Monday, September 30, 2019

Masjid E Nabawi Sharif[مسجدِ نبوی شریف]

Masjid E Nabawi Sharif[مسجدِ نبوی شریف]

مسجدِ نبوی شریف


حضورنبیِّ کریم، رءوفُ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب مکّہ معظّمہ سے ہجر ت فرما کر مدینۂ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بنی عَمْرو بن عَوف کے پاس دس دن سے کچھ زائد قیام فرمایا ، وہاں مسجد قُبا کی بنیاد رکھی اور اس میں نماز ادا فرمائی، پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے جھُرمٹ میں آگے بڑھےیہاں تک کہ اونٹنی مدینۂ منورہ میں آ کر اس مقام پر بیٹھ گئی جہاں اس دن بعض مسلمان نمازیں ادا کررہے تھے۔ یہ کھجوروں کو خشک کرنے کی جگہ تھی اور یہ زمین دو یتیم بچوں سَہْل اور سُہَیْل کی تھی جو حضرت سیدنا اَسْعَد بن زُرارَہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زیرِ کَفالت تھے۔ جب اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: یہی ہماری منزل ہو گی ان شآء اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔ پھر رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان بچّوں کو بلایا اور ان سے زمین خریدنے کے لئے گفتگو فرمانے لگے تو انہوں نے عرض کیا: ہم آپ کو بطور نذرانہ پیش کرتے ہیں۔(بخاری) رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ زمین بلاقیمت قبول نہ فرمائی بلکہ اس کو خریدا اور رقم حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ادا کی۔

مسجد نبوی شریف کاسنگِ بنیاد کس نے اور کب رکھا؟:ربیع الاوّل1ھ مسجد نبوی شریف کا سنگ بنیاد اس انداز سے رکھا گیا کہ پہلا پتھر حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے، دوسرا حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق نے، تیسرا حضرت سیّدنا عمرفاروق نے رضی اللہ تعالی عنہم نے رکھا۔
مسجد نبوی کی تعمیر: صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان مسجدِ نبوی کی تعمیر کیلئے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لاتے اور خود حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے ساتھ اینٹیں اٹھا کر لاتے تھے
مسجد نبوی شریف کا رقبہ اور تعمیر کا سامان: حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانہ اقدس میں مسجد نبوی شریف کی لمبائی ۷۰ ہاتھ، چوڑائی ٦۰ ہاتھ تھی جو تقریباً۳۰/۳۵ میڑ بنتے ہیں۔چھت کی بلندی پانچ ہاتھ، بنیادیں پتھر کی ، دیواریں کچی اینٹوں کی، سُتون کھجور کے تنوں کے اور چھت کھجور کی شاخوں کی بنائی گئی، مسجد نبوی کے تین دروازے تھے، ایک دروازہ مسجد کی جنوبی جانب تھا جسے تحویل قبلہ کے بعد بند کرکے اس کے سامنے شمالی جانب دروازہ کھول دیاگیا جبکہ دوسرے دودروازوں میں سے ایک بابِ رَحمت اور دوسرا بابِ جبریل تھا، مسجد کا دالان تین صفوں پر مشتمل اور باقی صحن تھا۔

islamic events © 2019,

Saturday, September 28, 2019

Mahe Safar ul Muzaffar[ماہ صفر المظفر]

Mahe Safar ul Muzaffar[ماہ صفر المظفر]

ماہ صفر المظفر


اسلامی سال کے دوسرے مہینے کا نام ’’صفر المظفر‘‘ ہے۔یہ صفر بالکسر سے ماخوذ ہے، جس کا معنی خالی ہے۔ حرمت والے چار مہینوں میں جنگ کرنا اہلِ عرب کے نزدیک حرام تھا، اس لیے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام میں باشندگانِ عرب گھروں میں بیٹھتےیا سفر حج اختیار کرتے، اور جب ماہِ صفر شروع ہوتا تو رُکے ہوئے تنازعات ’’از سرِنو جدال و قتال ‘‘ میں مصروف عمل ہوجاتے، پھر گھروں کو خالی چھوڑتے اور میدانِ جنگ کا رخ کرتے اس لیے اس ماہ کو صفر کہتے ہیں۔
باطل عقائد و رسومات :ماہ صفر المظفرکوجاہل لوگ منحوس سمجھتے ہیں، اس میں شادی کرنے اور لڑکیوں کو رخصت کرنے سے، نیا کاروبار شروع کرنے اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خصوصاًماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ منحوس گمان کی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے سفید چنے (کابلی چنا) کی نیاز بھی دی جاتی ہے۔ نیاز و فاتحہ کرنا مستحب ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دی اور سفید چنے پکا کر تقسیم نہ کیے تو گھر کے کفیل افراد (خصوصاً کمانے والے) کا روزگار متاثر ہوگا، یہ باطل نظریہ ہے۔ نیاز و فاتحہ ہر طرح کے رزقِ حلال پر دی جاسکتی ہے اور ہرماہ کی ہر تاریخ کو دی جاسکتی ہے۔ محض ماہِ صفر سے کسی نیاز کو مقید کرنا جہالت ہے۔

ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کو ’’آخری بدھ‘‘کے عنوان سے لوگ بہت مناتے ہیں، خصوصاً ٹیکسٹائل (کپڑے کا کاروبار) قالین بافی، لوہار، بڑھئی اور بنارسی (کھڈی لوم) کا کام کرنے والے اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں، سیر و تفریح کو جاتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں،خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس روز صحت کا غسل فرمایا تھا۔ اور بیرونِ شہر(یعنی مدینہ طیبہ کے باہر) سیرو تفریح کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل اور بے بنیاد ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ الرضوان نے تحقیق فرمائی ہے کہ ماہِ صفر کے آخری ہفتہ میں سیّد العرب والعجم ﷺ کا مرض شدت کے ساتھ تھااور فوراً بعد ربیع الاول شریف میں آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہری حیات کا عرصہ گزار کر وصال فرما گئے تھے۔ ان تاریخوں میں جو باتیں لوگوں میں مشہور ہیں، وہ خلافِ شرع و حقیقت ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں۔ اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں جن کے بارے میں کئی احادیث وارد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرۃَ وَ اُحِبُّ الْفَالَ الصَّالِحَ(مسلم شریف )(ترجمہ) معروف محدّث و مُعَبِّر امام محمد بن سیرین ؒ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، بیماری کا لگنا اور بدشگونی کوئی چیز نہیں فالِ بد کچھ نہیں البتہ نیک فال مجھے پسند ہے۔

islamic events © 2019,

Friday, September 27, 2019

mimbar e rasool sallallahu alaihi wasallam[مِنبر رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم]

mimbar e rasool sallallahu alaihi wasallam[مِنبر  رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم]

مِنبر رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حدیثِ پاک میں ہے کہ جب نبیِّ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خطبہ ارشاد فرماتے توکھڑے ہوجاتےپھر قیام کو طویل کرتے توکھڑے رہنا دُشوار ہوتا چنانچہ کھجور کا ایک تنا لا کر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو کی جانب زمین میں گاڑ کر کھڑاکردیاگیا،جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خطبہ ارشاد فرماتے اور قیام طویل ہوجاتا تو اس سےسہارا لیتے اورٹیک لگا لیتے۔
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کیا کہ لوگ زیادہ ہو گئے ہیں،ہم آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے منبر بنوا لائیں جس پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمائیں؟ تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اجازت عطا فرما دی۔
مِنبررسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس نے اور کس چیز سے بنایا؟ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہےکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک خاتون کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے بڑھئی غلام سے میرےلئے لکڑیوں کی کوئی ایسی چیز بنواد و کہ جس پر بیٹھ کر لوگوں سے گفتگو کر سکوں۔ اس خاتون نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ جنگل سے جھاؤ (کی لکڑی کا) منبر بنادو،وہ تیار کر کے لایا تو اس عورت نے اسے نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش کر دیا گیا، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم کے مطابق اسے رکھا گیا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر تشریف فرما ہوئے(بخاری)۔

کھجور کا تنا رونے لگا جب منبر شریف تیار ہو گیا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر خطبہ دینے کیلئے جلوہ افروز ہوئے تو کھجور کے تنے سے رونے کی آواز آئی۔ آپ نے اس پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا پھر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سےاس کو منبر کے نیچے دفن کر دیا گیا(بخاری)۔
مِنبررسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیسا تھا؟ مِنبر شریف کی لمبائی دو گز، چوڑائی ایک گز اور سیڑھیاں تین تھیں ہر سیڑھی کی بُلندی ایک بالشت اور لمبائی ایک ہاتھ تھی اور اس کے تین زینے (سیڑھیاں) اس تخت کے علاوہ تھے جس پر بیٹھا جاتا ہے حضور سیّدِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم درجۂ بالا پر خطبہ فرمایا کرتے، (حضرت سیدنا ) صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دوسرے پر پڑھا، (حضرت سیدنا ) فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تیسرے پر۔
مِنبررسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر چادر حضرت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلے مِنبر پر قِبطی چادر چڑھائی۔

islamic events © 2019,

Thursday, September 26, 2019

ghar E sor[غارِثور]

ghar E sor[غارِثور]

غارِ ثور


غارِ ثور اسلام کے تاریخی مقامات میں سے نہایت مبارک مقام ہے، دنیا بھر کے عاشقانِ رسول دیگر ایام میں بالعموم اور عمرہ و حج کے موقع پر بالخصوص اِس مقدس مقام کی نہ صِرف زیارت کرتے ہیں بلکہ یہاں نوافل وغیرہ ادا کرکے خوب برکتیں بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس غار میں چونکہ ثَور بن عبدِمَنات آکر ٹھہرا تھا اسی لئے اسے غارِ ثَور کہتے ہیں۔ غارِ ثور مکۂ مکرمہ کی دائیں جانِب’’ مَحَلَّۂ مَسفَلہ‘‘ کی طرف کم و بیش چار کلومیٹر پر واقِع جبلِ ثور میں ہے۔
شہنشاہِ دوجہاں کا غارِثَور میں قیام محبوبِِ ربِّ اکبر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے یارِغارویارِمزارحضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ بَوَقتِ ہِجرَت یہاں تین رات قِیام پذیر رہے۔ جب دشمن تلاش کرتے ہوئے غارِ ثور کے منہ پر آپہنچے تو حضرتِ سیِّدُنا صدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ غمزدہ ہو گئے اور عرض کی: یَارَسُولَ اللہ! دشمن اتنے قریب آچکے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالیں گے تو ہمیں دیکھ لیں گے، سرکارِ نامدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں تسلّی دیتے ہوئے فرمایا:( لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ- ) ترجَمۂ کنزالایمان:غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (پ۱۰،التوبہ: ۴۰)سرکارِ علیہِ الصَّلٰوۃ و السَّلام یکم ربیع الاوّل جمعرات کی رات کو مکۂ مکرمہ سے نکل کر غارِثور میں مقیم ہوئے، تین راتیں یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی راتیں غارمیں قیام فرمایا، پھر وہاں سے پیر کی رات۵ربیع الاوّل کوعازمِ مدینہ ہوئے۔

ایک قول کے مطابق غارِثور والے پہاڑ یعنی جَبَلِ ثَور پر ہی سب سے پہلا قتل ہوا، قابیل نے اپنے بھائی حضرت سیِّدُنا ہابیل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا۔
جبل ثَور اور غارِ ثَور کی پیمائش جبلِ ثور کی بلندی ۷۵۹ میٹر ہے یعنی یہ پہاڑ جبلِ اُحُد سے ۱۲۰میٹر زیادہ اونچا ہے، جبلِ ثَور کی چوٹی کا رقبہ تقریباً ۳۰ مربع میٹر ہے۔ غارِ ثور کی لمبائی ۱۸ بالشت اور چوڑائی ۱۱بالشت ہے، غارِ ثور سطحِ سمندر سے تقریباً ۷۴۸ میٹر بلند ہے۔ اس کا چھوٹا دَہانہ تقریباً نصف میٹر کھلا ہے جبکہ غار میں کھڑے ہوں تو سر چھت سے لگتا ہے۔ جب رب تعالیٰ نے کوہِ طورپر تجلی فرمائی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ان ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا جبلِ ثَوربھی ہے۔
غارِ ثَور کی اندرونی ساخت حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی غارِ ثور کی ہیئت کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اس غار کے دو دروازے ہیں،کفار اُس دروازے پر پہنچے جس سے حضور داخل ہوئے تھے۔اس دروازے کی لمبائی ایک ہاتھ ہے چوڑائی صرف ایک بالشت۔ یہ فقیر اس غار شریف سے نکلتے وقت دروازے میں پھنس گیا تھا رگڑ سے کچھ سر کے بال اڑ گئے وہاں پہلے بہت سوراخ تھے مگر اب کوئی سوارخ نہیں ہے۔ اندرچھ سات آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔

islamic events © 2019,

Tuesday, September 24, 2019

Ghar E Hira[غارِحرا]

Ghar E Hira[غارِحرا]

غارِحرا


غارِحرا مکۂ مکرمہ کا نہایت ہی مبارک، باعظمت اور مقدس تاریخی مقام ہے، عاشقانِ رسول نہ صرف اس کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں بلکہ اس کی خوب برکتیں بھی حاصل کرتے ہیں۔اللہ کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِعلانِ نبوت سے قبل اِسی غارِحرا میں ذِکروفِکر اور عِبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔
امام احمد بن محمد قَسْطَلَّانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں: آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عبادت کرنے کے لئے غارِ حرا كو اس لئے خاص فرمایا کہ اس غار کو دیگر غاروں پر اضافی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اس میں لوگوں سے دوری، دِل جمعی کے ساتھ عبادت اور بَیْتُ اللہ شریف کی زیارت ہوتی تھی، گویا غارِ حرا میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئےتین عبادتیں جمع ہوگئیں: تنہائی، عبادت اور بَیْتُ اللہ کی زیارت جبکہ دیگر غاروں میں یہ تین باتیں نہیں۔
غارِحراچار گز لمبا اور دو گز چوڑا ہے، یہ غارجبلِ حرا میں قبلہ رُخ واقع ہے،اسے جبلِ نور بھی کہتے ہیں، یہ پہاڑمکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کےفاصلے پر ہے۔ لیکن اب مکۂ مکرمہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ اس کی حدود اس جبلِ نور کو چھونے لگی ہیں۔
سرکارِ نامدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پہلی وَحی اِسی غار میں اُتری، جو کہ تیسویں پارے کی سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں۔

کفارِمکّہ کا ظلم وستم جب حد سے بڑھ گیا تو حضورِ اکرمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رب تعالیٰ کے حکم سے ہجرت فرمائی اس وقت غارِحرا نے التجا کی کہ یارسول اللہ! آپ میرے یہاں تشریف لے آئیے۔
واقعۂ شقِّ صدر غارِحرامیں حضرت جبریل و میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سینہ مبارکہ کو چاک کرکے اسے دھویااور پھر کہا:( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ ) اوراس میں حکمت یہ تھی کہ آپ وحی کو مضبوط دل کے ساتھ طہارت کے نہایت کامل احوال میں حاصل کریں۔
غارِحراکی افضلیت ’’غارِ حرا‘‘ غارِ ثَور سے افضل اس لئے ہے کہ غارِ ثور نے تین دن تک سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم چومے جبکہ غارِ حرا سلطانِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ با بَرَکت سے زیادہ عرصہ مشرَّف ہوا۔
غارِحرا وجبلِ حرا کے فضائل وخصوصیات امام عبداللہ بن محمد قُرَشی مَرْجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے درج ذیل فضائل اور خصوصیات بیان فرمائے ہیں:غارِ حراکی طرف آنے والا جب پہاڑ پر چڑھتا ہے تو یہ اپنی فضیلت کے باعث آنے والے کے غم کو دور کردیتا ہے۔ جب ربّ تعالیٰ نے کوہِ طُورپر تجلی فرمائی تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ان ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا جبل حراہے۔اس میں ظہر کے وقت دُعا کرنے والے کی دُعا قبول ہوتی ہے اور آواز دی جاتی ہے کہ جو شخص ہم سے دُعا کرتا ہے ہم اس کی دُعا قبول کرتے ہیں۔ حرا میں نورِالٰہی کا مرکز قائم ہے اور اللہ کی قسم! اس کے اوپر ٹھہرنا بہت پسندیدہ ہے۔

islamic events © 2019,

Monday, September 23, 2019

Jannatul Baqi[جنّتُ البقیع]

Jannatul Baqi[جنّتُ البقیع]

جنّتُ البقیع


جنّتُ البقیع مدینۂ منورہ کا قدیم، مشہورومبارک قبرِستان ہے،مسجد نَبَوی کے جوارِ رحمت میں جُنوب مشرِقی جانب واقع یہ قبرستان لاکھوں مسلمانوں کی زیارت گاہ ہے، عاشقانِ رسول یہاں مزاراتِ صحابہ و اولیاءپر حاضِری دے کر فاتِحہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
جنت البقیع کابطورِ قبرستان انتخاب رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جہاں اپنے اصحاب کی تدفین فرمائیں، آپ نے مختلف جگہوں کو ملاحظہ فرمایااور پھر یہ سعادت جنت البقیع کو حاصل ہوئی، ارشاد فرمایا:مجھے اس جگہ یعنی بقیع (کے انتخاب ) کا حکم ہوا ہے(حدیث)۔
جنت البقیع کے نام اور اُن کی وجہ عربی میں بقیع درخت والے میدان کو کہتے ہیں اس میدان میں پہلے غَرْقَدکے درخت تھے اسی لئے اس جگہ کا نام ”بقیعُ الْغَرقد“ ہو گیا۔ عرب لوگ عُمُوماً اپنے قبرِستانوں کو جنّت کہہ کر پکارتے ہیں اسی لئے ”جنت البقیع“ پکاراجانے لگا۔ اَعْرابیوں میں اس کا نام ”مقابِرُ البقیع “مشہور ہے۔
جنت البقیع کا کل رقبہ اِبتدائے اسلام میں اس کا رقبہ کم تھا، حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں اس کی پہلی توسیع ہوئی پھر مزید توسیعات ہوئیں، تُرک دورِ حکومت کے آخر میں اس کا کل رقبہ ۱۵۰۰۰مربع میٹر تھا، بعدازاں مزید توسیعات بھی ہوتی رہیں اور آج کل اس کا کل رقبہ تقریباً ۵٦۰۰۰مُرَبَّع میٹر ہے۔

جنت البقیع میں مدفون عظیم ہستیاں ”جنت البقیع“ دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے، یہاں تقریباً ۱۰ہزارصحابۂ کرام و اَجَلَّہ اہلِ بیتِ اطہار علیہمُ الرِّضوان اور بے شمار تابعینِ کرام،تبع تابعین اور اولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اوردیگر خوش بخت مسلمان مدفون ہیں۔چند مشہور نام یہ ہیں: حضرت سیّدنا عباس بن عبدالمطلب، امیر المؤمنین سیدنا عثمانِ غنی،سیّدنا عبدالرحمٰن بن عوف، سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیّدنا امام حسن، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا حَسّان بن ثابت ،سیّدہ فاطمۃُ الزَّہراء،امّ المؤمنین سیّدتنا عائشہ صدیقہ و کئی اُمہات المؤمنین،رسولِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لختِ جگر سیدنا ابراہیم رِضْوَانُ اللہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔
سب سے پہلے مدفون صحابی مہاجرین میں سے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ اور انصارمیں سے حضرت اسعد بن زُرَارَہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سب سے پہلے جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثروبیشتر جنت البقیع تشریف لے جایا کرتے تھے، اُمُّ المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار آپ رات کےآخری پہرجنت البقیع تشریف لے گئے اور اہل بقیع کےلئے دُعائے مغفِرت فرمائی (مسلم)۔
جنت البقیع کے فضائل: فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم: سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی (یعنی کھلے گی)، پھر ابوبکر کی اور پھر عمر کی، ا س کے بعد میں اہلِ بقیع کے پاس آؤں گا تو انہیں میرے ساتھ اٹھایا جائے گا(ترمذی)۔

جنت البقیع میں دفن ہونے کے فضائل: یہاں دفن ہونے والوں کے لئےمغفِرت کی دُعا فرمائی گئی، چنانچہ احمدمجتبےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!بقیعِ غرقد والوں کی مغفرت فرما۔ (مسلم) شفاعت کی بشارت دی گئی،فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جسے ہمارے اس قبرستان (یعنی بقیع غرقد) میں دفن کیا جائے گا (روزِ قیامت) ہم اس کی شفاعت کریں گے۔ یا فرمایا: اس کی گواہی دیں گے۔
جنت البقیع میں دفن ہونے کی خواہش یہی وجہ ہے کہ بعض صحابۂ کرامعلیہمُ الرِّضوان نے جنت البقیع میں اپنی تدفین کی وصیت فرمائی چنانچہ دُوردَراز عَلاقوں سے ان کی مَیِّت کو لاکر جنت البقیع میں دفنایا گیا،ایسے چند صحابہ کرام کےنام یہ ہیں: حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا سعید بن زید، سیدنا سعید بن عاص، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہم۔
جنت البقیع میں حاضری کا طریقہ جنت البقیع کے مَدْفُونِین کی خدمت میں باہر ہی کھڑے ہوکر سلام عرض کریں اور باہر ہی سے دعا کریں کہ اب جنت البقیع میں موجود تقریباً تمام مزارات کو شہیدکردیا گیا ہے، اگر آپ اندرگئے تو کیا معلوم آپ کا پاؤں کس صحابی یا ولی کے مزار پر پڑرہا ہے۔ عام مسلمانوں کی قبروں پر بھی پاؤں رکھنا حرام ہے، جوراستہ قبریں مُنْہَدِم کرکےبنایا جائے اس پرچلنا بھی حرام ہے۔
اے ربِّ کریم!ہمیں ایمان و عافیت کے ساتھ شہادت کی موت اور جنت البقیع میں مَدْفَن عطا فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Sunday, September 22, 2019

mojizat[معجزات]

mojizat[معجزات]

معجزات


اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ا نسانوں کو گمراہی سے بچانے اور سیدھا راستہ چلانے کے لئے انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں بے شمار کمالات اور خصوصیات سے نوازا، جن میں سے ایک معجزہ ہے۔
معجزہ کسے کہتے ہیں؟: اعلانِ نبوت کے بعد نبی سے ایسا عجیب و غریب کام ظاہر ہو جو عادتاً ممکن نہیں ہوتا وہ ”معجزہ“ کہلاتا ہے۔معجزے کی تین قسمیں ہیں: (۱)لازمی معجزات جیسے خوشبو دار پسینہ (۲)عارضی اختیاری معجزات جیسے عصا کا اژدھا بن جانا (۳)عارضی غیر اختیاری معجزات جیسے آیاتِ قراٰنیہ کا نزول ۔ معجزے کے ذریعے سچے اور جھوٹے نبی میں فرق ہوتا ہے اس لئے کوئی جھوٹا ”نبوت کا دعویٰ“ کرکے معجزہ نہیں دکھا سکتا
آخری نبی محمدِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات: چونکہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نبیوں سے افضل ہیں اسی لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کے تمام معجزات عطا فرمائے
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات کی دو قسمیں ہیں: (۱)ذاتِ مبارکہ سے متعلق معجزات: آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک ذات کا ظاہر و باطن سراپا معجزہ ہے۔ موئے مبارک کا معجزہ یہ ہے کہ حضرت سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ٹوپی میں رہے تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہمیشہ دشمنوں پر فتح ملی۔(الحدیث) لُعابِ مبارک کا معجزہ یہ ہے کہ خیبر میں حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کی دکھتی آنکھ پر لگنے سے آرام آگیا۔(حدیث) لعابِ دہن کنویں میں شامل ہوا تو اُس کے پانی سے شفا ملنے لگی۔ انگلیوں کا معجزہ یہ ہے کہ اِن سے پانی کے چشمے جاری ہوجاتے۔ (حدیث) پسینے کا معجزہ یہ ہے کہ نہایت خوشبودار ہوتا(حدیث)۔

۔(۲)ذاتِ مبارکہ کے علاوہ معجزات: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نبیِّ رحمت، شفیعِ امت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس قسم کے بے شمار معجزات عطا فرمائے، ان میں سے چند ملاحظہ کیجئے: (۱)پتھر تیرنے لگا: ایمان لانے سے قبل حضرت ِ سیّدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پانی کے کنارے کھڑے ہو کر نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے یہ مُطالبہ کیا کہ اگر آپ سچے ہیں تو دور پڑا پتھر پانی میں ڈوبے بغیر تسبیح کرتا ہوا آپ کے پاس آئے چنانچہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اشارہ فرمایا تو وہ پتھر ڈوبے بغیر بارگاہِ مصطفےٰ میں حاضر ہوا اور رسالت کی گواہی دی، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا: اِتنا کافی ہے؟ حضرت سیّدنا عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: یہ پتھر واپس اپنی جگہ لوٹ جائے۔ چنانچہ وہ پتھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم پاکر واپس لوٹ گیا۔
۔(۲)مردہ بیٹی زندہ کردی: ایک شخص نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کے لئے یہ شرط رکھی کہ میری بیٹی زندہ ہوجائے چنانچہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قبر پر تشریف لے گئے اور اس کی مردہ بیٹی زندہ کردی۔(۳)لکڑی تلوار بن گئی: جنگِ بدر میں حضرتِ سیِّدنا عُکاشہ بن محصن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی، بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر فریاد کی تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک لکڑی عنایت فرمائی۔ جب حضرتِ سیّدنا عُکاشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے ہاتھ میں لے کر ہلایا تو وہ سفید تلوار بن گئی جسے عَوْن کہا جاتا تھا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام عمر اُس تلوار کے ساتھ جہاد میں شرکت فرمائی اور فتح پائی۔

۔(۴)سب سے بلند نظر آتے: حضرتِ سیِّدنا عبدالرحمٰن بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما جب پیدا ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قد بہت زیادہ چھوٹا تھا، نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پیش کیا گیا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں گھٹی دی، سر پر ہاتھ پھیرا اور دعائے برکت فرمائی جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مجمع میں دراز قد نظر آتے۔(۵)درخت نےگواہی دی: آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بُلند و بالا شان ایسی ہے کہ جاندار تو جاندار بے جان چیزیں بھی آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تابعِ فرمان ہیں۔ ایک مرتبہ رَسُوْلُ الله صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک سفر میں تھے، اس دوران ایک اعرابی بارگاہِ مصطفےٰ میں حاضر ہوا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے اِسْلام کی دعوت دی، اس اَعْرابی نے پُوچھا: کیاآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوّت پر کوئی گواہ بھی ہے؟ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا کہ ہاں، یہ درخت جو میدان کے کنارے پر ہے میری نبوّت کی گواہی دے گا۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس دَرَخْت کو بُلایا تو حیرت اَنگیز طور پر وہ دَرَخْت فوراً زمین چِیرتا ہوا اپنی جگہ سے چل کر بارگاہِ اَقْدَس میں حاضِر ہوگیا اور اس نے بآوازِ بلند تین مَرتبہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوّت کی گواہی دی۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس کو اِشارہ فرمایا تو وہ درخت واپس اپنی جگہ چلا گیا۔ اَعرابی یہ معجزہ دیکھتے ہی مسلمان ہوا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُقدَّس ہاتھ اور مبارک پاؤں کو والہانہ عَقیدت سے چومنے کی سعادت بھی حاصل کی۔
قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ: نبیِّ اکرم، رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے بڑا معجزہ قراٰنِ کریم ہے کیونکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دوسرے معجزات تو اپنے وَقْت پر ظاہر ہوئے اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زَمانے ہی کے لوگوں نے وہ معجزات مُلاحَظہ کئے مگر ”قراٰنِ کریم“ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

islamic events © 2019,

Saturday, September 21, 2019

Jannatul Mualla[جَنَّتُ الْمَعْلٰی]

Jannatul Mualla[جَنَّتُ الْمَعْلٰی]

جَنَّتُ الْمَعْلٰی


جَنَّتُ الْمَعْلٰی مکۂ مکرمہ کا قدیم، مشہورومبارک قبرِستان، اہم تاریخی مقام اور لاکھوں مسلمانوں کی زِیارت گاہ ہے، ہر سال لاکھوں عاشقانِ رسول یہاں کے مزارات پر حاضری دے کر فاتحہ و سلام کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
جَنَّتُ الْمَعْلٰی بیتُ اللہ شریف سے قریب ہی تقریباً ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر حَجُوْن پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، حرم شریف جانے والے شخص کے دائیں جانب پڑتا ہے، اس میں ہرخاص و عام مسلمان کو دفنایا جاتا ہے، اِس میں عام طور پر ایسے لوگوں کی میّت لائی جاتی ہے جن کی نمازِ جنازہ مسجدُ الحرام میں پڑھی گئی ہو۔ اِس کا کل رقبہ ایک لاکھ مربع میٹر ہے،لیکن اب حَجُوْن پہاڑ کی کٹائی کرکے اس میں مزید توسیع کا کام جاری ہے۔
مختلف نام اور اُن کی وجہ عرب لوگ عموماً اپنے قبرستانوں کو جنت کہہ کر پکارتے ہیں اور معلیٰ بلند جگہ کو کہتے ہیں، یہ قبرِستان بھی چونکہ بلندی پرہے اسی لئے اسے جَنَّتُ الْمَعْلٰی، جَنَّتُ الْمَعْلاۃ، مَقْبَرَۃُ الْمَعْلَاۃ کہا جاتا ہے، بنی ہاشم اور قبیلہ قریش کی قبریں یہاں ہونے کی وجہ سے اسے مَقْبرۂ بنی ہاشِم، مَقْبرۂ قریش اور شہرِ مکہ میں ہونے کی وجہ سے اسےمقبرۂ مکہ کہا جاتاہے، چونکہ یہ حَجُوْن نامی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے اسی لیے اسے حَجُوْن یا مقبرۂ حَجُوْن بھی کہتے ہیں۔

حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جدِّامجد حضرت قصی بن کلاب رضی اللہ تعالٰی عنہما کا جب وِصال ہوا تو آپ کی تدفین اسی مقامِ حَجُوْن میں کی گئی، یہ یہاں کی سب سے پہلی قبر تھی بعدازاں لوگوں نے اپنے مُردوں کو یہیں دفنانا شروع کردیا اور یہ جگہ باقاعدہ قبرستان بن گئی۔بعض مدفون شخصیات حضرت سیّدنا عبدُالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ، اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا خَدِیجۃُ الکُبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا، حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر، نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لختِ جگر حضرت سیدنا قاسِم وحضرت عبداللہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین۔جَنَّتُ الْبقیع کے بعد جَنَّتُ الْمَعْلٰی دنیا کا سب سے افضل قبرستان ہے۔
حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جَنَّتُ الْمَعْلٰی کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’یہ کیا ہی اچھا قبرستان ہے۔‘‘ (مسند احمد) ایک بار حَجُوْن کے راستے پر کھڑے ہوکرارشاد فرمایا: ”اِس جگہ سے ستّرہزار ایسے لوگ اٹھائے جائیں گے جو بغیر حِساب کے جنت میں جائیں گے اور ان میں سے ہرایک ستّر ہزار کی شفاعت کرے گا، ان کے اَوَّلین وآخرین کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح ہوں گے“(حدیث)۔

فتحِ مکہ کے موقع پر اسی مقامِ حجون پرمسجد الفتح کے قریب سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم سے آپ کا جھنڈا گاڑا گیا۔ جَنَّتُ الْمَعْلٰی کی گھاٹی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کا رُخ قِبلہ کی جانب بالکل سِیدھ میں ہے جبکہ مکّہ کی دوسری گھاٹیوں کا رخ عین قبلہ کی طرف نہیں ہے۔
حاضری کا طریقہ جَنَّتُ الْمَعْلٰی کے مَدفونِین کی خِدمت میں باہر ہی کھڑے ہوکر سلام عرض کریں اور باہر ہی سے دعا کریں کہ اب جنت المعلیٰ میں موجود تقریباً تمام مزارات کو شہید کر دیا گیا ہے، قبروں کی نشاندہی کیلئے لائن سے رکھے گئے پتھرہی نظرآتے ہیں،خصوصاً جَنَّتُ الْمَعْلٰی کے بیچوں بیچ بنائی گئی سڑک پر تو چلنے یا گاڑی وغیرہ لے کر جانے کی غلطی ہرگزنہ کریں کہ یہ سڑک بھی انہیں مزارات کے اوپر بنائی گئی ہے اور’’قبرستان کے بیچ میں قبروں کو منہدم کرکے جو نیا راستہ بنایا جائے اس پر چلنا شرعاً حرام ہے‘‘۔اگرآپ اندر گئے تو کیا معلوم آپ کا پاؤں کس صحابی یا ولی کے مزار پر پڑ رہا ہے۔ عام مسلمانوں کی قبروں پر بھی پاؤں رکھنا حرام ہے۔
اے ربِّ کریم! ہمیں ایمان و عافیت کے ساتھ شہادت کی موت اور جنت المعلیٰ میں مدفن عطا فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Friday, September 20, 2019

tameer khana kaba[تعمیرِ خانۂ کعبہ]

tameer khana kaba[تعمیرِ خانۂ کعبہ]

تعمیرِ خانۂ کعبہ


تمام مسجدوں میں افضل ”مسجد حرام“ اورساری مساجد کا قبلہ ”خانۂ کعبہ“ ہے اور اللہ کی عبادت کے لیے روئے زمین پر سب سے پہلا گھریہی مُقرر ہوا۔تاریخی حیثیت سے دیکھا جائے توبقول علّامہ احمد بن محمد قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خانہ ٔکعبہ کی تعمیر ۱۰ مرتبہ ہوئی۔
پہلی تعمیر:حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل سب سے پہلے خانۂ کعبہ فِرِشتوں نے تعمیر کیا۔
دوسری تعمیر:دوسری مرتبہ بحکم الٰہی حضرت سیدنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی، حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے خط کھینچ کر جگہ کی نشاندہی کی، حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے بنیادیں کھودیں اور حضرت حوا رضی اللہ تعالٰی عنہا نے مٹی اٹھانے کا کام کیا،پھر آپ کو طواف کا حکم ہوااور فرمایا گیا: آپ پہلے انسان ہیں اور یہ پہلا گھر ہے۔
تیسری تعمیر:اِس گھر کوتیسری بار حضرت شیث بن آدم عَلَیْہِمَا السَّلَام نےمٹی اور پتھرسے تعمیر فرمایا۔ بعض نے فرمایا کہ آپ نے صرف خانہ ٔکعبہ کی مَرمَّت کا کام کیا تھا۔
چوتھی تعمیر :طوفانِ نوح کے وقت خانۂ کعبہ کی عمارت آسمان پر اٹھالی گئی اوریہ جگہ ایک اونچے ٹِیلے کی مانند رہ گئی، پھراُسی بنیاد پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے خانہ ٔکعبہ کو تعمیر فرمایاجس میں پتھر اٹھاکر لانے کا کام حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام نے سرانجام دیا،اس خاص اورعظیم تعمیر کا ذکر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سورۂ بقرۃ کی آیت۱۲۷ میں فرمایاہے۔
پانچویں اورچھٹی تعمیر:خانۂ کعبہ کو پانچویں بار قوم عمالقہ اورچھٹی مرتبہ قبیلہ جُرْہُم نے تعمیر کیا۔ قبیلہ جُرْہُم میں سے جس شخص نے یہ کام کیا اُس کا نام حرث بن مُضاض اصغر تھا۔

ساتویں تعمیر: پاکیزہ نسبِ رسول کے ایک فرد حضرت قُصَی بن کِلاب نے بھی خانۂ کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اَز سرنو بے مثال عمارت بنائی۔
آٹھویں تعمیر: ایک عورت خانۂ کعبہ کو دُھونی دے رہی تھی کہ ایک چنگاری اڑ کر خانۂ کعبہ کے غلاف پر گری، اورآگ لگ گئی ، اس سبب سے یا سیلاب کی وجہ سے خانۂ کعبہ کی دیواریں کمزور ہوگئیں تومکۂ مُکرّمہ کے معززقبیلے قریش نے اِسے دوبارہ تعمیر کیاجس میں حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی شریک ہوئے۔یاد رہے کہ حلال سرمایہ کم ہونے کے باعث قریش کی تعمیر میں حطیم کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔
نویں تعمیر :یزیدی فوج کی سَنگ باری سے جب خانۂ کعبہ کی دیواریں شِکستہ ہوگئیں توحضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہ نے حطیم (جو کہ قریش کی تعمیر میں شامل نہ کیا گیا تھا اس) کو شامل کر کے بنیادِ ابراہیمی پر نئے سِرے سے تعمیرکیا۔
دسویں تعمیر:عبدُالمَلِک بن مروان کے نائب حجاج بن یوسف(جو کہ ایک ظالم حکمران تھا )نے ۷۴ہجری میں پھرسے خانۂ کعبہ کو قریش والی تعمیر کے مطابق بنادیا۔
علامہ سلیمان جَمَل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:بعض تاریخ دانوں کے بقول ۱۰۳۹ہجری کے بعد بھی کسی بادشاہ نے تعمیرِکعبہ کی ہے اور مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ۱۰۴۰ ہجری میں (سلطنتِ عثمانیہ کے)سلطان مراد بن احمد خان شاہِ قسطنطنیہ نے حَجَرِاسود والے رُکن کے علاوہ ساری عمارت کو بنیادِ حجاج کے موافق تعمیر کیا۔ لہٰذاخانۂ کعبہ کی موجودہ عمارت کم وبیش ۴۰۰ سال کی ہے۔

islamic events © 2019,

Thursday, September 19, 2019

qibla e awwal baitul muqaddas[قِبلہ اوّل بَیتُ المُقَدَّس]

qibla e awwal baitul muqaddas[قِبلہ اوّل بَیتُ المُقَدَّس]

قِبلہ اوّل بَیتُ المُقَدَّس


بَیتُ المُقَدَّس مسلمانوں کا قِبلہ اوّل ہے ، یہ فلسطین کے شہر القُدْس میں واقع ہے، بعض نے شہر کو بھی بَیتُ المُقَدَّس کہا ہے۔ القُدْس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الحنَّان لکھتے ہیں:چونکہ اس زمین میں حضرات انبیاء کے مزارات بہت ہیں اس لئے اسے قُدْس کہا جاتا ہے۔یہ انبیا اور صُلحا (نیک لوگوں) کا مرکز رہا ہے حضرت سیدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا مزارِ اَقدس اور عالَمِ اسلام کی مشہور و معروف مسجدِ اقصیٰ بھی اسی شہر میں واقع ہے۔
سنگِ بنیاد سے تکمیل تک: کعبۂ مُعَظَّمَہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرتِ سیدنا آدم علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے اس کی بنیاد ڈالی۔ پھر اس کی تعمیر حضرتِ سیدنا سام بن نوح علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے کی۔(عرصۂ دراز کے بعد) حضرتِ سیدنا داؤد علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے بَیتُ المُقَدَّس کی بِنا (بنیاد) اس مقام پر رکھی جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی وفات کا وقت آ گیا تو آپ نے اپنے فرزندِ اَرجمند حضرت سیدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کو اس کی تکمیل کی وصیّت فرمائی۔ چُنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے جِنّوں کی ایک جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی ابھی ایک سال کا کام باقی تھا کہ آپ کے انتقال کا وقت آگیا۔ آپ نے غسل فرمایا، نئے کپڑے پہنے، خوشبو لگائی اور اسی طرح تشریف لائے، عَصا پر تکیہ فرما کر کھڑے ہوگئے۔ مَلک الموت حضرت عِزرائیل علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے آپ کی رُوح قبض کرلی۔ آپ اسی طرح عَصا پر ٹیک لگائے رہے۔ پہلے تو جنّوں کو رات کی فُرصت مل بھی جاتی تھی اب دن رات برابر کام کرنا پڑتا تھا۔ حضرت ہر وقت کھڑے ہی رہتے تھے اور اجازت مانگنے کی کسی میں ہمت نہ تھی، ناچار سال بھر تک یَک لخت دن رات برابر کام کیا۔

روشنی کا انتظام: حضرت سیدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے بیتُ المُقَدَّس کی مسجد کو سنگِ رُخام (سنگِ مَرمَر)، ہیروں موتیوں اور یاقوتوں سے بنوایا اور بَیتُ المُقَدَّس کے گنبد کے سِرے پر کِبریت اَحمر (سرخ گندھک) کا انتظام کیا جس کی روشنی کئی مِیلوں تک پہنچتی تھی۔
بَیتُ المُقَدَّس کی خدمت کے لئےکثیر خادمین حاضر رہتے تھے، ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت سیدنا زکریا علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے مبارک زمانہ میں بَیتُ المُقَدَّس کے خُدَّام کی تعداد چار ہزار تھی، ان خُدّام کے۲۷یا ۷۰سردار تھے جن کے امیر حضرت سیدنا زکریا علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام تھے۔
تبدیلیِ قبلہ حضرت(سیدنا) آدم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے لے کر حضرت (سیدنا) موسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام تک کعبہ (بیت اللہ شریف) ہی قبلہ رہا، پھر حضرت(سیدنا) موسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے لے کر حضرت(سیدنا) عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام تک بَیت ُالمُقَدَّس قِبلہ رہا۔ ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں مسلمانوں نے سولہ (۱٦)یا سترہ (۱۷) مہینے تک بَیتُ المُقَدَّس کی طرف رُخ کرکے نمازیں پڑھیں۔ ہجرت سے ایک سال ساڑھے پانچ مہینہ کے بعد پَندرھویں (۱۵ویں) رجب پیر کے دن مسجد بَنی سَلَمہ میں نماز ظہر کے درمیان قِبلہ کی تبدیلی ہوئی۔

islamic events © 2019,

Wednesday, September 18, 2019

Mufti e Azam Hind Mustafa Raza Khan Noori r.a[مفتی اعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان نوری علیہ الرحمۃ والرضوان]

Mufti e Azam Hind Mustafa Raza Khan Noori r.a[مفتی اعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان  نوری علیہ الرحمۃ والرضوان]

مفتی اعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان قادری برکاتی نوری علیہ الرحمۃ والرضوان


حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الشاہ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل رحمٰن محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت ۔ ۲۲ذوالحجہ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ ہے ۔ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری قدس سرہ العزیزنے آل الرحمن ابو البرکات نام تجویز فرمایا اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لا کر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ یہ بچہ دین و ملت کی بڑ ی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے ۔
آل الرحمن۔ محمد۔ ابوالبرکات محی الدین جیلانی مصطفی رضا اس مبارک نام پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب کسی شخص میں محاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کاہر کام تشنہ تو صیف محسوس ہوتا ہے۔ اور ذوق ستائش کسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس نام میں پہلی نسبت رحمن سے ہے۔ دوسری نسبت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ تیسری نسبت سیدنا حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی علیہ الرحمہ سے ہے۔تیسری نسبت کے بعد عزیمت میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے نسبت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یہ اہتمام تو اکابرکی بالغ نظری نے کیا تھا۔ مگر لاکھوں افراد نے جب اس منبعِ خیر وفلاح اور سرچشمہ ہدایت سے قریب ہوکر فیوض وبرکات حاصل کیے تو وہ بھی اپنے جذبہئ ستائش پر قابونہ پاسکے۔ آج حضرت مفتی اعظم مختلف ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے صفات کا پر تو انہیں پرڈالتا ہے جو اس کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہوجاتے ہیں۔

