قناعت
انسانی خواہشات سمندر سے زیادہ گہری اور زمین و آسمان سے زیادہ وُسعت رکھتی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خواہشات کی تَلاطُم خیز موجوں کے آگے”قَناعَت کابند“ باندھ کر پرسُکون زندگی گزارتے ہیں۔ قناعت اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ایک بہت پیاری صِفَت ہونے کے ساتھ اطمینان، راحت، صبْر اور تسلّی کا سرچشمہ ہےکیونکہ قناعت اختیارکرنے والا خواہشات کی تکمیل اور زیادہ کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے صبر کے دامن میں پناہ لے کر سُکون کی دولت پا لیتا ہے، جبکہ قناعت سے منہ موڑنے والانفس کا غلام بن کر ہمیشہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے کیونکہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو دوسروں کی محتاجی سے بے نِیاز کر دیتا ہے۔
قناعت کیا ہے؟ خدا کی تقسیم پر راضی رہنایا جو کچھ ہو اُسی پر اِکتفا کرنا قناعت ہے۔یادرہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے بیٹھے رہنا قناعت نہیں بلکہ کوشش کے بعد ملنے والی روزی کو کافی سمجھنا قناعت ہے۔ فرامینِ مصطفےٰ ﷺخوشخبری ہے اس کیلئے جو اسلام لایا اور اسے بقدرِ کفایت روزی دی گئی اور اس نے اس پر قناعت کی(ترمذی)۔ مؤمنوں میں سے بہترین وہ ہے جو قناعت کرنے والا ہے(فردوس الاخبار) ۔
قناعت خُود داری پیدا کرنے، زندگی پُرسکون بنانے کے ساتھ بندے کو اللہ پاک اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسَّلام کی رضا کا حق دار بناتی ہے۔ نیز قناعت ہی حرص کی آلودَگی اور لالچ کے جال سے بچنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ حضرت سیّدنا ابراہیم مارستانی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کا فرمان ہے: جس طرح تم قصاص کے ذریعے دشمن سے انتقام لیتے ہو اسی طرح قناعت کے ذریعے اپنی حرص سے انتقام لو۔
بزرگانِ دین قناعت اپنا کر اپنی خود داری پر آنچ نہ آنے دیتے جیسا کہ امام خلیل نَحوِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے بارے میں منقول ہےکہ حاکمِ وقت نےاپنے بچوں کی تربیت کیلئے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس قاصِد بھیجاتو آپ نے خُشک روٹی نکالی اور قاصد کو دکھا کر فرمایا: جب تک یہ روٹی کا ٹکڑا مُیَسَّر ہے، مجھے (حاکم ِوقت)سلیمان بن عبدالملک سے کوئی حاجت نہیں۔
آج ہم قناعت سے دُور ہوتے جارہے ہیں، شایداسی لئے ہماری اکثریت تنگیِ رِزْق کی شکایت کرتی نظر آتی ہے ، قناعت تنگدستی کے بَھنْوَر میں خود کو سنبھالے رکھنے کا بہترین سہارا ہے۔ اسی طرح مُعاشَرے میں رشوت، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کا بڑھتاہوا رُجحان بھی قناعت سے دُوری کی چُغلی کھا رہا ہے۔غربت، اِفلاس اور بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی اور خُودسوزی کے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ہیں، معاشرے کی اس بدترین صورت کی بہت بڑی وجہ قناعت کوعملاً نہ اپنانا بھی ہے۔ جب زندگی چنددنوں کی ہے، دنیا کی کسی شے کو بَقا (یعنی دنیا کی کوئی شے ہمیشہ رہنے والی) نہیں ہے، ایسے میں قناعت کو چھوڑ کر حرص و طَمَع میں پریشان رہناعقل مندی نہیں ہے اور نہ ہی سعادت مندی۔ اس لئے قناعت کو اپنا شَیوَہ (یعنی اصول) بنائیے، ایسا کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سکون و اطمینان کے ساتھ سعادت مندی آپ کااستقبال کرے گی۔
No comments:
Post a Comment