Monday, May 20, 2019

Itikaf[اعتکاف]

Itikaf[اعتکاف]

اعتکاف

اعتکاف ایک ایسی نیکی ہے جس کی اہمیت قرآن پاک میں بھی بیان کی گئی ہے اور احادیث رسول میں بھی۔ قرآن پاک میں ہے:۔
میرا گھر خوب ستھرا کرو۔ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع وسجود والوں کے لیے۔(البقرہ: ۲؍ ۱۲۵)۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتِکاف کرلیا وہ ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے۔(شعب الایمان،ج۳،ص۴۲۵، حدیث: ۳۹٦٦)۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:واجب کہ اعتکاف کی منت مانی،سنت مؤکدہ کہ رمضان کے آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے اور مستحب وسنت غیر مؤکدہ ہے۔
مستحب اعتکاف کے لیے نہ روزہ شرط ہے نہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر بلکہ جب مسجد میں گیااور اعتکاف کی نیت کی توجب تک مسجد میں ہے معتکف ہے، چلا آیا اعتکاف ختم ہوگیا۔
سنت اعتکاف میں یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جوکیاجاتاہے اس میں روزہ شرط ہے لہٰذااگرکسی مریض یامسافر نے اعتکاف کیامگرروزہ نہ رکھاتوسنت ادا نہ ہوئی بلکہ یہ اعتکاف نفلی ہوا۔ منت کے واجب اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے۔
اعتکاف ایک قَدِیم اور عظیم عبادت ہے۔پچھلی اُمَّتوں میں بھی اعتِکا ف کی عبادت موجود تھی جبکہ اسلام میں رَمَضانُ الْمُبارَک کےآخِری عَشرے کا اعتِکاف سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ ہے۔اگر سب تَرْک کریں تو سب سے مُطالبہ ہوگااور اگر شہر میں ایک نے کر لیا توسب بریُ الذِّمّہ ۔مسجد میں اللہ کے لیے نیت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے اور اس کے لیے مسلمان عاقل اور جنابت وحیض ونفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ بلوغ یعنی بالغ ہونا شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے۔ اعتکاف کے لیے جامع مسجد ہونا شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں ہوسکتا ہے،مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام ومؤذن مقرر ہوں اگر چہ اس میں پنج گانہ جماعت نہ ہوتی ہو۔

معتکف کو مسجد سے نکلنے کے عذر
حاجت طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہوسکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو۔ اگر مسجد میں وضو وغسل کی جگہ بنی ہو یا حوض ہوتو باہرجانے کی بھی اجازت نہیں۔دوم حاجت شرعی مثلاً جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا۔ جب کہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہوتو غیر مؤذن معتکف بھی منارہ پر جاسکتا ہے، موذن کی تخصیص نہیں۔قضاے حاجت کے لیے گیا تو طہارت کرکے فوراً چلا آئے، ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔
اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ کے لیے نکل سکتا ہے لیکن صرف اتنے وقت کے لیے کہ وہاں پہنچ کر سنتیں پڑھے پھر جمعہ کے بعد کی چار یا چھ سنتیں پڑھ کر چلا آئے۔

معتکف نے بھول کر کھالیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔ گالی گلوج یا جھگڑا کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر بے نور وبے برکت ہوجاتا ہے۔ (عالم گیری وغیرہ)یعنی مکروہ ہوجاتاہے۔
معتکف مسجد ہی میں کھائے، پیئے، سوئے۔ ان امور کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ مگر کھانے پینے میں یہ احتیاط لازم ہے کہ مسجدآلودہ (گندی)نہ ہو۔
معتکف اگر بہ نیت عبادت سکوت کرے یعنی چپ رہنے کو ثواب کی بات سمجھے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر چپ رہنا ثواب کی بات سمجھ کر نہ ہوتو حرج نہیں اور بری بات سے چپ رہا تو یہ مکروہ نہیں بلکہ یہ تو اعلیٰ درجے کی چیز ہے کیوں کہ بری بات زبان سے نہ نکالنا واجب ہے اور جس بات میں نہ ثواب ہو نہ گناہ یعنی مباح بات بھی معتکف کو مکروہ ہے مگر بوقت ضرورت اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو، یہ مسئلہ خاص طور سے قابل توجہ ہے کہ اکثر معتکف حضرات مباح باتوں میں حرج نہیں سمجھتے یعنی مباح کلام بھی بوقت حاجت ہو۔بغیرحاجت اس سے بھی پرہیزکرے۔

معتکف نہ چپ رہے نہ کلام کرے تو کیا کرے؟ یہ کرے: قرآن مجید کی تلاوت، حدیث شریف کی قراء ت اور درود شریف کی کثرت، علم دین کا درس وتدریس، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ودیگر انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی سیرتوں اور اذکار، اولیا و صالحین کی حکایات اور امور دین کی کتابت یعنی تصنیف وتالیف وغیرہ ۔ اورسب سے اہم یہ ہے کہ جس پرنمازیں قضاہیں تمام نفل عبادات چھوڑکران کواداکرنے کی کوشش کرے۔
نفل اعتکاف اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں کہ وہیں تک ختم ہوگیا اور مسنون اعتکاف کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا اسے توڑاتو جس دن توڑا فقط اسی ایک دن کی قضاکرے پھر سے دس دنوں کی قضا واجب نہیں۔ اعتکاف کی قضا صرف قصداًتوڑنے سے نہیں بلکہ اگر عذر کی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمار ہوگیا یا بلا اختیار چھوٹا مثلاً عورتوں کو اعتکاف کی حالت میں حیض یا نفاس یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی توان میں بھی قضا واجب ہے۔ اور بعض فوت ہوتو کُل کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ بعض کی قضا کرے اور کُل فوت ہو تو کُل کی قضا ہے۔

اعتکاف کرنے والا ایک آدمی ہو یا بہت سے، ان سب کو ذیل کے امور کی پابندی کرنی چاہیے:دنیاوی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کریں،ہنسی، ٹھٹھا، مذاق سے بچیں،مسجد میں شور غوغا بالکل نہ کریں حتیٰ کہ آواز بھی بلند نہ کریں،گالی گلوچ اور فحش سے بچنا تو بہت ضروری ہے کہ اس سے اعتکاف اور روزہ دونوں مکروہ ہوں گے اور ایسا کرنا گناہ بھی ہے،کھانے پینے میں زیادتی نہ ہو کہ پیٹ خراب ہو اور دیگر پریشانیاں یا بیماریاں قریب آئیں اور پھر عبادت وتلاوت میں فرق آئے،اعتکاف میں کم کھانے، کم بولنے اور کم سونے پر بہ طور خاص عمل کریں کہ یہ روحانیت کا سر چشمہ ہے،مسائل دینیہ شرعیہ سیکھیں کہ یہ سب عبادتوں سے بڑھ کر عبادت ہے،موبائیل سے بالکل اجتناب کریں کہ یہ دنیاوی روابط کو بڑھاوا دینے والا اور اعتکاف کے لیے بہت مُضر ہے۔ سخت ضرورت پر کبھی استعمال کرلیا تو حرج نہیں،دوست احباب کی بھیڑ جمع نہ کریں نہ دوسرے لوگ معتکف کے پاس زیادہ وقت دیں کسی ضرورت سے جانا ہوتو ضرورت پوری کرکے فوراً ان سے جدا ہوجائیں اسی میں دونوں کے لیے بھلائی ہے اور معتکف علما ہوں تو علمی ودینی استفادے کے لیے ان کے پاس بیٹھنے میں حرج نہیں بلکہ بہت مفید اور باعث ثواب ہے۔
اعتکاف کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ اپنے مقصد پر ہر وقت نظر رکھیں اورسوچیں کہ وہ دنیا کو چھوڑ کر دس روز کے لیے کیوں خانۂ خدا میں گوشہ نشین ہوئے ہیں۔ ان کے اندر بھی عملی اورروحانی انقلاب آنا چاہیے۔ اگر ان کے اندر کوئی بری عادت تھی تووہ دور ہوجانی چاہیے ورنہ گناہ تو ہر جگہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ کے گھر میں اس کا مواخذہ اور بڑھ جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ نیکی اور ثواب کمانے آئے تھے الٹے گناہ کابوجھ نہ سرپرلے جائیں۔اللہ عزوجل ہمیں اعتکاف کے روحانی اوراسلامی پروگرام پرعمل کرنے اوراس کی برکتوں سے مالامال ہونے کی توفیق مرحمت فرما ئے ۔ آمین۔۔۔

copywrites © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...