صدقۂ فطر
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقۂ فطر مقرر فرمایا ۔(سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ ،باب زکوٰۃ الفطر،الحدیث۱٦۰۹،ج۲،ص۱۵۷)۔فطرہ واجب کرنے میں ۲حکمتیں ہیں ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی۔ اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑ پڑتا ہے، کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں ،رب تعالیٰ اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دے گا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔
صدقۂ فطر دینا واجب ہے،ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اور اسکانصاب حاجت ِ اصلیہ سے فارغ ہو۔الِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرے۔
عیدکے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے مر گیا یاغنی تھا فقیر ہوگیا یا صبح طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب نہ ہوا اور اگر صبح طلوع ہونے کے بعد مرا یا صبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب ہے۔
زکوٰۃ میں سال کا گزرنا، عاقل بالغ اور نصاب ِ نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیّت )ہونا شرط ہے جبکہ صدقۂ فطر میں یہ شرائط نہیں ہیں۔چنانچہ اگر گھر میں زائد سامان ہو تو مالِ نامی نہ ہونے کے باوجود اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو اس کے مالک پر صدقۂ فطر واجب ہوجائے گا۔زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے نصاب میں یہ فرق کیفیت کے اعتبار سے ہے۔
صدقۂ فطر میں بھی نیت کرنا اور مسلمان فقیر کومال کا مالک کر دینا شرط ہے۔نابالغ اگر صاحب ِ نصاب ہوتو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔ اس کا ولی اسکے مال سے فطرہ ادا کرے ۔جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو،اس کی طرف سے صدقۂ فطر اداکرنا واجب نہیں۔اگر بڑا بھائی اپنے چھوٹے غریب بھائی کی پرورش کرتا ہوتو اس کاصدقۂ فطر مالدار باپ پر واجب ہے نہ کہ بڑے بھائی پر۔فتاوی عالمگیری میں ہے :چھوٹے بھائی کی طرف سے صدقہ و اجب نہیں اگرچہ وہ اس کی عیال میں شامل ہو۔
اگر باپ نہ ہو توماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب نہیں ہے ،باپ نہ ہوتو اس کی جگہ دادا پراپنے غریب یتیم پوتے ،پوتی کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب ہے جبکہ یہ بچے مالدار نہ ہوں۔
صدقۂ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں ،لہٰذا کسی عذر مثلاًسفر مرض ،بڑھاپے یا معاذ اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) بلاعذر روزے نہ رکھنے والا بھی فطرہ ادا کرے گا ۔شب ِ عید بچہ پیدا ہوا توس کا بھی فطرہ دینا ہوگاکیونکہ عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے ،اور اگر بعد میں پیدا ہوا تو واجب نہیں۔
اگرشوہرنے بیوی یا بالغ اولاد کی اجازت کے بغیران کافطرہ اداکیاتو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں ہو۔صدقۂ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلااجازت ناممکن ہے ہاں اجازت کے لیے صراحۃ ہونا ضرور نہیں دلالت کافی ہے مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کھانا پہننا سب اس کے پاس سے ہونا ہے،اس صورت میں ادا ہو جائے گا۔
صدقۂ فطر کن چیزوں سے ادا ہوتا ہے
گندم یا اس کا آٹا یا ستونصف صاع،کھجور یا منقٰی یا جَویا اس کا آٹایا ستو ایک صاع ۔ان چار چیزوں ( یعنی گیہوں ،جو ، کھجور،منقی) کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلّہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جَو کی ہو۔
ایک سو پَچھتَّر روپے اَٹَھنّی بھراوپر ‘‘(یعنی دوسیر تین چھٹانک آدھا تَولہ،یا ۲کلو میں سے ۸۰ گرام کم) وَزن گیہوں یا اُس کا آٹا یا اتنے گیہوں کی قیمت ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مِقدار ہے۔اگرکھجور یا مُنَـقّٰی (یعنی کشمش)یا جَو یا اس کا آٹا یا ستّو یا ان کی قیمت دینا چاہیں تو ’’ تین سو اِکاون روپے بھر‘‘ (یعنی ۴ کلومیں سے ۱٦۰گرام کم )ایک صدقۂ فطر کی مقدار ہے۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت:بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔ گر عید الفطر سے پہلے فطرہ ادا کریں تو جائز ہے ۔اگر صدقۂ فطر رمضان سے بھی پہلے ادا کر دیا توجائز ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت فرماتے ہیں :اس (یعنی صدقۂ فطر)کے دینے کا وقت واسع ہے عید الفطر سے پہلے بھی دے سکتا ہے اور بعد بھی، مگر بعد کو تاخیر نہ چاہیے بلکہ اَولی یہ ہے کہ نمازِ عید سے پہلے نکال دے کہ حدیث میں ہے صاحبِ نصاب کے روزے معلق رہتے ہیں جب تک یہ صدقہ ادا نہ کرے گا۔
گیہوں اور جَو کے دینے سے اُن کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ کہ قیمت دیدے، خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جَو کی یا کھجور کی مگر زمانہ قحط میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے ۔
صدقۂ فطرکے مصَا رِف وُہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔یعنی جِن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فِطْرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کو فِطْرہ بھی نہیں دے سکتے۔ساداتِ کرام کو صدقۂ فطر بھی نہیں دے سکتے۔
بہتر یہ ہے کہ ایک ہی مسکین یا فقیر کو فطرہ دیا جائے اگر ایک شخص کا فطرہ مختلف مساکین کو دے دیا تب بھی جائز ہے اسی طرح ایک ہی مسکین کومختلف اشخاص کا فطرہ بھی دے سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment