Sunday, June 30, 2019

* طواف کا طریقہ *

طواف کا طریقہ


طواف شُروع کرنے سے قَبْل مرد اِضْطِباع کرلیں یعنی چادر سیدھے ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر اُس کے دونوں پَلّے اُلٹے کندھے پراِس طرح ڈال لیں کہ سیدھا کندھا کُھلا رہے۔ اب پروانہ وار شمعِ کَعبہ کے گرد طواف کے لئے تیّار ہوجائیے۔
اِضْطِباعی حالت میں کَعبہ شریف کی طر ف مُنہ کئے حجرِ اَسود کی بائیں طرف رُکنِ یَمانی کی جانب حجرِ اَسْود کے قریب اِس طرح کھڑے ہوجائیے کہ پورا ’’حَجَرِ اَسوَد‘‘آپ کے سیدھے ہاتھ کی طرف رہے۔ اب بِغیر ہاتھ اُٹھائے اِس طرح طواف کی نیَّت کیجئے:۔
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اُرِیْدُ طَوَافَ بَیْتِكَ الْحَرَامِ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ ط
ترجَمہ:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ میں تیرے محترم گھر کا طواف کرنے کا اِرادہ کرتا ہوں،تُو اِسے میرے لئے آسان فرمادے اور میری جانب سے اِسے قَبول فرما۔
نیَّت کرلینے کے بعد کَعْبہ شریف ہی کی طرف مُنہ کئے سیدھے ہاتھ کی جانب اتنا چلئے کہ حَجَرِاَسْوَد آپ کے عَین سامنے ہو جائے۔( اور یہ معمولی سا سرکنے سے ہو جائے گا، آپ حجرِ اسود کی عین سیدھ میں آ چکے اِس کی علامت یہ ہے کہ دُور ستون میں جو سبز لائٹ لگی ہے وہ آپ کی پیٹھ کے بالکل پیچھے ہو جائے گی)۔
سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!یہ جنَّت کا وہ خوش نصیب پتھر ہے جسے ہمارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یقیناً چوما ہے۔ اب دونوں ہاتھ کانوں تک اِس طرح اُٹھائیے کہ ہتھیلیاں حَجَرِاَسْوَد کی طرف رہیں اور پڑھئے:۔
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
ترجمہ: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نام سے اور تمام خُوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کیلئے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑاہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودو سلام ہوں۔
اب اگر ممکن ہو تو حَجَرِاَسْوَد شریف پر دونوں ہتھیلیاں اور اُن کے بیچ میں مُنہ رکھ کر یوں بوسہ دیجئے کہ آواز پیدا نہ ہو، تین بار ایسا ہی کیجئے۔ سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! جھوم جائیے کہ آپ کے لب اُس مُبارَک جگہ لگ رہے ہیں جہاں یقیناً مدینےوالے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارَکہ لگے ہیں۔ مچل جائیے ....تڑپ اُٹھئے....اور ہوسکے تو آنسوؤں کو بہنے دیجئے۔ حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ہمارے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَجَرِاَسْوَد پر لب ہائے مبارَکہ رکھ کر روتے رہے پھر اِلتِفات فرمایا (یعنی توجُّہ فرمائی) تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی رورہے ہیں۔ اِرشاد فرمایا:اے عمر (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)! یہ رونے اور آنسو بہانے کاہی مقام ہے۔(اِبن ماجہ ج۳ ص۴۳۴ حدیث۲۹۴۵)۔

اِس بات کا خیال رکھیے کہ لوگوں کو آپ کے دَھکّے نہ لگیں کہ یہ قُوّت کے مُظاہَرہ کی نہیں،عاجِزی اور مسکینی کے اِظہار کی جگہ ہے۔ ہُجُوم کے سبب اگر بوسہ مُیَسَّر نہ آسکے تو نہ اوروں کو ایذا دیں نہ خود دَبیں کُچلیں بلکہ ہاتھ یا لکڑی سے حَجَرِاَسوَد کو چُھو کر اُسے چُوم لیجئے، یہ بھی نہ بَن پڑے تو ہاتھوں کا اِشارہ کر کے اپنے ہاتھوں کو چُوم لیجئے، یہی کیا کم ہے کہ مَکّی مَدَنی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُبارَک مُنہ رکھنے کی جگہ پر آپ کی نگاہیں پڑرہی ہیں۔
حَجَرِاَسْوَدکوبوسہ دینے یا لکڑی یاہاتھ سے چھُوکر چُومنے یاہاتھوں کا اِشارہ کر کے انھیں چُوم لینے کو ’’اِستلام‘‘کہتے ہیں۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: روزِ قیامت یہ پتَّھر اُٹھا یا جائے گا، اِس کی آنکھیں ہو ں گی جن سے دیکھے گا، زبان ہوگی جس سے کلام کرے گا، جس نے حق کے ساتھ اُس کا اِ ستِلام کیااُس کے لیے گواہی دے گا۔(ترمذی ج۲ص۲۸۶حدیث۹۶۳)۔اب
اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًۢا بِكَ وَاتِّبَاعًالِّسُنَّۃِ نَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمْ ط
ترجَمہ:الٰہی تجھ پر ایمان لاکراور تیرے نبی محمد صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم کی سنّت کی پیروی کرنے کو یہ طواف کرتا ہوں ۔ کہتے ہوئے کَعبہ شریف کی طرف ہی چِہرہ کئے سیدھے ہاتھ کی طرف تھوڑاساسَرَکئے جب حَجَرِاَسوَد آپ کے چہرے کے سامنے نہ رہے (اور یہ اَدنٰی سی حَرَکت میں ہوجائے گا) تو فوراً اِس طرح سیدھے ہوجایئے کہ خانۂ کَعبہ آپ کے اُلٹے ہاتھ کی طرف رہے، اِس طرح چلئے کہ کسی کو آپ کا دَھکّا نہ لگے۔مَرد اِبتِدائی تین پھیروں میں رَمَل کرتے چلیں یعنی جلد جلد چھوٹے قدم رکھتے، شانے(یعنی کندھے) ہِلاتے چلیں جیسے قَوی و بَہادر لوگ چلتے ہیں۔بعض لوگ کُودتے اور دوڑتے ہوئے جاتے ہیں، یہ سُنَّت نہیں ہے۔ جہاں جہاں بھیڑ زِیادہ ہو اور رَمَل میں خود کو یا دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو اُتنی دیر رَمَل ترک کردیجئے مگر رَمَل کی خاطر رُکئے نہیں، طواف میں مَشغُول رہئے۔ پھر جُوں ہی موقع ملے، اُتنی دیر تک کے لئے رَمَل کے ساتھ طواف کیجئے۔
طواف میں جس قَدَرخانۂ کَعبہ سے قریب رہیں یہ بہتر ہے مگراِتنے زِیادہ قریب بھی نہ ہوجائیں کہ کپڑا یا جِسم پُشتۂ دیوارسے لگے اور اگر نزدیکی میں ہُجُوم کے سبب رَمل نہ ہوسکے تو اب دُوری بہتر ہے۔ اسلامی بہنوں کیلئے طواف میں خانۂ کعبہ سے دُوری افضل ہے ۔پہلے چکّر میں چلتے چلتے دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھیے:پہلے چکر کی دعا

سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ط وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِـیْمِ ط وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُـوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ط اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًۢا بِكَ وَتَصْدِیْقًۢا بِكِتَابِكَ وَوَفَآءًۢ بِعَھْدِكَ وَاتِّبَاعًا لِّسُنَّۃِ نَبِیِّكَ وَحَبِیْبِكَ مُحَمـَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ وَ الْمُعَافَاۃَ الدَّاۤئِمَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِـرَۃِ وَالْفَـوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ ط(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔
ترجمہ:اللہ تعالٰی پاک ہے اور سب خوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّہی کیلئے ہیں اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی توفیق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہے جو سب سے بُلند اورعَظَمت والا ہے اور رَحمت کاملہ اور سلام نازل ہواللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!تجھ پر ایمان لاتے ہوئے اور تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے اور تجھ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہوئے اور تیرے نبی اور تیرےحبیب محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سنَّت کی پیروی کرتے ہوئے (میں طواف شُرو ع کر چکاہوں )اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تجھ سے (گناہوں سے)مُعافی کا اور ( بلاؤں سے) عافیّت کا اوردائمی حفاظت کا، دین و دنیا اور آخِرت میں اور حُصولِ جنَّت میں کامیابی اورجہنَّم سے نَجات پانے کا سُوال کرتا ہوں۔
رُکنِ یَمانی تک پہنچنے تک یہ دُعا پوری کر لیجئے، اب اگر بِھیڑ کی وجہ سے اپنی یادوسروں کی اِیذا کا اَندیشہ نہ ہو تو رُکنِ یَمانی کودونوں ہاتھوں سے یا سیدھے ہاتھ سے تَبَرُّکًا چُھوئیں، صِرف بائیں(الٹے) ہاتھ سے نہ چُھوئیں۔ موقع ملے تو رُکنِ یَمانی کو بوسہ بھی دیجئے،اگر چُومنے یاچُھونے کا موقع نہ ملے تو یہاں ہاتھوں سے اشارہ کر کے چُومنا نہیں ۔( رُکنِ یَمانی پر آج کل لوگ کافی خوشبو لگا دیتے ہیں لہٰذا احرام والے چُھونے اور چومنے میں احتیاط فرمائیں)۔
اب آپ کعبۂ مُشَرَّفہ کے تین کونوں کا طواف پورا کرکے چوتھے کونے رُکنِ اَسوَد کی طرف بڑھ رہے ہیں، رُکنِ یَمانی ا ور رُکنِ اَسوَد کی دَرمِیانی دیوار کو ’’مُستَجاب ‘‘ کہتے ہیں، یہاں دُعا پراٰمین کہنے کے لئے ستَّر ہزار فرشتے مقرَّر ہیں ۔ آپ جو چاہیں اپنی زَبان میں اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا مانگئے یا سب کی نیَّت سے اور مجھ گنہگا ر کی بھی نیَّت شامل کر کے ایک مرتبہ دُرُود شریف پڑھ لیجئے، نیز یہ قراٰنی دُعا بھی پڑھ لیجئے :رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔

دوسرا چکر:اے لیجئے!آپ حَجَرِ اَسوَد کے قریب آپہنچے ،یہاں آپ کا ایک چکَّر پورا ہوا۔ لوگ یہاں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی دُور ہی دُور سے ہاتھ لہراتے ہوئے گزر رہے ہوتے ہیں ایسا کرنا ہرگز سُنَّت نہیں، آپ حسبِ سابِق یعنی پہلے کی طرح رُوبہ قِبلہ حَجَرِ اَسوَد کی طرف مُنہ کر لیجئے۔ اب نیَّت کرنے کی ضَرورت نہیں کہ وہ تو اِبتداء ً ہوچکی،اب دوسرا چکَّر شُروع کرنے کے لئے پہلے ہی کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
پڑھ کر اِستِلام کیجئے۔ یعنی موقع ہو تو حَجَرِ اَسوَد کو بوسہ دیجئے ورنہ اُسی طرح ہاتھ سے اِشارہ کر کے اُسے چُوم لیجئے۔ پہلے ہی کی طرح کعبہ شریف کی طرف مُنہ کر کے تھوڑاسا سیدھے ہاتھ کی جانِب سَرَکئے۔ جب حَجَرِ اَسوَد سامنے نہ رہے تو فوراً اُسی طرح کعبۂ مُشَرَّفہ کو بائیں ہاتھ کی طرف لئے طواف میں مَشغُول ہوجائیے اوردُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعاپڑھئے:دوسرے چکر کی دعا
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَا الْبَیْتَ بَیْتُكَ وَ الْحَرَمَ حَرَمُكَ وَ الْاَمْنَ اَمْنُكَ وَالْعَبْدَ عَبْدُكَ وَاَنَا عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَھٰذَا مَقَامُ الْعَآئِذِبِكَ مِنَ النَّارِط فَحَرِّمْ لُحُوْمَنَا وَ بَشَرَتَنَا عَلَی النَّارِ ط اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا الْاِیْمَانَ وَ زَیِّنْہُ فِیْ قُلُوْبِنَا وَ کَرِّہْ اِلَیْنَا الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ وَ اجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ قِنِیْ عَذَابَكَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ ط اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔
ترجمہ: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!بے شک یہ گھر تیرا گھر ہے او ریہ حرم تیرا حرم ہے اور (یہاں کا)امن وامان تیرا ہی دیا ہوا ہے اور ہر بندہ تیرا ہی بندہ ہے اور میں بھی تیرا ہی بندہ ہوں اور تیرے ہی بندے کا بیٹا ہوں اوریہ مقام جہنَّم سے تیری پناہ مانگنے والے کا ہے، تو ہمارے گو شت او ر جسم کو دو زخ پر حرام فرما دے،اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے لئے ایمان کو محبوب بنادے اور ہمارے دلوں میں اس کی چاہ پیدا کردے اور ہمارے لئے کفر اور بدکاری اور نافرمانی کو ناپسند بنادے اور ہمیں ہدایت پانے والوں میں شامل کر لے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!جس دن تو اپنے بندو ں کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے مجھے اپنے عذاب سے بچا، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے بے حساب جنّت عطافرما۔
رُکنِ یَمانی پر پہنچنے سے پہلے پہلے یہ دُعا ختم کردیجئے۔ اب موقع ملے تو پہلے کی طرح بوسہ لے کر یا پھر اُسی طرح چُھوکر ’’ حَجَرِ اَسوَد‘‘کی طرف بڑھئے،دُرُود شریف پڑھ کر یہ دعائے قراٰ نی پڑھئے:رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔ اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَدکے قریب آپہنچے۔ اب آپ کا ’’دوسرا چکّر‘‘ بھی پورا ہوگیا۔
تیسرا چکر:پھر حسبِ سابِق دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاکریہ دُعا:بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر حَجَرِ اَسوَدکا اِستِلام کیجئے اور پہلے ہی کی طرح تیسراچکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:تیسرے چکر کی دعا
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّرْكِ وَالنِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَسُوْٓءِ الْاَخْلَاقِ وَسُوْٓءِ الْمَنْظَرِ وَالْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَھْلِ وَالْوَلَدِطاَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ رِضَاكَ وَالْجَنَّۃَ وَ اَعُوْذُبِكَ مِنْ سَخَطِكَ وَ النَّارِ طاَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔

ترجمہ:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں شک اور شرک اور نفاق اورحق کی مخالفت سے اور بُر ے اَخلاق اور بُرے حال سے اوراَہل وعِیال اورمال میں بُرے انجام سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیری رِضا اور جنَّت مانگتا ہوں اور تیرے غَضَب اور جہنَّم سے پناہ چاہتاہوں، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں قبر کی آزمائش اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتاہوں ۔
رُکنِ یَمانی پر پہنچنے سے پہلے یہ دُعا ختم کردیجئے اور پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھتے ہوئے دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعائے قراٰنی پڑھئے:رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔ اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَدکے قریب آپہنچے، آپ کا ’’تیسرا چکّر‘‘ بھی مکمَّل ہوگیا۔
چوتھا چکر:پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر حَجَرِ اَسوَد کا اِستِلام کیجئے اور پہلے ہی کی طرح چوتھا چکّر شُروع کیجئے،اب رَمَل نہ کیجئے کہ رَمَل صِرْف تین ابتِدائی پھیروں میں کرنا تھا ۔ اب آپ کوحسبِ معمول درمیانہ چال کے ساتھ بَقِیَّہ پھیرے مکمَّل کرنے ہیں۔ دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:چوتھے چکر کی دعا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہَا عُمْرَۃً مَّبْرُوْرَۃً وَّسَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَّ ذَنْۢبًا مَّغْفُوْرًا وَّعَمَلًا صَالِحًا مَّقْبُوْلًا وَّ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ ط یَا عَالِمَ مَا فِی الصُّدُوْرِ اَخْرِجْنِیْ یَاۤ اَللّٰہُ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ ط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَآئِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ وَّالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَّالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ ط اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِكْ لِیْ فِیْہِ وَ اخْلُفْ عَلٰی کُلِّ غَآئِبَۃٍ لِّیْ بِخَیْرٍ ط(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔
ترجمہ: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میرے اس حج کو حجِ مبرور اور میری کوشش کو کامیاب اور گناہوں کی مغفرت کا ذَرِیعہ اور مقبول نیک عمل اور بے نقصان تجارت بنادے۔ اے سینوں کے حال جاننے والے ! اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے ( گناہ کی) تاریکیوں سے (عمل صالح کی) روشنی کی طر ف نکال دے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیری رَحمت (کے حاصل ہونے ) کے ذریعوں اور تیری مغفرت کے اسباب کا اورتمام گناہوں سے بچتے رہنے اور ہرنیکی کی توفیق کااورجنّت میں جانے اور جہنَّم سے نَجات پانے کا سُوال کرتاہوں۔ اور اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے دیے ہوئے رزق میں قَناعت عطا فرمااور اس میں میرے لیے بَرَکت بھی دے اور ہر نقصان کا اپنے کرم سے مجھے نعمَ البدل عطا فرما۔
رُکنِ یَمانی تک یہ دُعا ختم کر کے پھر پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دعا پڑھئے:رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔ اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَد پر آپہنچے۔حسبِ سابِق دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاکر یہ دُعا :بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
پڑھ کر اِستِلام کیجئے او ر پانچواں چکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:پانچویں چکر کی دعا
اَللّٰھُمَّ اَظِلَّنِیْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِكَ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّ عَرْشِكَ وَلَا بَاقِیَ اِلَّا وَجْھُكَ وَاسْقِنِیْ مِنْ حَوْضِ نَبِیِّكَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ شَرْبَۃً ھَنِیْٓئَۃً مَّرِیْٓئَۃً لَّا نَظْمَأ بَعْدَ ھَا اَبَدًا ط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ مِنْ خَیْرِ مَا سَئَلَكَ مِنْہُ نَبِیُّكَ سَیِّدُنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَكَ مِنْہُ نَبِیُّكَ سَیِّدُنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ الْجَنَّۃَ وَ نَعِیْمَہَا وَمَا یُقَرِّبُنِیْۤ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ فِعْلٍ اَوْ عَمَلٍ ط وَاَعُوْذُبِكَ مِنَ النَّارِ وَ مَا یُقَرِّبُنِیْۤ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ فِعْلٍ اَوْ عَمَلٍ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔

ترجمہ: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے اس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے جس دن تیرے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اور تیری ذاتِ پاک کے سوا کوئی باقی نہ رہے گا اور مجھے اپنے نبی محمد مصطَفٰےصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حوض (کوثر)سےایسا خوشگوار اور خوش ذائقہ گھونٹ پلا کہ اس کے بعد کبھی مجھے پیاس نہ لگے،ے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے ان چیزوں کی بھلائی مانگتاہوں جنہیں تیرے نبی سیّدنا محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تجھ سے طلب کیا اور ان چیزوں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں جن سےتیرے نبی سیدنا محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پناہ مانگی۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے جنَّت اور اس کی نعمتوں کااور ہر اُس قول یا فعل یاعمل(کی تو فیق)کا سُوال کرتا ہوں جومجھے جنَّت سے قریب کر دے اور میں دوزخ اور ہر اُس قول یا فعل یا عمل سے تیر ی پناہ چاہتا ہوں جو مجھے جہنَّم سے قریب کر دے۔
رُکنِ یَمانی تک یہ دُعا ختم کر کے پہلے کی طر ح حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دُعا پڑھئے:رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔ پھر حَجَرِ اَسوَد پر آکر دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
پڑھ کراِستِلام کیجئے اور اب چھٹا چکّرشُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:چھٹے چکر کی دعا
اَللّٰھُمَّ اِنَّ لَكَ عَلَیَّ حُقُوْقًا کَثِیْرَۃً فِیْمَا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ وَ حُقُوْقًا کَثِیْرَۃً فِیْمَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَلْقِكَ اَللّٰھُمَّ مَا کَانَ لَكَ مِنْھَا فَاغْفِرْہُ لِیْ وَ مَا کَانَ لِخَلْقِكَ فَتَحَمَّلْہُ عَنِّیْ وَ اَغْنِنِیْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ بِطَاعَتِكَ عَنْ مَّعْصِیَتِكَ وَ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَۃِ ط اَللّٰھُمَّ اِنَّ بَیْتَكَ عَظِیْمٌ وَ وَجْھَكَ کَرِیْمٌ وَّاَنْتَ یَاۤ اَللّٰہُ حَلِیْمٌ کَرِیْمٌ عَظِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔
ترجمہ: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! بے شک مجھ پر تیرے بہت سے حُقُوق ہیںاُن مُعامَلات میں جومیرے اور تیرے درمیان ہیں اور بہت سے حُقُوق ہیں ان مُعاملات میں جو میرے اور تیری مخلوق کے درمیان ہیں۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ان میں سے جن کا تعلُّق تجھ سے ہو ان کی(کوتاہی کی ) مجھے مُعافی دے اور جن کا تعلُّق تیری مخلوق سے (بھی )ہو ان کی مُعافی اپنے ذمۂ کرم پر لے لے۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے (رِزقِ ) حلال عطا فرما کر حرام سے بے پرواہ کر دے اور اپنی اطاعت کی تو فیق عطا فرماکر نافرمانی سے او راپنے فضل سے نوازکر اپنے علاوہ دوسروں سے مُستغنی(یعنی بے پروا) کردے، اے وسیع مغفِرت والے!اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! بیشک تیرا گھر بڑی عَظَمت والا ہے اورتیری ذات کریم ہے اور اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تو حلم والا ،کرم والا،عَظَمت والا ہےاور تومُعافی کو پسندکرتا ہے سو میری خطاؤں کوبخش دے۔
رُکنِ یَمانی تک یہ دُعا ختم کر کے پھر پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دُعاپڑھئے:رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔ پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
پڑھ کر حَجَرِ اَسوَدکا اِستِلام کیجئے اور ساتواں اورآخِری چکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:ساتویں چکر کی دعا
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ اِیْمَانًا کَامِلًا وَّ یَقِیْنًا صَادِقًا وَّ رِزْقًا وَّاسِـعًا وَّقَلْبًا خَاشِعًا وَّ لِسَانًا ذَاکِرًا وَّ رِزْقًا حَلَالًا طَیِّبًا وَّ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا وَّتَوْبَۃً قَبْلَ الْمَوْتِ وَرَاحَۃً عِنْدَ الْمَوْتِ وَ مَغْفِرَۃً وَّرَحْمَۃًۢ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَفْوَ عِنْدَ الْحِسَابِ وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ بِرَحْمَتِكَ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ ط رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَط(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)۔
ترجمہ: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سےتیری رَحمت کے وسیلے سے کامل ایمان اور سچّا یقین اورکُشادہ رِزق اور عاجِزی کرنے والا دل اورذِکر کرنے والی زَبان اور حلال او ر پاک روزی اور سچّی توبہ اور موت سے پہلے کی توبہ اورموت کے وقت راحت اور مرنے کے بعد مغفِرت اور رَحمت اور حساب کے وَقت مُعافی اورجنَّت کاحُصُول اور جہنَّم سے نَجات مانگتاہوں،اے عزّت والے!اے بَہُت بخشنے والے!۔اے میرے رب عَزَّ وَجَلَّ!میرے علم میں اِضافہ فرما اور مجھے نیکوں میں شامل فرما ۔
رُکنِ یَمانی پر آکریہ دُعا ختم کر کے پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دعا پڑھئے:رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)۔ حَجَرِ اَسوَدپر پہنچ کر آپ کے سات پھیرے مکمَّل ہوگئے مگر پھر آٹھویں بار پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
پڑھ کر اِستِلام کیجئے اور یہ ہمیشہ یاد ر کھئے کہ جب بھی طواف کریں اُس میں پھیرے سات ہوتے ہیں اور اِستِلام آٹھ۔
نوٹ:مزید معلومات کے لئے’’رفیق الحرمین‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ نماز، روزہ، اِعتِکاف، طواف وغیرہ ہر جگہ یہ مسئلہ ذہن میں رکھئے کہ عَرَبی زَبان میں نیَّت اُسی وَقت کار آمد ہوتی ہے جب کہ اس کے معنیٰ معلوم ہوں ورنہ نیَّت اُردو میں بلکہ اپنی مادَری زَبان میں بھی ہوسکتی ہے اور ہر صورت میں دل میں نیَّت ہونا شَرْط ہے، زَبان سے نہ بھی کہیں تب بھی چل جائے گا کہ دِل ہی میں نیَّت ہونا کافی ہے ہاں زَبان سے کہہ لینا افضل ہے۔

copywrites © 2019,

Saturday, June 29, 2019

**** احرام ****

احرام


جب حج یا عُمرہ یا دونوں کی نیَّت کرکے تَلْبِیَہ پڑھتے ہیں تو بعض حَلال چیزیں بھی حرام ہوجاتی ہیں ،اِس کو ’’اِحرام‘‘کہتے ہیں اورمَجازاً اُن بِغیر سِلی چادروں کو بھی اِحرام کہا جاتا ہے جنھیں مُحرِم استِعمال کرتا ہے۔
رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو بندہ احرام کی حالت ميں دن گزارتا ہے سورج ڈوبتے وقت اس کے گناہ اپنے ساتھ ہی لے جاتا ہے۔(حدیث)۔
حج ہو یا عمرہ اِحرام باندھنے کا طریقہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ ہاں نیّت اور اُس کے اَلفاظ میں تھوڑاسافرق ہے۔

اِحرام باندھنے کا طریقہ


۔۱. ناخُن تَراشئے۔
۔۲. بغل اور ناف کے نیچے کے بال دُور کیجئے بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کرلیجئے۔
۔۳. مِسْواک کیجئے۔
۔۴. وُضو کیجئے۔
۔۵. خوب اچھی طرح مَل کے غسل کیجئے۔
۔٦. جسم اوراِحرام کی چادروں پر خوشبو لگائیے کہ یہ سُنَّت ہے، کپڑوں پرایسی خوشبو (مثلاً خُشک عَنبر وغیرہ)نہ لگائیے جس کاجِرم (یعنی تَہ ) جَم جائے ۔
۔۷. اِسلامی بھائی سلے ہوئے کپڑے اُتار کر ایک نئی یا دُھلی ہوئی سفید چادر اوڑھیں اور ایسی ہی چادر کا تہبند باندھیں۔(تہبند کے لئے لٹھا اور اَوڑھنے کے لئے تولیا ہوتو سَہولت رہتی ہے، تہبند کا کپڑا موٹا لیجئے تاکہ بدن کی رنگت نہ چمکے اور تولیا بھی قدرے بڑی سائز کا ہو تواچھا)۔
۔۸. پاسپورٹ یارقم وغیرہ رکھنے کے لئے جیب والا بیلٹ چاہیں تو باندھ سکتے ہیں۔ ریگزین کا بَیلٹ اکثر پھٹ جاتا ہے، آگے کی طرف زِپ والا بٹوا لگا ہوا نائیلون یا چمڑے کا بیلٹ کافی مضبوط ہوتا اور برسوں کام دے سکتا ہے۔

اِسلامی بہنیں حسبِ معمول سلے ہوئے کپڑے پہنیں، دستانے اور موزے بھی پہن سکتی ہیں، وہ سر بھی ڈھانپیں مگر چہرے پر چادر نہیں اَوڑھ سکتیں،غیر مَردوں سے چہرہ چُھپانے کے لئے ہاتھ کا پنکھا یا کوئی کتاب وغیرہ سے ضَرورتاً آڑکرلیں۔ اِحرام میں عورَتوں کو کسی ایسی چیز سے مُنہ چھپانا جو چہرے سے چِپٹی ہو حرام ہے۔

احرام کے نفل


اگر مکروہ وَقت نہ ہوتو دو رَکْعَت نَماز نَفل بہ نیّتِ اِحرام (مرد بھی سر ڈھانپ کر) پڑھیں، بہتر یہ ہے کہ پہلی رَکْعَت میں اَلْحَمْد شریف کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ اورر دوسری رَکْعَت میں قُلْ ھُوَاللّٰہ شریف پڑھیں۔

عمرے کی نیّت


اب اِسلامی بھائی سَر ننگا کر دیں اور اِسلامی بہنیں سَر پر بدستور چادر اوڑھے رہیں اگر (عام دنوں کا)عُمرہ ہے تب بھی اور اگر حجِ تَمَتُّع کررہے ہیں جب بھی عُمرے کی اِس طرح نیَّت کریں: اَللّٰهُمَّ اِ نِّیْۤ اُرِيْدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْهَا لِیْ وَ تَقَبَّلْهَا مِنِّیْ وَ اَعِنِّیْ عَلَيْهَا وَ بَارِكْ لِیْ فِيْهَا ط نَوَيْتُ الْعُمْرَةَ وَ اَحْرَمْتُ بِهَا لِلّٰهِ تَعَالٰی ط

لَبَّيك


خواہ عُمرے کی نیَّت کریں یا حج کی یا حجِّ قِران کی تینوں صورَتوں میں نیَّت کے بعد کم اَز کم ایک بار لَبَّیْک کہنا لازِمی ہے اور تین بار کہنا افضل۔ لَبَّیْک یہ ہے: لَبَّیْكَ ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْكَ ط لَبَّیْكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ لَبَّیْكَ ط اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ط لَا شَرِیْكَ لَكَ ط
ترجمہ: میں حاضِر ہوں ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں حاضِر ہوں ، (ہاں )میں حاضِر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضِر ہوں ، بے شک تمام خوبیاں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور تیرا ہی ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ۔
مزید معلومات کے لئے’’رفیق الحرمین‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔

copywrites © 2019,

Friday, June 28, 2019

*حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا خان ازہری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ *


حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


وارثِ علو مِ اعلیٰ حضرت، جانشینِ حضور مفتیِ اعظم ہند، قاضیُ القضاۃ، تاجُ الشریعہ حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اختر رضا خان ازہری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت باسعادت۲۴؍ذیقعدہ۱۳٦۲ھ -۲۳ ؍نومبر۱۹۴۳ء بروزمنگل ہندوستان کے شہربریلی شریف کے محلہ سوداگران میں ہوئی۔
شجرۂ نسب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن تک آپ کا شجرۂ نسب یوں ہے: محمد اختر رضا بن محمد ابراہیم رضا بن محمد حامد رضا بن امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔
اسم گرامی والقابات: آپ کااسم گرامی” محمداسماعیل رضا” جبکہ عرفیت”اختررضا”ہے۔ آپ” اختر”تخلص استعمال فرماتے تھے۔ آپ کے القابات میں ”تاج الشریعہ، جانشین مفتی اعظم، شیخ الاسلام والمسلین”زیادہ مشہورہیں۔
تعلیم و تربیت :حضور تاجُ الشریعہ علیہ الرَّحمہ کی عمر شریف جب ۴سال، ۴ماہ، ۴دن کی ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت، مفسرِ اعظم ہندحضرت مولانا محمد ابراہیم رضا خان علیہ الرَّحمہ نے بِسْمِ اللّٰہ خوانی کی تقریب منعقد کی، حضور مفتیِ اعظم ہند نے رسمِ بِسْمِ اللّٰہ ادا کروائی۔آپ نے ناظرہ قراٰنِ پاک اپنی والدۂ ماجدہ شہزادیِ مفتیِ اعظم ہند سے گھر پرہی ختم کیا۔ والدِ ماجد سے اردو کی ابتدائی کتب پڑھیں، اس کے بعد دارُالعلوم منظرِ اسلامبریلی شریف سے درسِ نظامی مکمل کیا اور ۱۹٦۳ء میں جامعۃُ الازہر قاہرہ مصر تشریف لے گئے، جہاں مسلسل ۳سال فنِ تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا۔ ۱۹٦٦ء میں جامعۃ الازہرسے فارغ ہوئے اور اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر ”جامعہ ازہر ایوارڈ“ سے نوازے گئے۔

درس و تدریس اور فتویٰ نویسی: حضور تاجُ الشریعہ نے تدریس کی ابتدا دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے ۱۹٦۷ء میں کی، ۱۹۷۸ء میں دارُ العلوم کے صدرُالمدرسین اور رضوی دارُالافتاء کے صدر مفتی کے عہدے پر فائز ہوئے، تدریس کا سلسلہ ۱۲سال تک جاری رہا جس کے بعد کثیر مصروفیات کے باعث باقاعدہ تدریس نہ فرماسکے۔جبکہ افتاء کی مصروفیات کا سلسلہ ۱۹٦۷ سے حیاتِ مبارکہ کے آخری ایّام تک جاری رہا۔
بیعت و خلافت: آپ کو بچپن ہی میں حضور مفتیِ اعظم ہند مصطفےٰ رضا خان علیہ رحمۃ الحنَّان نے شرفِ بیعت عطا فرما دیا اور ۱۹سال کی عمر میں تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا جبکہ تلمیذ وخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ مفتی محمد برہان الحق جبل پوری، سیّدالعلماء حضرت سیّد شاہ آلِ مصطفےٰ برکاتی مارہروی، احسن العلماء حضرت سیّد شاہ مصطفی حیدرحسن میاں برکاتی اور والدِماجد حضرت مولانامحمد ابراہیم رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم سےبھی تمام سلسلوں کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔
تصانیف: حضور تاجُ الشریعہ نے تحریر کے میدان میں مختلف علوم و فنون پرعربی اور اردو میں ٦۵سے زائد کتب تحریر فرمائی ہیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:ہجرتِ رسول ،آثارِ قیامت ،الحق المبین(عربی و اردو) ،سفینۂ بخشش (نعتیہ دیوان) ،فتاویٰ تاجُ الشریعہ ،الصحابۃ نجوم الاھتداء اورالفردہ شرح القصیدۃ البردہ ۔
ذیل میں بلا تبصرہ تاج الشریعہ دام فیوضہم الباری کے چنندہ ارشادات آپ کے مواعظ سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ جو عمل کے متقاضی ہیں۔بزمِ حیات میں سجائیں اور زندگی کو طریقِ مصطفی علیہ التحیۃوالثناء پر گامزن کریں:۔

سورۂ فاتحہ میں جوہم کو دعا سکھائی گئی،وہی ہمارے لیے نسخۂ کامیابی اور نسخۂ کیمیا ہے،شیطان اور شیطان کے راستوں سے پچیں،دنیا کا عیش چند روزہ ہے،قبر کی لذّت اور قبر، حشر کا عیش یہ اس کے لیے ہے جو غلامِ مصطفی ہے،مذہب مہذب اہل سنت وجماعت یہی سچامذہب ہے اور یہی سچا راستہ جو اﷲ و رسول تک پہنچانے والا،بندہ دوسرے بندے کو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے،قرآن کریم کا ہر حرف منتخب ہے، یہ اس کا کلام ہے جس کے کلام میں کسی کو کوئی کلام ہو ہی نہیں سکتا،اس (قرآن) کا ہر کلام ہر بیان اور قول ہمارے لیے درسِ حیات ہے،جو دشمنان مصطفی ہیں، جو دشمنان خدا ہیں، ہمیں ان کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے،سنی سنی ایک ہوں، مصطفی کے غلام آپس میں ایک ہوں، یہی قرآن کی تعلیم ہے، ہمارے لیے یہی کامیابی کا ضامن ہے،ہمارا رشتہ اور ہماری نسبت اس سے ہے جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہے،جومحمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا نہیں اور ان کے دین پر نہیں ہے تو ہمارا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے، یہی سچا اتحاد ملت ہے،لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پڑھ کر کے ہم نے اﷲ و رسول سے جو عہد کیا ہے، اس عہد کو ہم یاد رکھیں،اس کی تجدید اور اس کی یاد دہانی ایک دوسرے کو کراتے رہیں،ہماری اور آپ کی زندگی کا، دنیا میں آنے کا اور دنیا میں رہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اﷲ کو پہچانیں۔اس کے رسول کے وسیلے اور بزرگان دین کے وسیلے سے اﷲ والے ہوں،آدمی اگر امانت کا لحاظ کرلے تو پوری مسلم کمیونٹی(قومِ مسلم) سدھر سکتی ہے، اور سنور سکتی ہے،ہماری اچھی باتیں یورپیوں ، انگریزوں ،ہندووں، نصرانیوں، یہودیوں نے سیکھ لیااور ہم نے ان کی بری باتوں کو لے لیا،امانت کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے پاس کسی کا راز ہے تو اس راز کی حفاطت کریں،مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ غیر مسلموں کو راز دار بنائے،مسلمان، مسلمان سے مشورہ کرے،آج قوم مسلم کو نقصان جو پہنچ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلموں کو اپنا راز دار بنالیا ہے۔ اور انہوں نے اپنی کمیٹیاں،ہمارے جسم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جو اعضا رکھے ہیں، اور جو پاورس پروائڈ کیے ہیں ان میں بھی امانت کا لحاظ ضروری ہے۔

آنکھ کی امانت یہ ہے کہ :’’اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جس چیز کو دیکھنے کا حکم دیا ہے اسے دیکھے اور آنکھ کو جس چیز کو دیکھنے سے منع کیا آدمی اس چیز کو نہ دیکھے۔‘‘ کان کی امانت یہ ہے کہ :’’جو بات سننے کا حکم اﷲ نے دیا ہے اسے سنے، اور اﷲ نے جس بات کو سننے سے منع فرمایا ہے اس سے باز رہے۔‘‘ ہاتھ کی امانت یہ ہے کہ:’’جو کام کرنے کا حکم اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے آدمی ہاتھ سے وہ کام کرے اور جس سے منع فرمایا ہے آدمی اس کام سے اپنے ہاتھ کو بچائے۔‘‘ پیر کی امانت یہ ہے کہ:’’جہاں پر اﷲ نے حکم دیا ہے جانے کا وہاں جائے۔ اور جہاں پر اﷲ نے حکم دیا ہے نہ جانے کا وہاں اپنے پیر نہ جائے۔‘‘ زبان کی امانت یہ ہے کہ :’’جو بات کہنے کا حکم دیا ہے وہ کہے،اور جس بات کو کہنے سے منع فرمایا ہے وہ نہ کہے۔ جس چیز کو چکھنے کا حکم دیا ہے اس کو چکھے اور کھائے، اور جس چیز کو چکھنے سے اﷲ نے منع کیا ہے اس سے دُور رَہے۔ ناک کی امانت یہ ہے کہ:’’جس چیز کو سونگھنے کا حکم دیا ہے اسے سونگھے اور جس چیز کو نہ سونگھنے کا حکم دیا ہے اسے نہ سونگھے۔‘‘
ان اقوال میں بڑاعظیم فلسفہ ہے، ایک ایک قول ایسا کہ اگر عمل کے گلشن میں سجا لیا جائے تو بہار آجائے اور مسلم معاشرہ پاکیزہ بن جائے،ضرورت عمل کی ہے۔

وصال: علم و ادب کا یہ روشن و تابناک آفتاب ٦ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۳۹ھ بمطابق ۲۰جولائی ۲۰۱۸ء بروز جمعۃ المبارک مغرب کے وقت غروب ہوگیا۔جانشین تاج الشریعہ حضر علامہ عسجدرضاخان قادری دام ظلہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اورپرنم آنکھوں سے کروڑوں محبین، مخلصین، معتقدین اورمریدین کی موجودگی میں ازہری گیسٹ ہاؤس، بریلی شریف میں تدفین عمل میں آئی۔اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

copywrites © 2019,

Thursday, June 27, 2019

* کلام:دل ٹھکانہ میرے حضور کا ہے *

کلام سنیے


دل ٹھکانہ میرے حضور کا ہے
یہ جلوہ خانہ میرے حضور کا ہے

ایک پل میں ہزاروں عالم میں
آنا جانا میرے حضور کا ہے

نعمتیں سب وہی کھلاتے ہیں
دانہ دانہ میرے حضور کا ہے

مجھ سا عاصی کہاں مدینہ کہاں
یہ بلانا میرے حضور کا ہے

روز محشر جو بخشواۓ گا
وہ بہانا میرے حضور کا ہے

حشر میں انکے ساتھ اٹھے گا
جو دیوانہ میرے حضور کا ہے

جن پہ اتری ہے آیہ تطہیر
وہ گھرانہ میرے حضور کا ہے

ذکر شامل نماز میں خالد
پنجگانہ میرے حضور کا ہے

شاعر : خالد محمود خالد

Wednesday, June 26, 2019

* حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو *

کلام سنیے



حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبہ کا کعبہ دیکھو

رُکن شامی سے مٹی وحشت شامِ غربت
اب مدینہ کو چلو صبح دل آرا دیکھو

آب زمزم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں
آؤ جودِ شہِ کوثر کا بھی دریا دیکھو

زیر میزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے
اَبرِ رحمت کا یہاں زور برسنا دیکھو

دھوم دیکھی ہے درِ کعبہ پہ بیتابوں کی
اُنکے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو

مثلِ پروانہ پھرا کرتے تھے جس شمع کے گرد
اپنی اس شمع کو پروانہ یہاں کا دیکھو

خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلاب کعبہ
قصرِ محبوب کے پردے کا بھی جلوہ دیکھو

واں مطیعوں کا جگر خوف سے پانی پایا
یاں سیہ کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو

اولیں خانۂ حق کی تو ضیائیں دیکھیں
آخریں بیت نبی کا بھی تجلا دیکھو

زینت کعبہ میں تھا لاکھ عروسوں کا بناؤ
جلوہ فرما یہاں کونین کا دولہا دیکھو

ایمن طور کا تھا رکن یمانی میں فروغ
شعلۂ طور یہاں انجمن آراء دیکھو

مہر مادر کا مزہ دیتی ہے آغوشِ حطیم
جن پہ ماں باپ فدا یاں کرم ان کا دیکھو

عرض حاجت میں رہا کعبہ کفیل الحجاج
آؤ اب داد رسی شہ طیبہ دیکھو

دھو چکا ظلمت دل بوسۂ سنگِ اسود
خاک بوسیٔ مدینہ کا بھی رتبہ دیکھو

کر چکی رفعت کعبہ پہ نظر پروازیں
ٹوپی اب تھام کے خاک درِ والا دیکھو

بے نیازی سے وہاں کانپتی پائی اطاعت
جوش رحمت پہ یہاں ناز گنہ کا دیکھو

جمعۂ مکہ تھا عید اہلِ عبادت کے لئے
مجرمو! آؤ یہاں عید دوشنبہ دیکھو

ملتزم سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں
ادب و شوق کا یاں باہم الجھنا دیکھو

خوب مسعیٰ میں بامیدِ صفا دوڑ لئے
رہِ جاناں کی صفا کا بھی تماشا دیکھو

رقصِ بسمل کی بہاریں تو منیٰ میں دیکھیں
دل خوننا بہ فشاں کا بھی تڑپنا دیکھو

غور سے سن تو رضاؔ کعبہ سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو 

 کلام:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ

copywrites © 2019,

Tuesday, June 25, 2019

* حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کیسے قبول ہوئی؟ *

آدم علیہ السلام کی توبہ کیسے قبول ہوئی؟


حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے زمین پر آنے کے بعد تین سو برس تک ندامت کی وجہ سے سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور روتے ہی رہے روایت ہے کہ اگر تمام انسانوں کے آنسو جمع کئے جائیں تو اتنے نہیں ہوں گے جتنے آنسو حضرت داؤد علیہ السلام کے خوف ِ الٰہی سے زمین پر گرے اور اگر تمام انسانوں اور حضرت داؤد علیہ السلام کے آنسوؤں کو جمع کیا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے آنسو ان سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔(تفسیر صاوی،ج۱،ص۵۵،پ۱،البقرۃ: ۳۷)۔
بعض روایات میں ہے کہ آپ نے یہ پڑھ کر دعا مانگی کہ
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِی اِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ۔
یعنی اے اللہ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ تیرا نام برکت والا ہے اور تیری بزرگی بہت ہی بلند مرتبہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو بخش دے۔(تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۶۳،پ۱، البقرۃ:۳۷)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾۔
یعنی اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا اور اگر تو ہمیں رحم فرما کر نہ بخشے گا تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔(تفسیر جلالین، ص۱۳۱،پ۸، الاعراف:۲۳)۔

لیکن حاکم و طبرانی و ابو نعیم و بیہقی نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پر عتاب ِ الٰہی ہوا تو آپ توبہ کی فکر میں حیران تھے۔ ناگہاں اس پریشانی کی عالم میں یاد آیا کہ وقت پیدائش میں نے سراٹھا کر دیکھا تھا کہ عرش پر لکھا ہوا ہے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ِ اسی وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ بارگاہِ الٰہی میں وہ مرتبہ کسی کو میسر نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اپنے نام اقدس کے ساتھ ملا کر عرش پر تحریر فرمایا ہے۔ لہٰذا آپ نے اپنی دعا میں رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا کے ساتھ یہ عرض کیا کہ اسئلک بحق محمد ان تغفرلی اور ابن منذر کی روایت میں یہ کلمات بھی ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِجَاہِ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَکَرَامَتِہِ عَلَیْکَ اَنْ تَغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِی
یعنی اے اللہ! تیرے بندہ خاص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبہ کے طفیل میں اور ان کی بزرگی کے صدقے میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو بخش دے۔ یہ دعا کرتے ہی حق تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی اور توبہ مقبول ہوئی۔(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۴، ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ:۳۷)۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:۔
ترجمہ کنزالایمان:۔پھر سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

درسِ ہدایت:۔اس واقعہ سے چند اسباق پر روشنی پڑتی ہے جو یہ ہیں:۔(۱)اس سے معلوم ہوا کہ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کے وسیلہ سے بحق فلاں و بجاہ فلاں کہہ کر دعا مانگنی جائز اور حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے۔(۲)حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ دسویں محرم کو قبول ہوئی جنت سے نکلتے وقت دوسری نعمتوں کے ساتھ عربی زبان بھی آپ سے بھلا دی گئی تھی اور بجائے اس کے سریانی زبان آپ کی زبان پر جاری کردی گئی تھی۔ مگر توبہ قبول ہونے کے بعد پھرعربی زبان بھی آپ کو عطا کردی گئی۔(تفسیر خزائن العرفان، ص ۱۰۹۵،پ۱، البقرۃ: ۳۷)۔(۳)چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خطا اجتہادی تھی اور اجتہادی خطا معصیت نہیں ہے اس لیے جو شخص حضرت آدم علیہ السلام کو عاصی یا ظالم کہے گا وہ نبی کی توہین کے سبب سے کافر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے وہ اپنے بندہ خاص حضرت آدم علیہ السلام کو جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے دوسرے کی کیا مجال کہ خلافِ ادب کوئی لفظ زبان پر لائے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے فرمائے ہوئے کلمات کو دلیل بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی تعظیم و توقیر اور ان کے ادب و اطاعت کا حکم فرمایا ہے لہٰذا ہم پر یہی لازم ہے کہ ہم حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے تمام انبیاء کرام کا ادب و احترام لازم جانیں اور ہرگزہرگز ان حضرات کی شان میں کوئی ایسا لفظ نہ بولیں جس میں ادب کی کمی کا کوئی شائبہ بھی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
نوٹ:۔یہ قرآنی واقعہ شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا الحاج عبد المصطفٰے اعظمیؒ کی تصنف از عجائب القرآن مع غرائب القرآن سے لیاگیا ہے۔

copywrites © 2019,

Sunday, June 23, 2019

* حضرت سَیِّدُنا امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ *

اَمِیْرُ المُؤمِنِیْن فِی الْحَدِیْث حضرت سَیِّدُنا محمد بن اِسماعیل بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ


حضرت سَیِّدُنا امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت مشہور شہر بُخارا میں۱۳شَوَّال۱۹۴ ہجری بروز جمعہ بعد نمازِ عَصْر ہوئی۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا نام محمداور کُنْیَت ابُو عَبْدُاللہ ہے۔آپ کا سِلْسِلۂ نَسب یہ ہے:محمد بن اِسماعیل بن اِبراہیم بن مُغِیْرہ۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے پَردادا مُغِیْرہ کاشْت کار اور غیرِ خدا کی عبادت کرنے والے تھے لیکن بعد میں حاکمِ بُخارا”ىَمان جُعْفِىْ“کے ہاتھ پر اسلام لائے۔
اَمِیْرُ المُؤمِنِیْن فِی الْحَدِیْث،حافِظُ الْحَدِیْث،مُحَدِّث،مُفْتِی،حِبْرُ الْاِسْلام وغیرہ آپ کے مشہور اَلقابات ہیں۔امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے اساتذۂ کرام کی تعداد ایک ہزاراَسّی(۱۰۸۰) ہے۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے والد ِ ماجِد بڑے ممتاز بُزرگ اور زَبَرْدَسْت عالِمِ دین تھے،بڑے ہی مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات بزرگ تھے(یعنی آپ کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوتی تھیں)،ایسے کہ بارگاہِ خداوندی میں عَرْض کرتے کہ میری سب دعائیں دنیا ہی میں نہ قَبول کرلے کچھ آخرت کے لئے رہنے دے،حلال کھانے کے ایسے پابند تھے کہ حرام تو حرام مشکوک چیزوں سے بھی بچتے تھے،حتّٰی کہ وِصالِ ظاہری کے وَقْت فرمایا:مىرے پاس جتنا بھی مال ہے اُس مىں اىک دِرْہم بھى شک و شُبہے والا نہىں ہے۔
امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ابھی چھوٹی عمر کےتھے کہ آپ کے والِدِ ماجِد کا اِنتقال ہوگىا اور پھر پرورش کى تمام تر ذِمَّہ دارىاں آپ کى والِدۂ ماجِدہ نے سنبھالیں۔بچپن شریف میں امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بینائی جاتی رہی۔والِدۂ ماجِدہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہا اِس صَدمہ سے روتی رہتیں اور گڑ گڑا کر دعا مانگا کرتیں۔ایک رات سوتے میں قسمت کا سِتارہ چمک اُٹھا ، دل کی آنکھیں کُھل گئیں، خواب میں دیکھا کہ حضرت سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ”آپ اپنے بیٹے کی بینائی کی واپَسی کیلئے دعائیں مانگتی رہی ہیں۔ مبارَک ہو کہ آپ کی دعا قَبول ہو چکی ہے، اللہ پاک نے آپ کے بیٹے کی بینائی بحال فرمادی ہے۔“جب صُبح ہوئی تو دیکھا کہ امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی آنکھیں روشن ہو چکی تھیں۔

اَمِیْرُ المُؤمِنِیْن فِی الْحَدِیْث حضرت سَیِّدُنا محمد بن اِسماعیل بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب دس(۱۰) سال کے ہوئے تو اِبتدائى اور ضرورى تعلىم حاصل کر چکے تھے،اللہ پاک نے آپ کے دل مىں عِلْمِ حدىث حاصِل کرنے کا شوق پىدا کىا تو آپ نے ’’بُخارا‘‘مىں(عِلْمِ حدیث حاصل کرنے کے لئے ایک مَدْرَسے میں)داخِلہ لے لىا، عِلْمِ حدىث اِنتہائى محنت سے حاصِل کىا،سولہ (۱٦)سال کى عمر مىں امام بُخارى رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنے بڑے بھائی اور والدہ کے ہمراہ حج کرنے کے لئے حرمىن شرىفىن(مکے مدینے میں)حاضر ہوئے، والدہ اور بھائی تو حج سے فارغ ہونے کے بعد واپسی وطن آگئے مگر آپ مزىد علم حاصل کرنے کے لئے وہىں رہے اور اٹھارہ(۱۸) سال کی عمر میں آپ نے وہیں پر ہی ایک کتاب( کتاب قضایا الصحابۃ والتابعین)تصنیف فرمائی۔
ایک مرتبہ حضرت سَیِّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حضرت سَیِّدُنا محمد بن سلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے تو حضرت سَیِّدُنا محمد بن سلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سَیِّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے فرمایا:اگر آپ کچھ دیر پہلے آجاتے تو میں آپ کو وہ بچہ دکھاتا جو تر ہزار(۷۰۰۰۰)حدیثوں کا حافِظ ہے۔یہ حَیرت انگیز بات سُن کر حضرت سَیّدُنا سُلَیْمان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے دل میں امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے ملاقات کا شَوق پیدا ہوا،چنانچہ حضرت سَیّدُنا محمد بن سلام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ سے فارغ ہونے کے بعد حضرت سَیّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو تلاش کرنا شروع کردیا،جب(امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے) ملاقات ہوئی تو حضرت سَیّدُنا سُلَیْمان بن مجاہِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اِرْشاد فرمایا:کیا سَتَّر ہزار (۷۰۰۰۰) اَحادیث کے حافِظ آپ ہی ہیں؟یہ سُن کر امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے عَرْض کی:جی ہاں!میں ہی وہ حافِظ ہوں،بلکہ مجھے اِس سے بھی زیادہ اَحادیث یاد ہیں اورجن صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور تابِعین سے میں حدیث رِوایت کرتا ہوں اُن میں سے اکثر کی تاریخِ پیدائش،رہائش اور تاریخ ِ وِصال کو بھی میں جانتاہوں۔
امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے طلبِ عِلْم کے دوران بسا اوقات سُوکھى گھاس کھا کر بھى وَقْت گزارا،کبھی کبھار اىک دن مىں عام طور پر صِرْف دو ىا تىن بادام کھاىا کرتے تھے۔اىک مرتبہ بىمار پڑگئے، اَطِبَّا حضرات (یعنی ڈاکٹرز)نے بتلاىا کہ سُوکھى روٹى کھا کھا کر اِن کى اَنتڑىاں سُوکھ چکى ہىں،اُس وَقْت آپ نے بتاىا کہ وہ ۴۰ سال سے خُشْک روٹى کھا رہے ہىں اور اِس عَرْصے مىں سالن کو بالکل بھی ہاتھ نہىں لگاىا۔

بِلا شُبہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس سے عشق ہوتا ہے اُس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے بھی عشق ہوجاتا ہے۔مثلاًمحبوب کے گھر ، اُس کے درو دیوار حتّٰی کہ محبوب کے گلی کُوچوں تک سے عقیدت کا تَعَلُّق قائم ہوجاتا ہے۔ پھربَھلا جوعشقِ نبی میں گم ہو چکا ہو وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت کے سبب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیثِ مبارَکہ سے مَحَبَّت کیوں نہ رکھے گا اور کیوں نہ اُن کا ادب بجالائے گا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا شُمار بھی اُنہی باکمال ہستیوں میں ہوتا ہے جو فَنَا فِی الرَّسُول کے منصبِ عظیم پر فائز اورسَرتاپا ادب و تعظیم کے پیکر تھے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ادب و تعظیم کا دامن تھام کر عشقِ مُصْطَفٰے کے گہرے سَمُنْدَر میں ڈوب کر لاکھوں احادیثِ کریمہ میں سے”صحیح بُخاری“ کی صورت میں صحیح ترین احادیثِ مبارَکہ کا قیمتی خزانہ جمع کرکےاُمّتِ سَرکار کو عطا فرمادیا۔امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں نے”صحیح بُخاری“میں تقریباً چھ ہزاراحادیث ذِکْر کی ہیں،ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غُسْل کرتا،دو رَکْعَت نفل نماز ادا کر تا پھر اِستخارہ کرتا،جب کسی حدیث کی صِحَّت پر دل جمتا تو اُسے کتاب میں درج کر لیتا۔ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:مجھے چھ لاکھ حدیثیں یاد ہیں،جن میں سے چن چن کر سولہ(۱٦) سال میں،میں نے اِس جامع(بخاری) کو لکھا ہے،میں نے اِسے اپنے اور اللہ پاک کے درمیان دلیل بنایا ہے۔میں نے اپنی اِس کتاب میں صِرْف صحیح اَحادیث داخِل کی ہیں اور جن حدیثوں کو میں نے اِس خیال سے کہ کتاب بہت لمبی نہ ہوجائے چھوڑدیا وہ اِس سے بہت زیادہ ہیں۔
بعض عارفین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن سے منقول ہے: اگر کسی مشکل میں صحیح بخاری کو پڑھا جائے تو وہ حل ہوجاتی ہے اور جس کشتی میں صحیح بُخاری ہو وہ غَرْق نہیں ہوتی۔حافظ اِبنِ کثیر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:خشک سالی میں”صحیح بُخاری“پڑھنے سے بارش ہوجاتی ہے۔مشہور مُحَدِّثْ شیخ عبدُ العزیز مُحَدِّثِ دِہْلَوِی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:وقتِ شِدَّت ،خوفِ دشمن،مَرَض کی سختی،قحط سالی اور دیگر بَلاؤں میں اِس کتاب کا پڑھنا تریاق(علاج)کا کام دیتا ہے،اکثر اِس کا تَجْرِبَہ ہوچکا ہے۔حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:بعدِ قرآن شریف صحیح تر کتاب بُخاری شریف مانی گئی ہے،مصیبتوں میں خَتْم ِ بُخاری کیا جاتا ہے،جس کی بَرَکت اور اللہ پاک کے فَضْل سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔
امام بُخاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے تقریباً باسٹھ(۶۲)سال کی عُمْر پائی اور(یکم شَوَّال) ۲۵٦ ؁ ہجری بروز ہفتہ عِیْدُ الْفِطْر کی رات بیماری کی حالت میں وِصالِ ظاہری فرمایا۔سَمَرْقَنْد سے کچھ فاصلے پر”خَرتنک“نامی بَستی میں(بعدِ ظُہْر)آپ کو سِپُرْدِ خاک کیا گیا۔ اور یہیں پر آپ کا عالیشان مزارِ پُر اَنوار بھی ہے۔

copywrites © 2019,

Friday, June 21, 2019

****نماز جنازہ ****

نماز جنازہ


نماز جنازہ فر ض کفایہ ہے ۔ایک نے بھی پڑ ھ لی تو سب بری الذمہ ہو گئے ورنہ جس جس کو خبر پہو نچی تھی اور نہ پڑھی تو سب گنہگار ہوں گے۔جنازہ پڑھتے وقت میت سامنے ہونی چائے،غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ہے۔بعض لوگ جوتا پہنے اور بہت سے لوگ جوتے پر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھتے ہیں اگر جوتا پہن کر نماز پڑھی تو جوتا اور اس کے نیچے کی زمین پاک ہونا ضروری ہے اوراگر جوتے پر کھڑے ہو کر پڑھی تو جوتے کا پاک ہونا ضروری ہے۔
نماز جنازہ میں دو رکن ہیں:(۱)چار بار اللہُ اکبر کہنا(۲)قیام
نماز جنازہ میں تین سنت مؤکدہ ہیں:(۱)ثناء(۲)درود شریف(۳)میت کیلئے دعا


طریقہ:مقتدی اس طرح نیت کرے،میں نیت کرتا ہواس جنازے کی نماز کی، واسطے اللہ کے، اور دعا اس میت کے لئے،پیچھے اس امام کے،پھر دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھا کر امام بلند آواز سے تکبیر ( اللّٰہ اکبر) کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے کہیں اور امام و مقتدی سب عام نمازوں کی طرح ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لیں اور دوسری نمازوں کی طرح ثنا (سبحاک اللھم) آہستہ پڑھیں لیکن اس ثنا میں! وتعالٰی جدک کے بعد و جلّ ثنائُک پڑھیں:سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَ تَبَارَکَ ا سْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَجَلَّ ثَنَا ئُ وکَ وَ لَااِلٰہَ غَیْرُکَ
پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہے اور درود ابراہیم پڑ ھے:
اَللّٰهُمَ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ ، کَما صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبراهیمَ وَ عَلی آلِ اِبراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَّجیدٌ
اَللّهُمَ بارِکْ عَلی مُحَمَّدٍ وَ عَلی آلِ مُحَمَّدٍ ، کَما بارَکْتَ عَلی اِبراهیمَ وَ عَلی آلِ اِبراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَّجیدٌ
پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہہ اور دعا پڑھیں
بالغ مرد وعورت کے جنازہ کے لئے یہ دعا پڑھیں:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَاوَ مَیِّتِنَاوَشَا ھِدِ نَاوَغَا ئِبِنَا وَ صَغِیْرِنا وَ کَبِیْرِنَاوَذَکَرِنَاوَاُنْثَانَا۔اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَ حْیِِِہِ عَلَی الْاِ سْلاَمِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ
نابالغ لڑکے کیلئے یہ دعا پڑھیں:اللّٰھُمَّ اجعَلہُ لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلھَا لَنَا اَجراً وَّ ذُخراً وَّ اجعَلھَا لَنَا شَافِعتً وَّ مُشَفَّعتً
نابالغہ لڑکی کیلئے یہ دعا پڑھیں:اللّٰھُمَّ اجعَلھا لَنَا فَرَطًا وَّ اجعَلھَا لَنَا اَجراً وَّ ذُخراً وَّ اجعَلھَا لَنَا شَافِعۃ ً وَّ مُشَفَّعۃ
پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہے اور ہاتھ چھوڑ دے اور دونوں طرف سلام پھیر دے۔

copywrites © 2019,

Thursday, June 20, 2019

**** کلام:مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے ****

کلام سنیے




مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے 
مئے عشق بھی پلانا مدنی مدینے والے 

مری آنکھ میں سمانا مدنی مدینے والے 
بنے دل تیرا ٹھکانہ مدنی مدینے والے  

تری جب کہ دید ہو گی جبھی میری عید ہو گی 
مرے خواب میں تم آنا مدنی مدینے والے  

مجھے سب ستا رہے ہیں مرا دل دکھا رہے ہیں 
تمہی حوصلہ بڑھانا مدنی مدینے والے  

مرے سب عزیز چھوٹے سبھی یار بھی تو روٹھے 
کہیں تم نہ روٹھ جانا مدنی مدینے والے  

میں اگرچہ ہوں کمینہ ترا ہوں شہ مدینہ 
مجھے سینے سے لگانا مدنی مدینے والے  

ترے در سے شاہ بہتر ترے آستاں سے بڑھ کر 
ہے بھلا کوئی ٹھکانہ مدنی مدینے والے  

ترا تجھ سے ہوں سوالی شہا پھیرنا نہ خالی 
مجھے اپنا تم بنانا مدنی مدینے والے  

یہ مریض مر رہا ہے ترے ہاتھ میں شفاء ہے 
اے طبیب جلد آنا مدنی مدینے والے  

تُو ہی انبیاء کا سرور تُو ہی جہاں کا یاور 
تُو ہی رہبرِ زمانہ مدنی مدینے والے  

تُو ہے بیکسوں کا یاور اے مرے غریب پرور 
ہے سخی تیرا گھرانا مدنی مدینے والے  

تُو خدا کے بعد بہتر ہے سبھی سے میرے سرور 
ترا ہاشمی گھرانہ مدنی مدینے والے  

تیری فرش پر حکومت تری عرش پر حکومت 
تُو شہنشہ زمانہ مدنی مدینے والے  

ترا خلق سب سے اعلیٰ ترا حسن سب سے پیارا 
فدا تجھ پہ سب زمانہ مدنی مدینے والے  

کہوں کس سے آہ! جاکر سنے کون میرے دلبر 
مرے درد کا فسانہ مدنی مدینے والے  

بعطائے رب دائم تُو ہی رزق کا ہے قاسم 
ہے ترا سب آب و دانہ مدنی مدینے والے  

میں غریب بے سہارا کہاں اور ہے گزارا 
مجھے آپ ہی نبھانا مدنی مدینے والے  

یہ کرم بڑا کرم ہے تیرے ہاتھ میں بھرم ہے 
سر حشر بخشوانا مدنی مدینے والے  

کبھی جو کی موٹی روٹی تو کبھی کھجور پانی 
ترا ایسا سادہ کھانا مدنی مدینے والے  

ہے چٹائی کا بچھوانا کبھی خاک ہی پہ سونا 
کبھی ہاتھ کا سرہانہ مدنی مدینے والے  

تیری سادگی پہ لاکھوں تیری عاجزی پہ لاکھوں 
ہوں سلام عاجزانہ مدنی مدینے والے  

ملے نزع میں بھی راحت، رہوں قبر میں سلامت 
تُو عذاب سے بچانا مدنی مدینے والے  

اے شفیع روزِ محشر! ہے گنہ کا بوجھ سر پہ 
میں پھنسا مجھے بچانا مدنی مدینے والے  

گھپ اندھیری قبر میں جب مجھے چھوڑ کر چلیں سب 
مری قبر جگمگانا مدنی مدینے والے  

مرے شاہ! وقتِ رخصت مجھے میٹھا میٹھا شربت 
تیری دید کا پلانا مدنی مدینے والے  

پس مرگ سبز گنبد کی حضور ٹھنڈی ٹھنڈی 
مجھے چھاؤں میں سُلانا مدنی مدینے والے  

مرے والدین محشر میں گو بھول جائیں سرور 
مجھے تم نہ بھول جانا مدنی مدینے والے  

شہا! تشنگی بڑی ہے یہاں دھوپ بھی کڑی ہے 
شہ حوض کوثر آنا مدنی مدینے والے  

مجھے آفتوں نے گھیرا، ہے مصیبتوں کا ڈیرہ 
یانبی مدد کو آنا مدنی مدینے والے  

ترے در کی حاضری کو جو تڑپ رہے ہیں اُن کو
شہا! جلد تم بلانا مدنی مدینے والے

کوئی اِس طرف بھی پھیرا ہو غموں کا دور اندھیرا 
اے سراپا نور! آنا مدنی مدینے والے  

کوئی پائے بخت ورگر ہے شرف شہی سے بڑھ کر 
تری نعل پاک اٹھانا مدنی مدینے والے  

مرا سینہ ہو مدینہ مرے دل کا آبگینہ 
بھی مدینہ ہی بنانا مدنی مدینے والے  

اے حبیب رب باری، ہے گنہ کا بوجھ بھاری 
تمہیں حشر میں چھڑانا مدنی مدینے والے  

مری عادتیں ہوں بہتر بنوں سنتوں کا پیکر 
مجھے متقی بنانا مدنی مدینے والے  

شہا! ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں 
تیری سنتیں سکھانا مدنی مدینے والے  

ترے نام پر ہو قرباں مری جان، جانِ جاناں  
ہو نصیب سر کٹانا مدنی مدینے والے 

تیری سنتوں پہ چل کر مری روح جب نکل کر 
چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے  

ہیں مبلغ آقا جتنے، کرو دور اُن سے فتنے 
بری موت سے بچانا مدنی مدینے والے  

مرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ 
اُنھیں خلد میں بسانا مدنی مدینے والے  

مرے جس قدر ہیں احباب اُنھیں کر دیں شاہ بیتاب 
ملے عشق کا خزانہ مدنی مدینے والے  

مری آنے والی نسلیں ترے عشق میں ہی مچلیں 
اُنھیں نیک تم بنانا مدنی مدینے والے  

ملے سنتوں کا جذبہ مرے بھائی چھوڑیں مولا
سبھی داڑھیاں منڈانا مدنی مدینے والے  

مری جس قدر ہیں بہنیں سبھی کاش برقع پہنیں 
ہو کرم شہ زمانہ مدنی مدینے والے  

دو جہان کے خزانے دئیے ہاتھ میں خدا نے 
تیرا کام ہے لٹانا مدنی مدینے والے  

ترے غم میں کاش عطار، رہے ہر گھڑی گرفتار 
غمِ مال سے بچانا مدنی مدینے والے

کلام:حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری

Wednesday, June 19, 2019

**** نماز تحیۃ الو ضو اور تحیۃ المسجد ****

نماز تحیۃ الو ضو


نبی کریم، رء وف رَحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشادفرمایا: “جو شخص وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور ظاہر و باطن کے ساتھ متوجہ ہو کر دو رکعت پڑھے، اس کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔” (صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوئ، الحدیث:۲۳۴،۱۴۴)۔
وضو کے بعد اعضا خشک ہونے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے، غسل کے بعد بھی دو رکعت نماز مستحب ہے۔ وضو کے بعد فرض وغیرہ پڑھے تو قائم مقام تحية الوضوکے ہوجائیں گے۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاة،باب الوتر والنوافل، مطلب سنة الوضوء، ج۲، ص۵٦۳)۔
بہتر تو یہ ہے کہ جب بھی وضو کرے تو وضو کے بعد یہ دو رکعت نماز پڑ ھ لے۔کیو نکہ اس کے بڑے فائدے حدیث شر یف میں آئے ہیں۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو بلایا اور فر مایا کہ:اےبلال !کس عمل کی وجہ سے تم گذشتہ رات جنت میں میرے آگے آگے چل رہے تھے میں نے اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہوں۔اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو میں اسی وقت وضو کر لیتا ہوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:اسی وجہ سے۔[ المستد رک علی الصحیحین للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابہ،ذکر بلال بن رباح،موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث:۵۲۴۵ ]۔
جس طرح سے دو رکعت نفل نماز پڑ ھی جاتی ہے ٹھیک اُسی طرح سے دو رکعت نماز تحیۃ الوضو بھی ادا کی جاتی ہے۔فر ق صرف نیت کا ہے۔

نمازتحیۃ المسجد


حضرت سیدنا ابو قـت ادہ رضی اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: “جو شخص مسجد میں داخل ہو، بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔” (صحيح البخاري، کتاب الصلاة، باب اذا دخل المسجد ۔الخ، الحديث:۴۴۴، ج۱، ۱۷۰)۔
جو شخص مسجد میں آئے اسے دو رکعت نماز پڑھنا سنت ہے بلکہ بہتر یہ ہے کہ چار پڑھے، اگر ایسے وقت مسجد میں آیا جس میں نفل نماز مکروہ ہے مثلاً بعد طلوع فجر یا بعد نماز عصر تو وہ تحیۃ المسجد نہ پڑھے بلکہ تسبیح و تہلیل و درود شریف میں مشغول ہو، حق مسجد ادا ہو جائے گا۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاة، باب الوتروالنوافل، مطلب في تحية المسجد،ج۲، ص۵۵۵)۔
ہر دن ایک بار تحیۃ المسجد کی نماز پڑھ لینا کافی ہے ہر بارضرورت نہیں۔

copywrites © 2019,

Tuesday, June 18, 2019

**** سورج گرہن اور چاند گرہن ****

سورج اور چاند گرہن


سورج اور چاند گرہن کے بارے میں لوگ اِفراط و تفریط کاشکار نظر آتے ہیں ۔ کہیں تو سورج گرہن کا (مخصوص شیشوں کے ذریعے)نظارہ کرنے کے لئے پارٹیاں منعقد کی جاتی ہیں اور کہیں گرہن کے بارے میں مختلف تصورات وتوہُّمات پائے جاتے ہیں ،مثلاً: گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو کمرے کے اندر رہنے اور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے کی ہدایت کی جاتی ہے تاکہ ان کے بچے کسی پیدائشی نَقْص کے بغیر پیدا ہوں، گرہن کے وَقْت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غَلَط اثر پڑسکتا ہے۔
لوگوں کا ایک غَلَط خیال یہ بھی ہے کہ جب سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے تو حاملہ گائے، بھینس، بکری اور دیگر جانوروں کے گلے سے رسی یا زنجیر کھول دینی چاہئے تاکہ ان پر بُرا اثر نہ پڑے ، بعض علاقوں میں گرہن کے وَقْت ضعیفُ الْاِعتقاد اَفراد خودکو کمروں میں بند کرلیتے ہیں تاکہ بقول ان کے وہ گرہن کے وَقْت خارِج ہونے والی نقصان دہ لہروں سے بچ سکیں ، بعض معاشروں میں جس دن گرہن لگتا ہے اکثر لوگ کھانا پکانے سے گُریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گرہن کے وَقْت خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں ، کئی مشرقی ملکوں میں عِلْم نجوم کے ماہرین سورج گرہن سے منسلک پیشن گوئیاں کرتے ہیں جن میں کسی تباہی یا نقصان کی نشان دہی کی جاتی ہے،مثلاً چوری، اغوا، قتل وغارت، خودکشیاں اور تشدد کے واقعات بالخصوص خواتین کی اموات میں اضافہ، لاقانونیت اور بے انصافی کے واقعات کثرت سے ہونے کی پیشن گوئی کی جاتی ہے ۔ الغرض مشرق و مغرب،ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا میں ہر جگہ سورج اور چاند گرہن کے انسان پر مضر اثرات کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔
عرب معاشرے میں بھی سورج اورچاند گرہن کے متعلق عام خیال تھا کہ یہ کسی بڑے واقعہ مثلاً کسی کی وفات یا پیدائش پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جب دنیا کے نقشے پر اسلام کی اِنقلابی دعوت اُبھری تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان توہمات کو خَتْم کیا۔جس دن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ انتقال کر گئے اسی دن سورج میں گہن لگا۔

بعض لوگوں نے خیال کیا کہ یہ حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غم میں واقع ہوا ہے،چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لوگوں کوسورج گہن کی نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیتے ہوئے اِرشادفرمایا: سورج اور چانداللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، انہیں گرہن کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا۔ پس جب تم اسے دیکھو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کو پکارو، اس کی بڑائی بیان کرو ، نمازپڑھو اور صدقہ دو۔(بخاری،کتاب الکسوف،باب الصدقۃ فی الکسوف ۱/۳۵۷،۳٦۳ ،حدیث :۰۴۴،۱۰٦۰،ملخصاً)۔

سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز


سورج گہن کی نماز سنت مؤکدہ ہے اور چاند گہن کی مستحب۔ سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مُسْتَحَب ہے اور تنہا تنہا بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے پڑھی جائے تو خطبہ کے سوا تمام شرائط جمعہ اس کے لیے شرط ہیں ، وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جمعہ کی کر سکتا ہے، وہ نہ ہو تو تنہا تنہا پڑھیں ، گھر میں یا مسجد میں۔ (بہار شریعت،۱/۷۸۷)۔
جب سورج یا چاند کو گہن لگے تومسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس نظارے سے محظوظ ہونے اور توہمات کا شکار ہونے کے بجائے بارگاہِ الٰہی میں حاضری دیں اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طَلَب کریں ،اس یومِ قیامت کو یاد کریں جب سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے اور ستارے توڑدئیے جائیں گے اور پہاڑ لپیٹ دئیے جائیں گے ۔
یہ نماز اور نفلی نمازوں کی طرح دو رکعت پڑ ھیں۔اِس میں نہیں اذان ہے اور نہیں اقامت،نہیں بلند آواز سے قرأت۔نماز کے بعد دعا کرتے رہیں یہاں تک گہن ختم ہو جائے۔اگر کوئی چاہے تو دو رکعت سے زیادہ بھی پڑ ھ سکتا ہے چاہے تو دودو رکعت پر سلام پھیرے اور چاہے تو چار پر،تیز آندھی آئے یا دن میں اند ھیرا چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار بہت زیادہ بارش ہو یا آسمان لال ہو جائے یا بجلیاں گریں یا کثرت سے تارے ٹوٹیں یا کوئی وبا وغیرہ پھیل جائے یا زلزلہ آئے یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی دہشت ناک بات پائی جائے تو اِن سب صورتوں میں دو رکعت نماز پڑ ھنا مستحب ہے۔

copywrites © 2019,

Monday, June 17, 2019

**** نمازِ چاشت اور نمازِ اشراق ****

نمازِ چاشت


حدیث پاک میں ہے:” جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔” (سنن مذي،کتاب الوتر، باب ماجاء في صلاة الضحيٰ، الحديث:۴۷۲، ج۲، ص۱۷)۔
حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہِ الصلاۃ والتسلیم ارشاد فرماتے ہیں : آدمی پر اسکے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ ہے (اور کل تین سو ساٹھ جوڑ ہیں) ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر حمد صدقہ ہے اور لَآ اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ کہنا صدقہ ہے اور اَللهُ اَکْبَرْ کہنا صدقہ ہے اور اچھی بات کا حکم کرنا صدقہ ہے اور بری بات سے منع کرنا صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے دو رکعتیں چاشت کی کفایت کرتی ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسا فرین، باب استحباب صلاۃ الضحٰی۔۔۔الخ، الحدیث:۷۲۰،ص۳٦۳)۔
نماز چاشت کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں، اس کا وقت آفتاب بلند ہونے سے زوال یعنی نصف النہار شرعی تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو چاشت کی دو رکعتوں پر محافظت کرے اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دئیے جائیں گے اگر چہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔(ترمذی)۔


نمازِ اشراق


طلوعِ آفتاب یعنی آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے کے بعد جب اس پر نگاہ خیر ہونے لگے (اور اس کی مقدار بیس منٹ ہے) اشراق کا وقت شروع ہوتا ہے اس وقت دو یا چار رکعت پڑھنا ثواب عظیم کا موجب ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ:جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے تو وہ دو رکعت [نماز اشراق]پڑھے تو اُسے پورے حج اور عمرہ کا ثواب ملے گا۔[ترمذی،ابواب السفر،باب ماذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجد۔۔۔الخ،حدیث:۵۸٦]۔

copywrites © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...