من و سلویٰ
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے ساتھ میدان تیہ میں مقیم تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کھانے کیلئے آسمان سے دو کھانے اتارے۔ ایک کا نام ‘من‘ اور دوسرے کا نام ‘سلویٰ‘ تھا۔ من بالکل سفید شہد کی طرح ایک حلوہ تھا یا سفید رنگ کی شہد ہی تھی جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو دکھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں کا شمار کراتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
ترجمہ کنزالایمان: اور تم پر من اور سلویٰ اتارا۔(پ۱، البقرۃ : ۵۷)۔
اس من و سلویٰ کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ حکم تھا کہ روزانہ تم لوگ اس کو کھا لیا کرو اور کل کیلئے ہرگز ہرگز اس کا ذخیرہ مت کرنا۔ مگر بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں کو یہ ڈر لگنے لگا اگر کسی دن من و سلویٰ نہ اترا تو ہم لوگ اس بے آب و گیاہ، چٹیل میدان میں بھوکے مر جائیں گے۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ چھپا کر کل کیلئے رکھ لیا تو نبی کی نافرمانی سے ایسی نحوست پھیل گئی کہ جو کچھ لوگوں نے کل کیلئے جمع کیا تھا وہ سب سڑ گیا اور آئندہ کیلئے اس کا اترنا بند ہو گیا اسی لئے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ کھانا کبھی خراب ہوتا اور نہ گوشت سڑتا، کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اسی تاریخ سے شروع ہوا۔ ورنہ اس سے پہلے نہ کھانا بگڑتا تھا نہ گوشت سڑتا تھا۔ (تفسیر روح البیان۔ ج۱، پ۱، البقرۃ: ۵۷)۔
نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف عجائب القرآن سے لیاگیا ہے۔
No comments:
Post a Comment