Tuesday, April 30, 2019

imam hassan r a[حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]

imam hassan r a[حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]
🌷کیا بات رضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی🌷
🌷زَہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول🌷

حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ


حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ولادتِ باسعادت ۱۵ رَمضانُ المبارَک ۳ہجری مدینۃالمنورہ میں ہوئی۔آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کامبارک نام : حسن ، کنیت : ابو محمد اورالقاب : تقی، سِبطِ رسولُ اللّٰہ،نقی،سید شباب اہل الجنتہ،شبیہ رسول ،سبط اکبر اور آپ کو رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل (یعنی رسولِ خدا کے پھول) بھی کہتے ہیں۔
حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ (امام ) حسن (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) سے بڑھ کر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے ملتا جلتا کوئی بھی شخص نہ تھا۔(بُخاری ج۲ص۵۴۷حدیث ۳۷۵۲)۔
امام المسلمین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ۔آپ بڑےحلیم،سلیم،رحیم،کریم،متواضع،منکسر، صابر،متوکل اور با وقار تھے،زہد و مجاہدۂِ نفس میں مشغول رہتےتھے۔ آپ سرورِ عالمﷺ کے فرمان کےمطابق آخری خلیفۂِ راشد ہیں۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سر سے سینہ تک رسول اللہ ﷺ کے بہت زیاد مشابہ تھے،اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سینے سے نیچے تک بہت زیادہ مشابہ تھے۔آپ نے پچیس حج پیدل کیے حالانکہ اعلیٰ نسل کے اونٹ اور گھوڑے دروازےپرموجودہوتے تھے۔بہت سخی تھے۔کئی مرتبہ اپنے گھر کاسارا سامان اللہ کی راہ میں تصدق کردیا۔یتیموں،مسکینوں ،اور بیواؤں کی کفالت نصب العین تھا۔

حضرت سیّدناابوبکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر پر جلوہ گر تھے اور ( امام) حسن بن علی (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو (یعنی برابر) میں تھے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی لوگوں کی طرف توجُّہ کرتے اورکبھی (امام) حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی طرف نظر فرماتے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ میرا یہ بیٹا سیِّد (یعنی سردار) ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی بدولت مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح فرمائے گا ‘‘۔(بخاری ج۲ ص۲۱۴حدیث ۲۷۰۴ )۔
امیر المؤمنین حضرتِ سیّدنا علی المرتضیٰ شیرخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی شہادت کے بعد حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تواہلِ کوفہ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے وہاں کچھ عرصہ قیام فرمایاپھر چند شرائط کے ساتھ اُمورِ خلافت حضرت ِسیّدنا امیرمعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کوسپرد فرمادئیے ۔ حضرت سیّدُنا امیرمعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے تمام شرائط قبول کیں اور باہم صلح ہوگئی۔ یوں تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ معجزہ ظاہرہواجو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایاتھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے اس فرزند کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرمائے گا۔ (سوانح کربلا ص ۹٦ملخصاً)۔
امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی عاجزی مرحبا! ترکِ خلافت کے صِلے میں، اللہ تَعَالٰی نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غوثِ اعظم کا رُتبہ عطا فرمایا۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ جلد ۲۸ صفحہ ۳۹۲پر علاّمہ علی قاری حنفی مکّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے حوالے سے نقل ہے : ’’ بے شک مجھے اکابِر ( یعنی بُزرگوں) سے پہنچا کہ سیِّدُنا امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب بخیال فتنہ و بلا ( یعنی مسلمانوں میں فساد ختم کرنے کے خیال سے) یہ خلافت ترک فرمائی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کے بدلے ان میں اور ان کی اولاد اَمجادمیں غوثِیّتِ عظمی کا مرتبہ رکھا۔ پہلے قطبِ اکبر ( غوثِ اعظم) خود حضور سیِّدُنا امام حسن ہوئے اور اوسط ( یعنی بیچ) میں صرف حضور سیدنا عبدُالقادر اور آخِر میں حضرت امام مہدی ہوں گے۔ ‘‘ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۸ ص ۳۹۲)۔

امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہر رات سُوْرَۃُ الْکَھْف کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہ مبارک سورت ایک تختی پرلکھی ہوئی تھی، آپ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنی جس زوجہ کے پاس تشریف لے جاتے یہ مبارک تختی بھی آپ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ہمراہ ہوتی ۔ (شعب الایمان ج۲ص۴۷۵حدیث۲۴۴۷)۔
حضرت سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو زہرد یا گیا۔ اُس زہر کا آپ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر ایسا اثر ہوا کہ آنتیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر خارِج ہونے لگیں، ۴۰روز تک آپ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سخت تکلیف رہی۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے سن اور تاریخ میں بڑا اختلاف ہے۔بعض قول کے مطابق ۲۸صفرالمظفر۴۹ھ ،ہے اور بعض قول کے مطابق ۵ربیع الاول۵۰ھ ہے۔
imam hassan r a[حضرتِ سیّدنا اما م ابو محمد حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ]
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو جنت البقیع میں (اپنی والدۂ ماجدہ کے پہلو میں) دفنایا گیا حضرت سیّدنا امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی آل (یعنی حَسَنی سیدوں) کا سلسلہ حضرت سیِّدُناحسن مثنیٰ اور حضرت سیِّدُنا زَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے چلا۔
copywrites © 2019,

Monday, April 29, 2019

ماہِ رمضان المبارک کے وظائف


ماہِ رمضان کی پہلی شب بعد نماز عشاء ایک مرتبہ سورہء فتح پڑھنا بہت افضل ہے۔
ماہِ رمضان کی پہلی شب بعد نماز تہجد آسمان کی طرف منہ کرکے بارہ مرتبہ یہ دعاء پڑھنی بہت افضل ہے۔

لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ الحَقُّ القَیُّومُ القآئِمُ عَلٰی کُلِّ نَفسٍ بِماَ کَسَبَت

اس کے پڑھنے والے کو بے شمار نعمتیں اللہ تعالٰی کی طرف سے عطا کی جائیگی۔

ماہِ رمضان المبارک میں روزانہ ہر نماز کے بعد اس دعائے مغفرت کو تین مرتبہ پڑھنا بہت افضل ہے۔

اَستَغفِرُاللہَ
العَظِیمَ الَّذِی لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الحَیُّ القَیُّومَ ط اِلِیہِ 
تَویَۃً عَبدٍ ظاَلِمٍ لاَ یَملِکُ نَفسِہ ضَرّاً وَّلاَ نَفعاً وَّلاَ 
مَوتاً وَّلاَ حَیاَۃً وَّلاَ نَشُورَا ط

رمضان شریف میں ہر نماز عشاء و تراویح کے بعد روزانہ
تین مرتبہ کلمہ طیّب پڑھنے کی بہت فضیلت ہے۔ اوّل مرتبہ پڑھنے سے گناہوں 
کی مغفرت ہوگی۔ دوسری دفعہ پڑھنے سے دوزخ سے آزاد ہونا۔تیسری بار پڑھنے سے 
جنّت کا مستحق ہوگا۔

ماہِ رمضان کی  شب میں بعد نمازِعشاء سات مرتبہ سورہء قدر پڑھنی بہت 
افضل ہے۔ انشاءاللہ تعالٰی اس کے پڑھنے سے ہر مُصیبت سے نجات حاصل ہوگی۔

