عید الفطر
جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے۔ اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(یعنی قیامت کے دن)۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦۹۳)۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس ماہ مبارک کی چاند رات کو لیلۃ الجائزہ یعنی انعام والی رات بھی کہتے ہیں۔ یہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس رات کو بہتر تو یہ ہے کہ یاد الٰہی میں گزارے۔ ورنہ عشاء کی نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھے اور فجر کی نماز کی تکبیر اولیٰ میں شریک ہوجائے تو شب بھر بیداری کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنے کا ثواب ملے گا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)۔
حدیث شریف میں ہے۔ جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔(مشکوٰۃ صفحہ ١٨٣)۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ”مغفور” ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)۔
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)۔
عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسولﷺ کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لیے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لیے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ۴۰۴ اور ۴۰۵)۔
میں نیت کرتا ہوں دو رکعات نماز عید الفطر واجب زائد چھ تکبیرات کے ساتھ، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، متوجہ ہوا میں بیت اللہ شریف کی طرف، پیچھے حاضر اس امام کے۔ پھر امام کے تکبیر تحریمہ ادا کرنے کے بعد مقتدی تقلید کرتے ہوئے اپنی تکبیر تحریمہ کہے گا۔ یعنی نیت کے بعد کانوں تک ہاتھ اٹھا کر،ہتھیلیوں کوقبلہ رخ کرکے’’اللہ ُاکبر‘‘ زبان سے ادا کرنا پھر ہاتھوں کو باندھ لینا، اور ثنا پڑھنا جو عام نمازوں میں پڑھتے ہیں۔ ثناپڑھ لینے کے بعد امام صاحب تین تکبیریں باآوازِ بلند کہیں گے، پہلی تکبیر پر مقتدی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے چھوڑ دینگے، دوسری تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر پھر چھوڑ دینگے اور تیسری تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر، ہاتھوں کو زیرِ ناف باندھ لیں گے۔ امام صاحب تلاوت کریں گے اور رکوع و سجود کریں گے پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں گے، تلاوت ہوگی، رکوع میں جانے سے پہلے بقایا تین تکبیرات کی ادائیگی اس طرح ہوگی کہ امام صاحب سے پہلی تکبیر سن کر مقتدی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے گرادینگے، دوسری اور تیسری تکبیر پر بھی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے گرادینگے جبکہ چوتھی تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں گے، باقی عام نماز وں کے انداز میں نماز مکمل ہوگی۔
نماز جمعہ کے بر عکس عید الفطر اور عید الاضحی کے خطبے فراغت ِ نماز کے بعد ہوتے ہیں دورانِ خطبہ مقتدیوں کو خاموش اور باادب بیٹھنا چاہیے، ادھر اُدھر دیکھنے، بلا وجہ بدن کھجانے، موبائل فون استعمال کرنے،چہرے سے بے زاری کا اظہار کرنے، خطبے اور دعا کی طوالت پر عدم دلچسپی کا اظہار کرنے سے بچنا چاہیے۔
عید الفطر کے مستحب کام : حجامت بنوانا ،ناخن ترشوانا،غسل کرنا ،مسواک کرنا،اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو ،ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا ،خوشبو لگانا، فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا،نبی کریم اکی بارگاہ میں بصد خلوص درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا،عید گاہ میں جلدی جانا ،عید گاہ کو پیدل جانا ،واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق(اللہ اکبر اللہ اکبرلا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا،نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا، تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے۔ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا،نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا اورسُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ٣٠٠ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کا انمول وظیفہ: حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے عید کے دن تین سو بار یہ ورد پڑھا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ (اللہ پاک ہے اور اس کی حمد ہے) پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٢)۔
No comments:
Post a Comment