Friday, May 31, 2019

**** قَضا ئے عُمری کا طریقہ ****

قضانَمازیں


قضانَمازیں چُھپ کر پڑھئے لوگوں پر ( یا گھر والوں بلکہ قریبی دوست پر بھی ) اس کااِظہار نہ کیجئے ( مَثَلاً یہ مت کہا کیجئے کہ میری آج کی فَجرقضا ہو گئی یا میں قَضائے عمری پڑھ رہا ہوں وغیرہ ) کہ گناہ کا اِظہاربھی مکروہِ تحریمی وگناہ ہے۔(رَدُّالْمُحتار ج۲ص٦۵۰)۔لہٰذا اگر لوگوں کی موجودَگی میں وِتر قضا پڑھیں تو تکبیرِقُنُوت کیلئے ہاتھ نہ اُٹھائیں۔
جُمُعۃُ الوَداع میں قَضائے عُمری:رَمَضانُ المبارَک کے آخِری جُمُعہ میں بعض لوگ باجماعت قضائے عُمری پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضا ئیں اِسی ایک نَماز سے ادا ہو گئیں یہ باطِل مَحض ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۰۸)۔
عمر بھر کی قَضا کا حساب:جس نے کبھی نَمازیں ہی نہ پڑھی ہوں اور اب توفیق ہوئی اورقضا ئے عمری پڑھنا چاہتا ہے وہ جب سے بالِغ ہوا ہے اُس وَقت سے نَمازوں کا حساب لگائے اور تاریخ بُلُوغ بھی نہیں معلوم تو اِحتیاط اِسی میں ہے کہ ہجری سِن کے حساب سے عورت نو سال کی عُمر سے اور مَرد بارہ سال کی عُمر سے نَمازوں کا حساب لگائے۔
قَضا پڑھنے میں ترتیب:قَضائے عُمری میں یوں بھی کر سکتے ہیں کہ پہلے تمام فجر یں ادا کرلیں پھر تمام ظُہر کی نَمازیں اسی طرح عصر ،مغرِب اور عشاء ۔

قَضا ئے عُمری کا طریقہ(حنفی)۔

قَضا ہر روز کی بیس رَکْعَتیں ہوتی ہیں ۔دو فرض فجرکے، چار ظہر، چار عصر، تین مغرِب ، چار عشاء کے اور تین وِتر ۔
نیّت اِس طرح کیجئے،مَثَلاً: ’’ سب سے پہلی فَجرجو مجھ سے قَضا ہوئی اُس کو ادا کرتا ہوں۔ ‘‘ ہرنَماز میں اِسی طرح نیّت کیجئے ۔
جس پر بکثرت قَضانَمازیں ہیں وہ آسانی کیلئے اگر یُوں بھی ادا کرے تو جائز ہے کہ ہر رُکوع اور ہرسَجدے میں تین تین بار ’’سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ‘سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ کی جگہ صرف ایک ایک بار کہے ۔ مگر یہ ہمیشہ اور ہر طرح کی نَماز میں یاد رکھنا چاہئے کہ جب رکُوع میں پوراپَہنچ جائے اُس وقت سُبحٰن کا ’’سین ‘ ‘ شُروع کرے اور جب عظیم کا ’’ میم‘‘ ختم کر چکے اُس وقت رُکوع سے سر اٹھا ئے ۔ اِسی طرح سَجدے میں بھی کرے۔ ایک تَخفیف(یعنی کمی) تویہ ہوئی اور دوسری یہ کہ
فرضوں کی تیسری اور چوتھی رَکْعَت میں اَلحَمْد شریف کی جگہ فَقَط’’ سُبْحٰنَ اللہِ‘‘ تین بار کہہ کر رُکوع کر لے ۔ مگر وِتر کی تینوں رَکْعَتوں میں اَلحَمْد شریف اور سُورت دونوں ضَرور پڑھی جائیں ۔تیسری تَخفیف(یعنی کمی) یہ کہ
قعدئہ اَخیرہ میں تَشَھُّد یعنی اَلتَّحِیّات کے بعد دونوں دُرُودوں اور دعا کی جگہ صِرْف ’’ اللہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ‘‘ کہہ کر سلام پھیر دے ۔ چوتھی تَخفیف(یعنی کمی) یہ کہ
وِتْر کی تیسری رَکْعت میں دعائے قُنُوت کی جگہ اللہُ اکبر کہہ کر فَقَط ایک بار یا تین بار’’ رَبِّ اغْفِرْ لِی‘ ‘ کہے ۔(مُلَخَّص اَز فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ ص۱۵۷)۔

یاد رکھئے! تَخفیف (یعنی کمی)کے اس طریقے کی عادت ہر گز نہ بنائیے،معمول کی نمازیں سنّت کے مطابِق ہی پڑھئے اور ان میں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سُنَن اور مُستَحَبّات وآداب کی بھی رِعایت کیجئے۔
نمازِ قَصر کی قَضا:اگر حالتِ سفر کی قَضانَماز حالتِ اِقامت میں پڑھیں گے تو قَصر ہی پڑھیں گے اور حالتِ اِقامت کی قَضا نَمازحالتِ سفر میں پڑھیں گے تو پوری پڑھیں گے یعنی قصر نہیں کریں گے۔(عالمگیری ج۱ص۱۲۱)۔
زمانۂ اِرتِداد کی نَمازیں:جو شَخص مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مُرتَد ہوگیا پھر اسلام لایا تو زمانۂ اِرتِداد کی نَمازوں کی قَضا نہیں اورمُرتَد ہونے سے پہلے زمانۂ اسلام میں جو نَمازیں جاتی رہی تھیں اُن کی قضا واجِب ہے۔(رَدُّالْمُحتار ج۲ص٦۴۷)۔
قَضا نَمازیں نوافِل کی ادائیگی سے بہتر:’’ فتاوٰی شامی ‘‘میں ہے :قَضانَمازیں نوافِل کی ادائیگی سے بہتر اور اَ ہم ہیں مگر سُنَّتِ مُؤَکَّدہ ،نَمازِ چاشْتْ،صَلٰوۃُ التَّسبِیح اور وہ نَمازیں جن کے بارے میں احادیث ِ مبارَکہ مروی ہیں یعنی جیسے تَحِیَّۃُ المسجِد ، عصْر سے پہلے کی چار رَکْعت(سُنَّتِ غیر مُؤَکَّدہ ) اور مغرِب کے بعد چھ رَکْعتیں ۔(پڑھی جائیں گی)(رَدُّالْمُحتار ج۲ص٦۴٦)۔
یاد رہے !قَضا نَما ز کی بِنا پر سُنَّتِ مُؤَکَّدہ چھوڑنا جائز نہیں ، البتّہ سُنَّتِ غیرمُؤَکَّدہ اور حدیثوں میں وارِد شُدہ مخصوص نوافِل پڑھے تو ثواب کا حقدار ہے مگر انہیں نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ،چاہے ذِمّے قضا نَماز ہو یا نہ ہو۔
فَجر و عَصر کے بعد نوافِل نہیں پڑھ سکتے:نَماز ِ فَجر اور عَصر کے بعد وہ تمام نوافِل ادا کرنے مکروہِ( تحریمی) ہیں جو قصداً ہوں اگر چِہ تَحِیّۃُ المسجِد ہوں ، اور ہر وہ نَماز(بھی نہیں پڑھ سکتے) جو غیر کی وجہ سے لازِم ہو مَثَلاً نَذر اور طواف کے نوافِل اور ہر وُہ نَماز جس کو شُروع کیا پھر اسے توڑ ڈالا ، اگر چِہ وہ فَجر اور عصر کی سنتّیں ہی کیوں نہ ہوں۔(دُرِّمُختار ج۲ص۴۴۔۴۵)۔
قَضا کیلئے کوئی وقت مُعَیَّن نہیں عمر میں جب (بھی)پڑھے گابَرِیُّ الذِّمَّہ ہو جا ئے گا۔ مگر طلوع و غروب اورزوال کے وَقت نَمازنہیں پڑھ سکتا کہ ان وقتوں میں نَماز جائز نہیں۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۰۲، عالمگیری ج۱ص۵۲)۔

copywrites © 2019,

Thursday, May 30, 2019

Ameer e Ahle Sunnat Hazrat Allama Maulana Muhammad Ilyas Attari Qadri[امیرِاہلسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ]

Ameer e Ahle Sunnat Hazrat Allama Maulana Muhammad Ilyas Attari Qadri[امیرِاہلسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ]

امیرِاہلسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ


شیخ طریقت، اَمیراَہلسنّت ،بانی ٔ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت مبارکہ ۲٦ رَمَضانُ المبارَک ۱۳٦۹ھ؁ بمطابق ۱۹۵۰ء؁ میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ کراچی میں ہوئی۔آپ کی کنیت "ابوبلال"اور تخلص "عطار" ہے۔
امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے والدِبُزُرگوارحاجی عبدالرَحمن قادِری علیہ رحمۃ اللہ الھادی باشرع اور پرہیز گارشخص تھے اور سلسلۂ عالیہ قادِریہ میں بیعت تھے۔ امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عالَمِ شِیْر خوارگی ہی میں تھے کہ آپ کے والد ِ محترم ۱۳۷۰ھ میں سفرِ حج پر روانہ ہوئے ۔ایامِ حج میں منٰی میں سخت لُو چلی جس کی وجہ سے کئی حجاج کرام فوت ہوگئے،ان میں حاجی عبدالرحمن علیہ رحمۃ المنّان بھی شامل تھے جو مختصر علالت کے بعد ۱۴ذوالْحِجَّۃ الحرام ۱۳۷۰ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
امیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ دورِ شباب ہی میں علومِ دینیہ کے زیور سے آراستہ ہوچکے تھے۔آپ دامت برکاتہم العالیہ نے حصولِ علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اورصحبت ِعلماء کو اختیار کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقارالدین قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے کیااورمسلسل ۲۲ سال آپ علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی صحبت بابَرَکت سے مستفیض ہوتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے قبلہ امیرِاَہلسنّتدامت برکاتہم العالیہ کو اپنی خلافت واجازت سے بھی نوازا۔
الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ! کثرتِ مطالعہ ،بحث وتمحیص اوراَکابر علَماء ِکرام سے تَحْقِیق وتَدْقِیق کی وجہ سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مسائلِ شَرْعیہ اورتصوّف واَخلاق پر دسترس ہے ۔ صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی شہرۂ آفاق تالیف ’’بہارِ شریعت‘‘ اورامامِ اہلِسنّت ،مجددِ دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن کے فتاویٰ کا عظیم الشان مجموعہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ عموماً آپ دامت برکاتہم العالیہ کے زیرِ مطالعہ رہتے ہیں۔ حجۃُ الاسلام امام محمدغزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی کتب بالخصوص ’’احیاء العلوم‘‘ کی بہت تحسین فرماتے ہیں اوراپنے مُتَوَسِّلین کوبھی پڑھنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں ، ان کے علاوہ دیگر اکابرین دامت فیوضہم کی کتب کا چیدہ چیدہ مطالعہ بھی آپ کے معمولات میں شامل ہے
امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ وعشق رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰٰلہٖ وسلم،جذبۂ اتباع ِقرآن وسنّت ،جذبہ احیائِ سنّت،زہدوتقویٰ، عفو ودرگزر، صبروشکر، عاجزی وانکساری،سادگی ،اخلاص، حسنِ اخلاق،جود وسخا، دنیاسے بے رغبتی، حفاظتِ ایمان کی فکر ، فروغ ِعلم دین ،خیر خواہیٔ مسلمین جیسی صفات میں یادگارِ اسلاف ہیں۔
سرکارِ ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے بھرپور محبت کا نتیجہ ہے کہ امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زندگی سنّتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کا عاشقِ رسول ہونا ہر خاص وعام پر اتنا ظاہر وباہِر ہے کہ آپ کو عاشقِ مدینہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو بار ہا یادِ مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اور فراق طیبہ میں آنسوبہاتے دیکھا گیا ہے۔ اجتماع ِ ذکرونعت میں تو آپ کی رقّت کا بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ کبھی کبھی آپ یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میں اس قدردیوانہ وار تڑپتے اور روتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو رحم آنے لگتا ہے اور وہ بھی رونے لگتے ہیں۔

حضرت شَیخُ الفضیلت آفتابِ رَضَویت ضیائُ الْمِلَّت، مُقْتَدائے اَہلسنّت، مُرید و خلیفہ ٔ اعلیٰ حضرت،پیرِ طریقت، رَہبرِ شَرِیْعَت ، شَیخُ العَرَب و العَجَم، میزبانِ مہمانانِ مدینہ ، قطبِ مدینہ ، حضرت علامہ مولٰینا ضیاء الدین اَحمد مَدَنی قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ذات گرامی سے بیعت ہوئے۔
حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے کی ذمہ داری مَحسوس کرتے ہوئے ایک ایک اسلامی بھائی پر انفرادی کوشش کر کے مسلمانوں کویہ ذہن دینا شروع کیا کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ آپ نے۱۴۰۱ھ میں’’دعوتِ اسلامی‘‘ جیسی عظیم اورعالمگیر تحریک کے مَدَنی کام کا آغاز فرما دیا۔الحمدللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یہ آپ کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مختصر سے عرصے میں دعوتِ اسلامی کا پیغام (تادم تحریر)دنیا کے ۲۰۰ممالک میں پہنچ چکا ہے اور لاکھوں عاشقانِ رسول نیکی کی دعوت کو عام کرنے میں مصروف ہیں ، مختلف ممالک میں کُفار بھیمُبَلِّغینِ دعوت ِ اسلامی کے ہاتھوں مُشَرَّف بہ اسلام ہوتے رَہتے ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہکی جہدِمسلسل نے لاکھوں مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپا کردیاجس کی بدولت وہ فرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سر پر عمامے کے تاج اور چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی بھی سجالیتے ہیں۔دعوت اسلامی سنتوں کی خدمت کے کم و بیش ۱۰۰شعبہ جات قائم کر چکی ہے۔لاکھوں مسلمان آپ دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھوں بیْعَتْ ہوکر حضور سیدنا غوثِ اعظم دستگیر ،پیرانِ پیر ،قطبِ ربّانی شَیخ عبد القادرجیلانی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے دامنِ کرم سے وابستہ ہوچکے ہیں۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کے تخلص عطّار کی نسبت سے آپ کے مُریدین اپنے نام کے ساتھ عطّاری لکھتے اور بولتے ہیں۔اَمیرِ اَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عُلَمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے بے حد عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :’’علماء کو ہماری نہیں ،ہمیں علماء دامت فیوضھم کی ضرورت ہے ،یہ مَدَنی پھول ہر دعوتِ اسلامی والے کی نس نس میں رچ بس جائے۔‘‘ ایک مرتبہ فرمایا: ’’علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔‘‘
امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ ان علماء میں سے ہیں جن کے بیانات سننے والوں پرجادو کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے بین الاقوامی اور صوبائی سطح کے اجتماعات میں بیک وقت لاکھوں مسلمان آپ کے بیان سے مستفیض ہوتے ہیں۔آپ کا اندازِبیان بے حد سادہ اور عام فہم اورطریقہ تفہیم ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دل میں تاثیر کا تیر بن کر پیوست ہوجاتا ہے ۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پر آچکے ہیں۔
امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ صاحب ِ قلم عالمِ دین ہیں۔آپ دامت برکاتہم العالیہ کوصفِّ مصنفین میں امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا یہی وجہ ہے کہ عوام وخواص دونوں آپ دامت برکاتہم العالیہ کی تحریروں کے شیدائی ہیں اور آپ دامت برکاتہم العالیہ کی کتب ورسائل کو نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو مطالعے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خرید کر مفت تقسیم بھی کرتے ہیں۔ آپ کی عظیم تالیف ’’فیضانِ سنت ‘‘(جلد اول) پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے علاوہ بھی درجنوں موضوعات پر آپ کی کتب ورسائل موجود ہیں۔امیرِاَہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ شاعری بھی فرماتے ہیں۔حمد ونعت کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور بزرگان دین رحمھم اللہ کی شان میں متعدد منقبتیں اور مدحیہ قصائد بھی قلم بند فرمائے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں امیرِ اہلِسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سنّتوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم۔
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اِن پر رحمت ہو اور اِن کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔۔۔۔