پہلے عشرے میں یہ دعا کثرت سے پڑھیں

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُالرَّاحِمِیْنَ…

دوسرے عشرے کی دعا

اَسْتَغْفِرُاللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ…

اورتیسرے عشرے میں یہ کثرت سے پڑھیں

اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ…


Sunday, April 28, 2019

************ زکوٰۃ ************

زکوٰۃ اسلام کا تیسرارُکن اور مالی عبادت ہے ۔ قرآن مجید فرقانِ حمید کی متعدد آیاتِ مقدسہ میں زکوٰۃ اداکرنے والوں کی تعریف وتوصیف اور نہ دینے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ۔قرآنِ مجید میں نماز اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ۳۲مرتبہ ذکر آیا ہے۔زکوٰۃ کی فرضیت کتاب وسنّت سے ثابت ہے ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :ترجمۂ کنزالایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔(پ ۱،البقرۃ:۴۳)۔
ترجمۂ کنزالایمان :اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۳)۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے جب حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو یمن کی طر ف بھیجاتو فرمایا:ان کو بتاؤ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے مال داروں سے لے کر فقراء کو دی جا ئے ۔(سنن الترمذی،کتاب الزکاۃ ،باب ما جاء فی کراھیۃاخذ خیار المال فی الصدقۃ ،الحدیث٦۲۵،ج۲،ص۱۲٦)۔
حضورِ پاک، صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔(الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات ،باب الترغیب فی ادائِ الزکوٰۃ،الحدیث۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )۔
زکوٰۃ۲ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔زکوٰۃ کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ،اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔زکوۃ دینے والے پر رحمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی چھماچھم برسات ہوتی ہے۔ زکوٰۃ دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔زکوٰۃ دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سےچھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔ زکوٰۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔زکوٰۃ دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکوٰۃ دینی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔
زکوٰۃ نہ دینا مال کی بربادی کا سبب ہے ۔ زکوٰۃادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
رسول اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم نے فرمایا:’’جوقوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔(المعجم الاوسط ،الحدیث۴۵۷۷،ج۳،ص۲۷۵)۔
حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :’’زکوۃ نہ دینے والے پر رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلّم نے لعنت فرمائی ہے ۔‘‘(صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ،کتاب الزکاۃ،باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی...الخ،الحدیث ۲۲۵۰،ج۴،ص۸)۔
ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤدرد ناک عذاب کی جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاںاورکروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔ (پ۱۰،التوبۃ:۳۴،۳۵)۔
زکوٰۃ کی تعریف: شریعت اسلامیہ میں مسلمان کا اللہ تعالیٰ کیلئے مال کا مقرر کردہ حصہ کسی مسلمان مستحق کو مالک بناکر دینا زکوٰۃ کہلاتاہے۔زکوٰۃ کا لُغوی معنی طہارت ، افزائش (یعنی اضافہ اور برکت) ہے ۔ چونکہ زکوٰۃ بقیہ مال کے لئے معنوی طور پر طہارت اور افزائش کا سبب بنتی ہے اسی لئے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
ایسے مرد یا عورت جو مسلمان ، عاقل ، بالغ ہوں اور ان کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اس کے مساوی روپیہ یا کچھ سونا ہو اور کچھ چاندی ہو اور دونوں کو ملاکر چاندی کا نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ) ہوجائے یا کچھ سونا ہو اور کچھ روپیہ ہو اور دونوں کو ملاکر چاندی کا نصاب بن جائے، یا کچھ چاندی ہو اور کچھ روپیہ ہو اور دونوں کو ملاکر چاندی کا نصاب بن جائے۔ اور یہ تمام (سونا ، چاندی ، روپیہ) حاجت اصلیہ یعنی اس کی ضرورت سے فارغ ہوں اور اس پر چاندکی تاریخ کے اعتبار سے ایک سال بیت جائے تو ایسے مرد یا عورت پر زکوٰۃ فرض ہے۔ کل مال کا تخمینہ لگا کر اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دی جائے ، یعنی ایک لاکھ روپے ہے اس کی مالیت پر ڈھائی ہزار روپے زکوٰۃ دی جائے۔
زکوٰۃ کس کو دیں:مسلمان ، عاقل ، بالغ کو جو مستحق زکوٰۃ ہویعنی اس کے پاس اپنی حاجت اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی رقم نہ ہو،چچا، چچی،خالو، خالہ ، پھوپھا پھوپھی،مامو ، ممانی ،بھائی۔ بہن اور ان تمام رشتداروں کی اولاد کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے والے طالب علم کوبھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔مسافر اگر چہ مالدار ہو لیکن سفر میں اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ایسے شخص کو بقدر ضروت زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ایسا شخص جو مالک نصاب ہے لیکن اس نے اپنا مال کسی کو قرض دیا ہے اور خود مفلس ہوگیا تو ایساشخص بھی بقدرت ضرورت زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔داماد اور بہو کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔ نوٹ: مندرجہ بالا تمام کامستحق ہونا شرط ہے اگر مالدار ہوں تو ان کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ۔
حاجت اصلیہ: یعنی وہ اشیاء جن کی انسان کو زندگی بسر کرنے کیلئے ضرورت ہو ۔ جیسے رہنے کیلئے مکان، پہننے کیلئے کپڑے ، کھانے کیلئے اشیائے خوردو نوش ، خانہ داری کا سامان برتن وغیرہ ، سواری کیلئے گاڑی ، موٹر سائیکل، سائیکل ، پیشہ ور افراد کے اوزار اہل علم حضرات کیلئے ضرور ت کی کتابیں ، ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔
اِن مسلمانوں کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اگرچہ شرعی فقیر ہوں:بنوہاشم (یعنی ساداتِ کرام)چاہے دینے والاہاشمی ہو یا غیر ہاشمی،اپنی اَصل (یعنی جن کی اولاد میں سے زکوٰۃ دینے والا ہو)جیسے ماں ، باپ ، دادا،دادی ، نانا،نانی وغیرہ،اپنی فروع (یعنی جو اس کی اولاد میں سے ہوں ) جیسے بیٹا، بیٹی، پوتا ،پوتی، نواسا ، نواسی وغیرہ،میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور غنی کے نابالغ بچے(کیونکہ وہ اپنے باپ کی وجہ سے غنی شمار ہوتے ہیں)۔
زکوٰۃادا کرتے وقت زکوٰۃ کے الفاظ بولنا ضروری نہیں فقط دل میں نیت ہونا کافی ہے چاہے زبان سے کچھ اور کہے ۔اسے تحفہ ، نذرانہ یا ہدیہ کہہ کربھی دی جاسکتی ہے بلکہ اگر کوئی شخص سخت ضرورت مند ہے زکوٰۃ کا مستحق بھی ہے لیکن وہ زکوٰۃ لینا نہیں چاہتا اور اسے زکوٰۃ کہہ کر دیں تو وہ نہیں لے گا تو اسے ادھار اور قرض کہہ کر دے دی جائے اور نیت زکوٰۃ کی ہو تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گا۔
جب سال پورا ہوجائے تو فوراً زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے اور تاخیر گناہ ،خواہ کوئی بھی مہینہ ہو اور اگر سال تمام ہونے سے پہلے پیشگی ادا کرنا چاہے تو رمضان المبارک میں ادا کرنا بہتر ہے جس میں نفل کا فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستّر فرضوں کے برابر ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل صاحبِ نصاب مسلمانوں کو خوشدِلی سے زکوٰۃ مستحیقین کو دینے کی توفیق عطا فرما۔آمین

copywrites © 2019,

Saturday, April 27, 2019

* ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا *

حضور سرکارِ دو عالم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں جن عورتوں کو زوجیت کا شرف حاصل ہو احق سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی نسبت کی بنا پر ان کو "امہات المؤمنین" فرمایا ہے۔ یعنی مومنوں کی مائیں ۔
ترجمۂ کنز الایمان: یہ نبی کریم ﷺ ایمان والوں کی جانوں سے بھی زیادہ نزدیک ہیں اور ان کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں۔(پ ۲۱، احزاب :۴)۔

سب سے پہلے حُضُورپُرنورصلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے عقدِنکاح میں آنے والی خوش نصیب خاتون ام المؤمنین حضرت سیدتُنا خدیجۃُ الکبری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہیں،آپ کا نام خدیجہ بنتِ خویلد،والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔(اسد الغابہ،ج ۷، ص۸۱) ۔
آپ کی کنیت اُمِّ ھِند اور القاب الکبریٰ، طاھِرہ اور سَیِّدَۃُ قُرَیْش ہیں، آپ کی ولادت عامُ الفیل سے ۱۵ سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
نسب شریف:سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنتِ خویلد بن اسدبن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی۔ آپ کا نسب حضور پر نور شافعِ یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے نسب شریف سے قصی میں مل جاتا ہے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن العصم قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھیں ۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی، ج۲،ص۴٦۴)۔
مسند امام احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سب سے افضل سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،سیدہ فاطمہ بنت محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہاو صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ،حضرت مریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ تعالیٰ عنہا امرائہ فرعون ہیں ۔ (المسندللامام احمدبن حنبل،مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث۲۹۰۳،ج۱،ص ٦۷۸)۔
آپ رسول اﷲﷺکی سب سے پہلی بیوی اور رفیقہ حیات ہیں یہ خاندان قریش کی بہت ہی باوقار و ممتاز خاتون ہیں ۔ان کی شرافت اور پاک دامنی کی بنا پر تمام مکہ والے ان کو ""طاہرہ"" کے لقب سے پکارا کرتے تھے انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اخلاق و عادات اور جمال صورت و کمال سیرت کو دیکھ کر خود ہی آپ سے نکاح کی رغبت ظاہر کی چنانچہ اشراف قریش کے مجمع میں باقاعدہ نکاح ہوا یہ رسول ﷺ کی بہت ہی جاں نثار اور وفا شعار بیوی ہیں اور حضور اقدس ﷺ کو ان سے بہت ہی بے پناہ محبت تھی چنانچہ جب تک یہ زندہ رہیں آپ ﷺ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور یہ مسلسل پچیس سال تک محبوب خدا کی جاں نثاری و خدمت گزاری کے شرف سے سرفراز رہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی وفات کے بعد ﷺ اپنی محبوب ترین بیوی حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کرتے تھے کہ خدا کی قسم! خدیجہ سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی جب سب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اس وقت وہ مجھ پر ایمان لائیں اور جب سب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اس وقت انہوں نے میری تصدیق کی اور جس وقت کوئی شخص مجھے کوئی چیز دینے کے لئے تیار نہ تھا اس وقت خدیجہ نے مجھے اپنا سارا سامان دے دیا اور انہیں کے شکم سے اﷲ تعالیٰ نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حضرت خدیجہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا، ج۴،ص۳٦۳ والاستیعاب ،کتاب النساء ۳۳۴۷،خدیجہ بنت خویلد،ج۴،ص۳۷۹)۔
بوقتِ نکاح سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر چالیس برس اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی۔(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،تسمیۃ النسائ...الخ،ذکرخدیجۃ بنت خویلد،ج۸،ص ۱۳)۔

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے ہوئی۔ بجز حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئے۔ فرزندوں میں حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسمائے گرامی مروی ہیں جب کہ دختران میں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہن ہیں ۔(السیرۃالنبویۃلابن ہشام،حدیث تزویج رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم خدیجۃ، اولادہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم من خدیجۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا،ص۷۷۔اسدالغابۃ،کتاب النسائ،خدیجۃ بنت خویلد،ج۷،ص۹۱)۔
سب سے پہلے حضورﷺکی نبوت پر یہی ایمان لائیں اور ابتداءِ اسلام میں جب کہ ہر طرف آپ ﷺ کی مخالفت کا طوفان اٹھا ہوا تھا ایسے خوف ناک اور کٹھن وقت میں صرف ایک حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی ہی ذات تھی جو پروانوں کی طرح حضور ﷺ پر قربان ہورہی تھیں اور اتنے خطرناک اوقات میں جس استقلال و استقامت کے ساتھ انہوں نے خطرات و مصائب کا مقابلہ کیا اس خصوصیت میں تمام ازواج مطہرات پر ان کو ایک ممتاز فضیلت حاصل ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہ ہیں۔(صحیح البخاری ، کتاب فضائل أصحاب النبي ، باب تزويج النبي صلي الله عليه وسلم خديجة و فضلها ، ج : ۳، ص : ۱۳۸۸)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! یہ خدیجہ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں، جب یہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجئے، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی۔(صحیح البخاری ، کتاب فضائل أصحاب النبي ، باب تزويج النبي صلي الله عليه وسلم خديجة و فضلها ، ج : ۳، ص : ۱۳۸۹)۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا اکثر ذکر فرماتے رہتے تھے۔ بعض اوقات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم بکری ذبح فرماتے اور پھر اس کے گوشت کے ٹکڑے کرکے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے گھر بھیجتے صرف اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیاں تھیں ۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضائل خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہا،الحدیث ۲۴۳۵،ص۱۳۲۳)۔

آپؓ رضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہَا کا وصال بعثت (یعنی اعلانِ نبوت)کے دسویں سال دس رمضان المبارک میں ہوا بوقتِ وصال آپؓ کی عمر مبارک ۶۵ برس تھی۔آپ مکہ مکرمہ کے قبرستان جَنَّتُ الْمَعْلٰی میں مدفون ہیں۔ خود نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے آپؓ کی قبرِ انور میں اُتر کر اپنے مقدس ہاتھوں سے آپؓ کو سپرد خاک فرمایا اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے انکی نماز نہیں پڑھائی۔آپؓ کی وفات پر رحمتِ عالمیان صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم بہت غمگین ہوئے۔جس سال آپؓ کی وفات ہوئی اسے ’’عام الحزن(غم کا سال)‘‘قرار دیا۔

copywrites © 2019,

Friday, April 26, 2019

huzoor ghous ul azam sheikh abdul qadir jilani R.A[ حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ ]

huzoor ghous ul azam sheikh abdul qadir jilani R.A[ حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ  ]
اللہ عزوجل قرآنِ مجیدمیں ارشادفرماتاہے
ترجمہ کنزالایمان:سن لوبے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم

حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ

حضور غوث پاک علیہ رحمۃ کا نام مبارک عبدالقادر ہے۔کنیت: ابومحمد ہے اور القابات:محی الدین،محبوبِ سبحانی،غوثُ الثقلین، غوثُ الاعظم،پیران پیر،دستگیر،وغیرہ ہیں-آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والدماجدکی نسبت سے حسنی سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سید ہیں یعنی آپ رحمۃ اللہ علیہ حسنی حسینی سید ہیں۔
غوثُ العٰظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت پر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بمع صحابہ کرام ، آئمہ کرام و اولیاء عظام آپ کے والد محترم کو بشارت دی کہ:اے ابو صالح !اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اوروہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہوگی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔ (سیرت غوث الثقلین،ص۵۵بحوالہ تفریح الخاطر)۔

وقت ولادت کرامت:حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن ہی سے روزہ رکھا۔ سحری سے لے کر افطاری تک حضور غوثُ العٰظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہ پیتے تھے،چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ:جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا۔ (بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکر نسبہ وصفتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ص۱۷۲)۔
غوثُ العٰظم رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم کا نام مبارک حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے۔ ابو صالح ان کی(یعنی والد محترم کی )کنیت، سید موسی نام مبارک اور جنگی دوست لقب تھا۔ "جنگی دوست "لقب کی وجہ علماء کرام و اولیاء عظام بیان کرتے ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃًاللہ عزوجل کی رضاکے لئے نفس کشی اورریاضتِ شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کے لئے مشہورتھے،اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔
حضور غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی امی جان کا نام مبارک حضرت فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیھا ہے ۔ جو کہ حیاء کا نمونہ ، تقوی کی شان سے مزین،پرہیز گاری میں یکتاۓ زمانہ،عبادت گزار ، اور ولایت کے اعلی مقام پر فائز تھیں۔

ولایت:حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ پیدائشی ولی اللہ تھے اور آپ کو اپنی ولایت کا علم کب ہوا اس کے بارےمیں بہجۃ الاسرار شریف میں ہے کہ حضور پرنور،محبوب سبحانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کسی نے پوچھا:آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟ارشاد فرمایا کہ:میری عمر دس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لئے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ فراخ کر دو۔(بہجۃالاسرار،ذکرکلمات اخبربھا۔الخ،ص۴۸)۔
بچپن میں والدِ محترم کا وصال ہوگیا تھا۔والدۂ ماجدہ کی آغوش میں تربیت پائی؛ اور انہوں نے تربیت کا حق ادا کردیا۔ دس سال کی عمر میں مکتب میں پڑھنے جاتے اپنے قصبہ جیلان میں قرآن حفظ کیا۔ جب عمراٹھارہ سال ہوئی تو تحصیل ِعلم کےلیے بغداد کاقصد کیا۔بغداد میں علم تجوید اور قراءتِ سبعہ میں مہارت حاصل کی۔ اسی طرح علمِ فقہ و اُصولِ فقہ؛ عرصۂ دراز تک بہت بڑے فقہاء مثلاً ابوالوفا علی بن عقیل حنبلی، ابوالخطاب محفوظ الکلوازنی الحنبلی، قاضی ابویعلیٰ، محمد بن الحسین بن محمدالفراء الحنبلی، قاضی ابوسعید؛ اور علمِ حدیث؛ محمد بن الحسن الباقلائی، ابو سعید محمد بن عبد الکریم بن حشیشا، محمد بن محمد الفرسی وغیرہ سے جب کہ علم ِادب ابو زکریا یحییٰ بن علی التبریزی سے حاصل فرمایا۔(قلائدالجواہر، ص۴)۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ سراپا سنت تھے آپ کا چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا ، اٹھنا اور بیٹھنا شریعت کا آئنہ دار تھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ ‎ جلد رونے والے، نہایت خوف والے، باہیبت،مستجاب الدعوات، کریم الاخلاق، خوشبودار پسینہ والے، بُری باتوں سے دُوررہنے والے، حق کی طرف لوگوں سے زیادہ قریب ہونے والے، نفس پر قابو پانے والے، انتقام نہ لینے والے، سائل کو نہ جھڑکنے والے، علم سے مہذب ہونے والے تھے، آداب شریعت آپ کے ظاہری اوصاف اور حقیقت آپ کا باطن تھا۔ (بہجۃالاسرار،ذکر شی من شرائف اخلاقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۰۱)۔
حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہر وقت ہر گھڑی اپنے خالق کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔شیخ ابو عبداللہ محمد بن ابو الفتح ہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ :میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چالیس سال تک خدمت کی، اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضوفرماکر دو رکعت نمازِنفل پڑھ لیتے تھے۔(بہجۃالاسرار،ذکرطریقہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱٦۴)۔
حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پندرہ سال تک رات بھر میں ایک قرآنِ پاک ختم کرتے رہے (بہجۃالاسرار،ذکرفصول من کلامہ...الخ،ص۱۱۸)۔اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روز ایک ہزار رکعت نفل ادا فرماتے تھے۔(تفریح الخاطر،ص۳٦)۔
قطب شہیر ،سیدنا احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کوئی ثانی نہیں۔( بہجۃالاسرار،ذکراحترام المشائخ والعلماء لہ وثنائہم علیہ،ص۴۴۴)۔

شیخ ابو سعود عبداللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں: “ہمارے شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مریدوں کے لئے قیامت تک اس بات کے ضامن ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی توبہ کئے بغیر نہیں مرے گا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرفضل اصحابہ و بشراھم، ص ۱۹۱)۔
حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے واعظ مبارک کی شان یہ تھی کہ آپ کے واعظ کو سننے کے لیے لاکھوں افراد کا مجمع ہوتا اور اولیاء عظام آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بیان مبارک کی برکتیں سمٹینے کثیر تعداد میں شریک ہوتے اور آپ کی آواز مبارک کی شان یہ تھی کہ جنتا اونچا آگے والے لوگ سنتے تھے اتنا اونچا سب سے آخر والے لوگ سنتے تھے ۔آپ کے واعظ میں بسا اوقات برکت دینے کے لیے انبیاء کرام اور سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جلوہ افروز ہوتے تھے۔

حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ کی کرامتوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا۔پیدائش سے لے کر دنیا سے پردہ کرنے تک آپ رحمۃ اللہ علیہ سراپا کرامت تھے۔ بلکہ بعد از وصال بھی آپ کی کرامتیں جاری و ساری ہیں اور اہل محبت آج بھی آپ کی کرامتوں سے اور فیض و جود و کرم سے مستفیض ہو رہے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی چند مشہور کرامتیں پیش ہیں:پیدا ہوتے ہی رمضان کے روزے رکھنا،جیلان شریف سے عرفات میں حاجیوں کو ملاحظہ کرنا،اللہ عزوجل نے تمام شہر آپ کے زیر تصرف اور زیر حکومت کر دیے ،مردوں کو ذندہ کر دینا، جن آپ کے ماتحت کر دیے گۓ،روشن ضمیری (یعنی اللہ کی عطا سے دلوں کے حال جان لینا)۔بیداری میں حضور سید عالم جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کا شرف ملنا،ایک ہی وقت میں کئی جگہ پر ظاہر ہو جانا،سات پُشتوں تک مریدوں پر نظر کرم اور اللہ کے حکم سے بعد از وصال زندوں کی طرح تصرف کرنا وغیرہ۔
huzoor ghous ul azam sheikh abdul qadir jilani R.A[ حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ  ]
حضور غوثُ العٰظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ۱۱ ربیع الثانی ۵٦۱ھ میں وصال فرمایا،حضور غوثُ العٰظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مزارِپُراَنوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔

copywrites © 2019,

Thursday, April 25, 2019

Ramadan Kareem[رمضان الکریم]

Ramadan Kareem[رمضان الکریم]

رمضان کریم

حضرتِ سیِّدُنااَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا :’’یہ رمضا ن تمہارے پاس آگیا ہے ،اس میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جا تے ہیں اور جہنم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی! ‘‘۔(مُعجَم اَوسَط ج۵ص۳٦٦حدیث۷٦۲۷)۔
ہمارے پیارے پیارے آقا، مکے مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے: ’’اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رَمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کہ کاش!پورا سال رَمضان ہی ہو۔ ‘‘(ابنِ خُزَیمہ ج۳ص۱۹۰حدیث۱۸۸٦)۔

رَمضان میں پانچ حروف ہیں ر،م،ض،ا،ن۔
ر سے مراد رَحمتِ الٰہی، میم سے مراد مَحبّتِ الٰہی ، ض سے مراد ضمانِ الٰہی، اَلِف سے امانِ اِلٰہی،ن سے نورِ الٰہی۔اور رَمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتی ہیں : روزہ، تراویح، تلاوتِ قراٰن، اِعتکا ف ، شبِ قَدر میں عبادات ۔تو جو کوئی صِدْقِ دِل سے یہ پانچ عبادات کرے وہ اُن پانچ اِنعاموں کا مستحق ہے۔ (تفسیر نعیمی ج۲ص۲۰۸)۔



اسلامی سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے۔ اس ماہ مبارک کی برکتوں کے تو کیا کہنے۔ جیسے ہی ماہ رمضان کا ہلال نظر آتا ہے۔ہر طرف نور ہی نور، ہوا، فضا اور موسم میں ایک عجیب سا کیف و سرور نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ آسمانوں سے رحمتوں کی بارش، زمین والوں پر ہر لمحہ نوازش، زمین پر معصوم ملائکہ کا نزول، عاصیوں کے لئے مغفرت کے پروانے تقسیم، نیکو کاروں کے لئے درجات میں بلندی کی بشارتیں، سحری کے ایمان افروز لمحات، افطار کی بابرکت گھڑیاں، دعائوں کی قبولیت کی ساعتیں، تراویح کی حلاوتیں، تہجد کی نماز کی چاشنی، تلاوت قرآن سے فضائوں کا گونجنا، نعت مصطفیﷺ سے مسلمانوں کا جھومنا، حالت روزہ میں دلوں کا جگمگانا، روزہ داروں کے پررونق چہرے، مساجد میں مسلمانوں کا جم غفیر، صدقات و خیرات و زکوٰۃ کا تقسیم ہونا، کوئی اشارہ مل رہا ہے، دل گواہی دے رہا ہے، خشوع و خضوع بڑھتا چلا جارہا ہے۔ عبادت کا ذوق و شوق بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یقینا یقینا کریم مہینہ جلوہ افروز ہوچکا ہے۔ کریم پروردگار جل جلالہ کے در سے، کریم رسول ﷺ کے صدقے میں، رمضان کریم تشریف لایا ہے۔
ہر مہینے میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وَقت میں عبادت ہوتی ہے، مَثَلاً بقر عید کی چند (مخصوص) تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ اَفضل ،مگر ماہِ رَمضان میں ہر دن اور ہَر َوقت عبادت ہوتی ہے۔ روزہ عبادت، اِفطار عبادت، اِفطارکے بعد تراویح کا اِنتِظار عبادت، تراویح پڑھ کر سحری کے اِنتِظار میں سونا عبادت،پھر سحری کھانا بھی عبادت، اَلْغَرَض ہر آن میں خدا(عَزّوَجَلَّ)کی شان نظر آتی ہے۔
رَمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ا ور فرض کا ثواب۷۰ گنا ملتا ہے۔رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں ۔( یعنی سحروافطار کے کھانے پینے کا)۔
قیامت میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا: مولیٰ( عَزّوَجَلَّ)! میں نے اِسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اور قراٰن عَرض کرے گا کہ یا ربّ(عَزّوَجَلَّ)! میں نے اِسے رات میں تلاوت و تراویح کے ذَرِیعے سونے سے روکا ۔

رمضان المبارک کے تین عشرے پہلا عشرہ رحمت دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔
اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ عَزّوَجَلَّ نے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ پارہ ۲ سورۃ البقرۃآیت ۱۸۵ میں مقد س قراٰن میں خدائے رَحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالی شان ہے۔
تَرجَمَۂ کَنْزُ الْاِیْمَان:رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینا پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔اللہ عَزّوَجَلَّ تم پر آسانی چاہتا ہے اورتم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ عَزّوَجَلَّ کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔
روزے کی فرضیت:توحیدو رِسالت کا اِقرارکرنے اور تمام ضروریاتِ دِین پر ایمان لانے کے بعدجس طرح ہر مسلمان پر نماز فرض قراردی گئی ہے اسی طرح رَمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد وعورت ) عاقل وبالغ پر فرض ہیں۔’’دُرِّمُخْتار‘‘میں ہے:روزے۱۰شعبانُ الْمُعَظَّم۲ھ کو فرض ہوئے۔(دُرِّمُخْتار و رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۳۸۳)۔

حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ سلطانِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’آدَمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جاتا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ۔ یعنی سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی جَزا میں خود دوں گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مزید ارشاد ہے: بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو صرف میری وَجہ سے تَرک کرتا ہے۔ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ، ایک اِفطار کے وَقت اور ایک اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ملاقات کے وَقت، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘ (مسلِم ص۵۸۰حدیث۱۱۵۱)۔
بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان کہا جاتا ہے ،اس سے قیامت کے دن روزہ دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہ ہوگا۔کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں ؟پس یہ لوگ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ کوئی اور اِس دروازے سے داخِل نہ ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پس پھر کوئی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔ (بُخاری ج۱ص٦۲۵حدیث۱۸۹٦)۔
جس نے ماہِ رَمضان کاایک روزہ بھی خاموشی اور سکون سے رکھا اس کے لئے جنت میں ایک گھرسبز زَبرجد یا سرخ یا قوت کا بنایا جائے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج ۱ ص ۳۷۹ حدیث ۱۷٦۸)۔
ہر شے کیلئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صَبْرہے۔ ( ابنِ ماجہ ج ۲ ص۳۴۷حدیث۱۷۴۵)۔
روزہ دار کا سونا عبادت اور ا س کی خاموشی تسبیح کرنا اور اس کی دعا قبول او را س کا عمل مقبول ہوتا ہے ۔(شُعَبُ الْایمان ج۳ ص۴۱۵حدیث۳۹۳۸)۔
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان میں روزانہ افطار کے وقت دس لاکھ ایسے گنہ گاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب ہوچکا تھا، نیز شب جمعہ اور روز جمعہ (یعنی جمعرات کو غروب آفتاب سے لے کر جمعہ کو غروب آفتاب تک) کی ہر ہر گھڑی میں ایسے دس دس لاکھ گنہ گاروں کو جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے جو عذاب کے حقدار قرار دیئے جاچکے ہوتے ہیں ۔(کنزالعمال جلد ۸ صفحہ نمبر ۲۲۳)۔

حضرت سَیِّدُناجابربن عبداللّٰہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ کون ومکان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ ذِی شان ہے: میری اُمت کو ماہِ رَمضان میں پانچ چیز یں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں :{۱} جب رَمَضانُ الْمبارَک کی پہلی رات ہوتی ہے تواللہ عَزّوَجَلَّ ان کی طرف رَحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ عَزّوَجَلَّ نظر رَحمت فرمائے اُسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا {۲} شام کے وَقت ان کے منہ کی بو (جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) اللہ تَعَالٰی کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے {۳} فرشتے ہر رات اور دن ا ن کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں {۴}اللہ تَعَالٰی جنت کو حکم فرماتاہے: ’’میرے (نیک ) بندوں کیلئے آراستہ ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مَشَقَّت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے‘‘{۵} جب ماہِ رَمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ عَزّوَجَلَّ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیا وہ لَیلَۃُ الَقَدْر ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارِغ ہوجاتے ہیں تواُنہیں اُجرت دی جاتی ہے۔‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۰۳حدیث۳٦۰۳)۔
حضرت سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’روزے کی حقیقت رُکنا‘‘ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں مَثَلاً معدے کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زَبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حکم الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی مخالفت سے روکے رکھناروزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گاتب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔‘‘ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۵۴،۳۵۳)۔

حضرت ضمرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالمﷺ کا فرمان ہے کہ ماہ رمضان میں گھر والوں کے خرچ میں کشادگی کرو کیونکہ ماہ رمضان میں خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہیں (کنزالعمال جلد ۸، صفحہ نمبر ۲۱٦)۔
حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے مروی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اُس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے کہ جس کے پاس میرا ذِکر کیاگیا تو اُس نے میرے اوپر دُرُود نہیں پڑھااوراُس شخص کی ناک مٹی میں مل جائے جس پر رَمضان کا مہینا داخل ہوا پھر اُس کی مغفرت ہونے سے قبل گزر گیا اور اس آدمی کی ناک مٹی میں مل جائے کہ جس کے پاس اس کے والدین نے بڑھاپے کو پالیا اور اس کے والدین نے اس کو جنت میں داخل نہیں کیا۔‘‘ (یعنی بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کر سکا) (مسنداحمد ج۳ص٦۱حدیث۷۴۵۵)۔
شبِ قدر:امام مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے جب پہلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ کو اپنی اُمّت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔ آپﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ جب گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (موطا امام مالک ص ۲٦۰)۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جب شب قدر ہوتی ہے، جبرئیل امین علیہ السلام ملائکہ کی جماعت میں اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو خدا تعالیٰ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو (اس کے لئے) دعا کرتے ہیں (بیہقی)۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائناتﷺ کا فرمان ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری، مشکوٰۃ)۔
اﷲ تعالیٰ کا کروڑہا کروڑ احسان ہے کہ رب کریم جل جلالہ نے اپنے حبیبﷺ کے صدقے وطفیل ہمیں شب قدر جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمیں اس رات کی قدر کرنی چاہئے اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرنی چاہئے تاکہ ہمیں بھی مغفرت کا پروانہ نصیب ہو۔

نمازِتراویح

Ramadan Kareem[رمضان الکریم]

اعتکاف

رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔اعتکاف کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ۔اعتکاف کرنے سے ہمیں شب قدر کو حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔اﷲ تعالیٰ اعتکاف کرنے والے کو اپنا مہمان بناتا ہیں کیونکہ اعتکاف کرنے کا ثواب اور اجر ایک مقبول عمرہ اور ایک حج کے برابر ملتا ہے ۔اور ایسا عمرہ اور حج جو اﷲ تعالیٰ کو قبول و منظور ہوتا ہے خواتین اپنے گھروں میں بھی ایک مخصوص جگہ بناکر اعتکاف کرسکتی ہیں ۔رمضان المبارک کی ہر رات کی ہر ساعت اتنی فضیلت اور قدر و منزلت کی حامل ہے کہ ہمارے لئے اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔حضور اکرمﷺ آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے تھے کیونکہ لیلتہ القدررمضان کی طاق راتوں میں ہوتی ہے جس میں ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷ اور ۲۹ کی راتیں شامل ہیں اور ان ہی راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرنے کا حکم ہے جس کی اہمیت اور فضیلت ہزارمہینوں کی عبادت کے برابر کا ثواب و اجر ہے۔
سحری کرنا سنت ہے:بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ کبھی سحری کرنے سے رہ جاتے ہیں تَوفخریہ یوں کہتے سنائی دیتے ہیں :’’ہم نے توآج بغیر سحری کے روزہ رکھا ہے۔! یہ فخرکا موقع ہرگز نہیں ، سحری کی سُنَّت چھوٹنے پرتو افسوس ہوناچاہیے کہ افسوس ! تاجدار رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ایک عظیم سنت چھوٹ گئی ۔
اہم بات:روزہ بند ‘‘کرنے کا تعلق اَذانِ فجر سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے،ہر ایک کو یہ بات ذِہن نشین کرنی ضروری ہے کہ اَذانِ فجر صبح صادِق کے بعد ہی دینی ہوتی ہے اور وہ ’’روزہ بند‘‘ کرنے کیلئے نہیں بلکہ صرف نمازِ فجر کیلئے دی جاتی ہے۔

سیدہ ام ہانی رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم نور مجسمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’میری امت ذلیل و رسوا نہ ہوگی جب تک ماہ رمضان کے حق کو ادا کرتی رہے گی۔‘‘ عرض کی گئی یارسول اﷲﷺ! رمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل و رسوا ہونا کیا ہے؟ فرمایا اس ماہ میں ان کا حرام کاموں کا کرنا، پھر ارشاد فرمایا جس نے اس ماہ میں زنا کیا، یا شراب پی تو اگلے رمضان تک اﷲ تعالیٰ اور جتنے آسمانی فرشتے ہیں سب اس پر لعنت کرتے ہیں۔ پس اگر یہ شخص اگلے ماہ رمضان کو پانے سے پہلے ہی مرگیا تو اس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچا سکے۔ پس تم ماہ رمضان کے معاملے میں ڈرو کیونکہ جس طرح اس ماہ میں اور مہینوں کے مقابلے میں نیکیاں بڑھا دی جاتی ہیں، اسی طرح گناہوں کا بھی معاملہ ہے (طبرانی معجم صغیر جلد اول صفحہ نمبر ۲۴۸)۔
اس ماہِ مُبارَک میں کلمہ شریف زیادہ تعداد میں پڑھ کر اوربار بار اِستغفار یعنی خوب توبہ کے ذَرِیعے اللہ تَعَالٰی کو راضی کرنے کی سعی (کوشِش) کرنی ہے اور اللہ تَعَالٰی سے جنت میں داخلے اور جہنَّم سے پناہ کی بہت زیادہ التجائیں کرنی ہیں ۔
جہاں ماہ رمضان کے فضائل و برکات ہیں وہاں اس ماہ کی تعظیم و توقیر نہ کرنے والوں کے لئے بہت شدید عذاب کی وعید ہے لہذا ہم سے جس قدر ہوسکے، اس ماہ مقدس کی تعظیم و توقیر کرنی چاہئے۔ ہم ناتواں ہیں۔ اگر عبادت زیادہ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر گناہوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کریں۔

copywrites © 2019,

Wednesday, April 24, 2019

کلام:مرحبا صد مرحبا! پھر آمدِ رَمضان ہے۔(استقبال ماہِ رمضان الکریم)۔

اَللّهُمَّ بَلِّغْنَا رَمَضَان

ازقلم:حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاری قادری رضوی دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ

مرحبا صد مرحبا! پھر آمدِ رَمضان ہے
کھل اٹھے مُرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے

یاخدا ہم عاصیوں پر یہ بڑا احسان ہے
زندگی میں پھر عطا ہم کو کیا رَمضان ہے

تجھ پہ صدقے جاؤں رَمضاں !تُو عظیم الشّان ہے
تجھ میں نازِل حق تعالیٰ نے کیا قراٰن ہے

ابر رحمت چھا گیا ہے اور سماں ہے نور نور
فضلِ رب سے مغفرت کا ہو گیا سامان ہے

ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں
ماہِ رَمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

آگیا رَمضاں عبادت پر کمر اب باندھ لو
فیض لے لو جلد یہ دن تیس کا مہمان ہے

عاصیوں کی مغفرت کا لے کر آیا ہے پیام
جھوم جاؤ مجرمو! رَمضاں مہِ غفران ہے

بھائیو بہنو! کرو سب نیکیوں پر نیکیاں
پڑگئے دوزخ پہ تالے قید میں شیطان ہے

بھائیوبہنو! گناہوں سے سبھی توبہ کرو
خلد کے در کھل گئے ہیں داخلہ آسان ہے

کم ہوا زورِ گنہ اور مسجدیں آباد ہیں
ماہِ رَمضانُ المبارَک کا یہ سب فیضان ہے

روزہ دارو ! جھوم جاؤ کیونکہ دیدارِ خدا
خلد میں ہوگا تمہیں یہ وعدۂ رحمٰن ہے

دو جہاں کی نعمتیں ملتی ہیں روزہ دار کو
جو نہیں رکھتا ہے روزہ وہ بڑا نادان ہے

یاالٰہی! تُو مدینے میں کبھی رَمضاں دکھا
مدّتوں سے دل میں یہ عطارؔ کے ارمان ہے

copywrites © 2019,

Tuesday, April 23, 2019

Hazrat Bibi Fatima Zahra R.A[حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا ]

