سورج اور چاند گرہن
سورج اور چاند گرہن کے بارے میں لوگ اِفراط و تفریط کاشکار نظر آتے ہیں ۔ کہیں تو سورج گرہن کا (مخصوص شیشوں کے ذریعے)نظارہ کرنے کے لئے پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں اور کہیں گرہن کے بارے میں مختلف تصورات وتوہُّمات پائے جاتے ہیں ،مثلاً: گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہنے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ ان کے بچے کسی پیدائشی نَقْص کے بغیر پیدا ہوں، گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غَلَط اثر پڑسکتا ہے۔
لوگوں کا ایک غَلَط خیال یہ بھی ہے کہ جب سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے تو حاملہ گائے، بھینس، بکری اور دیگر جانوروں کے گلے سے رسی یا زنجیر کھول دینی چاہئے تاکہ ان پر بُرا اثر نہ پڑے ، بعض علاقوں میں گرہن کے وَقْت ضعیفُ الْاِعتقاد اَفراد خودکو کمروں میں بند کرلیتے ہیں تاکہ بقول ان کے وہ گرہن کے وَقْت خارِج ہونے والی نقصان دہ لہروں سے بچ سکیں ، بعض معاشروں میں جس دن گرہن لگتا ہے اکثر لوگ کھانا پکانے سے گُریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گرہن کے وَقْت خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں ، کئی مشرقی ملکوں میں عِلْم نجوم کے ماہرین سورج گرہن سے منسلک پیشن گوئیاں کرتے ہیں جن میں کسی تباہی یا نقصان کی نشان دہی کی جاتی ہے،مثلاً چوری، اغوا، قتل وغارت، خودکشیاں اور تشدد کے واقعات بالخصوص خواتین کی اموات میں اضافہ، لاقانونیت اور بے انصافی کے واقعات کثرت سے ہونے کی پیشن گوئی کی جاتی ہے ۔ الغرض مشرق و مغرب،ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا میں ہر جگہ سورج اور چاند گرہن کے انسان پر مضر اثرات کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔
عرب معاشرے میں بھی سورج اورچاند گرہن کے متعلق عام خیال تھا کہ یہ کسی بڑے واقعہ مثلاً کسی کی وفات یا پیدائش پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جب دنیا کے نقشے پر اسلام کی اِنقلابی دعوت اُبھری تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان توہمات کو خَتْم کیا۔جس دن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ انتقال کر گئے اسی دن سورج میں گہن لگا۔
بعض لوگوں نے خیال کیا کہ یہ حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غم میں واقع ہوا ہے،چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لوگوں کوسورج گہن کی نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیتے ہوئے اِرشادفرمایا: سورج اور چانداللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، انہیں گرہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پس جب تم اسے دیکھو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پکارو، اس کی بڑائی بیان کرو ، نمازپڑھو اور صدقہ دو۔(بخاری،کتاب الکسوف،باب الصدقۃ فی الکسوف ۱/۳۵۷،۳٦۳ ،حدیث :۰۴۴،۱۰٦۰،ملخصاً)۔
سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز
سورج گہن کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور چاند گہن کی مستحب۔ سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مُسْتَحَب ہے اور تنہا تنہا بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے سوا تمام شرائط جمعہ اس کے لیے شرط ہیں ، وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جمعہ کی کر سکتا ہے، وہ نہ ہو تو تنہا تنہا پڑھیں ، گھر میں یا مسجد میں۔ (بہار شریعت،۱/۷۸۷)۔
جب سورج یا چاند کو گہن لگے تومسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس نظارے سے محظوظ ہونے اور توہمات کا شکار ہونے کے بجائے بارگاہِ الٰہی میں حاضری دیں اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طَلَب کریں ،اس یومِ قیامت کو یاد کریں جب سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے اور ستارے توڑدئیے جائیں گے اور پہاڑ لپیٹ دئیے جائیں گے ۔
یہ نماز اور نفلی نمازوں کی طرح دو رکعت پڑ ھیں۔اِس میں نہیں اذان ہے اور نہیں اقامت،نہیں بلند آواز سے قرأت۔نماز کے بعد دعا کرتے رہیں یہاں تک گہن ختم ہو جائے۔اگر کوئی چاہے تو دو رکعت سے زیادہ بھی پڑ ھ سکتا ہے چاہے تو دودو رکعت پر سلام پھیرے اور چاہے تو چار پر،تیز آندھی آئے یا دن میں اند ھیرا چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار بہت زیادہ بارش ہو یا آسمان لال ہو جائے یا بجلیاں گریں یا کثرت سے تارے ٹوٹیں یا کوئی وبا وغیرہ پھیل جائے یا زلزلہ آئے یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی دہشت ناک بات پائی جائے تو اِن سب صورتوں میں دو رکعت نماز پڑ ھنا مستحب ہے۔
No comments:
Post a Comment