copywrites © 2019,

Wednesday, May 29, 2019

**** یا الہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو ****


 یا الہٰی  ہر   جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو

جب پڑے مشکل شہ مشکل کشا کا ساتھ ہو
یا الہٰی بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادی دیدار حسن مصطفی کا ساتھ ہو
یا الہیٰ گور تیرہ کی آئے جب سخت رات
ان کے پیارے منہ کی صبح جانفزا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب پڑے محشر میں شور داروگیر
امن دینے والےپیارے پیشوا کا ساتھ ہو
یا الہیٰ جب زبانیں باہر آیئں پیاس سے
صاحب کوثر شہ جودو عطا کا ساتھ ہو
یا الہٰی سرد مہری پر ہو جب خورشید حشر
سید بے سایہ کے ظل لوا کا ساتھ ہو
یا الہٰی گرمی محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامن محبوب کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو
یا الہٰی نامہ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوش خلق ستار کا ساتھ ہو
یا الہٰی  جب بہیں آنکھیں حساب جرم میں
ان تبسم ریز ہونٹوں کی دعا کا ساتھ ہو
یا الہٰی  جب حساب خندہ بیجا رلائے
چشم گریان مرتجے کا ساتھ ہو
یا الہٰی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
ان کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب چلوں تاریک راہ پل صراط
آفتاب ہاشمی نورالہدیٰ کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب سر شمشیر پر چلنا پڑے
رب سلم کہنے والے غمزدا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے اٰمین ربنا کا ساتھ ہو
یا الہٰی جب رضا خواب گراں سے سر اُٹھائے
دولت بیدار عشق مصطفےٰ کا ساتھ 

Tuesday, May 28, 2019

******* الوداع الوداع ماہ رمضان(جمعۃ الوداع)۔ *******



قلب عاشق ہے اب پارہ پارہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

کلفت ہجر و فرقت نے مارا
الوداع الوداع ماہ رمضان

تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا
اور ذوق عبادت بڑھا تھا

آہ! اب دل پہ ہے غم کا غلبہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

تیری آمد یہ جو خوش ہو رخصت
پر کرے غم ملے اس کو جنت

یہ حدیث مبارک میں آیا
الوداع الوداع ماہ رمضان

مسجدوں میں بہار آگئی تھی
جوق در جوق آتے نمازی

ہو گیا کم نمازوں کا جذبہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

بزم افطار سجتی تھی کسی !
خوب سحری کی رونق بھی ہوتی

سب سماں ہوگیا سونا سونا
الوداع الوداع ماہ رمضان

تیرے دیوانے اب رو رہے ہیں
مضطرب سب کے سب ہورہے ہیں

ہائے اب وقت رخصت ہے آیا
الوداع الوداع ماہ رمضان

تیرا غم سب کو تڑپا رہا ہے
آتش، شوق بھڑکا رہا ہے

پھٹ رہا ہے ترے غم میں سینہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

یاد رمضان کی تڑپا رہی ہے
آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ہے

کہہ رہا ہے یہ ہر ایک قطرہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

دل کے ٹکڑے ہوئے جارہے ہیں
تیرے عاشق مرے جارہے ہیں

رو رو کہتا ہے ہر اک بچارہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

حسرتا ماہ رمضان کی رخصت
قلب عشاق پر ہے قیامت

کون دے گا انہیں اب دلاسہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

کوہ غم آہ ! ان پر پڑا ہے
ہر کوئی خون اب رو رہا ہے

کہہ رہا ہے یہ ہر غم کا مارا
الوداع الوداع ماہ رمضان

تم پہ لاکھوں سلام مہ رمضان
تم پہ لاکھوں سلام ماہ غفراں

جاؤ حافظ خدا اب تمہارا
الوداع الوداع ما ہ رمضان

نیکیاں کچھ نہ ہم کر سکے ہیں
آہ! عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں

ہائے! غفلت میں تجھ کو گزارا
الوداع الوداع ماہ رمضان

واسطہ تجھ کو میٹھے نبی کا
حشر میں ہم کو مت بھول جانا

روز محشر ہمیں بخشوانا
الوداع الوداع ماہ رمضان

جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ
تیری آمد کا پھر شور ہوگا

کیا مری زندگی کا بھروسہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

ماہ رمضان کی رنگین ہواؤ!
ابر رحمت سے مملو فضاؤ

لو سلام آخری اب ہمارا
الوداع الوداع ماہ رمضان

کچھ نہ حسن عمل کرسکا ہوں
نذر چند اشک میں کررہا ہوں

بس یہی ہے مرا کل اثاثہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

ہائے عطار، بدکار کاہل
رہ گیا یہ عبادت سے غافل

اس سے خوش ہو کے ہونا روانہ
الوداع الوداع ماہ رمضان

سال آئندہ شاہ حرم تم
کرنا عطار پر یہ کرم تم

تم مدینے میں رمضان دکھاتا
الوداع الوداع ماہ رمضان

Monday, May 27, 2019

**** کلام:بخت خفتہ نے مجھے روزے پہ جانے نہ دیا ****

بخت خفتہ نے مجھے روضہ پہ جانے نہ دیا
چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا


آہ قسمت! مجھے دنیا کے غموں نے نہ روکا
ہائے تقدیر کہ طیبہ مجھے جانے نہ دیا


پاؤں تھک جاتے اگر پاؤں بناتا سر کو
سر کے بل جاتا مگر ضعف نے جانے نہ دیا


ہائے اس دل کی لگی کو بجھاؤں کیونکر
فرط غم نے مجھے آنسو بھی گرانے نہ دیا


ہاتھ پکڑے ہوئے لے جاتے جو طیبہ مجھ کو
ساتھ اتنا بھی تو میرے رفقا نے نہ دیا


سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا


حسرت سجدہ یونہی کچھ تو نکلتی لیکن
سر بھی سرکار نے قدموں پہ جھکانے نہ دیا


کوچہ دل کو بسا جاتی مہک سے تیری
کام اتنا بھی مجھے باد صبا نے نہ دیا


کبھی بیمار محبت بھی ہوئے ہیں اچھے
روز افزوں ہے مرض کام دوا نے نہ دیا


شربت دیدار نے آگ لگا دی دل میں
تپش دل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا


اب کہاں جائے گا نقشہ ترا مرے دل سے
تہ میں رکھا ہے اسے دل نے گمانے نہ دیا


دیس سے ان کے جو الفت ہے تو دل نے میرے
اس لئے دیس کا جنگلہ بھی تو گانے نہ دیا


دیس کی دھن ہے وہی راگ الاپا اس نے
نقش نے ہائے خیال اس کا مٹانے نہ دیا


نفس بدکار نے دل پر یہ قیامت توڑی
عمل نیک کیا بھی تو چھپانے نہ دیا


نفس بدکیش ہے کس بات کا دل پہ شاکی
کیا برا دل نے کیا ظلم کمانے نہ دیا


میرے اعمال کا بدلہ تو جہنم ہی تھا
میں تو جاتا مجھے سرکار نے جانے نہ دیا


میرے اعمال سیہ نے کیا جینا دو بھر
زہر کھاتا ترے ارشاد نے کھانے نہ دیا


اور چمکتی سی غزل کوئی پڑھو اے نوریؔ
رنگ اپنا ابھی جمنے شعرا نے نہ دیا


کلامِ حضور مفتی اعظم هند مولانا مصطفیٰ رضا خان نوریؔ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

Saturday, May 25, 2019

Hazrat Allama Sayyed Shah Turab ul Haq Qadri R.A[حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ]

Hazrat Allama Sayyed Shah Turab ul Haq Qadri R.A[حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ]

حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ


خاندان اہل بیت کے چشم و چراغ، جماعت اہلسنت کے روح رواں، مسلک اعلیٰ حضرت کے نقیب، میدان خطابت کے شہسوار، متعدد کتب کے مصنف، یادگار سلف، افتخار خلف، پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ ماہ رمضان کی ۲۷ تاریخ۱۳٦٦ھ ۲۵ اگست ۱۹۴٦ء کو ہندوستان کی ریاست حیدرآباد دکن کے ایک شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد ماجد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری بن سید شاہ محی الدین قادری بن سید شاہ عبداﷲ قادری بن سید شاہ مہراں قادری تھا اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا اور آپ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے فاروقی ہیں یعنی سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن حضرت علامہ مولانا انوار اﷲ خان صاحب فاروقی علیہ الرحمہ سے آپ کا ننھیال ہے۔

حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ ان کا خاندان تقسیم ہند اور سقوط حیدرآباد دکن کے بعد ۱۹۵۱ء میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) کے قریب لیاقت بستی میں قیام کیا، اس کے بعد کورنگی منتقل ہوگئے۔کراچی میں ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر پیر طریقت رہبر شریعت ولیٔ نعمت قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ سے گھر پر کتابیں پڑھیں، پھر ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ میں داخلہ لے لیا جہاں زیادہ تر اسباق قاری صاحب علیہ الرحمہ کے پاس پڑھے اور سند صدر الشریعۃ بدر الطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی (متوفی ۱۳٦۷ھ) علیہ الرحمہ کے صاحبزادے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی ازہری علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کے شیخ الحدیث تھے جبکہ اعزازی سند وقار الملت سرمایہ اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی حنفی علیہ الرحمہ سے حاصل کی جو اس وقت ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی کی مسند افتاء پر فائز تھے۔
آپ کا نکاح ۱۹٦٦ء میں پیر طریقت ولی نعمت حضرت علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ کی دختر نیک اختر سے ہوا۔ جس سے اﷲ تعالیٰ نے تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سید شاہ عبدالحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطا ہوئیں۔
۔۱۹٦۲۔ میں بذریعہ خط اور ۱۹٦۸ء میں بریلی شریف حاضر ہوکر امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی (متوفی ۱۳۴۰ھ) کے چھوٹے فرزند مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا خان صاح کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اس سفر میں آپ تیرہ روز حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے دولت خانے پر قیام پذیر رہے اور آپ سے تعویذات کی تربیت اور اجازت بھی حاصل کی۔ اسی دوران ’’مسجد رضا‘‘ میں نمازوں میں امامت فرماتے اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ ان کی اقتداء میں نمازیں ادا فرماتے، نیز کئی جلسوں میں حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی موجودگی میں تقریر فرمائی اور داد تحسین حاصل کی۔

سلسلہ عالیہ قادری، برکاتیہ،اشرفیہ، شاذلیہ، منوریہ، معمریہ اور دیگر تمام سلاسل میںآپ کو اپنے پیر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ، اپنے استاد و سسر پیر طریقت حضرت علامہ قاری مصلح الدین علیہ الرحمہ اور قطب مدینہ شیخ عرب و عجم حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے زینت العلماء مولانا فضل الرحمن مدنی علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔قبلہ قاری صاحب علیہ الرحمہ نے مورخہ ۲۷ جمادی الثانی ۱۴۰۲ھ بمطابق ۲۲اپریل ۱۹۸۲ء بروز جمعرات بعد نماز عشاء بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن بتقریب خرقہ خلافت سند اجازت اور محفل نعت بروانگی عمرہ حاضری دربار مدینہ میں حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری صاحب کو سند خلافت اور اجازت بیعت عطا فرمائی۔
حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ ۱۹٦۵ء تا ۱۹۷۰ء چھ سال ’’محمدی مسجد‘‘ کورنگی کراچی میں اور ۱۹۷۰ء تا ۱۹۸۲ء بارہ سال ’’اخوند مسجد‘‘ کھارادر کراچی میں امامت و خطابت فرماتے رہے پھر جب ۱۹۸۳ء میں ان کے استاد قاری مصلح الدین نے اپنے وصال سے دو سال قبل ’’میمن مسجد‘‘ مصلح الدین گارڈن سابقہ کھوڑی گارڈن کراچی کی امامت و خطابت ان کے سپرد کی۔ اس وقت سے تا وفات ۲۰۱٦ء یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ہیں۔
تقاریر کا سلسلہ آپ نے ۱۹٦۲ء میں شروع کیا جبکہ آپ ابھی طالب علم تھے، فراغت کے بعد مادر علمی ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کراچی سے مبلغ کے طور پر خدمات انجام دیں، ہر جلسہ میں ’’دارالعلوم امجدیہ‘‘ کی جانب سے خطیب کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ ایسا دور تھا کہ آپ ایک دن میں بارہ بارہ تقاریر بھی کرتے تھے۔حضرت نے اپنی مصروفیات کے باوجود سرکاری، نیم سرکاری ونجی اداروں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں ہونے والے میلاد شریف کے جلسوں میں جاکر مسلک حق اہلسنت کے فروغ کے لئے تبلیغ فرمائی اور اس کا سلسلہ اڑتیس سال سے زائد عرصہ تک چلتا رہا پھر آپ نے طبیعت کی ناسازی اور مصروفیت کی زیادتی کی بناء پر تقاریر کا سلسلہ تقریبا موقوف کردیا۔ اب صرف جہاں جانا نہایت ضروری ہوتا ہے، وہیں تقریر کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی مسجد میں باقاعدگی سے جمعہ کا خطاب فرماتے ہیں اور جلسوں پر اکثر اپنے فرزند ارجمند حضرت علامہ مولانا سید شاہ عبدالحق قادری مدظلہ کو بھیج دیتے ہیں۔

دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ اپنی تقاریر اور مواعظ حسنہ کے ذریعے کونے کونے میں اسلام کی دعوت کو عام کیا۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۷ء سے شروع ہوا، جب آپ نے پہلا دورہ نیروبی کینیا کا فرمایا اور لوگوں کی دعوت پر کئی بار عرب امارات، سری لنک، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی، بیلجیم، امریکہ، سائوتھ افریقہ، کینیا، تنزانیہ، زمبابوے، عراق، زنزیبار، زمبیا، فرانس، اردن اور مصر تشریف لے گئے اور سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے چین کا دورہ کیا اور ’’کنزالایمان‘‘ اور اہلسنت و جماعت کا لٹریچر وہاں کے مسلمانوں تک پہنچایا، نیز سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے اردن اور مصر کا بھی دورہ فرمایا۔
۔۱۹۵٦۔۔میں ضرورت محسوس کی گئی کہ تبلیغ دین اور اشاعت مسلک اہلسنت کی انفرادی کوششوں کو اجتماعی طور پر منظم کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے کراچی میں خالص مذہبی جماعت ’’جماعت اہلسنت‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ خطیب پاکستان حضرت علامہ محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ کے امیر شیخ محمد اسماعیل اس کے ناظم اعلیٰ اور حاجی محمدصدیق خازن مقرر ہوئے۔
حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحمتہ الله تعالى علیہ نے تفسیر، حدیث، فقہ حنفی، عقائد، تصوف اور فضائل وغیرہ کے موضوعات پر مندرجہ ذیل کتابیں لکھیں:تصوف و طریقت،خواتین اور دینی مسائل،ضیاء الحدیث،جمال مصطفیﷺ،امام اعظم ابوحنیفہ رح،مزارات اولیاء اور توسل،فلاح دارین،رسول خدا کی نماز،مبلغ بنانے والی کتاب،حضورﷺ کی بچوں سے محبت،دینی تعلیم،تفسیر سورۂ فاتحہ،مبارک راتیں،اسلامی عقائد،تفسیر سورۂ والضحیٰ تا سورۂ الناس،جنتی لوگ کون؟،مسنون دعائیں،فضائل شعبان المعظم اور فضائل صحابہ و اہلبیت و دیگر
شاہ تراب الحق قادری طویل علالت کے بعد ایک نجی اسپتال میں جمعرات ٦اکتوبر ۲۰۱٦ء بمطابق۴محرم ۱۴۳۸ہجری کو ۷۲ سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ نمازجنازہ ان کے صاحبزادے سید شاہ عبد الحق قادری نے پڑھائی اور مریدین، معتقدین، دینی اکابر، سیاسی رہنماؤں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے انھیں میمن مسجد مصلح الدین گارڈن (سابقہ کھوڑی گارڈن)میں قاری محمد مصلح الدین کے پہلو میں سپردخاک کیا۔

