رُوح
رُوح کیا چیز ہے؟ اللہ پاک کا قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے: (قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵))ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا۔(پ۱۵،بنی اسرآءیل:۸۵))۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رُوح کے بارے میں علم نہ ہو حالانکہ اللّٰہ پاک نے یہ ارشاد فرما کر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پراحسان فرمایا ہے:(وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳)) ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللّٰہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔(پ۵، النسآء: ۱۱۳)) نبیِّ کريم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پردہ فرمانے سے پہلے اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کورُوح اور اس کے علاوہ ہر مُبْہَم چیز کا علم عطا فرما دیا تھا۔
روح کو فنا نہیں یاد رہے! موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں،نہ یہ کہ روح مَر جاتی ہے، جو روح کو فنا مانے،بد مذہب ہے۔موت کے بعد روح کی جاننے ،سننے اور دیکھنے کی صلاحیت نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔روح کا جسم سے تعلق مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔
روحوں کے بارے میں عمومی خیالات عام طور پر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مکان میں رُوح کا ڈیرا ہے ،وہ مار دیتی ہے،فلاں جگہ ایک آدمی قتل ہوا تھا وہاں اس کی روح بھٹک رہی ہے،قتل ہونے والوں کی روحیں دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں،اس حویلی میں کافر روحوں کا بسیرا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بے سَروپا تَوَہُّمات ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلّق نہیں، وفات کے بعد مؤمنین کی روحیں ”رِمیائیل“ نامی فرشتے کےحوالےکی جاتی ہیں، وہ مؤمنین کی روحوں کے خازِن ہیں۔ جبکہ کفّار کی روحوں پر مقرر فرشتے کا نام”دَومہ“ہے۔
روحوں کے مقامات کافروں کی روحیں مخصوص جگہوں پر قید ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی روحوں کے مختلف مقامات بھی مُقَرّر ہیں اور انہیں اورمقامات پرجانے کی اجازت بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُناامام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالِق فرماتے ہیں:مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔
نبیّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمنین کی اَرواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں، جنّت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں۔ عرض کی گئی:اور کافروں کی روحیں؟ ارشاد فرمایا: سِجّین میں قید ہوتی ہیں۔
مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف(یعنی زم زم شریف کے کنویں ) میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قِنْدیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلّیِّین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے اُن کو تعلّق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر (پرندہ) پہلے قَفَس (پنجرے) میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔
خبیث روحیں کافروں کی خبیث روحوں کے بھی مقام مقرّر ہیں وہ آزاد نہیں گھومتیں بلکہ بعض کی اُن کے مَرگھٹ (مردے جلانے کی جگہ) یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ(یعنی وادی) ہے ، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختِیار نہیں، کہ قید ہیں۔
یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسُخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔
جانوروں کی روحیں جانوروں کی اَرواح کے متعلّق علما کے کئی اقوال ہیں۔تفسیرِ روح المعانی میں ہے:جانوروں کی اَرواح ہوا میں مُعَلَّق رہتی ہیں یا جہاں اللہ پاک کو منظور ہوتا ہے وہاں رہتی ہیں اور ان کا اپنے جسموں سے کوئی تعلّق نہیں ہوتا۔
No comments:
Post a Comment