Thursday, August 22, 2019

sahaba kiram[صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم]

sahaba kiram[صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم]

صحابۂ کرام


ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:تم میں فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ۲۷، الحدید:۱۰)۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی کئی اقسام ہیں جیسے خلفائے اربعہ، عشرۂ مبشرہ، اصحابِ بدر، اصحابِ اُحد، اصحابِ بیعتِ رضوان، اہلِ بیت وغیرھم۔ ان میں کئی اقسام ایک دوسرے میں داخل بھی ہیں۔صحابۂ کرام کی افراد کی تعداد کے اعتبار سے ایک بڑی تقسیم تو مہاجرین و انصار ہے اور دوسری تقسیم وہ ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی یعنی فتحِ مکّہ سے پہلے والے اور بعد والے۔
اس آخری تقسیم کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِن صحابہ میں درجہ بندی فرما دی کہ فتحِ مکّہ سے پہلے والے، بعد والوں سے افضل ہیں۔ یہ معاملہ افضلیت کا ہے لیکن جہاں تک بارگاہِ خداوندی میں ان کے مقبول اور جنّتی ہونے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ”ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنّت) کا وعدہ فرمالیا ہے“ اس سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ جنّتی اور خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ہر صحابی، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحابیت کی نسبت سے ہمارے لئے واجبِ تعظیم ہے اور کسی بھی صحابی کی گستاخی حرام اور گمراہی ہے۔ قرآن و حدیث عظمتِ صحابہ کے بیان سے معمور ہیں اور کوئی صحابی بھی اس عظمت و شان سے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔

صحابہ کی عظمت و شان قرآن سے:صحابہ رضی اللہ عنھم کی ایک بڑی جماعت کے بارے میں ارشاد فرمایا:”بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اوّلین اور دوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔“(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۰) اسی پاک گروہ کی ایمانی قوّت، قلبی کیفیت اور عملی حالت قرآن میں یوں بیان فرمائی گئی: ”محمداللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت، آپس میں نرم دل ہیں۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا، اللہ کا فضل و رِضا چاہتے ہیں، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے۔ یہ ان کی صفت تورات میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔“(پ۲٦، الفتح:۲۹) یہی متّقین، صالحین، خاشعین، صدیقین کے سردار ہیں جن کے دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب سے پہلے کیا اور بذاتِ خود کیا جیسا کہ قرآن میں ہے: ”بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا، جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔“(پ۴، آل عمران:۱٦۴) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا:”اگر وہ (غیرمسلم) بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا (اے صحابہ) تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پا گئے۔“(پ۱، البقرۃ:۱۳۷) اسی مبارک گروہ کی سب سے بڑی تعداد کا نام مہاجرین و انصار ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بالکل صراحت سے جنّت و مغفرت و رزقِ کریم یعنی عزّت والی روزی کا مُژدہ سناتے ہوئے فرمایا:”اور وہ جو ایمان لائے اور مہاجر بنے اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچّے ایمان والے ہیں، ان کے لئے بخشش اور عزّت کی روزی ہے۔“(پ۱۰،الانفال:۷۴)۔

صحابہ کی عظمت و شان احادیث سے:اِنہی صحابہ کا امّت میں سب سے افضل اور فائق ہونا، نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں واضح کیا:”میرے اصحاب کو بُرا بھلا نہ کہو، اس لئے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مُد (ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مُد کے آدھے کو۔“ (بخاری)اِنہی صحابہ سے مَحبّت رکھنے، ان کی محبّت کو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مَحبت اور ان سے بغض کو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بغض قرار دیا اور ان کے متعلّق دل و زبان سنبھالنے کا حکم دیا:”میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا۔ پس جس شخص نے ان سے مَحبت کی تو اس نے میری مَحبت کی وجہ سے ان سے مَحبت کی اور جس نے ان سے بُغْض رکھا تو اس نے میرے بُغْض کے سبب ان سے بُغْض رکھا اور جس نے انہیں اِیذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے اِیذا پہنچائی اور جس نے مجھے اِیذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔“( ترمذی)۔
اوپر ذکر کردہ آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام صحابہ جنّتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہے اور یہ خدا سے راضی ہیں ۔ان کے لئے جنّت کے باغات ہیں یہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھی ہیں ۔کُفّار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل عبادت و رکوع و سجدہ کے شوقین رِضائے الٰہی کے طلب گار نورانی چہروں والے، پاک دل، پاک سیرت، اصحابِِ حکمت، معیاری ایمان والے۔ راہِ خدا میں جان، مال، گھربار قربان کرنے والے مومنوں کے مددگار سچّے ایمان والے ۔خدا کی طرف سے مغفرت و رزقِ کریم کے مستحق اُمت میں سب سے افضل ۔ان کی مَحبت، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحبت ان سے بغض، نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بُغْض انہیں تکلیف دینا، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف دینا ہے ان کی تعظیم فرض، توہین حرام اور ان کے گستاخ، خدا کی گرفت کا شکار ہوں گے۔
اللہ کریم ہمیں دل و جان، زبان و قلم سے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور جنّت میں ان کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

islamic events © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...