Hazrat Bibi Fatima Zahra R.A[حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا ]

حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا

شہزادیٔ عالم، دختر ِ رسولِ مقبولﷺ،، ہمسرِ علیؓ ، مادرِ حسنین کریمینؓ، خاتونِ محشر، خاتونِ جنت، سیّدۃالنسا حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ولادت بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تقریباـ پانچ سال قبل ۲۰جمادی الثانی بروز جمعۃالمبارک کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
آپ سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کےبطن سے پیدا ہوئیں،اور رسولِ اکرم ﷺکی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا نام’ ’فاطِمہ‘‘ کنیت ُاُم الحسنین‘القابات’زہرا،بتول،سیّدۃ النساء،طیبہ،طاہرہ،زاہدہ۔عابدہ اور خاتونِ جنت وغیرہ ہیں۔
رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:۔میری بیٹی کا نام ’’فاطمہ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے سے آزاد کردیا ہے۔آپ کا بچپن اور زندگی کا ہر لمحہ نہایت ہی پاکیزہ تھا،کیونکہ آپ نے حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اُمُّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کی آغوشِ رحمت میں تربیت پائی،آپ دن رات اپنے والدین کی پاکیزہ زبان سے پاکیزہ اقوال سُنتیں،آپ نہایت عبادت گزار،متقی اور پاکباز خاتون تھیں،آپ اخلاق وعادات،گفتاروکردارمیں نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں ــــ’’میں نے اُٹھنے بیٹھنے اور عبادات و اطوار میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔‘‘ (ترمذی)۔

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ بے شک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:(ترجمہ) فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا اور اضطراب میں ڈالے گی مجھے وہ چیز جو اس کو اضطراب میں ڈالے اور دوسری روایت میں ہے کہ مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اس کو تکلیف دے۔(بخاری ، ۱:۵۳۲)۔
حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ فاطمہ کے غضبناک ہونے پر غضبناک ہوجاتا ہے اور اس کے راضی ہونے پر راضی ہوجاتا ہے۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط بسند صحیح ۱:۱۰۸و فی الکبیر شرح زرقانی ، ۴:۳۳۱و المستدرک ، ۳؍۱۵۴)۔
سن۲ھہجری میں غزوۂ بدر سے واپسی کے بعدماہِ رمضان میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی پیاری اور لاڈلی صاحبزادی کا نکا ح اللہ کے حکم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علیؓ سے کروں۔ (طبرانی)۔
حضور سیّدِ عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ روزِ قیامت ایک ندا ہوگی:ترجمہ: قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا پردہ میں سے اے محشر والو! اپنی نگاہوں کو جھکا لو اور اپنے سروں کو جھکا لو یہاں تک کہ سیّدہ فاطمہ بنتِ محمدﷺ گذر جائیں، چناں چہ سیّدہ ستر ہزار حوروں کے ساتھ برق کی طرح گزر جائیں گی۔ (المستدرک ، ۳:۱٦۱)۔

سیّدہ خاتونِ جنت،فاطمۃُ الزہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی شان و عظمت کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی شان میں تسبیحِ فاطمہ مقرر کی گئی،کیونکہ آپ گھریلو کام کاج خود اپنے ہاتھوں سے فرمایا کرتی تھیں اور اس کام میں آنے والی مشکلات اور تکالیف پر صبربھی کیا کرتیں،زندگی بھر کسی خادمہ کو نہیں رکھا۔
امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں غلام آئے،جب یہ خبرحضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو ملی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا بارگاہِ رسالت میں خادمہ مانگنے کے لئے حاضر ہوئیں تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ فرمایا:جب سونے کےلئے بستر پر جاؤ تو ۳۳مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، ۳۳مرتبہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ اور ۳۴مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر پڑھ لیا کرو۔یہ تمہارے لئے خادمہ سے بہتر ہے۔(کتاب الدعاء للطبرانی،باب القول عنداخذ المضاجع، حدیث:۲۳۱، ص۹۴)۔
Hazrat Bibi Fatima Zahra R.A[حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا ]


نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کےتقریباً ٦ ماہ بعد۳رمضانُ المبارک۱۱ہجری میں حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کاوصال ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہی وہ ہستی ہیں جن کے وجود کو مثال بنا کر اسلام نے عورت کی عظمت کو بیان کیا حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا عورت کو بخشے گئے مقام اور احترام کا اسلامی سمبل ہیں۔لیکن یہ امر باعث دکھ ہے کہ آج اسلام دشمن قوتیں مادر پدر آزادی کا جھانسہ دے کر عورت کو دوبارہ اسی دلدل میں دھکیلنا چاہتی ہیں خواتین اگر عزت سرخروئی چاہتی ہیں تو شیطانی قوتوں کے جھانسے میں آنے کی بجائے حضرت فاطمہ زہرارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرت کی پیروی کریں جو مشکلات میں اپنے والد گرامی آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سہارا بنیں کبھی جنگوں میں اپنے بابا کے زخم صاف کرتی رہیں ،اپنے شوہرکے ساتھ ہر سختی اور تنگی کو خوشدلی سے برداشت کیا کونین کے والی کی پیاری دختر چکیاں تک پیستی رہیں اور اولاد حضرت امام حسن و حسین و حضرت زینب و کلثوم کی ایسی تربیت کی کہ آپ کی اولاد نے تاریخ کے دہارے کو بدل ڈالا۔

اللہ عزوجل قوم کی ماؤں بہنوں بٹیوں کو سیرت فاطمہ زہرا ؑ پر چلنے کی توفیق مراحمت فرمائے ۔آمین۔۔۔۔

copywrites © 2019,

Monday, April 22, 2019

**** جنتی لاٹھی قرآنی واقعہ(پارٹ۲)۔ ****

عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے


بنی اسرائیل کا اصل وطن ملک شام تھا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے دور حکومت میں یہ لوگ مصر میں آ کر آباد ہو گئے اور ملک شام پر قوم عمالقہ کا تسلط اور قبضہ ہو گیا۔ جو بدترین قسم کے کفار تھے۔ جب فرعون دریائے نیل میں غرق ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے خطرات سے اطمینان ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ قوم عمالقہ سے جہاد کر کے ملک شام کو ان کے قبضہ و تسلط سے آزاد کرائیں۔ چنانچہ آپ چھ لاکھ بنی اسرائیل کی فوج لے کر جہاد کے لئے روانہ ہو گئے مگر ملک شام کی حدود میں پہنچ کر بنی اسرائیل پر قوم عمالقہ کا ایسا خوف سوار ہو گیا کہ بنی اسرائیل ہمت ہار گئے اور جہاد سے منہ پھیر لیا۔ اس نافرمانی پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ سزا دی کہ یہ لوگ چالیس برس تک‘ میدان تیہ ‘ میں بھٹکتے اور گھومتے پھرے اور اس میدان سے باہر نہ نکل سکے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ میدان تیہ میں تشریف فرما تھے۔ جب بنی اسرائیل اس بے آب و گیاہ میدان میں بھوک پیاس کی شدت سے بےقرار ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان لوگوں کے کھانے کیلئے ‘ من و سلویٰ ‘ آسمان سے اتارا۔
مَن شہد کی طرح ایک قسم کا حلوہ تھا، اور سلویٰ بھنی ہوئی بٹیریں تھیں۔ کھانے کے بعد جب یہ لوگ پیاس سے بےتاب ہونے لگے اور پانی مانگنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مار دیا تو اس پتھر میں بارہ چشمے پھوٹ کر بہنے لگے اور بنی اسرائیل کے بارہ خاندان اپنے اپنے ایک چشمے سے پانی لے کر خود بھی پینے لگے اور اپنے جانوروں کو بھی پلانے لگے اور پورے چالیس برس تک یہ سلسلہ جاری ریا۔
یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا جو عصا اور پتھر کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ اور معجزہ کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا۔
۔(پ۱، البقرۃ: ٦۰)۔

عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا


حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مدت دراز تک فرعون کو ہدایت فرماتے رہے اور آیات و معجزات دکھاتے رہے مگر اس نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ اور زیادہ اس کی شرارت و سرکشی بڑھتی رہی اور بنی اسرائیل نے چونکہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا اس لئے اس نے ان مومنین کو بہت زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اس دوران میں ایک دم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی اتری کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لیکر رات میں مصر سے ہجرت کر جائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات میں مصر سے روانہ ہو گئے۔
جب فرعون کو پتا چلا تو وہ بھی اپنے لشکروں کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی گرفتاری کیلئے چل پڑا۔ جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے تو بنی اسرائیل فرعون کے خوف سے چیخ پڑے کہ اب تو ہم فرعون کے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل کی پوزیشن بہت نازک ہو گئی کیونکہ ان کے پیچھے فرعون کا خونخوار لشکر تھا اور آگے موجیں مارتا ہوا دریا تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مطمئن تھے اور بنی اسرائیل کو تسلی دے رہے تھے۔
جب دریا کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی لاٹھی دریا پر ماردو۔ چنانچہ جونہی آپ نے دریا پر لاٹھی ماری تو فوراً ہی دریا میں بارہ سڑکیں بن گئیں اور بنی اسرائیل ان سڑکوں پر چل کر سلامتی کے ساتھ دریا سے پار نکل گئے۔ فرعون جب دریا کے قریب پہنچا اور اس نے دریا کی سڑکوں کو دیکھا تو وہ بھی اپنے لشکروں کے ساتھ ان سڑکوں پر چل پڑا۔ مگر جب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچ میں پہنچا تو اچانک دریا موجیں مارنے لگا اور سب سڑکیں ختم ہو گئیں اور فرعون اپنے لشکروں سمیت دریا میں غرق ہو گیا۔ اس واقعہ کو قرآن مجید نے اس طرح بیان فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان: پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں گروہوں کا موسیٰ والوں نے کہا ہم کو انہوں نے آ لیا موسیٰ نے فرمایا۔ یوں نہیں بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے اب راہ دیتا ہے تو ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ دریا پر اپنا عصا مار تو جبھی دریا پھٹ گیا تو ہر حصہ ہو گیا جیسے پہاڑ اور وہاں قریب لائے ہم دوسروں کو اور ہم نے بچا لیا موسیٰ اور اس کے سب ساتھ والوں کو پھر دوسروں کو ڈبو دیا بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں اکثر مسلمان نہ تھے۔
۔(پ۱۹، الشعراء: ٦۱تا ٦۷)۔

نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیا گیا ہے۔

copywrites © 2019,

Sunday, April 21, 2019

**** جنتی لاٹھی قرآنی واقعہ(پارٹ۱)۔ ****

جنتی لاٹھی

یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مقدس لاٹھی ہے جس کو ‘ عصاء موسیٰ ‘ کہتے ہیں اس کے ذریعہ آپ کے بہت سے ان معجزات کا ظہور ہوا جن کو قرآن مجید نے مختلف عنوانوں کے ساتھ بار بار بیان فرمایا ہے۔
اس مقدس لاٹھی کی تاریخ بہت قدیم ہے جو اپنے دامن میں سینکڑوں ان تاریخی واقعات کو سمیٹے ہوئے ہے جن میں عبرتوں اور نصیحتوں کے ہزاروں نشانات ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں جن سے اہل نظر کو بصیرت کی روشنی اور ہدایت کا نور ملتا ہے۔
یہ لاٹھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قد برابر دس ہاتھ لمبی تھی اور اس کے سر پر دو شاخیں تھیں جو رات میں مشعل کی طرح روشن ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ جنت کے درخت پیلو کی لکڑی سے بنائی گئی تھی اور اس کو حضرت آدم علیہ السلام بہشت سے اپنے ساتھ لائے تھے۔
چنانچہ حضرت سید علی اجہوزی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ:۔
ترجمہ: حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ عود (خوشبودار لکڑی )حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جو عزت والی پیلو کی لکڑی کا تھا، انجیر کی پتیاں، حجر اسود جو مکہ معظمہ میں ہے اور نبی ء معظم حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی یہ پانچوں چیزیں جنت سے اتاری گئیں۔
۔ (تفسیر الصادی، ج۱، ص ٦۹، البقرۃ: ٦۰)۔
حضرت آدم علیہ السلام کے بعد یہ مقدس عصاء حضرات انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو یکے بعد دیگرے بطور میراث کے ملتا رہا یہاں تک کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو ملا جو ‘ قوم مدین ‘ کے نبی تھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں چراتے رہے۔ اس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکم خداوندی عزوجل کے مطابق آپ کو یہ مقدس عصاء عطا فرمایا۔
پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کیلئے روانہ ہوئے اور وادی مقدس مقام ‘ طویٰ ‘ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے آپ کو سرفراز فرما کر منصب رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔ اس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اس کو اس طرح بیان فرمایا کہ

وما تلک بیمینک یٰموسیٰ قال ھیَ عصای ج اتوکؤا علیھا و اھش بھا علیٰ غنمِی وَلی فیھَا ماٰرب اخریٰ (پ۱٦،طہ: ۱۷،۱۸)۔
ترجمہ کنزالایمان : اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے۔ میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اس میں اور کام ہیں۔
ماٰرب اخریٰ (دوسرے کاموں )کی تفسیر میں حضرت علامہ ابو البرکات بن احمد نسفی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ مثلاً
۔(۱)اس کو ہاتھ میں لے کر اس کے سہارے چلنا (۲)اس سے بات چیت کر کے دل بہلانا (۳)دن میں اس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا (۴)رات میں اس کی دونوں شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا (۵)اس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا (٦)کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا اور اس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا (۷)بوقت ضرورت اس کا درخت بن کر حسب خواہش پھل دینا (۸)اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ (مدارک التنزیل، ج۳، ص ۲۵۱، پ۱٦، طہ:۱۸)۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس مقدس لاٹھی سے مذکورہ بالا کام نکالتے رہے مگر جب آپ فرعون کے دربار میں ہدایت فرمانے کی غرض سے تشریف لے گئے اور اس نے آپ کو جادوگر کہہ کر جھٹلایا تو آپ کے اس عصا کے ذریعہ بڑے بڑے معجزات کا ظہور شروع ہو گیا، جن میں سے تین معجزات کا تذکرہ قرآن مجید نے بار بار فرمایا جو حسب ذیل ہیں:۔
عصا اژدھا بن گیا
عصا مارنے سے چشمے جاری ہو گئے
عصا کی مار سے دریا پھٹ گیا۔

عصا اژدھا بن گیا


اس کا واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک میلہ لگوایا اور اپنی پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کیلئے مقابلہ پر لگا دیا اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں ینسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنی جادو گروں کا سامان لیکر جمع ہو گیا اور ان جادوگروں کی فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بد حواس ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بد مست ہو گئے اور جوش شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو ان سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑے اور نہایت ہیبت ناک اژدہا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے اور با آواز بلند اعلان کرنا شروع کر دیا کہ
ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔
چنانچہ قرآن مجید نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :۔
ترجمہ کنز الایمان :۔بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اور ڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادو کا فریب ہے اور جادو کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادو گر سجدے میں گرا لئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔
۔(پ ۱٦ طہ ٦۵تا ۷۰)۔

نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شخم الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیا گیا ہے۔

copywrites © 2019,

بارہ ہزار یہودی بندر ہو گئے(قرآنی واقعہ)۔

بارہ ہزار یہودی بندر ہو گئے

روایت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے ستر ہزار آدمی ‘ عقبہ ‘ کے پاس سمندر کے کنارے ‘ ایلہ ‘ نامی گاؤں میں رہتے تھے اور یہ لوگ بڑی فراخی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا اس طرح امتحان لیا کہ سینچر کے دن مچھلی کا شکار ان لوگوں پر حرام فرما دیا اور ہفتے کے باقی دنوں میں شکار حلال فرما دیا مگر اس طرح ان لوگوں کو آزمائش میں مبتلا فرما دیا کہ سینچر کے دن بے شمار مچھلیاں آتی تھیں اور دوسرے دنوں میں نہیں آتیں تھیں تو شیطان نے ان لوگوں کو یہ حیلہ بتا دیا کہ سمندر سے کچھ نالیاں نکال کر خشکی میں چند حوض بنا لو اور جب سینچر کے دن ان نالیوں کے ذریعہ مچھلیاں حوض میں آ جائیں تو نالیوں کا منہ بند کردو اور اس دن شکار نہ کرو بلکہ دوسرے دن آسانی کے ساتھ ان مچھلیوں کو پکڑ لو۔ ان لوگوں کو یہ شیطانی حیلہ بازی پسند آ گئی اور ان لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ جب مچھلیاں نالیوں اور حوضوں میں مقید ہو گئیں تو یہی ان کا شکار ہو گیا۔ تو سینچر ہی کے دن شکار کرنا پایا گیا جو ان کے لئے حرام تھا۔ اس موقع پر ان یہودیوں کے تین گروہ ہو گئے۔
۔(۱)۔کچھ لوگ ایسے تھے جو شکار کے اس شیطانی حیلہ سے منع کرتے رہے اور ناراض و بیزار ہو کر شکار سے باز رہے۔
۔(۲)۔اور کچھ لوگ اس کام کو دل سے برا جان کر خاموش رہے دوسروں کو منع نہ کرتے تھے بلکہ منع کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے۔
۔(۳)۔اور کچھ وہ سرکش و نافرمان لوگ تھے جنہوں نے حکم خداوندی کی اعلانیہ مخالفت کی اور شیطان کی حیلہ بازی کو مان کر سینچر کے دن شکار کر لیا اور ان مچھلیوں کو کھایا اور بیچا بھی۔
جب نافرمانوں نے منع کرنے کے باوجود شکار کر لیا تو منع کرنے والی جماعت نے کہا کہ اب ہم ان معصیت کاروں سے کوئی میل ملاپ نہ رکھیں گے چنانچہ ان لوگوں نے گاؤں کو تقسیم کر کے درمیان میں ایک دیوار بنالی اور آمد و رفت کا ایک الگ دروازہ بھی بنا لیا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر شکار کرنے والوں پر لعنت فرما دی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک دن خطا کاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا۔ تو انہیں دیکھنے کے لئے کچھ لوگ دیوار پر چڑھ گئے تو کیا دیکھا کہ وہ سب بندروں کی صورت میں مسخ ہو گئے ہیں۔ اب لوگ ان مجرموں کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے تھے اور انکے پاس آ کر ان کے کپڑوں کو سونگھتے تھے اور زار و زار روتے تھے، مگر لوگ ان بندر بن جانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان بندر بن جانے والوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ یہ سب تین دن تک زندہ رہے اور اس درمیان میں کچھ بھی کھا پی نہ سکے بلکہ یوں ہی بھوکے پیاسے سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ شکار سے منع کرنے والا گروہ ہلاکت سے سلامت رہا اور صحیح قول یہ ہے کہ دل سے برا جان کر خاموش رہنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہلاکت سے بچا لیا۔ (تفسیر الصاوی، ج۱، ص۷۲، پ۱، البقرۃ: ٦۵)۔
اس واقعہ کا اجمالی بیان تو سورہ بقرہ کی اس آیت میں ہے:۔
ترجمہ کنزالایمان: اور بےشک ضرور تمہیں معلوم ہے تم کے وہ جنہوں نے ہفتہ میں سرکشی کی تو ہم نے ان سے فرمایا کہ ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے۔
۔(پ۱، البقرۃ: ٦۵)۔
اور مفصل واقعہ سورۂ اعراف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی۔ جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے۔ جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے ان کی بے حکمی کے سبب اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا۔ بولے تمہارے رب کے حضور معذرت کو اور شاید انہیں ڈر ہو پھر جب وہ بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچا لئے وہ جو برائی سے منع کرتے تھے۔ اور ظالموں کو برے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کا۔ پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا ہو جاؤ بندر دھتکارے ہوئے۔ (پ۹، الاعراف: ۱٦۳ تا ۱٦٦)۔
نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیا گیا ہے۔
copywrites © 2019,

