امیرِاہلسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ
شیخ طریقت، اَمیراَہلسنّت ،بانی ٔ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت مبارکہ ۲٦ رَمَضانُ المبارَک ۱۳٦۹ھ بمطابق ۱۹۵۰ء میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ کراچی میں ہوئی۔آپ کی کنیت "ابوبلال"اور تخلص "عطار" ہے۔
امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے والدِبُزُرگوارحاجی عبدالرَحمن قادِری علیہ رحمۃ اللہ الھادی باشرع اور پرہیز گارشخص تھے اور سلسلۂ عالیہ قادِریہ میں بیعت تھے۔ امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عالَمِ شِیْر خوارگی ہی میں تھے کہ آپ کے والد ِ محترم ۱۳۷۰ھ میں سفرِ حج پر روانہ ہوئے ۔ایامِ حج میں منٰی میں سخت لُو چلی جس کی وجہ سے کئی حجاج کرام فوت ہوگئے،ان میں حاجی عبدالرحمن علیہ رحمۃ المنّان بھی شامل تھے جو مختصر علالت کے بعد ۱۴ذوالْحِجَّۃ الحرام ۱۳۷۰ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ دورِ شباب ہی میں علومِ دینیہ کے زیور سے آراستہ ہوچکے تھے۔آپ دامت برکاتہم العالیہ نے حصولِ علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اورصحبت ِعلماء کو اختیار کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقارالدین قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے کیااورمسلسل ۲۲ سال آپ علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی صحبت بابَرَکت سے مستفیض ہوتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے قبلہ امیرِاَہلسنّتدامت برکاتہم العالیہ کو اپنی خلافت واجازت سے بھی نوازا۔
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! کثرتِ مطالعہ ،بحث وتمحیص اوراَکابر علَماء ِکرام سے تَحْقِیق وتَدْقِیق کی وجہ سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مسائلِ شَرْعیہ اورتصوّف واَخلاق پر دسترس ہے ۔ صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی شہرۂ آفاق تالیف ’’بہارِ شریعت‘‘ اورامامِ اہلِسنّت ،مجددِ دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کے فتاویٰ کا عظیم الشان مجموعہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ عموماً آپ دامت برکاتہم العالیہ کے زیرِ مطالعہ رہتے ہیں۔ حجۃُ الاسلام امام محمدغزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی کتب بالخصوص ’’احیاء العلوم‘‘ کی بہت تحسین فرماتے ہیں اوراپنے مُتَوَسِّلین کوبھی پڑھنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں ، ان کے علاوہ دیگر اکابرین دامت فیوضہم کی کتب کا چیدہ چیدہ مطالعہ بھی آپ کے معمولات میں شامل ہے
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ وعشق رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰٰلہٖ وسلم،جذبۂ اتباع ِقرآن وسنّت ،جذبہ احیائِ سنّت،زہدوتقویٰ، عفو ودرگزر، صبروشکر، عاجزی وانکساری،سادگی ،اخلاص، حسنِ اخلاق،جود وسخا، دنیاسے بے رغبتی، حفاظتِ ایمان کی فکر ، فروغ ِعلم دین ،خیر خواہیٔ مسلمین جیسی صفات میں یادگارِ اسلاف ہیں۔
سرکارِ ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے بھرپور محبت کا نتیجہ ہے کہ امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زندگی سنّتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کا عاشقِ رسول ہونا ہر خاص وعام پر اتنا ظاہر وباہِر ہے کہ آپ کو عاشقِ مدینہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو بار ہا یادِ مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور فراق طیبہ میں آنسوبہاتے دیکھا گیا ہے۔ اجتماع ِ ذکرونعت میں تو آپ کی رقّت کا بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ کبھی کبھی آپ یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں اس قدردیوانہ وار تڑپتے اور روتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو رحم آنے لگتا ہے اور وہ بھی رونے لگتے ہیں۔
حضرت شَیخُ الفضیلت آفتابِ رَضَویت ضیائُ الْمِلَّت، مُقْتَدائے اَہلسنّت، مُرید و خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت،پیرِ طریقت، رَہبرِ شَرِیْعَت ، شَیخُ العَرَب و العَجَم، میزبانِ مہمانانِ مدینہ ، قطبِ مدینہ ، حضرت علامہ مولٰینا ضیاء الدین اَحمد مَدَنی قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ذات گرامی سے بیعت ہوئے۔
حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے کی ذمہ داری مَحسوس کرتے ہوئے ایک ایک اسلامی بھائی پر انفرادی کوشش کر کے مسلمانوں کویہ ذہن دینا شروع کیا کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ آپ نے۱۴۰۱ھ میں’’دعوتِ اسلامی‘‘ جیسی عظیم اورعالمگیر تحریک کے مَدَنی کام کا آغاز فرما دیا۔الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یہ آپ کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مختصر سے عرصے میں دعوتِ اسلامی کا پیغام (تادم تحریر)دنیا کے ۲۰۰ممالک میں پہنچ چکا ہے اور لاکھوں عاشقانِ رسول نیکی کی دعوت کو عام کرنے میں مصروف ہیں ، مختلف ممالک میں کُفار بھیمُبَلِّغینِ دعوت ِ اسلامی کے ہاتھوں مُشَرَّف بہ اسلام ہوتے رَہتے ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہکی جہدِمسلسل نے لاکھوں مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپا کردیاجس کی بدولت وہ فرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سر پر عمامے کے تاج اور چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی بھی سجالیتے ہیں۔دعوت اسلامی سنتوں کی خدمت کے کم و بیش ۱۰۰شعبہ جات قائم کر چکی ہے۔لاکھوں مسلمان آپ دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھوں بیْعَتْ ہوکر حضور سیدنا غوثِ اعظم دستگیر ،پیرانِ پیر ،قطبِ ربّانی شَیخ عبد القادرجیلانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے دامنِ کرم سے وابستہ ہوچکے ہیں۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کے تخلص عطّار کی نسبت سے آپ کے مُریدین اپنے نام کے ساتھ عطّاری لکھتے اور بولتے ہیں۔اَمیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عُلَمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :’’علماء کو ہماری نہیں ،ہمیں علماء دامت فیوضھم کی ضرورت ہے ،یہ مَدَنی پھول ہر دعوتِ اسلامی والے کی نس نس میں رچ بس جائے۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا: ’’علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔‘‘
امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ ان علماء میں سے ہیں جن کے بیانات سننے والوں پرجادو کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے بین الاقوامی اور صوبائی سطح کے اجتماعات میں بیک وقت لاکھوں مسلمان آپ کے بیان سے مستفیض ہوتے ہیں۔آپ کا اندازِبیان بے حد سادہ اور عام فہم اورطریقہ تفہیم ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دل میں تاثیر کا تیر بن کر پیوست ہوجاتا ہے ۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پر آچکے ہیں۔
امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ صاحب ِ قلم عالمِ دین ہیں۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کوصفِّ مصنفین میں امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا یہی وجہ ہے کہ عوام وخواص دونوں آپ دامت برکاتہم العالیہ کی تحریروں کے شیدائی ہیں اور آپ دامت برکاتہم العالیہ کی کتب ورسائل کو نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو مطالعے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خرید کر مفت تقسیم بھی کرتے ہیں۔ آپ کی عظیم تالیف ’’فیضانِ سنت ‘‘(جلد اول) پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے علاوہ بھی درجنوں موضوعات پر آپ کی کتب ورسائل موجود ہیں۔امیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ شاعری بھی فرماتے ہیں۔حمد ونعت کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور بزرگان دین رحمھم اللہ کی شان میں متعدد منقبتیں اور مدحیہ قصائد بھی قلم بند فرمائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سنّتوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم۔
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اِن پر رحمت ہو اور اِن کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment