حَشْر ونَشْر
حَشْر ونَشْر کسے کہتے ہیں؟ ’’نَشْر‘‘ کا معنیٰ ہے موت کے بعد مخلوق کوزندہ کرنا جبکہ’’ حَشْر‘‘ کا معنیٰ ہے انہیں میدانِ حساب اور پھر جنّت و دوزخ کی طرف لے جانا۔ انکار کرنے والے کا حکم حشر ونشر کا عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اس بات پر اُمّت کا اجماع ہے کہ حشر و نشر کا انکا رکرنے والا کافر ہے۔
حشر کس کا ہو گا؟ حشر صرف رُوح کا نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں کا ہے، جو کہے صرف رُوحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گےوہ بھی کافر ہے۔دنیا میں جو رُوح جس جسم کے ساتھ متعلّق تھی اُس رُوح کا حشر اُسی جسم میں ہوگا، یہ نہیں کہ کوئی نیا جسم پیدا کرکے اس کے ساتھ روح متعلّق کر دی جائے۔ جنہیں جانوروں نے کھالیا مرنے کے بعد جسم کے اجزا اگرچہ بِکھر گئے ہوں یا مختلف جانوروں کی غذا بن گئے ہوں اﷲ پاک ان سب اَجزا کو جمع فرماکر قِیامت کے دن اُٹھائے گا۔
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قیامت کے دن لوگ اپنی قبروں سے ننگے بدن،ننگے پاؤں،ناختنہ شُدہ اُٹھیں گے۔ (مسلم) ضَروری وضاحت یاد رہے! یہ خطاب اُمّت کو ہے جس کا ظاہر یہ ہے کہ حضراتِ انبیاءِ کرام (علیہم السَّلام) سب مستثنیٰ (یعنی اس سے الگ) ہیں اور وہ سب بِفَضْلِہٖ تعالٰی لباس میں ہوں گے۔
حضرتِ سیّدُنا امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے مختلف روایات میں یوں تَطْبِیق بیان فرمائی ہے کہ کچھ لوگ بے لباس ہوں گے جبکہ بعض لوگوں نے لباس پہنے ہوں گے۔ فقیہِ اعظم حضرت علّامہ مفتی محمد نوراللہ نعیمی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی فرماتے ہیں:سب صحابۂ کرام اور اولیاءِ عظام بھی لباس میں ہوں گے۔نیز شہید اور خَواصّ مَؤمنین لباس میں ہوں گے۔
حشر میں لوگوں کی حالتیں حضرت علّامہ ابراہیم بیجوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:حشر میں لوگوں کے مَرتبے جُدا جُدا ہوں گے: مُتقی سُوار ہوں گے، تھوڑے عمل والے لوگ پیدل ہوں گے جبکہ کافر منہ کے بَل چلتے ہوں گے۔نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ کافر مُنہ کے بل کیسے چلیں گے؟ تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس ذات نے انہیں قدموں پر چلایا وہ منہ کے بَل چلانے پر بھی قادر ہے۔ (ترمذی) کسی کو ملائکہ گھسیٹ کر لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی(یعنی میدانِ محشر میں لے جائے گی)۔
سب سے پہلے! ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے پہلے قبرِ انور سے یوں باہر تشریف لائیں گے کہ دَہنے ہاتھ میں حضرتِ سیّدنا صدیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں حضرتِ سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ ہوگا۔(ترمذی) پھر مکۂ مُعظمہ و مدینۂ طیبہ کے مَقابِر (قبرستانوں) میں جتنے مسلمان دَفْن ہیں، سب کو اپنے ساتھ لے کر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔( ترمذی ) پھر اہلِ شام اور باقی لوگ اپنی اپنی قَبْروں سے باہر آئیں گے۔
حشر کہاں ہو گا؟یہ میدانِ حشر ملکِ شام کی زمین پر قائم ہوگا۔ زمین ایسی ہموار ہو گی کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ گِر جائے تو دوسرے کنارے سے دکھائی دے۔زمین بدل دی جائے گی: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے:( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن بدل دی جائے گی زمین اِس زمین کے سوا اور آسمان۔(پ۱۳،ابرٰھیم:۴۸)۔
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں ذکر کئے جانے والے مختلف اقوال کے بارے میں امام جلالُ الدّین عبدالرحمن سُیوطی علیہ رحمۃ اللہ القَوی حافظ ابنِ حجر عسقلانی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی سے یوں نقل فرماتے ہیں: زمین کا روٹی ہونا ، غبار والا ہونا اور آگ بن جانا جو احادیث میں آیا ہے اس میں کوئی مُنافات (ٹکراؤ) نہیں، بلکہ ان کو اس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ بعض زمین کے ٹکڑے روٹی، بعض غبار، اور بعض آگ ہوجائیں گےاور آگ ہونے والا قول سمندر کی زمین کے ساتھ خاص ہے(کہ سمُندر کی زمین آگ کی ہوجائے گی)۔تفسیرِ مظہری میں ہے: ہوسکتا ہے کہ مؤمنین کے قدموں کی جگہ روٹی ہوجائے اور کفّار کے قدموں کی جگہ غُبار والی اور آگ والی ہوجائے۔
No comments:
Post a Comment