سخن آموزی کے منزل طے کرنے کے بعد آپ کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہوا ا ور آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد ماجد سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ ۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خاں صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان۔ استاذ الاساتذہ علامہ شاہ رحم الہی منگلوری ۔ شیخ العلماء علامہ شاہ سید بشیر احمد علی گڑ ھی ۔ شمس العلماء علامہ ظہور الحسین فاروقی رامپوری سے حاصل کئے اور ۱۸ سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون حاصل کر کے سند فراغت حاصل کی ۔فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ہی میں مسند تدریس کو رونق بخشی۔، تقریبا ًتیس سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے ۔ بر صغیر پاک و ہند کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالا مال ہیں ۔
آپ کی ۹۲ سالہ حیات مبارکہ میں زندگی کے مختلف موڑ آئے ۔ کبھی شدھی تحریک کا قلع قمع کرنے کیلئے جماعت رضائے مصطفی کی صدارت فرمائی اور باطل پرستوں سے پنجہ آزمائی کیلئے سر سے کفن باندھ کر میدان خارز ارمیں کود پڑ ے ، لاکھوں انسانوں کو کلمہ پڑ ھایا اور بے شمار مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔ قیام پاکستان کے نعرے اور خلافت کمیٹی کی آوازیں بھی آپ کے دور میں اٹھیں اور ہزاروں شخصیات اس سے متاثر ہوئیں۔ نسبندی کا طوفان بلا خیز آپ کے آخری دور میں رونما ہوا اور بڑ ے بڑ ے ثابت قدم متزلزل ہوگئے لیکن ہر دور میں آپ استقامت فی الدین کا جبل عظیم بن کر ان حوادث زمانہ کا مقابلہ خندہ پیشانی سے فرماتے رہے ۔

آپ کی نماز پنجگانہ قضا نہیں ہوتی تھی، ہر نماز وقت پر ادا فرماتے ،آپ نے تقسیم ہند سے پہلے دو مرتبہ حج و زیارت کیلئے سفر فرمایا، اس کے بعد تیسری مرتبہ ۱۳۹۱ ھ / ۱۹۷۱ ء میں جب کہ فوٹو لازم ہو چکا تھا لیکن آپ اپنی حزم و احتیاط پر قائم رہے لہذا آپ کو پاسپورٹ وغیرہ ضروری پابندیوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا اور آپ حج و زیارت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔
Mufti e Azam Hind Mustafa Raza Khan Noori r.a[مفتی اعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان  نوری علیہ الرحمۃ والرضوان]
محبوب ذوالجلال کا عاشق صادق، اسلام وسنت کا مہکتا گلشن شریعت وطریقت کا نیرتاباں، علم وفضل کا گوہ گراں، امام ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف، امام احمد رضا کی آنکھ کا تارا اور ہم سنیوں کا سہارا ١٤، محرم الحرام ١٤٠٢ھ رات ایک بج کر چالیس منٹ پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا خالقِ حقیقی سے جاملا۔

islamic events © 2019,

Sunday, September 15, 2019

hazrat bilal habshi R.A[حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ]

hazrat bilal habshi R.A[حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ]

حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ


حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور صحابی ہیں۔مکہ میں اسلام قبول کیا۔اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے کافروں نے ان کو بڑی تکلیفیں پہنچائیں جس کا انہوں نے جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ان کے والد کا نام “رباح”اور والدہ کا نام”حمامۃ”تھا ۔ ان کا آبائی وطن حبشہ تھا اسی لئے ان کو”بلال حبشی”کہا جاتا ہے۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن اور ہر وقت آپ کی بارگاہ اقدس میں رہنے والے صحابی تھے ۔ان کے سپرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخراجات کا انتظام بھی تھا۔امام حاکم اور حافظ ابو نعیم نے ان کو اصحاب صفہ میں بھی شمار کیا ہے۔جنگ بدر اور اس کے علاوہ تمام جنگوں میں آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔سب سے پہلے انہوں نے ہی اذان دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک اس دنیا میں رہے اس وقت تک وہ مسجد نبوی کے موذن رہے۔کتب احادیث میں ان کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا:{دین حق کے بارے میں }سبقت لے جانے والے اور دوسروں سے آگے بڑ ھ جانے والے چار لوگ ہیں۔میں عرب والوں سے سبقت لے جانے والا ہوں،صہیب روم والوں سے ،سلمان فارس والوں سے اور بلال حبشہ والوں سے۔

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو بلایا اور فر مایا کہ:اےبلال !کس عمل کی وجہ سے تم گذشتہ رات جنت میں میرے آگے آگے چل رہے تھے میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں جب بھی وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہوں۔اور جب بھی میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو میں اسی وقت وضو کر لیتا ہوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:اسی وجہ سے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:بلال،کتنا اچھا آدمی ہے،وہ ” سید المؤذنین”{یعنی قیامت تک کے تمام مؤذنوں کاسردار} ہے۔اور مؤذن،قیامت کے دن دوسرے لوگوں کے مقابلے دراز گردن {یعنی سر بلند}ہوں گے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فر مایا:ہمارے سردار ابو بکر نے ہمارے سردار بلال کو آزاد کیا۔۔

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو آپ ملک شام چلے گئے ،اور آخری زندگی تک وہیں رہے۔ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ فر مارہے ہیں:اے بلال !یہ کیسی بے وفائی ہے کہ تم اب تک میری زیارت کو نہیں آئے؟حضرت بلال غم زدہ حالت میں بیدار ہوئے اور تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے ۔مدینہ منورہ پہونچنے کے بعد آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مزارِ پُر انوار پر گئے اور قبر اطہر سے لپٹ کر زاروقطاررونے لگے۔پھر حضرت سیدنا امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو ان کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھ لپٹالیا ،انہوں نے کہا کہ:ہماری خواہش ہے کہ آپ اذان دیں۔چنانچہ آپ نے مسجد کی چھت پر چڑ ھ کراذان دینا شروع کیا ۔جب آپ کی صدائے “اللہ اکبر”گونجی تو اہل مدینہ کی عجیب وغریب کیفیت ہو گئی اور جب آپ “اشھد ان محمد رسول اللہ”پر پہونچے تو بے ساختہ سارے لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے یہاں تک کہ عورتیں بھی با ہر آگئیں ، اور حضور کے زمانے کو یادکر کے اس دن مدینہ منورہ کے لوگ اتنا روئے کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
hazrat bilal habshi R.A[حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ]
حضرت مصعب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا وصال ملک شام کے شہر دمشق کی سر زمین پر۲۰ محرم الحرام سن ۲۰/ہجری میں ہوا۔اس وقت آپ کی عمر ساٹھ سال یا اس سے کچھ زیادہ تھی۔

islamic events © 2019,

Saturday, September 14, 2019

arsh O kursi[عرش و کرسی]

arsh O kursi[عرش و کرسی]

عرش و کرسی


عقیدہ عرش ایک عظیم، بلند، نورانی مخلوق ہے ۔عرش و کرسی پر ایمان لانا واجب ہے۔ نورِ محمدی کے بعدعرش اللہ پاک کی پہلی تخلیق ہے۔عرش تمام مخلوقات میں سب سے بڑا ہے۔ اللہ پاک نے اسے ساتویں آسمان کے اوپر قائم کیا ہوا ہے۔ عرش جنّت کے اوپر ہےنبیِ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب اللہ کریم سے مانگو تو جَنَّۃُ الْفِردَوس مانگو کہ وہ اَوسط بہِشت اور اعلیٰ جنت ہے اور اس کے اوپر عرشِِ رحمٰن ہے اور اسی سے جنّت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔ یعنی جنّت کی چھت عرش ہے۔
عرش کس چیز سے بنا ہے؟اس بارے میں مختلف اقوال ہیں: نور سے بنا ہے ،سبز زَبَرْجَدْ سے بنا ہوا ہے، سرخ یاقوت سے بنا ہے۔ امام ابراہیم باجوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: اس کی حقیقت کا قطعی علم نہیں ہے اس لئے اس بارے میں حَتَّمِی رائے قائم کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔اس کی ہیئت(شکل وصورت) کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ عرش گول نہیں ہے بلکہ وہ گنبد نما ہے جوجنت کی چھت ہونے کے ساتھ تمام مخلوقات اور دنیا کے اوپر سایہ فِگن ہے، اس کے چار ستون ہیں۔

حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں ہرمعمار پہلے دیواریں بناتا ہے پھر اُن پر چھت ڈالتا ہے لیکن اللہ پاک نے پہلے چھت بنائی پھر دیواریں کیونکہ اس نے ز مین وآسمان کو بنانے سے پہلے عرش بنایا پھر ہوا کو پیدا فرمایا اس کے پَر بنائے،ان پروں کی کثرت کو اللہ تعالی ہی جانتاہے۔پھر ہوا کو حکم دیا کہ وہ پانی کو اٹھائے، اللہ تعالی کا عرش پانی کے اوپر ہے جبکہ پانی ہوا پر ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کو پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کو عرش وکرسی کی حاجت نہیں بیشک وہ ان دونوں کے بنانے سے پہلے بھی تھا حالانکہ اس وقت مکان بھی نہ تھا۔
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے زمین وآسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار (۵۰۰۰۰)سال پہلے ہی مخلوق کی تقدیریں لکھ دی تھیں اس وقت اللہ کریم کا عرش پانی پر تھا۔ شرح حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اس پانی سے مراد یہ سمندر کا پانی نہیں بلکہ عرشِ اعظم کے نیچے قدرتی پانی ہے جو ہوا پر ہے اور ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت پر۔اس فرمان کا یہ مطلب نہیں کہ عرش پانی پر رکھا ہوا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پانی اور عرش کے درمیان کوئی آڑ نہ تھی جیسے ہم کہیں کہ آسمان زمین پر ہے یعنی زمین کے اوپر ہے۔اس سے معلوم ہورہا ہے کہ عرش اور پانی سب سے پہلے پیدا ہوئے۔

عرش اٹھانے والے فرشتے ابھی چار ہیں اورجب قیامت قائم ہوگی تو اللہ پاک مزید چار فرشتوں سے ان کی مدد فرمائے گا چنانچہ قراٰنِ پاک میں ہے:( وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ یَوْمَىٕذٍ ثَمٰنِیَةٌؕ(۱۷))ترجمۂ کنزالایمان:اور اس دن تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔اس آیت کے تحت صدرالافاضل علامہ سید محمدنعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہیں: حدیث شریف میں ہے کہ حاملینِ عرش آج کل چار ہیں روزِ قیامت ان کی تائید کے لئے چار کا اور اضافہ کیا جائے گا آٹھ ہوجائیں گے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ اس سے ملائکہ کی آٹھ صفیں مراد ہیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانے۔
عرش سے معلق تین چیزیں ہمارے پیارےمصطفےٰ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تین چیزیں عرش سے لٹکی ہوئی ہیں: رشتہ داری، یہ کہتی ہے: یااللہ! میں تیری وجہ ہی سے ہوں لہذا مجھے نہ توڑا جائےامانت، یہ کہتی ہے:یااللہ! میں تیری وجہ سے ہی ہوں لہذا مجھ میں خيانت نہ کی جائےاور نعمت کہتی ہے: يا الٰہی! میں تیری طرف سے ہوں لہذا ميری ناشکری نہ کی جائے۔

احادیثِ مبارکہ میں کئی ایسے اعمال ذکر کئے گئے ہیں جن سے اللہ پاک کا عرش ہلنے لگتا ہے چنانچہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ۲فرامین ملاحظہ کیجئے:جب فاسق کی مدح (تعریف) کی جاتی ہے، رب تعالیٰ غضب فرماتا ہے اور عرشِ الٰہی جنبش کرنے(یعنی ہلنے) لگتا ہے۔شادی کرو اور طلاق نہ دیا کرو کہ طلاق سے عرشِ الٰہی ہلنے لگتا ہے۔ بعض اوقات عرش کا ہلنا رحمت کی وجہ سے ہوتا ہے جیسا کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اچھی نیت عرش سے چمٹ جاتی ہے پس جب کوئی بندہ اپنی نیت کوسچا کر دیتا (یعنی اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا) ہے تو عرش ہلنے لگ جاتا ہے، پھر اس بندے کو بخش دیا جاتا ہے
عرش کے سائے میں سب سے پہلےکون ہوگا؟ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:بے شک قیامت کے دن اللہ کریم کے عرش کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پانے والا وہ شخص ہوگا جس نے کسی تنگد ست کو مہلت دی تاکہ وہ قر ض کی ادا ئیگی کے لئے کچھ پالے یا اپنا قرض معاف کردیا اور کہا کہ میرا مال تم پر اللہکریم کی رضا کے لئے صدقہ ہے اور اُس قرض کی رسید کو پھاڑدے۔

کرسی بھی (اللہ پاک) کی عظیم نورانی مخلوق ہے۔ یہ عرش کے نیچے عرش سے ملی ہوئی ہےاور ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور اس (مسافت کے) بارے میں بھی کوئی یقینی رائے قائم کرنے سے خاموشی بہتر ہے۔ کرسی عرش سے جداگانہ اللہ پاک کی مخلوق ہے۔ اللہ پاک کی ہر تخلیق میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہونےکے باوجود اللہ تعالیٰ کوان چیزوں کی محتاجی نہیں لہٰذا اس نے عرش کو نہ بلندی چاہنے کے لئے پیدا فرمایا نہ کرسی کو بیٹھنے کے لئے تخلیق فرمایا۔
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کرسی بھی موتی کی اور قلم بھی موتی کا ہے، قلم کی لمبائی ۷۰۰سال کی مسافت ہے اور کرسی کی لمبائی جاننے والے بھی نہیں جانتے۔
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ساتوں آسمان کرسی کے آگے ایسے ہیں جیسے صحرا میں ایک چھلا پڑا ہو اور عرش کرسی کے مقابلے میں اتنا بڑا ہے جیسے چھلے کے مقابلے میں صحرا۔حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:کرسی کے چار پائے ہیں، جن میں سے ہر ایک آسمان و زمین سے زیادہ لمبا ہے،ساری دنیا کرسی کے سامنے ایسے ہے جیسے تم میں سے کسی کی ہتھیلی پر رائی کا دانہ۔

islamic events © 2019,

Friday, September 13, 2019

Sultan e Karbala Ko Humara Salam Ho[سلطان کربلا کو ہمارا سلام ہو]

Sultan e Karbala Ko Humara Salam Ho[سلطان کربلا کو ہمارا سلام ہو]

کلام سنیے


سلطانِ کربلاؑ کو ہمارا سلام ہو


سلطان کربلا کو ہمارا سلام ہو....

جانانِ مصطفیٰ ﷺ کو ہمارا سلام ہو​....

عباسِ نامدار ہیں زخموں سے چور چور....

اس پیکر رضا کو ہمارا سلام ہو​....

اکبر سے نوجوان بھی رن میں ہوئے شہید....

ہم شکلِ مصطفیٰ ﷺ کو ہمارا سلام ہو....

اصغر کی ننھی جان پہ لاکھوں درود ہوں....

مظلوم و بے خطا کو ہمارا سلام ہو​....

بھائی بھتیجے بھانجے سب ہوگئے نثار....

ہر لعل بے بہا کو ہمارا سلام ہو​....

ہو کر شہید قوم کی کشتی ترا گئے....

امت کے ناخدا کو ہمارا سلام ہو​....

ناصر ولائے شاہ میں کہتے ہیں بار بار....

مہمان کربلا کو ہمارا سلام ہو​....

سلطان کربلا کو ہمارا سلام ہو....

جانانِ مصطفیٰ ﷺ کو ہمارا سلام ہو​....


islamic events © 2019,

Sunday, September 8, 2019

Noor Walay Aaqa[نور والے آقاﷺ]

Noor Walay Aaqa[نور والے آقاﷺ]

نور والے آقاﷺ


اللہ تعالٰی نے نبیِّ رحمت،شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جہاں بے مثال بشرہونے کا شرف عطا فرمایا وہیں حِسّی و معنوی نورانیت سے بھی نوازا۔ حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہِری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔
سب سے پہلے نورِمحمدی کی تخلیق ہوئی: حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو حضور پُرنور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔
حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں نور تھا۔ حضورنبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی۔ (پھرحضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:)آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارا بیٹا احمد ہے،یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے۔

نورانیتِ مصطفٰے بزبانِ اصحابِ مصطفٰے:صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے نبیِ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنےاپنےاندازمیں اظہار کیا: حضرت سیّدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہمانے فرمایا:حضورانورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا۔شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناوی علیہ رحمۃاللہ الکافی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرودَوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا۔حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن سے مل گئی۔حضرت سیّدنا ابوہریرہرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: جب نبیٔ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔
نورانی بشریت: نور اور بشر ایک دوسرے کی ضد نہیں کہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ حضرت جبریل علیہ السَّلام نوری مخلوق ہونے کے باوجود حضرت سیّدتنا بی بی مریم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے انسانی شکل میں جلوہ گَر ہوئے تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ حکیم میں ہے: (فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا(۱۷)) (پ۱٦، مریم:۱۷) ترجمۂ کنز الایمان : تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔“نیزحضرت مَلَکُ الموت علیہ السَّلام بشری صورت میں حضرت سیّدناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

بزرگانِ دین کا عقیدہ: جلیل القدر مُفَسِّرین،مُحَدِّثِیْن، علمائے ربّانِیِّین اور اولیائے کاملین نے بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کو بیان فرمایا۔جیسا کہ قراٰنِ مجید کی آیت: (قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)) (پ٦،المآئدۃ:۱۵) (ترجمۂ کنز الایمان:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب)کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جَرير طَبَری ،امام ابومحمد حسین بغوی،امام فخرالدین رازی،امام ناصرالدین عبداللہبن عمربَیضاوی، علّامہ ابوالبرکات عبداللہنَسَفیعلّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن، امام جلال الدین سُیُوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سمیت کثیر مُفَسِّرین نے فرمایا کہ اس آیتِ طیبہ میں موجود لفظ”نور“ سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرَکات ہے۔ حضرت علامہ قاضی عِیاض مالکی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی فرماتے ہیں:حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ سورج چاند کی روشنی میں زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں۔
نورِ مصطفٰے غالب آ گیا: شارحِ بخاری، امام احمدبن محمد قَسطلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں:اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو پیدا فرمایا تو اُسے حکم فرمایا کہ تمام انبیاکے نور کو دیکھے چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام انبیاکے نور کو ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنورسےڈھانپ دیا۔انہوں نے عرض کی: مولیٰ! کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا؟ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا: ہٰذَا نُورُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبدِاللہِ یعنی یہ عبداللہ کے بیٹے محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا نور ہے ۔

islamic events © 2019,

Friday, September 6, 2019

Barzakh[بَرزَخ]

Barzakh[بَرزَخ]

بَرزَخ


موت انسان کی دُنیوی زِندگی کا آخری زِینہ(سیڑھی) ہے جہاں سےاس کا سفر عالَمِ دُنیا سے ٹوٹ کر آخرت کی جانب شُروع ہوجاتا ہے۔ موت کے بعد اِنسان”بَرزَخ“ میں داخل ہو جاتا ہے۔بَرزَخ کا معنیٰ: لُغت میں دو چیزوں کی دَرمیانی آڑ کو ”بَرزَخ“ کہتے ہیں۔
اِمام المتکلمین، حضرت امام ابومَنصور محمد بن محمد مَاتُرِیدِیحنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:بَرزَخ کی اَصل پَردہ ہے جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے(وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا) ترجَمۂ کنزالایمان:اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا(پ۱۹،الفرقان:۵۳)۔
عالَمِ بَرزَخ کیاہے؟ مشہور مُفَسِّر، حضرت امام ابو عبد الله محمد بن احمد قُرْطُبِی علیہ رحمۃ اللہ القَوینقل فرماتے ہیں: وَالْبَرزَخُ مَا بَینَ الدُّنْیا وَالْآخِرَۃِ مِنْ وَقتِ الْمَوتِ اِلَی الْبَعثِ، فَمَن مَّاتَ فَقَدْ دَخَلَ فِي الْبَرزَخِ موت کے وقت سے دوبارہ اُٹھائے جانے تک دُنیا و آخرت کے درمیان بَرزَخ ہے پس جو فوت ہوا وہ بَرزَخ میں داخل ہوا۔
بَرزَخ کا ثبوت: قراٰنِ پاک میں ہے:(وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰))(پ۱۸، المؤمنون:۱۰۰) ترجَمۂ کنزالایمان: اور اُن کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔ حضرتِ سیِّدُناامام مُجاہد علیہ رحمۃ اللہ الواحِد نے اس آیت کی تفسیرمیں فرمایا: مَابَیْنَ الْمَوْتِ اِلَی الْبَعْثِ یعنی بَرزَخ موت اوردوبارہ زِندہ کئےجانےکی دَرمیانی مُدّت ہے۔ بَرزَخ کے دَرجات”عِلِّیِّیْن“اور ”سِجِّیِّیْن“ بَرزَخ ہی کے مَقامات ہیں اور ہر ایک میں حَسبِ مَراتِب تَفاوُت ( یعنی فرق) بے شمار۔

بَرزَخ کے مُعامَلات: عالَمِ بَرزَخ میں پیش آنے والے مُعامَلات سے مُتعلق چند باتیں ذِہن نشین فرما لیجئے:بَرزَخ میں (اپنے اپنے اَعمال کے اِعتبار سے) کسی کو آرام ہےاور کسی کو تکلیف۔ جواِنعام یا عَذاب بَدَن کو ہوتاہےاس کی لَذّت اور تَکلیف رُوح کو پہنچتی ہے۔ عَذابِِ قَبر دَراصل عَذابِِ بَرزَخ ہی کو کہتے ہیں۔اسے عَذابِِ قبر اس لئے کہتے ہیں کہ عُمُوماً لوگ قبر ہی میں دفن ہوتے ہیں۔عُموماًبَرزَخ میں ملنے والے اِنعام یا عذاب کو”قبر کےاِنعام یا عَذاب “سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قَبر میں عَذاب یا اِنعام کے لئے تدفین ہونا ضروری نہیں بلکہ جو مُردہ دَفن نہ ہوا بلکہ جلادیا گیایا ڈبو دیا گیایا جسے کوئی دَرِندہ کھا گیا اُسے بھی بَرزَخ یا قبر کے اِنعام و عَذاب سے واسطہ پڑتا ہے ۔
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِِ الْجَنَّةِ اَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِِ النَّارِ یعنی قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ (ترمذی)مشہور مُفَسِّرِ مفتی احمد یا ر خان علیہ رحمۃ المنَّان فرماتے ہیں:مؤمن کی قَبر میں جَنّت کی خوشبوئیں، وہاں کی تَروتازگی آتی رہتی ہیں۔کافر کی قبر میں دوزخ کی گرمی وہاں کی بَدبُو پہنچتی رہتی ہے۔بُزرگوں کی قَبروں کو اُردو میں رَوضہ کہتے ہیں۔ فُلاں بُزرگ کا رَوضہ۔یہ لفظ اِسی حَدیث سے مَاخوذ ہے یعنی جنّت کا باغ۔ قَبر میں مُومنوں کوملنے والی رَاحت(آرام)،نافرمانوں کو ملنے والی سَزائیں، ضَغْطَۂ قَبر یعنی قَبر كا مَيّت كو دَبانا اورمُنکَر نَکیر کے سُوالات برزخ ہی کے معاملات ہیں۔

islamic events © 2019,

Thursday, September 5, 2019

Azab E Qabar[عذابِ قَبْ]

Azab E Qabar[عذابِ قَبْ]

عذابِ قَبْر


عقیدہ: اہلِ سنّت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذابِ قَبْر اور تَنْعِیمِ قبر روح اور جسْم دونوں کو ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام احمد بن حنبل علیہ رحمۃ اللہ الاکبر فرماتے ہیں: عَذابُ الْقَبْرِ حَقٌ لَا يُنكِرُه اِلَّا ضَالٌّ مُضِلٌّ یعنی عذابِِ قبر حق ہے اس کا انکار گمراہ اور گمراہ گر کے سواکوئی نہیں کرے گا۔ کافر اور منافق (یعنی زبان سے دعوئ اسلام اور دل میں اسلام سے انکار کرنے والے) کو ہمیشہ عذابِ قبر ہو گا۔ گناہ گار مسلمان کو گناہوں کے برابر قبر میں عذاب ہو گا لیکن دعا، صَدَقہ وغیرہ کےسبب (اللہ تعالیٰ چاہے گا تو) اُن سے عذاب اُٹھا لیا جائے گا۔
عذابِ قبر سے مراد بَرزَخ میں ہونے والا عذاب ہے،اسے عذابِ قبر اس لئے کہا جاتا ہے کہ عام طور پر میِّت کو قبْر میں ہی دَفْن کیا جاتا ہے ورنہ جسے اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کا ارادہ فرمایا ہے اسے عذاب ضرورہوگا، چاہے وہ قبر میں دفن ہو یا نہ ہو،خواہ اسے درِندوں نے کھا لیا ہو ،یا اسے جلاکراس کی خاک ہوا میں اُڑادی گئی ہو۔
عذابِ قبر کا ثبوت :قراٰنِ پاک میں ہے(سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ(۱۰۱) ) ترجمۂ کنزالایمان:جلد ہم انہیں دو بار عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔ اس آیت کے تحت امام علی بن محمد خازِن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے کہ ایک بار تو دنیا میں رُسوائی و قتل کا اور دوسری مرتبہ قبر کا عذاب۔

حضرت سیّدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے شہزادے حضرت سیّدنا حمادرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے والد ماجد سےعذابِ قبر کے متعلّق پوچھاتو حضرت سیّدنا امامِ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےفرمایا:عذابِ قَبْر بَرْحق ہے۔ عرض کیا: اس کی دلیل؟ ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:(وَ اِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ)ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور بیشک ظالموں کے لئے اس سے پہلے ایک عذاب ہے یَعنِی دُوْنَ جَہَنَّمَ یعنی جہنم کے عذاب سے پہلے ایک عذاب ہے اور اس سےمراد عذابِ قبر ہے۔ حضور نبیِّ اکرم شفیع معظم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ ىعنى عذابِِ قبر حق ہے۔
عذابِ قبر کےبعض اسباب :حضرتِ سَیِّدُنا قتادہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:عذابِ قبر کے تین حصے ہیں:ایک تہائی عذاب پیشاب (سے نہ بچنے)کے سبب،ایک تہائی غیبت کے سبب اورایک تہائی چُغَل خوری کے سبب ہوتاہے۔
عذابِ قبر سے محفوظ رہنے والے خوش نصیب :شہید عذابِ قَبْر سے محفوظ رہتا ہے۔ رمضان المبارک میں فوت ہونے والا۔ اسی طرح روزِجمعہ یاشَبِِ جمعہ انتقال کرنے والا۔ روزانہ رات میں تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ (پوری سورت) پڑھنےوالا۔ تلاوتِ قراٰن کرنے والا۔ اسی طرح ہر وہ مسلمان جس سے قبر کے سوالات نہیں ہوں گے اسے عذابِِ قبر بھی نہیں ہو گا۔ حضرت سیِّدُنا امام عمر نَسَفِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے فرمایا: فرمانبردار مسلمان کو عذابِِ قبر نہیں ہو گا لیکن اسے قبر دبائے گی اور وہ اس کی تکلیف اور خوف کو محسوس بھی کرے گا۔

islamic events © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...