copywrites © 2019,

Friday, May 24, 2019

******* عید الفطر و نمازِ عید کا طریقہ *******

عید الفطر


جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے۔ اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مرجائیں گے۔(یعنی قیامت کے دن)۔( مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦۹۳)۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اس ماہ مبارک کی چاند رات کو لیلۃ الجائزہ یعنی انعام والی رات بھی کہتے ہیں۔ یہ بڑی عظمت والی رات ہے، اس رات کو بہتر تو یہ ہے کہ یاد الٰہی میں گزارے۔ ورنہ عشاء کی نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھے اور فجر کی نماز کی تکبیر اولیٰ میں شریک ہوجائے تو شب بھر بیداری کے ساتھ عبادت میں مصروف رہنے کا ثواب ملے گا۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۰۵)۔
حدیث شریف میں ہے۔ جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن ۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے ۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا ۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔(مشکوٰۃ صفحہ ١٨٣)۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہِ رمضان میں روزے رکھے، عید الفطرکی رات میں پورا پورا اجر عطا فرمادیتا ہے اورعید کی صبح فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور ہر گلی، کوچہ اور بازار میں اعلان کردو (اس آواز کو جن و انس کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں! اپنے رب کی طرف بڑھو وہ تمہاری تھوڑی نماز کو قبول کرکے بڑا اجر عطا فرماتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے پھر جب لوگ عید گاہ روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں نماز سے فارغ ہوکر دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا اور کسی گناہ کو بغیر معاف کئے نہیں چھوڑتا اور لوگ اپنے گھروں کو ”مغفور” ہو کر لوٹتے ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ ٤٠٥)۔
حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر عید کے دن ابلیس چلا کر روتا ہے ۔ دوسرے شیاطین اس کے پاس جمع ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں : اے ہمارے سردار آپ کیوں ناراض ہیں ؟ وہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ نے اس دن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو معاف کردیا۔ اب تم پر لازم ہے کہ انہیں شہوات و لذّات میں ڈال کر غافل کردو (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)۔

عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن اپنے بندوں کی طرف فرحت و شادمانی باربار عطا کرتاہے یعنی عید اور عود ہم معنی ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو منافع، احسانات اور انعامات حاصل ہوتے ہیں یعنی عید عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے یا عید کے دن، بندہ چونکہ گریہ و زاری کی طرف لوٹتا ہے اور اس کے عوض اللہ تعالیٰ بخشش و عطا کی جانب رجوع فرماتا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بندہ اطاعت الٰہی سے اطاعت رسولﷺ کی طرف رجوع کرتا اور فرض کے بعد سنت کی طرف پلٹتا ہے، ماہ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس لیے اس کو عید کہتے ہیں عید کی وجہ تسمیہ کے متعلق بعض علماء کا کہنا ہے کہ عید کو اس لیے عید کہا گیا ہے کہ اس دن مسلمانوں سے کہا جاتا ہے(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) کہ اب تم مغفور ہو کر اپنے گھروں اور مقامات کو لوٹ جاؤ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اس کو عید اس لیے کہا گیا کہ اس میں وعدہ و وعید کا ذکر ہے، باندی اور غلام کی آزادی کا دن ہے، حق تعالیٰ اس دن اپنی قریب اور بعید مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے، کمزور و ناتواں بندے اپنے رب کے سامنے گناہوں سے توبہ اور رجوع کرتے ہیں۔ (غنیۃ الطالبین صفحہ۴۰۴ اور ۴۰۵)۔

میں نیت کرتا ہوں دو رکعات نماز عید الفطر واجب زائد چھ تکبیرات کے ساتھ، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، متوجہ ہوا میں بیت اللہ شریف کی طرف، پیچھے حاضر اس امام کے۔ پھر امام کے تکبیر تحریمہ ادا کرنے کے بعد مقتدی تقلید کرتے ہوئے اپنی تکبیر تحریمہ کہے گا۔ یعنی نیت کے بعد کانوں تک ہاتھ اٹھا کر،ہتھیلیوں کوقبلہ رخ کرکے’’اللہ ُاکبر‘‘ زبان سے ادا کرنا پھر ہاتھوں کو باندھ لینا، اور ثنا پڑھنا جو عام نمازوں میں پڑھتے ہیں۔ ثناپڑھ لینے کے بعد امام صاحب تین تکبیریں باآوازِ بلند کہیں گے، پہلی تکبیر پر مقتدی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے چھوڑ دینگے، دوسری تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر پھر چھوڑ دینگے اور تیسری تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھا کر، ہاتھوں کو زیرِ ناف باندھ لیں گے۔ امام صاحب تلاوت کریں گے اور رکوع و سجود کریں گے پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوں گے، تلاوت ہوگی، رکوع میں جانے سے پہلے بقایا تین تکبیرات کی ادائیگی اس طرح ہوگی کہ امام صاحب سے پہلی تکبیر سن کر مقتدی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے گرادینگے، دوسری اور تیسری تکبیر پر بھی کانوں تک ہاتھ اٹھا کر نیچے گرادینگے جبکہ چوتھی تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں گے، باقی عام نماز وں کے انداز میں نماز مکمل ہوگی۔
نماز جمعہ کے بر عکس عید الفطر اور عید الاضحی کے خطبے فراغت ِ نماز کے بعد ہوتے ہیں دورانِ خطبہ مقتدیوں کو خاموش اور باادب بیٹھنا چاہیے، ادھر اُدھر دیکھنے، بلا وجہ بدن کھجانے، موبائل فون استعمال کرنے،چہرے سے بے زاری کا اظہار کرنے، خطبے اور دعا کی طوالت پر عدم دلچسپی کا اظہار کرنے سے بچنا چاہیے۔
عید الفطر کے مستحب کام : حجامت بنوانا ،ناخن ترشوانا،غسل کرنا ،مسواک کرنا،اچھے کپڑے پہننا نیا ہو تو بہتر ورنہ دھلا ہوا ہو ،ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا ،خوشبو لگانا، فجرکی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا،نبی کریم اکی بارگاہ میں بصد خلوص درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا،عید گاہ میں جلدی جانا ،عید گاہ کو پیدل جانا ،واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کرناراستے میں تکبیرتشریق(اللہ اکبر اللہ اکبرلا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا،نمازعید کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا، تین یا پانچ یا سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالے۔ نماز سے پہلے کچھ نہ کھایا تو گنہگار نہ ہوگا مگر عشاء تک نہ کھایا تو گنہگار بھی ہوگا اورعتاب بھی کیا جائے گا،نماز عید کے بعد معانقہ و مصافحہ کرنا اور رمضان کی کامیابیوں پر مبارکباد اور عید کی مبارکباد دینا اورسُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ ٣٠٠ مرتبہ پڑھنا بے حد اجر و ثواب کا باعث ہے۔
عید کے دن کا انمول وظیفہ: حضور اکرم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جس نے عید کے دن تین سو بار یہ ورد پڑھا سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ (اللہ پاک ہے اور اس کی حمد ہے) پھر اس کا ثواب تمام مسلمان مُردوں کو بخش دیا، تو ہر قبر میں ایک ہزارا نوار داخل ہوں گے اور جب یہ آدمی فوت ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کی قبر میں بھی ایک ہزارا نوار داخل کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٩٢)۔

copywrites © 2019,

Thursday, May 23, 2019

Ummul Momineen Hazrat Ayesha Siddiqa R.A[ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا]

Ummul Momineen Hazrat Ayesha Siddiqa R.A[ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا]

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا


سیدہ ساجدہ طیبہ طاہرہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری مقدس زوجہ محترمہ ہیںآپ کا نام عائشہ اور کنیت ام عبداللہ ہے آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام عبداللہ ،تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی رکھی تھی جبکہ آپ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بغرض تحنیک بحضور نبوی پیش کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا، یہ عبداللہ ہے اور تم ام عبداللہ ہو۔(فتح الباری)۔
آپ کے والد ماجد کا نام امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہے اور والدہ ماجدہ کا نام ام رومان زینب بنت عامر ہے ،جن کا انتقال ٦ھ میں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چار برس بعد پیدا ہوئیں۔ ۱۰ھ بعثت میں حضورﷺ کے نکاح میں آئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف اس وقت چھ سال کی تھی حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد خولہ بنت حکم کی وساطت سے نکاح ہوا۔چار سودرہم مہر مقرر ہوا ۔نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم تین سال مکہ میں مقیم رہے جب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ساتھ تھے ۔اہل و عیال مکہ چھوڑ کر آئے تھے جب مدینہ میں اطمینان ہوا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عیال کو مدینہ بلا لیا ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ ،ام کلثوم اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے لانے کے لئے حضرت عبداللہ بن اریقط کو بھج دیا ماہ شوال میں نو سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی ہوئی۔

ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا علم و فضل کے لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں۔حضرت ابو بکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں فتوی دیتی تھیں اکابر صحابہ کرام علیہ الرضوان آپ کے علم و فضل کے معترف تھے اور مسائل میں آپ سے استفسار کرتے تھے۔ آپ رٖضی اللہ عنہا سے ۲۲۱۰ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے ۱۷۴حدیثوں پر امام بخاری اور امام مسلم رحمہم اﷲ نے اتفاق کیا۔امام بخاری علیہ الرحمہ نے منفرداً ان سے ۵۴حدیثیں روایت کی ہیںاور امام مسلم علیہ الرحمہ نے ٦۱ حدیثیں منفرد طور پر روایت کی ہیں ۔
تر مذی شریف کی حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام علیہ الرضوان کو جب بھی کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی اس مسئلے کو حل فرماتی تھیں ۔تفسیر حدیث ،اسرار شریعت ،خطابت ،ادب اور انساب میں آپ کو کمال حاصل تھا علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر دین کے چار حصے کئے جائیں تو ایک حصہ ہمیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملا ہے ۔
ازواج مطہرا ت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب ،آپ کا ورع تقوی علمہ و فقہ او راجتہادی بصیرت اتنی اعلی ہے کہ جس کے بیان کے لئے دفتر درکار ہیں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عائشہ کو عورتوںپر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو عام کھانوں پر۔(استیعاب ‘‘)۔
حضرت ابن عباس اور حضرت عروہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا، بالفرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اور فضائل نہ ہوں تو بھی ان کی فضیلت و بزرگی یہ کافی ہے کہ سورہ نور کی سترہ آیتیں ان کی پاکدامنی ،عفت اور عظمت کے متعلق نازل ہوئیں جو قیامت تک پڑھی جائیں گی ۔(اسد الغابہ ص ۵۰۳،طبقات جلد ۸ص۵۳)۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں کتب احادیث میں بے شمار فضائل موجود ہیں مگر ہم آپ رضی اللہ عنہا کی زبان ہی سے ملاحظہ کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود ہی تحدیث نعمت کے طور پر فرماتی ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھے نو خوبیاں ایسی عطا فرمائیں جو کسی عورت کو نہیں ملیں۔۱۔عقد سے پیشتر سے میری تصویر حضرت جبرائیل علیہ السلام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںپیش کی (یہ تصویر کسی انسان کی بنائی ہوئی نہ تھی)۔۲۔تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بجز میرے کسی اور کنواری عورت سے نکاح نہیں فر مایا ۔۳۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہء اول اور آپ کے پیارے صدیق کی صاحبزادی ہوں۔۴۔مجھ کو پاکیزہ کے گھر پاکیز ہ پیدا فرمایا ۔۵۔بوقت وصال سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا سر اقدس میری گود میں تھا ۔٦۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں بعد ازوصال محوا سطراحت ہیں ۔۷۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم میرے لحاف میںہوتے تو بھی وحی نازل ہو جاتی تھی ۔۸۔مجھ سے اللہ تعالی نے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا ’’لھم مغفرہ رزق کریم ‘‘۔۹۔میری برات آسمان سے نازل ہوئی۔
بعض اہل تحقیق نے فرمایا کہ سیدنا یوسف علیہ السلام پر تہمت رکھی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک شیر خوار بچے کی زبان سے آپ کی برات ظاہر فرمائی،حضرت مریم علیہاالسلام کو مطعون کیا گیا تو ان کے صاجزادے حضرت عیسی علیہ السلام کی زبان سے بحالت شیر خوا ر گی آپ کی برات کا اظہار فرمایا گیا لیکن جب منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو متہم کیا تو اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ عنہا کی برات کسی بچے یا کسی نبی کی زبان سے نہیں کرائی بلکہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کی برات خود فرمائی اور سورہ نور نازل فرما کر جناب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی پر مہر تصدیق ثبت فرمادی(طبری)۔

حدیث کے بہت بڑے امام ابن زھری فرماتے ہیں کہ اگر مردو ں اور امہات المومنین کا علم جمع کیا جائے تو سیدہ ساجدہ طیبہ طاہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا علم ان میں سب سے زیادہ ہوگا ۔(استیعاب ص۷٦)۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میںنے فقہ ،طب اور شاعری میںجناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو عالمہ نہ پایا (استیعاب ص ۷۹۵)۔
جلیل القدر تابعی بزرگ حضرت ابو سلمہ اور عطاء بن ابن الرباح کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے زیادہ فقیہ سب سے زیادہ بہتر اور لوگوں میں سب سے زیادہ صائب الرائے تھیں۔ سنت نبوی کا عالم تفقہ فی الدین کا ماہر ،آیات قرآن کے شان نزول اور علم فرائض کا جاننے والا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی اور کو نہیں دیکھا ۔ (مستدرک ،استیعاب ص۷٦۵،طبقات جلد ۸ص۵)۔
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نو برس سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں، جب سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو ا تو آپ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف اٹھارہ برس کی تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اڑتالیس برس حیات رہیں اور ۱۷رمضان ۵۷ھ میں آپ کا وصال ہو ا وصال کے وقت آپ کی عمر ٦٦سال تھی ۔آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو جنت البقیع میں رات کے وقت دفن کیا گیا۔ صحابی رسول حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی ۔

copywrites © 2019,

************ شوال المکرم ************

شوال المکرم

اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول ”سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔
اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔ اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔ اور اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔ اور اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔(فضائل ایام و الشہور ، صفحہ ٤٤٣،غنیہ الطالبین صفحہ٤٠٥، مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٩٣)۔
اور اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلئے نکلے تھے اور اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ ٤٤٤، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ ٤٦)۔
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ۔

شوال کے چھ روزے


شوال میں (عید کے دوسرے دن سے ) چھ دن روزے رکھنا بڑا ثواب ہے جس مسلمان نے رمضان المبارک اور ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔ سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ، سِتًّا مِّنْ شَوَّالِ کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ۔ رواہ البخاری و مسلم (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩) جس آدمی نے رمضان شریف کے روزے رکھے۔ اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”تمام عمر روزے رکھنے” کا مطلب یہ ہے کہ رمضان شریف کے علاوہ ہر ماہِ شوال میں چھ ٦ روزے رکھے جائیں تو تمام عمر روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ پھر یہ روزے اکٹھے رکھے جائیں یا الگ الگ ، ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے۔ یہی حنفی مذہب ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٤٧بحوالہ لمعات حاشیہ مشکوۃ صفحہ ١٧٩)۔
ماہ شوال میں کسی بھی رات یا دن کو آٹھ رکعات نفل پڑھے(دو۲، دو۲ کرکے یا ایک ہی سلام کے ساتھ بھی آٹھوں رکعات ادا کی جاسکتی ہیں) اور ہر ایک رکعت میں الحمد شریف کے بعدقُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ پچیس مرتبہ پڑھے پھر سلام پھیر کر ستر ۷۰ دفعہ تیسرا کلمہ (سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُوَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم) اور ستر ۷۰ دفعہ درود شریف پڑھنے کے نتیجے میں یہ انعام ملے گا کہ اگر اس ماہ میں انتقال کرگیا تواللہ تعالیٰ اسے شہید کا درجہ عطا فرمائے گا۔( لطائفِ اشرفی جلد دوم، صفحہ ۳۵۱) شوال کے چھ ۶ نفلی روزے رکھنے کے دوران انہی راتوں میں سو۱۰۰ رکعات نماز دو۲، دو۲ رکعات کرکے اس طرح ادا کریں کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص دس مرتبہ پڑھیں۔( لطائفِ اشرفی جلد دوم، صفحہ ۳۵۱)۔

ماہِ شوال میں وقوع پذیر ہونے والے چند اہم واقعات


پہلی نماز عید ۔٢ہجری،غزوہ بنی قینقاع۔٢ہجری ، غزوہ احد۔ ٣ہجری ، شہادت حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔٣ ہجری، غزوہ خندق(الاحزاب)۔٥ہجری ، حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے “طائف” کا محاصرہ فرمایا۔٨ھ، وفات حضرت ابو قحافہص(والد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ )۔١٤ ہجری ، جنگ قادسیہ۔١٥ہجری ، فتح بیت المقدس شریف۔١٦ ہجری ، امّ کلثوم بنت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا نکاح حضرت ِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے۔١٧ ہجری،وفات عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ۔٣٢ہجری،وفات حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔٣٦ہجری،وفات عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ۔٣٤ہجری،حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی زہر سے شہادت۔٩٤ہجری،وفات سکینہ بنت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔١١٧ہجری،وفات معاویہ بن ہشام ۔١١٩ہجری،حضرت علامہ معن بن عیسیٰ (ابو یحییٰ) تلمیذ امام مالک ۔١٩٨ھ،اعلان ولی عہدی امام علی رضا ابن امام موسی کاظم علیہ الرحمۃ۔٢٠١ہجری،وفات امام بخاری علیہ الرحمۃ۔٢٥٦ ہجری،وفات بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ۔٢٦١ہجری،وفات امام حضرت ابو داؤد (صاحبِ سنن) ١٦شوال ،٢٧٥ہجری،وفات حضرت جنید بغدادی۔ ٢٩٨ ہجری،خلافت ِ مطیع اللہ میں حجرِ اسود کو ٢٠ سال بعد کعبہ میں واپس لایا گیا۔ ٣٣٩ہجری،وفات محمود غزنوی و تخت نشینی مسعود غزنوی۔٤٢١ہجری،وفات عبدالعزیز محدث دہلوی ۔١٢٣٩ ہجری(مجدد قرن سیز دہم)،وفات میر انیس(مرثیہ گو شیعہ شاعر)۔١٢٩١ہجری اور ولادت ِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ۔١١شوال ١٢٧٢ہجری۔و دیگر واقعات۔۔۔۔

copywrites © 2019,

Wednesday, May 22, 2019

************ صدقۂ فطر ************

صدقۂ فطر

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقۂ فطر مقرر فرمایا ۔(سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ ،باب زکوٰۃ الفطر،الحدیث۱٦۰۹،ج۲،ص۱۵۷)۔
فطرہ واجب کرنے میں ۲حکمتیں ہیں ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی۔ اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑ پڑتا ہے، کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں ،رب تعالیٰ اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دے گا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔
صدقۂ فطر دینا واجب ہے،ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اور اسکانصاب حاجت ِ اصلیہ سے فارغ ہو۔الِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے(چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرے۔
عیدکے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے، لہٰذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے مر گیا یاغنی تھا فقیر ہوگیا یا صبح طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب نہ ہوا اور اگر صبح طلوع ہونے کے بعد مرا یا صبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا یا بچہ پیدا ہوا یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب ہے۔
زکوٰۃ میں سال کا گزرنا، عاقل بالغ اور نصاب ِ نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیّت )ہونا شرط ہے جبکہ صدقۂ فطر میں یہ شرائط نہیں ہیں۔چنانچہ اگر گھر میں زائد سامان ہو تو مالِ نامی نہ ہونے کے باوجود اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو اس کے مالک پر صدقۂ فطر واجب ہوجائے گا۔زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے نصاب میں یہ فرق کیفیت کے اعتبار سے ہے۔
صدقۂ فطر میں بھی نیت کرنا اور مسلمان فقیر کومال کا مالک کر دینا شرط ہے۔نابالغ اگر صاحب ِ نصاب ہوتو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔ اس کا ولی اسکے مال سے فطرہ ادا کرے ۔جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو،اس کی طرف سے صدقۂ فطر اداکرنا واجب نہیں۔اگر بڑا بھائی اپنے چھوٹے غریب بھائی کی پرورش کرتا ہوتو اس کاصدقۂ فطر مالدار باپ پر واجب ہے نہ کہ بڑے بھائی پر۔فتاوی عالمگیری میں ہے :چھوٹے بھائی کی طرف سے صدقہ و اجب نہیں اگرچہ وہ اس کی عیال میں شامل ہو۔



اگر باپ نہ ہو توماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب نہیں ہے ،باپ نہ ہوتو اس کی جگہ دادا پراپنے غریب یتیم پوتے ،پوتی کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب ہے جبکہ یہ بچے مالدار نہ ہوں۔
صدقۂ فطر واجب ہونے کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں ،لہٰذا کسی عذر مثلاًسفر مرض ،بڑھاپے یا معاذ اللہ(عَزَّوَجَلَّ ) بلاعذر روزے نہ رکھنے والا بھی فطرہ ادا کرے گا ۔شب ِ عید بچہ پیدا ہوا توس کا بھی فطرہ دینا ہوگاکیونکہ عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے ،اور اگر بعد میں پیدا ہوا تو واجب نہیں۔
اگرشوہرنے بیوی یا بالغ اولاد کی اجازت کے بغیران کافطرہ اداکیاتو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اس کے عیال میں ہو۔صدقۂ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلااجازت ناممکن ہے ہاں اجازت کے لیے صراحۃ ہونا ضرور نہیں دلالت کافی ہے مثلاً زید اس کے عیال میں ہے، اس کا کھانا پہننا سب اس کے پاس سے ہونا ہے،اس صورت میں ادا ہو جائے گا۔

صدقۂ فطر کن چیزوں سے ادا ہوتا ہے


گندم یا اس کا آٹا یا ستونصف صاع،کھجور یا منقٰی یا جَویا اس کا آٹایا ستو ایک صاع ۔ان چار چیزوں ( یعنی گیہوں ،جو ، کھجور،منقی) کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلّہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جَو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جَو کی ہو۔
ایک سو پَچھتَّر روپے اَٹَھنّی بھراوپر ‘‘(یعنی دوسیر تین چھٹانک آدھا تَولہ،یا ۲کلو میں سے ۸۰ گرام کم) وَزن گیہوں یا اُس کا آٹا یا اتنے گیہوں کی قیمت ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مِقدار ہے۔اگرکھجور یا مُنَـقّٰی (یعنی کشمش)یا جَو یا اس کا آٹا یا ستّو یا ان کی قیمت دینا چاہیں تو ’’ تین سو اِکاون روپے بھر‘‘ (یعنی ۴ کلومیں سے ۱٦۰گرام کم )ایک صدقۂ فطر کی مقدار ہے۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت:بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔ گر عید الفطر سے پہلے فطرہ ادا کریں تو جائز ہے ۔اگر صدقۂ فطر رمضان سے بھی پہلے ادا کر دیا توجائز ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزّت فرماتے ہیں :اس (یعنی صدقۂ فطر)کے دینے کا وقت واسع ہے عید الفطر سے پہلے بھی دے سکتا ہے اور بعد بھی، مگر بعد کو تاخیر نہ چاہیے بلکہ اَولی یہ ہے کہ نمازِ عید سے پہلے نکال دے کہ حدیث میں ہے صاحبِ نصاب کے روزے معلق رہتے ہیں جب تک یہ صدقہ ادا نہ کرے گا۔
گیہوں اور جَو کے دینے سے اُن کا آٹا دینا افضل ہے اور اس سے افضل یہ کہ قیمت دیدے، خواہ گیہوں کی قیمت دے یا جَو کی یا کھجور کی مگر زمانہ قحط میں خود ان کا دینا قیمت دینے سے افضل ہے ۔
صدقۂ فطرکے مصَا رِف وُہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔یعنی جِن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فِطْرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کو فِطْرہ بھی نہیں دے سکتے۔ساداتِ کرام کو صدقۂ فطر بھی نہیں دے سکتے۔
بہتر یہ ہے کہ ایک ہی مسکین یا فقیر کو فطرہ دیا جائے اگر ایک شخص کا فطرہ مختلف مساکین کو دے دیا تب بھی جائز ہے اسی طرح ایک ہی مسکین کومختلف اشخاص کا فطرہ بھی دے سکتے ہیں۔

copywrites © 2019,

Tuesday, May 21, 2019

Lailatul Qadr[لیلۃ القدر]