Saturday, April 20, 2019

**** تابوت سکینہ قرآنی واقعہ ****

یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخر زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔
پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔
یہ بڑا ہی مقدس اور با برکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہو جاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہو جاتے تھے۔ اور جس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصرٌ مّن اللہ و فَتحٌ قَریب کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہو جایا کرتی تھی۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔
الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوت سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرت خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہو گئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہو گیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کر دیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کر ڈالا اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔
لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دئیے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آ جائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کر لیں گے۔ چنانچہ صندوق آ گیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے۔ (تفسیر الصاوی، ج۱، ص۲۰۹۔ تفسیر روح البیان، ج۱، ص۳۸۵۔ پ۲، البقرۃ: ۲۴۷)۔

تابوت سکینہ میں کیا تھا ؟


اس مقدّس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے، کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔ (تفسیر روح البیان، ج۱، ص۳۸٦، پ۲، البقرۃ: ۲۴۸)۔
قرآن مجید میں خداوند قدوس نے سورہ بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :-
ترجمہ کنزالایمان: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہاری پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ۲، البقرۃ: ۲۴۸)۔
نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیا گیا ہے۔

copywrites © 2019,

Friday, April 19, 2019

حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

قطب العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت ۲۹شعبان المعظم یا ۱رمضان المبارک ۵٦۹ھ میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں ہوئی۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام مسعود اور القاب فریدالدین،زہدالانبیاء،گنج شکر،سلطان العارفین اور غیاث الہند یہ چند مشہور القابات ہیں۔آپؒ کے ۱۰۱ نام و القابات ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا سلسلہ نصب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے۔
آپؒ کا خاندانی تعلق کابل کے بادشاہ فرخ شاہ سے تھا۔آپؒ کے والد کا نام شیخ جمالالدین سلیمانؒ اور والدہ بی بی قرسم خاتونؒ ہے۔"سیرالمصنفین" کے مطابق آپ کے والدِ گرامی سلطان محمود غزنوی کے کے بھانجے تھے۔
آپؒ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دستِ حق پرست پربیعت ہوئے،اور سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حکم سے خلافت سے سرفراز کیے گئے۔اس کے علاوہ آپ حضرت سلطان الہند اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے فیوض سے بھی مستفید ہوئے۔



کرامت


زہدالانبیاء حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو گنج شکر کہنے کی کئی وجوہات مشہور ہیں جن میں ایک یہ ہے،شیخ فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب مجاہدہ کرنا چاہا تو اس سلسلے میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے عرض کیا آپ نے فرمایا طے کا روزہ رکھو طے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس میں افطار صرف پانی سے کرتے ہیں اور کم از کم تین دن کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک سال، اس طرح روزہ رکھنا صوفیائے کرام کے ہاں عام ہے اور اکابر علمائے اسلام میں بھی بعض حضرات رمضان میں افطار صرف چائے وغیرہ سے کرنے کے بعد اور کچھ نہیں کھایا کرتے تھے چنانچہ شیخ گنج شکر نے طے کے روزے رکھنے شروع کردیے اور تین روز تک کچھ نہ کھایا، تیسرے روز افطار کے وقت ایک آدمی نے آپ کے سامنے چند روٹیاں لاکر رکھیں۔ آپ سمجھے کے غیب سے آئی ہیں اور انہیں روٹیوں سے افطار کیا لیکن پیٹ نے انھیں قبول نہیں کیا اور کھایا پیا تمام باہر آگیا، آپ نے یہ واقعہ اپنے پیرو و مرشد سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اے مسعود! تم نے تین روز روزہ رکھنے کے بعد ایک شرابی کا کھانا کھایا لیکن اللہ کی عنایت نے تمہاری دستگیری فرمائی کہ تمہارے معدے میں اس غذا کو رہنے نہ دیا، اب جاؤ اور پھرتین دن طے کا روزہ رکھو اور غیب سے جو کچھ ملے اس کو کھاکر گزر کرو چنانچہ شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پھر تین دن طے کا روزہ رکھا اور شام کو کوئی کھانا میسر نہ ہوا، یہاں تک کہ رات کا ایک پہر گزر گیا اور کمزوری بڑھ گئی بھوک کی وجہ سے بدن جلنے لگا، اس عالمِ بیتابی میں آپ نے ہاتھ بڑھا کر زمین سے کچھ سنگریزے اٹھاکر منہ میں ڈالے تو وہ شکر ہوگئے آپ کو فوراً خیال آیا کہ ہوسکتا ہے یہ بھی شیطانی کرشمہ ہو اس لیے ان سنگریزوں کو تھوک دیا، اور پھر یاد الٰہی میں مصروف ہوگئے جب آدھی رات گزر ہوگئی تو کمزوری پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی آپ نے پھر زمین سے کچھ سنگریزے اٹھاکر منہ میں ڈال لیے وہ پھر شکر بن گئے آپ نے انہیں بھی تھوک دیا، آپ نے تین مرتبہ اس طرح کیا اور ہر مرتبہ یہی کرامت ظاہر ہوتی رہی تو یقین ہوا کہ یہ نعمت خداوندی ہے، اس لیے انہیں کھالیا، پھر دوسرے روز خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں حاضری دی پیرو مرشد نے فرمایا کہ اچھا کیا جو پتھروں سے افطار کیا وہ غیب سے آئے تھے اب جاؤ شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہو گے اس دن سے شیخ فرید الدین مسعود کو لوگ گنج شکر کہتے ہیں۔

بہشتی دروازہ


ایک دفعہ شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کی طبیعت ناساز تھی آپؒ کو حکم دیا حکیم سے نسخہ لے آؤ بابا فرید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بازار میں حکیم کی دوکان میں گئے اور نسخہ بنوا رہے تھے کہ شور ہوا،ایک بزرگ پالکی میں سوار ہیں اور ندا کرنے والا ان کے آگے ندا کر رہا ہے جو ان بزرگ کی زیارت کرے گا وہ ان شاءاللہ جنت میں جائے گا۔سب لوگ جوق در جوق ان کی زیارت کرنے لگے مگر شیخ گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے توجہ نہ کی اور جب پالکی بازار سے گزرگی پھر آپؒ نسخہ لے کر اپنے مرشد کے پاس گئے اور حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو پورا واقعہ سنایا۔حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے باآدب مرید کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور جوش میں آکر فرمایا:اے فرید اس کی زیارت کرکے لوگ آج جنتی ہوتے ہیں تو تمہارے دروازہ سے قیامت تک جو بھی گزرے گا جنتی ہوگا۔



حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سالانہ عرس میں لاکھوں لوگ آپؒ کی مزار کی زیارت کرتے ہیں اور بہشتی دروازہ سے گزرتے ہیں۔یہ دروازہ پانچ سے دس محرم الحرام تک کھولا جاتا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال ۵محرم الحرام ٦٦۴ھ(چھ سو چوسٹھ)۔ میں رات کے وقت سجدے کی حالت میں ہوا۔حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مزار پُرانوار پاکپتن شریف پنجاب،پاکستان میں ہے۔۔۔

copywrites © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...