Tuesday, August 20, 2019

abdullah shah ghazi R.A[حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ]

abdullah shah ghazi R.A[حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ]

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ


حضرت عبد اﷲ شاہ غازی ۹۸ھ میں حضرت محمد نفس ذکیہ کے گھر مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کاسلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضرت علی کرم اﷲوجہہ الکریم سے جاملتا ہے ۔آپ حسنی وحسینی سادات میں سے ہے آپ کا شجرہ نسب حسنی میں ابو محمد عبد اﷲالاشتربن سید محمد نفس ذکیہ بن سید محمد عبد اﷲبن سیدنا امام حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سید ناعلی مرتضیٰ کرم اﷲوجہہ الکریم اورماں کی جانب حسینی ہے حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت حضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کانکاح حضرت امام حسن مثنیٰ سے ہواتھا ۔آپ حضرت امام موسیٰ کاظم سے عمر میں تین سال بڑے اور اما م جعفر صادق سے عمر میں پندرہ سال چھوٹے تھے ،تلوار چلانے اور اونٹ سواری میں آپ کاثانی نہیں تھا اس لئے آپ کو الاشتر یعنی اچھا اونٹ چلانے والا جو کہ آپ کے نام کاجز بن گیا ۔عبد اللہ شاہ غازی کی کنیت ابو محمد اور لقب العشتر ہے۔آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے والد کے زیر سایہ ہوئی آپ علم حدیث میں مہا رت رکھتے تھے اس لیے آپ کا محدثین میں بھی شمار کیا گیا۔آپ ’’میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں ‘‘کے خانوادے کے روشن چراغ تھے آپ میں علم کے جو ہر موجو د تھے آپ علم کی تابانیوں سے عرش تافرش بقعہ نو ر تھے۔آپ کا تابعی ہونا بھی ممکنات میں سے ہے آپ کے زمانے میں کئی صحابہ کرام روئے زمین پر موجود اپنے علم کے نور بکھیر رہے تھے ۔

سندھ آمد: بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہو چکی تھی جب ۱۳۸ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضرت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ ابن کثیر نے تاریخ الکامل’ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔
آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کو اپنے درمیان پا کر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ ۱۴۵ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں ۱۵ رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ ۲۵ ذیقعد (۱۴فروری ۷۶۳ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔
گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت’ عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔

سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت’ اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ شاہ غازی شکار کی غرض سے جنگلوں میں جارہے تھے تو فوجوں نے اُن سے اچانک لڑائی شروع کردی۔ اچانک کسی ظالم کی تلوار آپ کے سرِمبارک پر لگی جس سے زخمی ہوکر گر پڑے ، اسی اثنا میں آپ کے ساتھیوں کے حملے سے مخالف افواج بھاگنے پر مجبور ہوگئیں۔ جب آپ کے ساتھی آپ کے قریب پہنچے تو آپ جام شہادت نو ش کرچکے ۔یہ ۲۰ ذوالحج ۱۵۱ ھ کا دن تھا ۔
حضرت عبدللہ شاہ غازی کی سب سے بڑی کرامت سمندر کے قریب مزار کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ ہے جو آپ کی چلہ گاہ میں بھی موجود ہے۔ لوگ دور دور سے آتے ہیں اور یہ پانی پی کر شفا یاب ہوتے ہیں۔ آپ کے مزار پر آنے والے زائرین میں ہر مذہب کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ زائرین کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں آکر دل کو تقویت ملتی ہے اور مرادیں پوری ہوتی ہیں۔آپ کا عرس مبارک ہر سال ماہ ذوالحجہ کی ۲۰,۲۱,۲۲تاریخ کو بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔

islamic events © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...