Lailatul Qadr[لیلۃ القدر]

لَیْلَۃُ الْقَدْر

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔ بے شک ہم نے اسے شبِ قَدر میں اُتارا اورتم نے کیا جانا، کیا شبِ قدر؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اِس میں فرشتے اور جبریل اُترتے ہیں اپنے رب کے حُکم سے، ہرکام کیلئے ، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔(پ۳۰،سورۃُ القدر)۔
رَسُولِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تَعَالٰی نے میری امت کو شب قدر عطا کی اور یہ رات تم سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں فرمائی۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۱ص۱۷۳حدیث٦۴۷)۔
لَیْلَۃُ الْقَدْر انتہائی بَرَکت والی رات ہے،حضرتِ سیِّدُنا امام مجاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں : بنی اسرائیل کا ایک شخص ساری رات عبادت کرتا اور سارا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اور اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے ،تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ مبارَکہ نازِل فرمائی :(ترجَمۂ کنز الایمان :شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر) یعنی شب ِ قدر کا قیام اس عابد(یعنی عبادت گزار) کی ایک ہزارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ (تَفسیرِ طَبَری ج ۲۴ ص ۵۳۳)۔

حضراتِ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے جب حضرتِ شمعون رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبادات وجہاد کا تذکرہ سنا تو انہیں حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پر بڑا رَشک آیا اور مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ بابرکت میں عرض کیا: ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ، اِس میں بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں ، کھانے پکانے میں اور دیگر اُمورِ دُنیوی میں بھی کچھ وَقت صرف ہوجاتا ہے۔لہٰذا ہم تو حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی طرح عبادت کرہی نہیں سکتے ، یوں بنی اِسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘ آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ سن کر غمگین ہوگئے۔ اُسی وَقت حضرتِ سَیِّدُنا جبرئیل اَمین عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام حاضر خدمت ہوگئے اور تسلی دی کہ پیارے حبیب(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) رَنجیدہ نہ ہوں ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت کو ہم نے ہر سال میں ایک ایسی رات عنایت فرمادی کہ اگر وہ اُس رات میں عبادت کریں گے تو (حضرتِ) شمعون (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔ (ماخوذ از تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۷)۔
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو سرکارِ مدینۂ منوّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’شب قدر رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں ،تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا اُنتیسویں شب میں تلاش کرو ۔تو جو کوئی اِیمان کے ساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارَک رات میں عبادت کرے ، اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ اُس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے،گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے،اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جاتے۔(مُسند اِمام احمدج۸ص۴۰۲،۴۱۴حدیث۲۲۷۷٦،۲۲۸۲۹)۔

اگرچہ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، تاہم بھاری اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہے۔ سیّد الانصار، سیِّدُالقراء، حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی’’ شب قدر‘‘ ہے۔(مسلم ص۳۸۳حدیث۷٦۲)۔ حضرتِ سَیِّدُنا شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کیلئے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں :{۱} ’’لَیْلَۃُ الْقَدْر‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سُوْرَۃُ الْقَدْر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’تین ‘‘کو ’’نو‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔ {۲} اِس سورئہ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں ۔ ستائیسواں کلمہ ’’ھِیَ‘‘ہے جس کا مرکز لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے۔ گویا اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی طرف سے نیک لوگوں کیلئے یہ اِشارہ ہے کہ َرمضان شریف کی ستائیسویں شبِ قَدْر ہوتی ہے۔(تَفسِیر عَزیزی ج۳ص۲۵۹ ملخّصاً)۔

شب قدر کی دُعا: اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں ؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔ ( تِرمذی ج۵ص۳۰٦حدیث۳۵۲۴)۔
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’تفسیرِ رُوْحُ الْبَیان‘‘ میں یہ رِوایت نقل کرتے ہیں : جو شبِ قدر میں اِخلاصِ نیت سے نوافل پڑھے گااُس کے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہوجائیں گے۔(رُوْحُ البَیان ج۱۰ص۴۸۰)۔
پہلی شب قدر:۔ اکیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہررکعت میں بعد سورۃ الفاتحہ ایک بار سورۃ القدر اور ایک با ر سورۃالاخلاص اور بعد سلام کے ستر بار درود شریف پڑھے انشاء اللہ تعالیٰ اس نماز پڑھنے والے کے حق میں فرشتے دعا کریں گے
اکیسویں شب کو دو رکعت نماز نفل پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے سورۃ القدر ایک بار اورتین بار سورۃ الاخلاص پڑھے سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے انشاء اللہ اللہ اس نماز اور شب قدر کی برکت سے اس کو بخش دے گا۔
دوسری شب قدر:۔رمضان المبارک کی تیئیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص ٣ بار پڑھے انشاء اللہ واسطے مغفرت کے یہ نماز بہت افضل ہے
اسی شب کو آٹھ رکعات نماز چار سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ قدرایک بار اور اخلاص ایک بار پڑھے سلام کے بعد ستر مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے انشاء اللہ مغفرت فرمائے گا۔

تیسری شب قدر:۔رمضان المبارک کی پچیسویں شب کو چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھے اور سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص پانچ با ر پڑھے اور سلام کے بعد سو بار کلمہ طیبہ پڑھے انشاء اللہ اللہ بے شمار عبادت کا ثواب دے گا ۔
رمضان المبارک کی پچیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص ٣ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے یہ نماز بخشش گناہ کیلئے بہت افضل ہے۔
رمضان المبارک کی پچیسویں شب کو دو رکعت نمازپڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص ١٥ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ کلمہ پڑھے یہ نماز عذاب قبر سے نجات کیلئے بہت افضل ہے۔
چوتھی شب قدر:۔١:۔رمضان المبارک کی ستائیسویںشب کوبارہ ر رکعت نماز تین سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص ٣ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ استغفار پڑھے نبیوں کی عبادت کا ثواب ہے:۔
اسی شب کو آٹھ رکعات نماز چار سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص ٢٧ بار پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے انشاء اللہ مغفرت فرمائے گا۔
رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو دو رکعت نمازپڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ التکاثرر ایک بار اور سورہ اخلاص ٣ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستر مرتبہ کلمہ پڑھے یہ نماز عذاب قبر سے نجات کیلئے بہت افضل ہے۔اس کے پڑھنے سے اللہ قبر کی سختی سے محفوظ رکھتا ہے۔
ستائیسویں شب کو سورہ ملک کو سات بار پڑھنا بہت فضیلت والا عمل ہے ۔

ستائیسویں شب کو دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص سات بار پڑھے بعد سلام ستر مرتبہ یہ تسبیح پڑھے

استغفر اللہ العظیم الذی لاالہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ


اس نماز کو پڑھنے والے کو مصلے سے اٹھنے سے پہلے اس کے اور اس کے والدین کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اس کے لئے جنت کو آراستہ کردو ۔
رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کوبارہ ر رکعت نماز تین سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الم نشرح ایک بار اور سورہ اخلاص ٣ بار پڑھے اور سلام کے بعد ستائیس با سورہ قدر پڑھے بے شمار عبادت کا ثواب ہے:۔
ستائیسویں شب کو چار رکعت نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر تین بار سورہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھے اور سلام کے بعد سجدے میں سر رکھ کر یہ تسبیح ایک بار پڑھے ۔

سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر


اس کے بعد جو حاجت ہو اسے طلب کرے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ پوری کریں گے
پانچویں شب قدر :۔١:۔انتیسویں شب کو چار رکعات نماز دو سلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قدر ایک بار اور سورہ اخلاص تین بار پڑھے سلام کے بعدسورہ الم نشرح ستر مرتبہ پڑھے یہ نماز کامل ایمان کےلئے بہت افضل ہے۔
انتیسویں شب کو چار رکعت نماز دوسلام سے پڑھے ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک بار سورہ قدر اور سورہ اخلاص پانچ بار پڑھے سلام کے بعد درود شریف ایک سو مرتبہ پڑھے انشاء اللہ بخشش و مغفرت عطاء ہوگی:۔
یہ چند ایک نوافل و وظائف ہیں لیلۃ القدر اللہ کی عبادت میں گزاریں۔

copywrites © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...