراً ہی دریا میں بارہ سڑکیں بن گئیں اور بنی اسرائیل ان سڑکوں پر چل کر سلامتی کے ساتھ دریا سے پار نکل گئے۔ فرعون جب دریا کے قریب پہنچا اور اس نے دریا کی سڑکوں کو دیکھا تو وہ بھی اپنے لشکروں کے ساتھ ان سڑکوں پر چل پڑا۔ مگر جب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو اچانک دریا موجیں مارنے لگا اور سب سڑکیں ختم ہو گئیں اور فرعون اپنے لشکروں سمیت دریا میں غرق ہو گیا۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے اس طرح بیان فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان: پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو انہوں نے آ لیا موسیٰ نے فرمایا۔ یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے پہاڑ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچا لیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو پھر دوسروں کو ڈبو دیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔
۔(پ۱۹، الشعراء: ٦۱تا ٦۷)۔
نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment