حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا:گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔(سننں ابن ماجہ،حدیث۴۲۵۰،ص۲۷۳۵)۔
اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول کرنے کا معنی یہ ہے کہ جس گناہ سے بندہ توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزانہیں دیتا اوراس پر مواخذہ نہیں کرتا اوربندے کی توبہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس سے جوگناہ ہوگیا ہے اس پر نادم ہو اوردوبارہ اس گناہ کو نہ کرنے کا عزم صمیم کرے ۔اگر اس سے فرائض اورواجبات رہ گئے ہیں تو ان کو قضا کرے‘ اگرکسی کا مال غصب کرلیاتھا یا چوری کرلیا تھا تو اس کا مال اس کو واپس کردے اورجس طرح پہلے اس نے گناہ میں کوشش کی تھی اسی طرح اب اطاعت اور عبادت میں کوشش کرے اورجس طرح اس کو پہلے گناہ میں لذت حاصل ہوئی تھی اب عبادت میں لذت حاصل کرے اورہنسنا کم کردے اورروئے زیادہ۔
توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں، یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ کی قبولیت بفضل تعالیٰ یقینی ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہو کرقلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کی باقی ماندہ زندگی کے ماہ و سال کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ یوں مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہو۔
عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے:ندامت وشرمندگی،ترکِ گناہ و معصیت،توبہ پر پختہ رہنے کا عزم،اصلاحِ احوال اور اخلاص۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کر لے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے (لیکن) اگر وہ زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’’رَانَ‘‘ (زنگ) ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے : (كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ) ’’ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے عملوں کی وجہ سے سیاہی چھا گئی ہے۔،ابن ماجه ، کتاب : الزهد،۲/ ،۱۴۱۸،، الرقم : ۴۲۴۴۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک روح اس کے حلق میں پہنچ کر غر غر نہیں کرتی (یعنی جب تک وہ حالت نزع میں مبتلا نہیں ہوتا):: ترمذی ، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ،۵ / ۵۴۷، االرقم : ۳۵۳۷۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے تک (یعنی قیامت بپا ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔:: مسلم شریف، کتاب : الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، ۴/ ۲۰۷٦، الرقم : ۲۷۰۳۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا (اے اﷲ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔:: مستدرک، ۴/ ۲۹۰، الرقم : ۷٦۷۲۔
صلاۃ توبہ:ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، اور پھر استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ(آل عمران، ۳ : ۱۳۵ )۔
اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے
پھر اپنی نافرمانیوں اور رب تعالٰی کے احسانات ، اپنی ناتوانی اور جہنم کے عذابات کو یاد کر کے آنسو بہائے ۔ اس کے بعدتوبہ کی شرائط کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ربّ تعالٰی کی بارگاہ میں معافی طلب کرے : ’’اے میرے مالک عَزَّ وَجَلَّ! تیرا یہ نافرمان بندہ جس کا رُواں رُواں گناہوں کے سمندر میں ڈوباہواہے ، تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہے ، یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے دن کے اجالے میں رات کے اندھیرے میں ، پوشیدہ اوراعلانیہ ، دانستہ اور نادانستہ طور پر تیری نافرمانیاں کی ہیں ، یقیناً میں نے تجھے ناراض کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اے مولا عَزَّ وَجَلَّ! تُو غفور ورحیم ہے، تو بندے پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اگر تُو نے میرے گناہوں پر پکڑ فرمائی تو مجھے نارِ جہنم میں جلنا پڑے گا جس کا عذاب لمحہ بھرکے لئے بھی سہنے کی مجھ میں طاقت نہیں، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں صدقِ دل سے تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، اے میرے پرورد گار عَزَّ وَجَلَّ!میرے گناہوں کو معاف فرمادے، اے میرے مولا عَزَّ وَجَلَّ! مجھے سچی توبہ کی توفیق دے ، جو عبادات ادا ہونے سے رہ گئیں انہیں ادا کرنےکی ہمت دے دے ، جن بندوں کے حقوق میں نے تلف کئے ان سے بھی معافی مانگنے کا حوصلہ عطا فرما ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو ہرشے پر قادر ہے ، تُو انہیں مجھ سے راضی فرمادے ، یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے پر استقامت عطا فرما ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما!آمین۔اس کے بعد اس جگہ سے اس یقین سے اٹھے کہ رحیم وکریم پروردگار عَزَّ وَجَلَّ نے اس کی توبہ قبول فرما لی ہے ۔پھر ایک نئے عزم کے ساتھ نئی اور پاکیزہ زندگی کا آغاز کرے اور سابقہ گناہوں کی تلافی میں مصروف ہوجائے ۔اللہ تعالٰی ہمارا حامی و ناصر ہو ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں، یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ کی قبولیت بفضل تعالیٰ یقینی ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہو کرقلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کی باقی ماندہ زندگی کے ماہ و سال کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ یوں مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہو۔
عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے:ندامت وشرمندگی،ترکِ گناہ و معصیت،توبہ پر پختہ رہنے کا عزم،اصلاحِ احوال اور اخلاص۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کر لے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے (لیکن) اگر وہ زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’’رَانَ‘‘ (زنگ) ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے : (كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ) ’’ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے عملوں کی وجہ سے سیاہی چھا گئی ہے۔،ابن ماجه ، کتاب : الزهد،۲/ ،۱۴۱۸،، الرقم : ۴۲۴۴۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک روح اس کے حلق میں پہنچ کر غر غر نہیں کرتی (یعنی جب تک وہ حالت نزع میں مبتلا نہیں ہوتا):: ترمذی ، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ،۵ / ۵۴۷، االرقم : ۳۵۳۷۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے تک (یعنی قیامت بپا ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔:: مسلم شریف، کتاب : الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، ۴/ ۲۰۷٦، الرقم : ۲۷۰۳۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا (اے اﷲ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔:: مستدرک، ۴/ ۲۹۰، الرقم : ۷٦۷۲۔
صلاۃ توبہ:ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، اور پھر استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ(آل عمران، ۳ : ۱۳۵ )۔
اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے
پھر اپنی نافرمانیوں اور رب تعالٰی کے احسانات ، اپنی ناتوانی اور جہنم کے عذابات کو یاد کر کے آنسو بہائے ۔ اس کے بعدتوبہ کی شرائط کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ربّ تعالٰی کی بارگاہ میں معافی طلب کرے : ’’اے میرے مالک عَزَّ وَجَلَّ! تیرا یہ نافرمان بندہ جس کا رُواں رُواں گناہوں کے سمندر میں ڈوباہواہے ، تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہے ، یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے دن کے اجالے میں رات کے اندھیرے میں ، پوشیدہ اوراعلانیہ ، دانستہ اور نادانستہ طور پر تیری نافرمانیاں کی ہیں ، یقیناً میں نے تجھے ناراض کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اے مولا عَزَّ وَجَلَّ! تُو غفور ورحیم ہے، تو بندے پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر شفقت کرتی ہے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اگر تُو نے میرے گناہوں پر پکڑ فرمائی تو مجھے نارِ جہنم میں جلنا پڑے گا جس کا عذاب لمحہ بھرکے لئے بھی سہنے کی مجھ میں طاقت نہیں، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں صدقِ دل سے تیری بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، اے میرے پرورد گار عَزَّ وَجَلَّ!میرے گناہوں کو معاف فرمادے، اے میرے مولا عَزَّ وَجَلَّ! مجھے سچی توبہ کی توفیق دے ، جو عبادات ادا ہونے سے رہ گئیں انہیں ادا کرنےکی ہمت دے دے ، جن بندوں کے حقوق میں نے تلف کئے ان سے بھی معافی مانگنے کا حوصلہ عطا فرما ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تُو ہرشے پر قادر ہے ، تُو انہیں مجھ سے راضی فرمادے ، یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے پر استقامت عطا فرما ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما!آمین۔اس کے بعد اس جگہ سے اس یقین سے اٹھے کہ رحیم وکریم پروردگار عَزَّ وَجَلَّ نے اس کی توبہ قبول فرما لی ہے ۔پھر ایک نئے عزم کے ساتھ نئی اور پاکیزہ زندگی کا آغاز کرے اور سابقہ گناہوں کی تلافی میں مصروف ہوجائے ۔اللہ تعالٰی ہمارا حامی و ناصر ہو ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
No comments:
Post a Comment