حساب و کتاب
عقیدہ حساب حق ہے،یعنی قراٰن و سنّت اور اجماع سے ثابت ہے۔ مومن ،کافر،انسان اور جنّات سب کا حساب ہو گا سوائے اُن کے جن کا اِسْتِثْناء کیا گیا ہے۔حساب کا منکر کافر ہے۔
حساب کیا ہے؟ حساب کا لغوی معنیٰ ہے ”شمار کرنا“ اور اصطلاحی معنیٰ ہے ”اللہ تعالیٰ کا لوگوں کو محشر سے پلٹنے سے پہلے اُن کے اعمال پر آگاہ کرنا“ ۔
حساب کی کیفیت ہر ایک سے حساب کی کیفیت مختلف ہوگی،کسی کا آسانی سے، کسی کا سختی سے، کسی کا خُفیہ، کسی کا اعلانیہ، کسی کا ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ اور کسی کا فضل تو کسی کا عدل کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔
حساب کی سختی فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ایک شخص کو حساب کتاب کے لئے کھڑا کیا جائے گا تو اسے اس قدر پسینہ آئے گا کہ اگر ۱۰۰۰پیاسے اونٹ اسے پئیں تو اچھی طرح سیراب ہو جائیں۔
اعمال میں سب سے پہلے کس چیز کا حساب ہو گا؟ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانےکےمتعلّق فیصلہ کیا جائے گا۔ جبکہ ایک فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہے: سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا۔
حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں:خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اورحقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔
نعمتوں میں پہلے کس کا حساب؟ فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: قیامت میں نعمتوں کے متعلّق بندے سے پہلا سوال جو ہوگا وہ یہ کہ اس سے کہا جائے گا: کیا ہم نے تیرے جسم کو صحت نہیں بخشی اور کیا ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سےسیرنہیں کیا؟ حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں:یعنی دوسری نعمتوں کے مقابلہ میں ان نعمتوں کا حساب پہلے ہوگا۔
حساب سے جلد نجات پانے والا سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اے لوگو! بے شک بروز قیامت اس کی دہشتوں (یعنی گھبراہٹوں ) اور حساب کتاب سے جلد نجات پانے والا شخص وہ ہو گا جس نے تم میں سے مجھ پر دُنیا کے اندر بکثرت درود شریف پڑھے ہوں گے۔
بلا حساب جنّت میں داخلہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری اُمّت سے 70 ہزار بےحساب جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کے طفیل میں ہر ایک کے ساتھ ۷۰ ہزار اور اللہ کریم ان کے ساتھ تین جماعتیں اور کردے گا، معلوم نہیں ہر جماعت میں کتنے ہوں گے، اس کا شمار وہی جانے۔
No comments:
Post a Comment