صلوٰۃ اللیل
رات میں بعد نماز عشا جو نوافل پڑھے جائیں ان کو صلاۃ اللیل کہتے ہیں اور رات کے نوافل دن کے نوافل سے افضل ہیں صحیح مسلم شریف میں مرفوعاً ہے: “فرضوں کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے۔” (بهار شريعت،سنن ونوافل کا بيان، ج۱، حصہ۴، ص٦۷۷ وصحيح سلم،کتاب الصيام، باب فضل صوم المحرم، الحديث: ۱۱٦۳، ص۵۹۱)۔
طبرانی نے مرفوعاً روایت کی ہے کہ رات میں کچھ نماز ضروری ہے اگرچہ اتنی ہی دیر جتنی دیر میں اونٹنی یابکری دوہ لیتے ہیں اور فرض عشا کے بعد جو نماز پڑھی وہ صلاۃ اللیل ہے۔ (المعجم الکبير للطبرانی ، اياس بن معاوية المزني، الحديث:۷۸۷، ج۱، ص۲۷۱)۔
نمازتہجد
اسی صلوٰۃ اللیل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کے بعد رات میں سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: “جو شخص رات میں بیدار ہواور اپنے اہل کو جگائے پھر دونوں دو دو رکعت پڑھیں تو کثرت سے یاد کرنے والوں میں لکھے جائیں گے۔” (بهارشريعت، سنن ونوافل کا بيان، ج۱، حصه ۴، ص٦۷۷، ٦۷۸والمستدرک للحاکم، کتاب صلاة التطوع، باب توديع المنزل برکعتين، الحديث:۱۲۳۰، ج۱، ص٦۲۴)۔
یہ نماز اسلام میں اولًا سب پر فرض رہی،پھر امت سے فرضیت منسوخ ہوگئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر آخر تک رہی۔تہجد کم از کم دو رکعتیں ہیں زیادہ سے زیادہ بارہ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر آٹھ پڑھتے تھے کبھی کم و بیش۔حق یہ ہے کہ تہجد ہمارے لیئے سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے کہ اگر بستی میں کوئی نہ پڑھے تو سب تارک سنت ہوئے اور اگر ایک بھی پڑ ھ لے تو سب بری الذمہ ہوئے۔تہجد کا وقت رات میں سو کر جاگنے سے شروع ہوتا ہے صبح صادق پر ختم مگر آخری تہائی رات میں پڑھنا بہتر ہے اور قبل تہجد عشا پڑھ کر سونا شرط ہے ا وربعد تہجد کچھ سونا یا لیٹ جانا سنت ہے۔جو شخص تہجد پڑھنا شروع کردے پھر نہ چھوڑے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہے۔
وضو کرکے کم از کم دو رکعت پڑھ لے، تہجد ہو گئی ، قرات کا اختیار ہے جو چاہے پڑھے اور قرآن یا د نہ ہو تو ہر رکعت میں تین تین بار سورئہ اخلاص بہتر ہے کہ جتنی رکعتیں پڑھے گا اسے ختم قرآن مجید کا ثواب ملے گا۔ احادیث شریفہ میں نمازتہجد کی بڑی فضیلتیں وارد ہیں، تہجد کی کثرت سے آدمی کا چہرہ نورانی اور زیادہ خوبصورت ہو جاتا ہے۔ تہجد پڑھنے والے بلا حساب جنت میں جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment