Sunday, June 23, 2019

* حضرت سَیِّدُنا امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ *

اَمِیْرُ المُؤمِنِیْن فِی الْحَدِیْث حضرت سَیِّدُنا محمد بن اِسماعیل بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ


حضرت سَیِّدُنا امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت مشہور شہر بُخارا میں۱۳شَوَّال۱۹۴ ہجری بروز جمعہ بعد نمازِ عَصْر ہوئی۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا نام محمداور کُنْیَت ابُو عَبْدُاللہ ہے۔آپ کا سِلْسِلۂ نَسب یہ ہے:محمد بن اِسماعیل بن اِبراہیم بن مُغِیْرہ۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے پَردادا مُغِیْرہ کاشْت کار اور غیرِ خدا کی عبادت کرنے والے تھے لیکن بعد میں حاکمِ بُخارا”ىَمان جُعْفِىْ“کے ہاتھ پر اسلام لائے۔
اَمِیْرُ المُؤمِنِیْن فِی الْحَدِیْث،حافِظُ الْحَدِیْث،مُحَدِّث،مُفْتِی،حِبْرُ الْاِسْلام وغیرہ آپ کے مشہور اَلقابات ہیں۔امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے اساتذۂ کرام کی تعداد ایک ہزاراَسّی(۱۰۸۰) ہے۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے والد ِ ماجِد بڑے ممتاز بُزرگ اور زَبَرْدَسْت عالِمِ دین تھے،بڑے ہی مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات بزرگ تھے(یعنی آپ کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوتی تھیں)،ایسے کہ بارگاہِ خداوندی میں عَرْض کرتے کہ میری سب دعائیں دنیا ہی میں نہ قَبول کرلے کچھ آخرت کے لئے رہنے دے،حلال کھانے کے ایسے پابند تھے کہ حرام تو حرام مشکوک چیزوں سے بھی بچتے تھے،حتّٰی کہ وِصالِ ظاہری کے وَقْت فرمایا:مىرے پاس جتنا بھی مال ہے اُس مىں اىک دِرْہم بھى شک و شُبہے والا نہىں ہے۔
امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ابھی چھوٹی عمر کےتھے کہ آپ کے والِدِ ماجِد کا اِنتقال ہوگىا اور پھر پرورش کى تمام تر ذِمَّہ دارىاں آپ کى والِدۂ ماجِدہ نے سنبھالیں۔بچپن شریف میں امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بینائی جاتی رہی۔والِدۂ ماجِدہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہا اِس صَدمہ سے روتی رہتیں اور گڑ گڑا کر دعا مانگا کرتیں۔ایک رات سوتے میں قسمت کا سِتارہ چمک اُٹھا ، دل کی آنکھیں کُھل گئیں، خواب میں دیکھا کہ حضرت سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ”آپ اپنے بیٹے کی بینائی کی واپَسی کیلئے دعائیں مانگتی رہی ہیں۔ مبارَک ہو کہ آپ کی دعا قَبول ہو چکی ہے، اللہ پاک نے آپ کے بیٹے کی بینائی بحال فرمادی ہے۔“جب صُبح ہوئی تو دیکھا کہ امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی آنکھیں روشن ہو چکی تھیں۔

اَمِیْرُ المُؤمِنِیْن فِی الْحَدِیْث حضرت سَیِّدُنا محمد بن اِسماعیل بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب دس(۱۰) سال کے ہوئے تو اِبتدائى اور ضرورى تعلىم حاصل کر چکے تھے،اللہ پاک نے آپ کے دل مىں عِلْمِ حدىث حاصِل کرنے کا شوق پىدا کىا تو آپ نے ’’بُخارا‘‘مىں(عِلْمِ حدیث حاصل کرنے کے لئے ایک مَدْرَسے میں)داخِلہ لے لىا، عِلْمِ حدىث اِنتہائى محنت سے حاصِل کىا،سولہ (۱٦)سال کى عمر مىں امام بُخارى رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنے بڑے بھائی اور والدہ کے ہمراہ حج کرنے کے لئے حرمىن شرىفىن(مکے مدینے میں)حاضر ہوئے، والدہ اور بھائی تو حج سے فارغ ہونے کے بعد واپسی وطن آگئے مگر آپ مزىد علم حاصل کرنے کے لئے وہىں رہے اور اٹھارہ(۱۸) سال کی عمر میں آپ نے وہیں پر ہی ایک کتاب( کتاب قضایا الصحابۃ والتابعین)تصنیف فرمائی۔
ایک مرتبہ حضرت سَیِّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حضرت سَیِّدُنا محمد بن سلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے تو حضرت سَیِّدُنا محمد بن سلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سَیِّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے فرمایا:اگر آپ کچھ دیر پہلے آجاتے تو میں آپ کو وہ بچہ دکھاتا جو تر ہزار(۷۰۰۰۰)حدیثوں کا حافِظ ہے۔یہ حَیرت انگیز بات سُن کر حضرت سَیّدُنا سُلَیْمان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے دل میں امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے ملاقات کا شَوق پیدا ہوا،چنانچہ حضرت سَیّدُنا محمد بن سلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت سَیّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو تلاش کرنا شروع کردیا،جب(امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے) ملاقات ہوئی تو حضرت سَیّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اِرْشاد فرمایا:کیا سَتَّر ہزار (۷۰۰۰۰) اَحادیث کے حافِظ آپ ہی ہیں؟یہ سُن کر امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے عَرْض کی:جی ہاں!میں ہی وہ حافِظ ہوں،بلکہ مجھے اِس سے بھی زیادہ اَحادیث یاد ہیں اورجن صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور تابِعین سے میں حدیث رِوایت کرتا ہوں اُن میں سے اکثر کی تاریخِ پیدائش،رہائش اور تاریخ ِ وِصال کو بھی میں جانتاہوں۔
امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے طلبِ عِلْم کے دوران بسا اوقات سُوکھى گھاس کھا کر بھى وَقْت گزارا،کبھی کبھار اىک دن مىں عام طور پر صِرْف دو ىا تىن بادام کھاىا کرتے تھے۔اىک مرتبہ بىمار پڑگئے، اَطِبَّا حضرات (یعنی ڈاکٹرز)نے بتلاىا کہ سُوکھى روٹى کھا کھا کر اِن کى اَنتڑىاں سُوکھ چکى ہىں،اُس وَقْت آپ نے بتاىا کہ وہ ۴۰ سال سے خُشْک روٹى کھا رہے ہىں اور اِس عَرْصے مىں سالن کو بالکل بھی ہاتھ نہىں لگاىا۔

