غزوۂ اُحُد
غزوہ بدر میں شکست کھانے کا کفار کو بڑا رنج و ملال تھا۔ معرکہ بدر میں کفارِ مکہ کو شکست و ہزیمت اور اشراف کے قتل کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا اس کے سبب وہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب سے کھول رہے تھے۔ بدر کی شکست کے بعد انہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھر پور جنگ لڑ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈ ا کریں اور اپنے جذبہ غیظ و غضب کو تسکین دیں اور اس کے ساتھ ہی معرکہ آرائی کی تیاریاں بھی شروع کر دیں۔ اس معاملے میں سردارانِ قریش میں سے عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن اُمیہ، ابو سفیان بن حرب اور عبداللہ بن ابی ربیعہ زیادہ پر جوش اور پیش پیش تھے۔تمام مشرکینِ مکہ کو ملا کر کل تین ہزارکی فوج تیار ہوئی۔ قائدینِ قریش اس رائے پر متفق ہوئے کہ اپنے ساتھ عورتیں بھی لے چلیں تاکہ حرمت و ناموس کی حفاظت کا کچھ احساس ہو۔ لہٰذا پندرہ خواتین بھی قریش کے قافلے میں شامل ہوگئیں جن میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی شامل تھی۔ مشرکین کے دستے کی کمان ابو سفیان کر رہا تھا ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ قریش کی اس ساری نقل و حرکت کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ آپؓ نے تمام تفصیلات ایک قاصد کے ذریعے خط کی صورت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں بھیجی۔ یہ خط حضرت ابی کعبؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں رازداری برتنے کی تاکید کی ۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ۔لوگ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت ہتھیار بند رہنے لگے یہاں تک کہ دورانِ نماز بھی ہتھیار جدا نہیں کیے جاتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ ، حضرت اسید بن حضیرؓ اور سعد بن عبادہؓ پر مشتمل یہ مختصر سا دستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگرانی پر تعینات ہو گیا۔ یہ صحابہ کرامؓ ہتھیار پہن کر ساری ساری رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پر گزار دیتے تھے۔
غزوۂ اُحُد کے موقع پر رسول اکرمﷺ کی مبارَ ک رائے یہ تھی کہ شہر کے اندر رہتے ہوئے مدینہ منورہ کا دفاع کیا جائے ‘لیکن پرجوش نوجوان صحابۂ کرام کی ایک جماعت نے اصرار کیا کہ ہمیں باہر میدان میں نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے ‘ ان کے سامنے بدر کی تاریخی فتح کا ایمان افروز منظر تھا۔ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کاغلبہ تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے آپ کومُسَلّح کر لیا ‘ یعنی زرہ پوش ہوگئے‘سرِ مبارک پرعمامہ پہن لیا اور تلوار اور تیر کمان سے لیس ہوکر سَکَبْ نامی گھوڑے پر سوار ہوئے ‘ توان صحابۂ کرام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہﷺ! جیسے آپ کی مرضی ہو کیجئے‘ مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا نبی جب جہاد کے لیے تیار ہوکر اسلحہ بند ہوجاتاہے ‘ تو پھر وہ اسلحہ نہیں اتارتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”اور (اہم) کاموں میں ان (صحابہ)سے مشورہ کیجئے اور جب آپ (کسی بات کا) عزم کرلیں‘ تواللہ پر توکل کریں ‘ بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتاہے‘‘۔(آل عمران: ۱۵۹)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکرِ اسلام کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا:مہاجرین کا دستہ۔ اس کا پرچم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو عطا کیا۔قبیلہ اوس (انصار) کا دستہ۔ اس کا علم حضرت اُسید بن حضیرؓ کو عطا فرمایا۔قبیلہ خزرج(انصار) کا دستہ۔ اس کا عَلَم حباب بن مُنذِرؓ کو عطا فرمایا۔اسلامی لشکر ایک ہزار(۱۰۰۰) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا جن میں ایک سو زرہ پوش اور پچاس شہسوار تھے۔ حضرت اُمِّ مکتومؓ کو اس کام پر مقرر فرمایا گیا کہ وہ مدینے کے اندر رہ جانے والے لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔
راستے میں سے رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی اپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ واپس چلا گیا۔ اس موقع پر بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ یہود کے کئی قبائل‘ جو ہمارے حلیف ہیں ‘ ان سے مدد طلب کی جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہمیں اس کی حاجت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ ‘ وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ‘ انہیں تو وہی چیز پسند ہے ‘ جس سے تمہیں تکلیف پہنچے ‘ اُن کی دشمنی تو اُن کی باتوں سے ظاہر ہوچکی ہے اور جو (نفرت) انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہے ‘ وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہے ‘‘۔(آل عمران:۱۱۹)۔
جب اُحُد کے مقام پر لشکر صف آرا ہوئے‘ تو رسول اللہ ﷺ نے ایک وادی میں حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کی قیادت میں پچاس تیراندازوں کاایک دستہ مقرر کیا اور ان کو ہدایت جاری کرتے ہوئے فرمایا :” تم لوگ ہمارے لشکر کی عقَبی جانب کی حفاظت کرنا اور کسی بھی صورت میں اپنے مورچے کو خالی نہ کرنا‘یہاں تک کہ اگر (خدانخواستہ) تم دیکھو کہ ہمیں قتل کیا جارہا ہے ‘تب بھی ہماری مدد کے لیے اپنے مورچے کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ ہم فتح یاب ہوگئے ہیں اور مالِ غنیمت جمع کررہے ہیں ‘تو پھر بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا ‘یعنی ہرصورت میں ہماری عقبی جانب کی حفاظت کرنا ‘‘۔جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے مجاہد دستوں کی اس خاص مقام پر تعیناتی اورفتح ہویا شکست ‘ہر صورت میں اپنی پوزیشن کو نہ چھوڑنے کی تاکید وہدایت ‘ رسول اللہ ﷺ کی حربی مہارت کا واضح ثبوت تھا۔
ابتدا میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور مجاہدین مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے ۔ اس منظر کو دیکھ کر عبداللہ بن جبیرؓ کی قیادت میں متعین مجاہدین کے دستے میں اختلافِ رائے ہوگیا‘ کچھ لوگوں نے کہا کہ فتح مل گئی ہے ‘ مالِ غنیمت سمیٹا جارہا ہے ‘ ہمیں بھی آگے بڑھ کر مالِ غنیمت سمیٹنے میں شریک ہوجانا چاہیے ‘ اب یہاں مورچہ بند رہنے کا کیا فائدہ ؟چنانچہ دس تیر اندازوں کی سوا باقی سب مورچہ چھوڑ کر مالِ غنیمت جمع کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
جب خالد بن ولید ‘جو اُس وقت تک لشکرِ کفار میں تھے ‘ نے دیکھا کہ عَینَین کی پہاڑی تیر اندازوں سے قریباً خالی ہوچکی ہے ‘ تو وہ اور عِکرمہ بن ابوجہل گُھڑ سواروں کے ہمراہ جبل اُحُد کا چکر کاٹ کر آئے۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھی‘ جو اپنی پوزیشن پر قائم تھے‘ مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ قرآن مجیدنے اس منظر کو یوں بیان کیا:”اور بے شک اللہ نے تم سے کیا ہوا وعدہ سچا کر دیا‘ جب تم (ابتدامیں) اُس کے اِذن سے اُن کافروں کو قتل کررہے تھے ‘ حتی کہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور( رسول اللہ کا) حکم ماننے میں اختلاف کیا اور اپنی پسندیدہ چیزوں (مالِ غنیمت) کو دیکھنے کے بعد تم نے (ظاہراً رسول اللہ کی) نافرمانی کی۔ تم میں سے بعض دنیا کا ارادہ کررہے تھے اور بعض آخرت کا ارادہ کررہے تھے ‘ پھر اللہ نے تم کو اُن سے پھیر لیا تاکہ وہ تمہیں آزمائش میں ڈالے اور بے شک اس نے تم کو معاف کردیا اور اللہ ایمان والوں پر بہت فضل (کرنے) والا ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۵۲)۔
وہ مجاہدین جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی تاکید کے باوجود عینَین کی پہاڑی کو چھوڑ دیاتھا ‘ اُن کی نیت صحیح تھی ‘ رسول اللہﷺ کی نافرمانی کا ارادہ ہرگز نہیں تھا‘لیکن ان سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ کفار پر فتح پانے کے بعد اب مورچے میں ڈٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کواپنی اس اِجتہادی خطا کی بنا پر نظرانداز کردیا ‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بے انتہا نقصان اٹھانا پڑا۔رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کو خودبھی تکلیف اٹھانی پڑی ۔آپ کے سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے ۔آپ کے رخسارِ مبارک پرزخم آئے۔آپ کے عزیز ترین چچا سیّدالشُّہداء حضرت امیرحمزہ ؓ نہ صرف شہیدہوئے‘ بلکہ اُن کے اعضاء مبارکہ کا مُثلہ کیاگیا‘یعنی اُن کی آنکھیں ‘ناک اور کان کاٹ دیے گئے اور کلیجہ نکال دیاگیا۔ ہندبنت عَتَبۃ زوجہ ابوسفیان نے آپ کا کلیجہ چبایا اوراُسے گلے کا ہار بنایا ۔اس غزوہ میں۷۰جلیل القدر صحابۂ کرام شہید ہوئے ۔اسی انتشار اور عارضی ہزیمت کے دوران آپ کی شہادت کی خبر پھیل گئی ‘ جس سے مسلمان مُضطَرِب ہوگئے۔مجاہدین کے قدم وقتی طورپر ڈگمگاگئے ‘ بالآخر کافی نقصان اٹھانے کے بعد وہ دوبارہ سنبھلے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسی موقع پر فرمایا: ” اور محمد ﷺ (اللہ کے) رسول ہی تو ہیں ‘اُن سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ‘تو اگر وہ وفات پاجائیں یا (بفرضِ محال)شہید کردیے جائیں‘ توکیاتم اُلٹے پاؤں (کفرکی جانب ) پلٹ جاؤگے؟‘‘۔(آل عمران:۱۴۴) ۔
درحقیقت حضرت مصعب بن عمیرؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شکل و صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہت مشابہ تھی اس لیے کفار یکایک پکارنے لگے کہ محمدؐ (نعوذ باللہ) قتل کر دیئے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی کے لیے مزید فرمایا :”اور نہ کمزوری دکھائو اور نہ غمگین ہوجائو اور اگر تم (درحقیقت ) مومن ہو تو (انجامِ کار) تم ہی سربلند رہوگے‘ اگرتمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے ‘تو تمہارے مخالفین بھی (بدرمیں) ایسی ہی تکلیف اٹھاچکے ہیں اور ہم لوگوں کے درمیان ایام کوگردش دیتے رہتے ہیں ‘‘۔(آل عمران:۱۳۸-۱۳۹) یعنی ان امور میں اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے ‘جس کے تحت عروج وزوال اور فتح وشکست کے ادوار بدلتے رہتے ہیں۔
اس غزوہ کے آغاز میں مسلمان اپنی تعداد پر نازاں تھے۔ ان کا توکل اللہ کی ذات کے علاوہ اپنے ساز و سامان اور تیاری پر تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اللہ پاک کی طرف سے یہ عارضی شکست ضروری تھی۔ لیکن جب مسلمانوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوبارہ پکارنے پر اپنی ہمتوں کو جمع کیا اور واپس پلٹے تو اللہ تعالیٰ نے بھی مدد فرمائی اورمسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
جنگ کے بعد مسلمانوں نے اپنے شہداء کی تدفین کا اہتمام کیا آپﷺ نے اپنے زخموں اور ضعف کے باوجود ایک ایک شہید کو اپنی نگرانی میں کفن دلایا اور دفن کرایا۔
No comments:
Post a Comment