مفتی اعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان قادری برکاتی نوری علیہ الرحمۃ والرضوان
حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت ۔ ۲۲ذوالحجہ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ ہے ۔ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری قدس سرہ العزیزنے آل الرحمن ابو البرکات نام تجویز فرمایا اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لا کر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ یہ بچہ دین و ملت کی بڑ ی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے ۔
آل الرحمن۔ محمد۔ ابوالبرکات محی الدین جیلانی مصطفی رضا اس مبارک نام پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی شخص میں محاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کاہر کام تشنہ تو صیف محسوس ہوتا ہے۔ اور ذوق ستائش کسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس نام میں پہلی نسبت رحمن سے ہے۔ دوسری نسبت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ تیسری نسبت سیدنا حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی علیہ الرحمہ سے ہے۔تیسری نسبت کے بعد عزیمت میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے نسبت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یہ اہتمام تو اکابرکی بالغ نظری نے کیا تھا۔ مگر لاکھوں افراد نے جب اس منبعِ خیر وفلاح اور سرچشمہ ہدایت سے قریب ہوکر فیوض وبرکات حاصل کیے تو وہ بھی اپنے جذبہئ ستائش پر قابونہ پاسکے۔ آج حضرت مفتی اعظم مختلف ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے صفات کا پر تو انہیں پرڈالتا ہے جو اس کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہوجاتے ہیں۔
سخن آموزی کے منزل طے کرنے کے بعد آپ کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا ا ور آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد ماجد سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ ۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان۔ استاذ الاساتذہ علامہ شاہ رحم الہی منگلوری ۔ شیخ العلماء علامہ شاہ سید بشیر احمد علی گڑ ھی ۔ شمس العلماء علامہ ظہور الحسین فاروقی رامپوری سے حاصل کئے اور ۱۸ سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون حاصل کر کے سند فراغت حاصل کی ۔فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ہی میں مسند تدریس کو رونق بخشی۔، تقریبا ًتیس سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے ۔ بر صغیر پاک و ہند کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالا مال ہیں ۔
آپ کی ۹۲ سالہ حیات مبارکہ میں زندگی کے مختلف موڑ آئے ۔ کبھی شدھی تحریک کا قلع قمع کرنے کیلئے جماعت رضائے مصطفی کی صدارت فرمائی اور باطل پرستوں سے پنجہ آزمائی کیلئے سر سے کفن باندھ کر میدان خارز ارمیں کود پڑ ے ، لاکھوں انسانوں کو کلمہ پڑ ھایا اور بے شمار مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔ قیام پاکستان کے نعرے اور خلافت کمیٹی کی آوازیں بھی آپ کے دور میں اٹھیں اور ہزاروں شخصیات اس سے متاثر ہوئیں۔ نسبندی کا طوفان بلا خیز آپ کے آخری دور میں رونما ہوا اور بڑ ے بڑ ے ثابت قدم متزلزل ہوگئے لیکن ہر دور میں آپ استقامت فی الدین کا جبل عظیم بن کر ان حوادث زمانہ کا مقابلہ خندہ پیشانی سے فرماتے رہے ۔
آپ کی نماز پنجگانہ قضا نہیں ہوتی تھی، ہر نماز وقت پر ادا فرماتے ،آپ نے تقسیم ہند سے پہلے دو مرتبہ حج و زیارت کیلئے سفر فرمایا، اس کے بعد تیسری مرتبہ ۱۳۹۱ ھ / ۱۹۷۱ ء میں جب کہ فوٹو لازم ہو چکا تھا لیکن آپ اپنی حزم و احتیاط پر قائم رہے لہذا آپ کو پاسپورٹ وغیرہ ضروری پابندیوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا اور آپ حج و زیارت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔
محبوب ذوالجلال کا عاشق صادق، اسلام وسنت کا مہکتا گلشن شریعت وطریقت کا نیرتاباں، علم وفضل کا گوہ گراں، امام ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف، امام احمد رضا کی آنکھ کا تارا اور ہم سنیوں کا سہارا ١٤، محرم الحرام ١٤٠٢ھ رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا خالقِ حقیقی سے جاملا۔
No comments:
Post a Comment