بِلا شُبہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس سے عشق ہوتا ہے اُس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے بھی عشق ہوجاتا ہے۔مثلاًمحبوب کے گھر ، اُس کے درو دیوار حتّٰی کہ محبوب کے گلی کُوچوں تک سے عقیدت کا تَعَلُّق قائم ہوجاتا ہے۔ پھربَھلا جوعشقِ نبی میں گم ہو چکا ہو وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت کے سبب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیثِ مبارَکہ سے مَحَبَّت کیوں نہ رکھے گا اور کیوں نہ اُن کا ادب بجالائے گا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا شُمار بھی اُنہی باکمال ہستیوں میں ہوتا ہے جو فَنَا فِی الرَّسُول کے منصبِ عظیم پر فائز اورسَرتاپا ادب و تعظیم کے پیکر تھے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ادب و تعظیم کا دامن تھام کر عشقِ مُصْطَفٰے کے گہرے سَمُنْدَر میں ڈوب کر لاکھوں احادیثِ کریمہ میں سے”صحیح بُخاری“ کی صورت میں صحیح ترین احادیثِ مبارَکہ کا قیمتی خزانہ جمع کرکےاُمّتِ سَرکار کو عطا فرمادیا۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں نے”صحیح بُخاری“میں تقریباً چھ ہزاراحادیث ذِکْر کی ہیں،ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غُسْل کرتا،دو رَکْعَت نفل نماز ادا کر تا پھر اِستخارہ کرتا،جب کسی حدیث کی صِحَّت پر دل جمتا تو اُسے کتاب میں درج کر لیتا۔ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:مجھے چھ لاکھ حدیثیں یاد ہیں،جن میں سے چن چن کر سولہ(۱٦) سال میں،میں نے اِس جامع(بخاری) کو لکھا ہے،میں نے اِسے اپنے اور اللہ پاک کے درمیان دلیل بنایا ہے۔میں نے اپنی اِس کتاب میں صِرْف صحیح اَحادیث داخِل کی ہیں اور جن حدیثوں کو میں نے اِس خیال سے کہ کتاب بہت لمبی نہ ہوجائے چھوڑدیا وہ اِس سے بہت زیادہ ہیں۔
بعض عارفین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن سے منقول ہے: اگر کسی مشکل میں صحیح بخاری کو پڑھا جائے تو وہ حل ہوجاتی ہے اور جس کشتی میں صحیح بُخاری ہو وہ غَرْق نہیں ہوتی۔حافظ اِبنِ کثیر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:خشک سالی میں”صحیح بُخاری“پڑھنے سے بارش ہوجاتی ہے۔مشہور مُحَدِّثْ شیخ عبدُ العزیز مُحَدِّثِ دِہْلَوِی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:وقتِ شِدَّت ،خوفِ دشمن،مَرَض کی سختی،قحط سالی اور دیگر بَلاؤں میں اِس کتاب کا پڑھنا تریاق(علاج)کا کام دیتا ہے،اکثر اِس کا تَجْرِبَہ ہوچکا ہے۔حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:بعدِ قرآن شریف صحیح تر کتاب بُخاری شریف مانی گئی ہے،مصیبتوں میں خَتْم ِ بُخاری کیا جاتا ہے،جس کی بَرَکت اور اللہ پاک کے فَضْل سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔
امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے تقریباً باسٹھ(۶۲)سال کی عُمْر پائی اور(یکم شَوَّال) ۲۵٦ ؁ ہجری بروز ہفتہ عِیْدُ الْفِطْر کی رات بیماری کی حالت میں وِصالِ ظاہری فرمایا۔سَمَرْقَنْد سے کچھ فاصلے پر”خَرتنک“نامی بَستی میں(بعدِ ظُہْر)آپ کو سِپُرْدِ خاک کیا گیا۔ اور یہیں پر آپ کا عالیشان مزارِ پُر اَنوار بھی ہے۔

copywrites © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...