فتح مکہ
حدیبیہ میں عرب کے دیگر قبائل کو اجازت دی گئی تھی کہ جو قبیلہ جس بھی فریق کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرنا چاہے تو وہ اس فیصلہ میں آزاد ہے۔چنانچہ بنو بکر نے قریش کے ساتھ اور بنو خزاعہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا۔ اس طرح دونوں قبیلے ایک دوسرے سے مامون اور بے خطر ہو گئے لیکن ان دونوں قبیلوں میں دورِ جاہلیت سے عداوت اور کشاکش چلی آرہی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے سے مطمئن ہو گئے تو بنو بکر نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چاہا کہ بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا لیں چنانچہ نوفل بن معاویہ دیلی نے بنو بکر کی ایک جماعت ساتھ لے کر شعبان۸ ھ میں بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ اس وقت بنو خزاعہ وتیر نامی ایک چشمہ پر خیمہ زن تھے ۔ ان کے متعدد افراد مارے گئے۔ قریش نے نہ صرف ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی بلکہ ان کے کچھ آدمی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑائی میں شریک بھی ہوئے۔ظاہر ہے کہ قریش نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو عملی طور پر توڑ ڈالا کیونکہ بنو خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے معاہدہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حلیف بن چکے تھے اس لیے بنو خزاعہ پر حملہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حملہ کرنے کے برابر تھا۔ اس حادثہ کے بعد قبیلہ ٔ بنو خزاعہ کے سردار عمرو بن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا وفد لے کر فریاد کرنے اور امداد طلب کرنے کے لیے مدینہ منورہ بارگاہِ رسالت میں پہنچے اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بتاریخ ۱۰ رمضان المبارک ۸ھ دس ہزار آراستہ فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مکہ میں حصہ بالائی کی طرف سے داخل ہوئے۔ اعلان کر دیاگیا کہ جو شخص ہتھیارڈال دے گا ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا یامسجد میں داخل ہوگا یا دروازہ بند کرلے گا۔ اس کو امن دیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو حکم دیا کہ قبائل عرب کے ساتھ مقام اسفل (کدٰی) کی طرف سے داخل ہو اور صفا میں ہم سے آملیں۔ اور کسی سے جنگ نہ کریں۔ مگر صفوان بن امیہ ، عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو قریش کی ایک جماعت ساتھ لے کر جندمہ میں سدراہ ہوئے۔ اور حضرت خالد کی فوج پر تیر برسانے لگے۔ چنانچہ حضرت حبیش بن اشعر اور کرزبن جابر فہری رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے شہادت پائی۔ حضرت خالد نے مجبور ہو کر ان پر حملہ کیا۔ وہ تیرہ یا زیادہ لاشیں چھوڑ کر گھروں کو بھاگ گئے اور بعضے پہاڑی پر چڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو تلواروں کی چمک دیکھی تو پوچھاکہ یہ جنگ کیسی ہے؟ عرض کیا گیا کہ شاید مشرکین نے پیش قدمی کی ہے۔ جس کی وجہ سے خالد کو لڑنا پڑا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خالد سے باز پرس کی۔ تو انہوں نے عرض کیاکہ ابتداء مشرکین کی طرف سے تھی۔ فرمایا: ’’قضائے الٰہی بہتر ہے۔‘‘(تاریخ طبری ،۱:۳۹۷)۔
ّآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خیمہ میں ذرا آرام فرمایا، پھر غسل کیا اور ہتھیاروں سے سج کر ناقۂ قصواء پر سوار ہوئے اور اپنے غلام کے لڑکے اسامہ کو اپنے پیچھے سوار کرلیا کوکبہ نبوی بڑی شان و شوکت سے کعبہ کی طرف روانہ ہوا۔ آپ کے دائیں بائیں آ گے پیچھے مہاجرین و انصار تھے جو اس طرح سراپا آہن پوش تھے کہ بجز سیاہہ چشم ان کے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا۔ بیت اللہ شریف میں داخل ہو کر آپ ا نے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ پھر اپنی ناقہ پر طواف کیا۔ بیت اللہ کے گرد اور اوپر تین سوساٹھ بت تھے۔جن کے سبب سے وہ خانہ خدا بت خانہ بنا ہوا تھا۔ آپ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی۔اس سے آپ ایک ایک بت کو ٹہوکے دیتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے:(ترجمہ) حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، بیشک باطل مٹنے والا ہے۔ حق آگیا اور باطل نہ پہلی بار پیدا کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتاہے۔
اور وہ منہ کے بل گرتے جاتے تھے۔ جب اس طرح بیت اللہ شریف بتوں سے پاک ہوگیا تو آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ سے کنجی لیکر دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہوئے تو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے مجسمے نظر پڑے۔ جن کے ہاتھوں میں جواء کھیلنے کے تیر دیے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ خدا غارت کرے۔ اللہ کی قسم ان دونوں نے کبھی تیروں سے جواء نہیں کھیلا۔‘‘ کعبہ کے اندر ہی لکڑیوں کی ایک کبوتری بنی ہوئی تھی جسے آپ نے اپنے دست اقدس سے توڑڈالا۔ اور تصویریں جو تھیں وہ مٹا دی گئیں۔ پھر دروازہ بند کردیا گیا۔ اور حضرت اسامہ و بلال و عثمان بن طلحہ آپ ا کے ساتھ اندر رہے آپ نے نماز پڑھی اور ہرطرف تکبیر کہی پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ مسجد حرام قریش کی صفوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ نے دروازے کے بازوؤں کو پکڑ کر یہ خطبہ پڑھا:’’ ایک خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔خدا نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کافروں کے گروہوں کی تنہا شکست دی۔آگاہ رہو کہ تمام مفاخریا خون یا مال ہر قسم کا سوائے کعبہ کی تولیت اور حاجیوں کی سقایت کے میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں۔ آگاہ رہو کہ قتل خطا جو عمد کے مشابہ ہو، تازیانہ سے ہو یا عصا سے اس کا خون بہا ایک سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس کے پیٹوں میں بچے ہوں۔ اے گروہ قریش! خدا نے تم سے جاہلیت کا غرور اور نسب کاافتخار دور کر دیا۔ تمام لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم مٹی سے ہیں۔‘‘(طبقات ابن سعد، ۱:۴۳۱، طبری،۱:۴۰۱)۔
پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جوتم میں زیادہ پرہیز گار ہے بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔‘‘ (کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن، پارہ ۲٦، الحجرات :۱۳)۔
خطبہ کے بعد آپ قریش کی طرف متوجہ ہوئے جن سے مسجد بھری ہوئی تھی۔ اعلانِ دعوت سے اب تک ساڑھے سترہ سال میں قریش نے آپ سے اور آپ کے اصحاب سے جو جو سلوک کیے تھے وہ سب ان کے پیش نظر تھے۔ اور خوف زدہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ آپ اب اس شہرمیں ہیں جہاں سے نکلے تھے تو اندھیری رات اور فقط صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ساتھ تھے۔ آج آپ داخل ہوتے ہیں تو یوں خطاب فرمایا: ’’اے گروہ قریش! تم اپنے گمان میں مجھ سے کیسے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟‘‘ وہ بولے : ’’نیکی کی توقع رکھتے ہیں۔ آپ شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہیں‘‘ یہ سن کر حضور رحمۃ اللعالمین نے فرمایا: ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ جائو، تم آزاد ہو۔‘‘(طبری، ۱:۴۰۱)۔
اس روز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دیر تک مسجد میں رونق افروز رہے نماز کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کعبہ کی چھت پر اذان کہی۔
مسجد سے آپ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے۔ وہاں مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کرکے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت کی ۔ مردوں میں حضرت معاویہ اور مستورات میں ان کی والدہ ہند بھی تھیں۔جو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا کلیجہ چبا گئی تھی۔(رواہ البخاری، مدارج النبوت، ۲:۵۰۵)۔
فتح مکہ کے دوسرے روز خزاعہ نے ہذیل کے ایک شخص کو جومشرک تھا قتل کر ڈالا اس پر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد یوں خطاب فرمایا: (ترجمہ) تحقیق مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا اور لوگوں نے حرام نہیں کیا۔جو شخص خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے جائز نہیں کہ اس میں خون بہائے اور نہ اس کا درخت کاٹے اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جنگ کے سبب قتال کو رخصت کہے تو اس سے کہہ دو کہ خدا نے اپنے رسول کو اجازت دی تم کو اجازت نہیں دی مجھے بھی دن کی ایک ساعت اجازت دی گئی۔ اور آج پھر اس کی حرمت ایسی ہوگئی جیسا کہ کل (فتح سے پہلے) تھی۔ چاہئے کہ جو یہاں حاضر ہے غائب کو یہ پیغام پہنچا دے۔‘‘(بخاری و مدارج النبوت،۲:۴۹۳)۔
فتح مکہ کے اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ آزمائشیں اور مشکلات جتنی بھی طویل ہوں ثابت قدم رہنے والے اور اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے مشکلات کا سامنا کرنے والے ہی فتح یاب ہوتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment