Tuesday, December 31, 2019

shart[شرط ]

shart[شرط ]

شرط


لُڈو، کیرم، بلیرڈ، تاش وغیرہ کی ناجائز و حرام شرطوں میں توانسان مال ہارتا ہے لیکن خطرناک شرطوں میں اپنی جان بھی ہارجاتا ہے جیسے گہرے اور تیز دریا کو تیر کر پار کرنے کی شرط،شیر، چیتے، ریچھ اور مگرمچھ جیسے خونخوار جانوروں کے قریب جانے، انہیں ہاتھ لگانے ،خوفناک ویرانے میں تنہارات گزارنے ،اونچی بلڈنگوں کے کنارے پر بغیر سہارے کھڑے ہونے ،پہاڑوں کی خطرناک چوٹیوں پر پُر خطر انداز سے کھڑے ہونے ،غیر ہموار ڈھلوان والے بلند پہاڑ سے بھاگتے ہوئے نیچے اُترنے کی شرط ،زہریلے سانپ کو ہاتھ میں پکڑنے کی شرط ،چلتی گاڑی سے چھلانگ لگانے کی شرط ،کسی کے سر پر سیب وغیرہ رکھ کر اصل پسٹل کی گولی سے سیب کو نشانہ بنانے کی شرط ،گہری آبشاروں میں چھلانگ لگانے ،خون جمادینے والی سردی میں گرم لباس کے بغیر برف باری یا ٹھنڈے ٹھار پانی میں بیٹھ جانے ،تیزرفتار ٹرین کے سامنے زیادہ دیر تک کھڑے رہنے ،بغیر بریک لگائے رَش والی سڑکوں پر موٹر سائیکل ریس لگانے ،زیادہ دیر تک بائیک کا اگلا پہیہ اُٹھا کر وَن وِیلنگ کرنے جیسی خطرناک شرطیں اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں، اس قسم کی شرطوں سے دُور رہنا چاہئے۔
بِلامَصلَحتِ شرعی جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت پر پیش کرنا گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ پارہ ۲سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۹۵ میں ارشاد ہوتا ہے:( وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔

انسان کے کردار پر جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں ان میں سے صحبت بھی ہے، انسان اگر کاروباری لوگوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے گا تو وہ کاروبار کے بارے میں زیادہ سوچنا شروع کردے گا، کھلاڑیوں کے ساتھ رہے گا تو کھیلوں کا شوقین بنے گا، عبادت گزار پرہیز گار لوگوں میں بیٹھے گا تو اس کی زندگی بھی انہی کے رنگ میں رنگ جائے گی، صحبت کے اثرات کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں بیان فرمایا ہے:اچّھے اور بُرے مصاحب (ساتھی) کی مثال، مُشک اُٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے، کستوری اٹھانے والا تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خریدو گے یا تمہیں اس سے عمدہ خوشبو آئے گی، جبکہ بھٹی جھونکنے والا یا تمہارے کپڑے جلائے گا یا تمہیں اس سے ناگوار بُو آئے گی(مسلم)۔
ہمیں چاہئے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے انجام پر غور کرلیں، خاص کرحد سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہوکر خطرناک کاموں کے حوالے سے کسی کے چکر میں نہ آئیں۔ ربِّ کریم ہمیں نیک اور پرہیزگار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اے کاش!ہمیں نیکیوں میں ایک دُوسرے کامقابلہ کرنے کی سوچ نصیب ہو جائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Monday, December 30, 2019

wahi[وَحی]

wahi[وَحی]

وَحی


وَحی کسے کہتے ہیں لُغَت کے مطابق وَحی کا معنی خفیہ طریقے سے خبر دینا، اشارہ کرنا، پیغام دینا وغیرہ ہے جبکہ شریعت کی اِصطلاح میں انبیائے کرام علیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام پر اللہ پاک کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو ”وَحی“ کہتے ہیں۔
وَحی کی اقسام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے حق میں وحی کی تین قسمیں ہیں: (۱)فرشتے کے واسطے کے بغیر براہِ راست اللہ کریم کا کلام سننا جیسے کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے جبکہ شبِ معراج ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سنا (۲)فرشتے کے واسطے سے اللہ کا پیغام آنا (۳)انبیا کے دل میں کسی بات کا ڈالا جانا۔
نزولِ وَحی کی سات صورتیں وحی کی یہ تین قسمیں سات صورتوں میں پائی جاتی ہیں:۔

۔(۱)خواب میں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السَّلام کو خواب میں حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کی قربانی کا حکم ہوا۔
۔(۲)دل میں کوئی بات ڈالی جائے۔
۔(۳)گھنٹی کی آواز کی صورت میں وحی آئے۔ وحی کی یہ قسم نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب سے زیادہ بھاری تھی کیونکہ اس میں آپ پر اس طرح وحی کی جاتی تھی جیسے فرشتوں پر کی جاتی ہے۔
۔(۴)فرشتہ کسی معروف یا غیر معروف مرد کی شکل میں آکر اللہ پاک کا کلام پیش کرے، جیسے حضرت جبریل علیہ السَّلام اَعرابی (دیہاتی) کی صورت میں حاضر ہوئے اور حضرت دِحْیہ کَلْبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں بھی حاضر ہوتے تھے۔

۔(۵)جبریل امین علیہ السّلام اپنی اصل شکل میں حاضرِ خدمت ہوں کہ ان کے ٦۰۰بازو ہیں جن سے یاقُوت اور موتی جھڑتے ہیں۔
۔(٦)حضرت اسرافیل علیہ السَّلام وحی لے کر حاضر ہوں، جیسا کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ابتداءً تین سال حضرت اسرافیل علیہ السَّلام وحی لانے پر مُقرّر تھے، پھر یہ خدمت جبریلِ امین علیہ السَّلام کے سِپُرْد ہوئی اور انہی کے ذریعے پورا قراٰنِ کریم نازل ہوا۔
۔(۷)انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پردے کے پیچھے سے یا بلاپردہ اللہ پاک کا کلام سنیں۔ یہ سننا چاہے بیداری میں ہو جیسے شبِ معراج حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اور کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے سنا، چاہے خواب میں ہو جیسے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےسنا۔

islamic events © 2019,

Saturday, December 28, 2019

New Year Night[نیو ائیر نائٹ]

New Year Night[نیو ائیر نائٹ]

نیو ائیر نائٹ


ہجری سال کا آغاز محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے جبکہ عیسوی سال کی ابتدایکم جنوری کوہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ غُروبِ آفتاب کے وقت تبدیل ہوتی ہے اور عیسوی تاریخ نصف شب یعنی رات۱۲بجے۔دنیا بھر میں ایک غلط روایت فروغ پاچکی ہے وہ یہ کہ ۳۱ دسمبرکی شب’’ نیو ائیر نائٹ ‘‘منانے کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے،بالخصوص نوجوان تو کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، رقص وسُرُود کی ہوش رُبامحفلیں بڑے اہتمام کے ساتھ سجائی جاتی ہیں،جہاںمَعَاذَاللہ شراب اورمختلف طرح کے نشوں اورجُوئے کا انتظام ہوتا ہے ، رات کے ۱۲ بجتے ہی کروڑوں روپے آتش بازی میں جھونک دئیے جاتے ہیں ،ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، منچلے نوجوان موٹر سائیکلوں سے سائلنسر نکال کر، کاروں میں لگے ہوئے ڈیک پر کان پھاڑ آواز میں گانے چلا کر ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پراُودَھم مچاتے اور لوگوں کا سکون برباد کرتے ہیں،کئی نوجوان وَن ویلنگ کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔افسوس !اس اُمّت کے کروڑوں روپے صِرف ایک رات میں ضائع ہوجاتے ہیں،خوشیاں منانے کے نام پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرکے اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ مزید بھاری کیا جاتا ہے ۔اس رات میں کئی لوگ زہریلی شراب، ہوائی فائرنگ،ایکسیڈنٹ اور آگ میں جُھلس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ہرسال یکم جنوری کو شائع ہونے والی خبروں میں نیوائیرنائٹ میں ہونے والے نقصانات کی جھلکیاں بھی شامل ہوتی ہیں ۔

اب رہایہ سُوال کہ یہ سب کچھ نہ کریں تو ہم نیاسال کس طرح منائیں تو اس کا انداز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر اسلامی اور عیسوی سال کی آمد پر ایک دوسرے کو دعائےخیر دیں کہ آنے والا سال آپ کے لئے بابرکت ہو، اپنا محاسبہ کریں کہ نیکیوں میں اضافہ ہوا یا گناہوں میں؟ ہم کون کونسی بُری عادتوں کو ترک کرنے میں ناکام رہے اور کن نیکیوں کی عادت نہ بناسکے؟کیا کسی کو نیکی کے راستے پر چلنے کی ترغیب بھی دی ؟اس موقع پر اپنا محاسبہ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی کا مزید ایک سال کم ہوگیا ہے ،ہم اچھے یا بُرے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس موقع پر سچی توبہ کرکے آئندہ سال کے حوالے سے اچھی اچھی نیتیں کرلی جائیں کہ میں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّو صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی والے کاموں سے بچوں گا اور ان کو راضی کرنے والے کام کروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ

islamic events © 2019,

Thursday, December 26, 2019

jamadil awwal[جُمَادَی الْاُوْلٰی]

jamadil awwal[جُمَادَی الْاُوْلٰی]

جُمَادَی الْاُوْلٰی


جُمَادَی الْاُوْلٰی اسلامی سال کاپانچواں قمری مہینہ ہے ۔یہ نہایت بزرگ اورفضیلت والامہینہ ہے ۔یہ مہینہ عربی زبان کے دولفظوں ’’جمادی‘‘اور’’الاولیٰ‘‘سے مرکب اوران دوالفاظ کامجموعہ ہے۔جمادی کے معنی جم جانا،خشک ہوناعربی میں عین’‘ جمادی اس آنکھ کوکہاجاتاہے جس سے آنسونکلنابلکل بندہوچکے ہوں اوراولیٰ پہلی کوکہتے ہیں۔یہ مہینہ ان دنوں میں واقع ہوا۔جن دنوں موسم سرماکی شدت کی وجہ سے پانی جمنے کاآغازہوتاہے۔
مشہورمفسر،محدث ،مورخ حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ نے اہل لغت اورمورخین کے حوالے سے اس مہینے کا’’جُمَادَی الْاُوْلٰی‘‘نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بیان کی ہے جس کوشیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب ’’المشہورفی اسماء الایام والشہور‘‘میں بھی لکھاہے ۔جمادی الاولیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں سخت سردی کی وجہ سے پانی جم جاتاہے ۔

ایک قول ہے کہ ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے تھے ۔(یعنی ٹھیک ہرموسم پرہی ہرمہینہ آتاتھا۔جیسے ہمارے ہاں انگریزی مہینے ہیں)لیکن یہ بات کچھ حجت نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کاحساب چاندپرہے توظاہرہے کہ موسمی حالت ہرماہ اورہرسال یکساں نہیں رہے گی ۔ہاں یہ ممکن ہے کہ اہل عرب نے جس سال اس مہینہ کانام رکھاہواس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیاہواورپانی میں جمودہوگیاہو۔چنانچہ ایک شاعرنے یہی کہاہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتابھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ بھونک لیتاہو۔اس کی جمع جمادیات جیسے حباریٰ یاحباریات۔یہ مذکر،مونث دونوں طرح مستعمل ہے ۔
حضرت اما م غزالی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت مولانا جلال الدین رومی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ماہ جُمَادَی الْاُوْلٰی میں پردہ فرمایا۔اس ماہ میں سورة یونس، سورة واقعہ، سورة آل عمران، سورة مامون، سورة کافرون اور سورةالنصر پڑھنے کا اجر عظیم ہے۔ماہ جُمَادَی الْاُوْلٰی میں قرآنی آیات کی تلاوت کابہت ثواب ہے۔ جُمَادَی الْاُوْلٰی میں بھی درود پاک کا ورد رکھا جائے،نوافل کی ادائیگی ثواب کا موجب ہے۔استغفار با کثرت کیا جائے۔

islamic events © 2019,

Tuesday, December 24, 2019

Syed Muhammad Hassan Qadri Kausar Baba R.A[سید محمد حسن قادری کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ]

Syed Muhammad Hassan Qadri Kausar Baba R.A[سید محمد حسن قادری کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ]

سید محمد حسن قادری کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ


کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کا نام سید حسن قادری کوثر ؒ ہے آپ پیر کوثر ؒ سے مشہور ہیں،آپ ؒ کی کنیت ابو الحسن ہے آپ کا لقب مسیح الملک ہے ۔ سید محمد حسن قادری کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کی ولادت باسعادت کوڈینار کے قریب ویراول شریف(انڈیا)ّ میں ہوئی،آپ ؒ کی والد ماجدہ کا اسمِ گرامی حضرت سیدنا قاسم علی کوثرؒ اور آپ کی والدہ ماجدہ کا اسمِ گرامی حضرت سیدہ صغریٰ ماں صاحبہ ؒ ہے۔
کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ حسنی حسینی سادات ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب غوثِ صمدانی محبوبِ سبحانی قندیلِ نورانی امام زمانی شہباز لامکانی غوثِ اعظم میراں محی الدین سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ کے نورِ نگاہ حضرت سیدنا سیف الدین یحییٰ ؒ کے پوتے سجادہ قدوۃ السا الکین برہانُ لعاشقین سلطان العارفین سیدنا مولانا سید رزق اللہ ثالث محی الدین ؒ سے ملتا ہے۔
کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے اس وقت کی بر گزیدہ ہستیوں سے استفادہ کیا آپ نے اپنے ماموں جان سے روحانی فیض حاصل کیا آپ ؒ شاعر بھی تھے آپ کا تخلص بھی کوثر تھا۔کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ قادری سلسلہ کے جلیل القدر بزرگ و غوث زماں ہیں آپ ہر وقت ذکر و فکر مراقبہ و محاسبہ اور عبادت ریاضت میں مشغول رہتے ۔ اکثر کھانا پینا ترک کر دیتے آستانہ عالیہ قادریہ میں گوشہ نشینی اختیار کرتے اور خلق سے بے نیاز ہو جاتے شروع میں حکمت کرتے جو ورثہ والد ماجد سے عطا ہوا تھا۔

کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ زہدوتقویٰ تحمل و بردباری سخاوت فیاضت عطا و بخششیں قناعت و توکل اور مجاہدات میں یگانہ عصر تھے جو کچھ آتا سب خرچ کر دیتے مسجد میں امامت کیا کرتے تھے اور نماز تہجد با قاعدگی سے ادا کرتے تھے پھر آپ پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی آپ نے ایک روزہ ۲۱ دن کا میمن مسجد میں رکھا ایک کھجور پیشی سے روزہ رکھا اور اسی سے افطار کیا مسجد سے نکلنے پرلوگوں سے کہا میرا گھر کہاں ہے وجدانی کیفیت طاری ہو چکی تھی آپ اپنے آپ کو لوگوں سے چھپانے کی بہت کوشش کرتے تا کہ لوگ آپ سے دور ہو جائیں لیکن عقیدتمند آپ کو ہر قت گھیرے رہتے آپ عشقِ رسول ﷺ میں فنا تھے۔حالتِ سلوک میں مرید بنایا کرتے تھے مریدوں کو بارہ نفل پڑھنے کو کہتے نفل نماز پر اکثر زور دیتے۔اکثر فرماتے میں وکیل ہوں میرا کام پلِ صراط سے پار کروانا ہے۔
Syed Muhammad Hassan Qadri Kausar Baba R.A[سید محمد حسن قادری کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ]
سید محمد حسن قادری کوثر بابا رحمۃاللہ تعالٰی علیہ۲٦ ربیع الثانی ۱۴۱۱ ھ بروز جمعرات اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے(انا اللہ و انا الیہ راجعون)۔ آپ کی نمازِ جنازہ ککری گراؤنڈ محمد علی پارک میٹھادر میں علامہ قاری مفتی رضاء المصطفےٰ اعظمی نے ادا کی۔

islamic events © 2019,

Friday, December 20, 2019

Hazrat Shah Rukne Alam R.A[حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

Hazrat Shah Rukne Alam R.A[حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]

حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


سلسلۂ سہروردیہ کے عظیم پیشوا، قطبُ الاقطاب ، منبعِ جود و کرم، حضرت رکنِ عالم ابوالفتح شاہ رکنُ الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت ۹ رمضانُ المبارک ٦۴۹ھ بروز جمعۃ ُ المبارک مدینۃُ الاولیاء ملتان (پاکستان )میں ہوئی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان شیخ الاسلام حضرت بہاءُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کا نام” رکنُ الدین“ رکھا۔حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس گھر انے میں آنکھ کھولی وہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عبادت و ریاضت، والدِ ماجد حضرت صدرُالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا زہد وتقویٰ اوروالدۂ ماجدہ بی بی راستی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھا کی شب بیداریوں کے حسین مناظرتھے۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ طہارت وپاکیزگی کاخاص خیال فرماتی تھیں۔ جب بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دودھ پلاتیں تو پہلے وضو فرماتیں، چونکہ حافظۂ قرآن تھیں اور روزانہ ایک قرآن ختم کرنے کا معمول تھا اس لئے دودھ پلاتے وقت بھی تلاوت ِ قرآن پاک فرماتی رہتیں،اگراس دوران اذان ہوتی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دودھ پینا چھوڑ دیتے اور غور سے اذان سنتے۔ حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدۂ ماجدہ نے گھر میں سب خادِماؤں کو حکم دے رکھا تھا کہ بچے کو سوائے اسمِ جلالت (اللہ)کےکسی اور لفظ کی تلقین نہ کریں اور نہ ہی ان کی موجودگی میں کو ئی دوسرا لفظ بولیں اس اِحتیاط کانتیجہ یہ نکلا کہ آپ نےاپنی زبان مبارک سےجو پہلا لفظ نکالا وہ اسمِ جلالت ’’اللہ‘‘ ہی تھا۔

شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ظاہری تعلیم و تربیت آپ کے والدِ ماجدشیخ صدرُ الدین عارِف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اور باطنی تربیت جدِّ امجد حضرت سیّدنابہاء ُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمائی۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت بہاءُ الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بِسْمِ اللہ شریف پڑھائی اوروالدِ بزرگوار شاہ صدرُالدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ کو قرآنِ پاک حفظ کروانا شروع کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا معمول تھا کہ قرآن شریف کا پاؤ پارہ تین مرتبہ پڑھتے تو وہ آپ کو زبانی یاد ہو جاتا۔ حفظِ قرآن کےبعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے علمِ دین حاصل کرنا شروع کیا اور صرف ۱٦ سال کی عمر میں تمام مُرَوّجہ عُلُوم سے فراغت حاصل فرمائی اور تفسیر و حدیث،فقہ و بیان ،ادب و شعر اور ریاضی و منطق وغیرہ میں کمال پیدا کر لیا ۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے والدِ ماجد اور دادا جان کو بےحد پىارے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی ان دونوں بزرگوں کابےحد احترام فرماتے تھے ۔ان دونوں ہستیوں کا فیضان تھا کہ آپ کی ذات سے نو عمری ہی میں روحانیت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عبادت و ریاضت، تقویٰ و پرہیزگاری، تواضع، شفقت،حلم، عفو، حىا، وقار وغیرہ جملہ صفات میں کمال حاصل کیا۔

ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت شيخ بہاءُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی دَستار مبارک (پگڑی) اتار کر چارپائی پر رکھی ہوئی تھی۔ حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (جن کی عمر اس وقت چار سال تھی) نے دادا جا ن کی دستار مبارک اُٹھا کر اپنےسر پر رکھ لی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد صاحب قریب ہی بیٹھے تھے،انھوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ڈانٹا تو حضرت بہاءُالدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اسے کچھ نہ کہو، کیونکہ یہ اس کا حقدار ہے، میں نے یہ دستار اسے عطا کر دی۔ چنانچہ یہ دستار شریف اسی طرح بندھی ہوئی صندوق میں محفوظ کردی گئی ۔جب حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سجادہ نشین ہوئے تو یہی دستار مبارک سر پر سجائی اور وہ خرقہ زیبِ تن فرمایا جو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دادا جان حضرت شیخ بہاءُ الدِین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو حضرت سیّدنا شیخ شہابُ الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عطا فرمایا تھا۔
حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنےوالدِ ماجد شیخ صدرُ الدین عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اورجدِّ امجدحضرت شیخ بہاءُ الدین زکریا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےحقیقی جانشین تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۵۲ سال تک نیکی کی دعوت عام کی اور مریدین و محبین کو راہِ حق دکھائی۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دستِ مبارک پر بے شمار مخلوق نے بیعت کی اور آپ کی نظر ِولایت سے درجاتِ کمال تک پہنچی۔ آپ کے نیک بخت خلفا اپنے وقت کے بڑے بڑے اصفیا و اتقیا ہوئے۔

حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مبارک زبان سے ادا ہونے والے ملفوظات میں سے چند ملاحظہ فرمائیے:انسان جب تک بری عادات کو چھوڑ نہىں دیتا اس کا شمار جانوروں اور درندوں مىں ہوتا ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فضل و کرم جب تک دست گىرى نہ کرے اس وقت تک دلوں کی صفائی نا ممکن ہے۔انسان کو اپنے عیب نظر آنا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی نشانی ہے ۔انسان کو چاہئے کہ اپنے اعضاء پر ایسا قابو رکھے کہ وہ ممنوعات ِ شرعی سے قولاً و فعلاًباز رہیں ۔بیہودہ مجلس سے بھی اجتناب کرے،اس سے مراد ایسی مجلس ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے توڑ کر دنیا کی طرف مائل کرتی ہے ،بطَّالوں سے بھی احتراز کرے ،بطَّال وہ لوگ ہیں جو طالبِ دنیا ہیں ۔
Hazrat Shah Rukne Alam R.A[حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ]
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ۷جُمادَى الاولىٰ ۷۳۵ھ بروز منگل سجدے کی حالت میں ہوا۔ حضرت شاہ رکنِ عالم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کامزارمبارک غیاث الدین تغلق کے بنائے گئے مقبرے میں زیارت گاہ خاص وعام ہے۔اس کی عمارت بہت خوبصورت اورمدینۃ الاولیاء(ملتان) کی پہچان ہے۔

islamic events © 2019,

Wednesday, December 18, 2019

Hazrat Syed Qutb E Alam Shah Bukhari R.A[ حضرت سیّد قطب عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ]

Hazrat Syed Qutb E Alam Shah Bukhari R.A[ حضرت سیّد قطب عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ]

حضرت سیّد قطب عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


حضرت سیّد قطب عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بڑے فیاض ، سخی ، صاحب تصرف اور ولی کامل تھے آج بھی آپ کے مزار پر جانے والے متذکرہ بالا اوصاف کی تصدیق کرتے ہیں۔ سیّد قطب عالم شاہ بخاریؒ کا اصل نام سیّد عبدالوہاب شاہ اورالقاب، ’پیرِقُطب‘ اور ’عالم شاہ‘ہیں۔عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ۱۳ رجب المرجب ۹۹۹ ہجری کو اُچ شریف ضلع بہاولپور پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم، والدِ گرامی، حامد علی شاہ بخاری سے حاصل کی، جن کا سلسلہء نسب، مخدُوم جہانیاں ”جہاں گشت“ سے جا ملتا ہے۔ ابتدائی بعیّت ۱۷ برس کی عمر میں، سلسلہ ء سہروردیہ میں، والدِ گرامی سے کی اور ۸ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ جب آپ ۲۱ سال کے تھے، تو والدِ گرامی نے آپ کو خرقہ و دستار عطار کی اور اشاعتِ دین کا حکم دیا۔
جس کے بعد عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پیدل حج بیت اﷲکے لئے روانہ ہوئے اور پھر زیارت روضہ رسول ﷺ کے لئے پہنچے تو جاروب کشی اختیار کرلی ، اس دوران زیارت ، روئے اقدس سے فیضیاب ہوئے اور اشاعت دین کی ہدایت ملی ، آپ مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچے اور مزارات بختیار کاکی علیہ الرحمہ ، خواجہ نظام الدین اولیا ء علیہ الرحمہ اور حضرت نصیر الدین روشن دہلی علیہ الرحمہ پرحاضری دی۔ اس دوران احمد آباد گجرات بھی گئے اور اپنے جد امجد سیدنا برہان الدین قطب عالم علیہ الرحمہ کے روضہ اقدس سے اکتساب فیض کیا اور پھر وہاں سے کراچی تشریف لائے۔

کراچی میں ساحلِ سمندر پر آباد ایک چھوٹی سی بستی تھی، جہاں کچھ گھر مچھیروں کے تھے جو ماہی گیری سے گزر اوقات کرتے تھے یہاں ایک قبیلہ روایات کے مطابق ایسا بھی آباد تھا جس کا پیشہ سمندری قزاقی تھا ، بابا عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تبلیغ ، حسن اخلاق اور دعا سے وہ لوگ مسلمان ہوکر توبہ تائب ہوئے ۔ بعد ازاں آپ ساحلِ سمندر سے اْٹھ کر بستی کی طرف نکل گئے، اور اُس وقت کے کلاچی (حال کے ”کراچی“ ) کے موجُودہ ’آرا م باغ‘ کے علاقے میں سکونت پزیر ہوئے۔ بابا عالم شاہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اُس مقام سے چند فرلانگ مغرب میں واقع، اُس میدان میں جاکر قیام فرمایا، جہاں اُس زمانے میں درختوں کا ایک جھنڈ واقع تھا۔
بابا عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اُن کے عقیدتمند ’قطبِ عالم‘ اور ’قطبِ کراچی‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔
Hazrat Syed Qutb E Alam Shah Bukhari R.A[ حضرت سیّد قطب عالم شاہ بخاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ]
آپ نے ۲۵ ربیع الثانی ۱۰۴٦ ہجری میں وفات پائی۔ آپ کا مزار، کراچی میں، موجُودھ ایم اے جناح روڈ پر، عیدگاہ بالمقابل جامع کلاتھ مارکیٹ واقع ہے اور مرجعِ خاص و عام ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مرقد سطحِ زمین سے کم وبیش ۱۰ فٹ نیچے ہے۔

islamic events © 2019,

Friday, December 13, 2019

jabal E uhad[جبلِ اُحُد]

jabal E uhad[جبلِ اُحُد]

جبلِ اُحُد


مدینۂ منوّرہ کے مقدّس پہاڑوں میں سے ایک مبارک و مُحبِّ رسول پہاڑ جبلِ اُحُد ہے جو دور سے دیکھنے میں سرخ رنگ کا معلوم ہوتا ہے۔حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ترجمہ: یہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں(بخاری)۔ اس مَحبَّت کا اسے انعام یہ ملا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اُحُدٌ رُكْنٌ مِنْ اَرْكَانِ الْجَنَّةِ یعنی اُحُد جنّت کے سُتُونوں میں سے ایک ستون ہے(معجمِ کبیر)۔
جبلِ اُحُد کو تاریخِ اسلام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، اس کے دامن میں غزوۂ اُحُد جیسا تاریخی مَعْرِکہ رُونُما ہوا نیز سیّدُالشّہداء حضرت سیّدنا امیرحمزہ اور دیگر شہدائےاُحُد رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین کے مزارات بھی اِسی کے دامن میں ہیں۔ جبلِ اُحُد کی وجۂ تسمیہ اس کا یکتا پَن اور مدینہ کے سلسلہ ہائے کوہسار سے بِالکل علیحدہ ہونا ہے۔ سطحِ سَمُندر سے ۱۰۰ میٹر بلندی پر مدینۂ طیّبہ کے شِمالی جانب شہرِ نَبَوی سے تقریباً ساڑھے۳ کلومیٹر دور واقع ہےاور تقریباً ۵میل کے رقبے میں مشرق سے مغرب تک سیدھا پھیلا ہوا ہے۔

فضائلمدینۃُ الرَّسول سے نسبت کے علاوہ مَحبّتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اس پہاڑ کا ایک خاص وَصْف ہے جو اسے دیگر جمادات (بے جان چیزوں) سے ممتاز کرتا ہے۔حضرت سیّدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، حضرت ابوبکر صدّیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین اُحُد پر تشریف لے گئے تو وہ ہلنےلگا۔ (بخاری) حضرت سيّدنا علّامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی فرماتے ہیں: اس کا جُھومنا فرحت و سُرور(یعنی خوشی) کی وجہ سے تھا۔ حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: جبلِ اُحُد خوشی میں وَجد کرنے اور ہلنے لگا کہ آج مجھ پر ایسے قدم آئے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے مقبول بندے، ولی ساری خَلْقت کے محبوب ہوتے ہیں ان کی تشریف آوری سے سب خوشیاں مناتے ہیں۔
حضرت سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: بے شک اُحُد جنّت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر واقع ہے۔ جب تم اس پر گزرو تواس کے درخت سے کچھ کھالو اگرچہ اس کے کانٹے ہی ہوں۔حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم اُحُد پر آؤ تو اس کے شُہَدا کو سلام کیا کرویہ قِیامت تک سلام کا جواب دیتے رہیں گے۔
اس کے درختوں سے میوہ کھایا جائے اور اگر نہ ملے تو اس کے صحرا کی گھاس ہی بطورِ تَبَرُّک حاصل کرلی جائے کہ حضرت سیّدتنا زینب (زوجۂ حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھما) اپنی اولاد سے کہا کرتی تھیں کہ تم اُحُد پر جاؤ اور میرے لئے وہاں کی جڑی بوٹیاں لایا کرو اور اگر نباتات نہ ہوں تو گھاس ہی لے آیا کرو ۔

islamic events © 2019,

Thursday, December 12, 2019

sardi[سردی]

sardi[سردی]

سردی


موسِمِ سرما اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو کم وقت میں زیادہ نیکیاں کمانے کا سبب ہے۔ ہمارے اَسلاف موسِمِ سرما کی آمد پر خوش ہوتے اور اسے اپنی عبادات میں اِضافہ کا موسِم قرار دیتے تھے۔ سردیوں کے آنے پر تو فرشتے بھی خوش ہوتے ہیں چنانچہ حضرت سیّدُنا قَتادہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:بےشک!فرشتے مؤمنوں کیلئے سردیوں کے آنے پر خوش ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے مؤمن روزہ رکھتا ہے اور رات لمبی ہونے کی وجہ سے قِیام کرتا ہے۔
سردیوں کے دن چھوٹے ہوتے ہیں، موسِم ٹھنڈا رہتا ہے جس کی وجہ سے بھوک و پیاس کا اِحساس کم ہوتا ہے، لہٰذا ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دن کو نفل روزے رکھئے، ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سردی کے روزے ٹھنڈی غنیمت ہیں(ترمذی) ۔ایک اور مقام پر نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اُس کے لئے جنّت میں ایک دَرَخْت لگائے گا جس کا پھل اَنار سے چھوٹا اور سَیب سے بڑا ہوگا وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائِقہ ہوگا، اللہ عَزَّوَجَلَّ بروزِ قیامت روزہ دار کو اس دَرَخْت کا پھل کِھلائے گا(معجمِ کبیر) ۔
جہنّم میں جہاں گرمی کا عذاب ہے وہیں ٹھنڈک کا بھی عذاب ہوگا لہٰذا سخت سردی میں جہنّم کی سردی سے بچنے کی دُعا کیجئے۔فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جب سخت سردی ہوتی ہے تو بندہ کہتا ہے: لَا اِلٰہ اِلَّا اللہُ آج کتنی سخت سردی ہے!”اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنْ زَمْھَرِیْرِ جَھَنَّم۔“یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے جہنّم کی زَمْھَرِیر سے بچا۔ اللہ تعالیٰ جہنّم سے فرماتا ہے: ”میرا بندہ تیری زَمْھَرِیر سے ميری پناہ میں آنا چاہتا ہے اور میں نے تیری زَمْھَرِیر سے اسے پناہ دی۔“صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کی: جہنّم کی زَمْھَرِیر کیا ہے؟ فرمایا:”وہ ایک گڑھا ہے جس میں کافر کو پھینکا جائے گا تو سخت سردی سے اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا“(البدورالسافرۃ)۔

سردی کے موسِم میں بہت سے لوگ اپنی غربت کی وجہ سے گھر والوں اور بال بچّوں کے لئے سردی سے بچاؤ کے لئے گرم لباس وغیرہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، ایسے میں اگر ہم ان کی مدد کر دیں تو اس میں ہمارے لئے اجرو ثواب ہے۔ بلادِ شام میں سے کسی شخص نے خواب میں مشہور تابعی بزرگ حضرت سیّدُنا صفوان بن سلیم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو جنّت میں دیکھا۔ وہ شخص آپ سے ملنے حاضر ہوا اور اپنا خواب بیان کرکے آپ کے عمل کے بارے میں سوال کیا کہ کس عمل کے سبب جنّت میں داخلہ نصیب ہوا؟ فرمایا: اس کا سبب ایک قمیص ہے جو میں نے ایک شخص کو پہنائی تھی۔ لوگوں نے واقعہ پوچھا تو فرمایا: سردی کی ایک رات میں مسجد سے نکلا تو ایک شخص کو دیکھا جس کے پاس سردی سے بچاؤ کے لئے کچھ نہیں ہے، میں نے اپنی قمیص اُتار کر اسے پہنا دی۔
سردی کے موسِم میں اگر بےاحتیاطی کی جائے تو بسا اوقات کھانسی، نزلہ اور بُخار جیسے اَمراض لاحِق ہوجاتے ہیں لہٰذا احتیاطی تدابیر ضَرور اختیار کیجئے، پینے میں نیم گرم پانی کا استعمال کیجئے، چنانچہ حضرت سیّدُنا ابوعبدُاللہ محمد بن مفلح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:جو شخص موسِمِ سرما میں روزانہ ایک گلاس گرم پانی پی لیا کرے وہ بیماریوں سےمَحفوظ رہے گا۔ اسی طرح وُضو و غسل میں گرم پانی استعمال کیجئے، جُرابیں، موزے، سوئیٹر اور گرم لباس کا استعمال کیجئے۔

islamic events © 2019,

Wednesday, December 11, 2019

qanaat[قناعت]

qanaat[قناعت]

قناعت


انسانی خواہشات سمندر سے زیادہ گہری اور زمین و آسمان سے زیادہ وُسعت رکھتی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے خواہشات کی تَلاطُم خیز موجوں کے آگے”قَناعَت کابند“ باندھ کر پرسُکون زندگی گزارتے ہیں۔ قناعت اعلیٰ ترین انسانی صفات میں سے ایک بہت پیاری صِفَت ہونے کے ساتھ اطمینان، راحت، صبْر اور تسلّی کا سرچشمہ ہےکیونکہ قناعت اختیارکرنے والا خواہشات کی تکمیل اور زیادہ کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے صبر کے دامن میں پناہ لے کر سُکون کی دولت پا لیتا ہے، جبکہ قناعت سے منہ موڑنے والانفس کا غلام بن کر ہمیشہ اِدھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے کیونکہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو دوسروں کی محتاجی سے بے نِیاز کر دیتا ہے۔
قناعت کیا ہے؟ خدا کی تقسیم پر راضی رہنایا جو کچھ ہو اُسی پر اِکتفا کرنا قناعت ہے۔یادرہے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے بیٹھے رہنا قناعت نہیں بلکہ کوشش کے بعد ملنے والی روزی کو کافی سمجھنا قناعت ہے۔ فرامینِ مصطفےٰ ﷺخوشخبری ہے اس کیلئے جو اسلام لایا اور اسے بقدرِ کفایت روزی دی گئی اور اس نے اس پر قناعت کی(ترمذی)۔ مؤمنوں میں سے بہترین وہ ہے جو قناعت کرنے والا ہے(فردوس الاخبار) ۔
قناعت خُود داری پیدا کرنے، زندگی پُرسکون بنانے کے ساتھ بندے کو اللہ پاک اور اس کے رسول علیہ الصلوۃ والسَّلام کی رضا کا حق دار بناتی ہے۔ نیز قناعت ہی حرص کی آلودَگی اور لالچ کے جال سے بچنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ حضرت سیّدنا ابراہیم مارستانی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کا فرمان ہے: جس طرح تم قصاص کے ذریعے دشمن سے انتقام لیتے ہو اسی طرح قناعت کے ذریعے اپنی حرص سے انتقام لو۔

بزرگانِ دین قناعت اپنا کر اپنی خود داری پر آنچ نہ آنے دیتے جیسا کہ امام خلیل نَحوِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے بارے میں منقول ہےکہ حاکمِ وقت نےاپنے بچوں کی تربیت کیلئے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس قاصِد بھیجاتو آپ نے خُشک روٹی نکالی اور قاصد کو دکھا کر فرمایا: جب تک یہ روٹی کا ٹکڑا مُیَسَّر ہے، مجھے (حاکم ِوقت)سلیمان بن عبدالملک سے کوئی حاجت نہیں۔
آج ہم قناعت سے دُور ہوتے جارہے ہیں، شایداسی لئے ہماری اکثریت تنگیِ رِزْق کی شکایت کرتی نظر آتی ہے ، قناعت تنگدستی کے بَھنْوَر میں خود کو سنبھالے رکھنے کا بہترین سہارا ہے۔ اسی طرح مُعاشَرے میں رشوت، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کا بڑھتاہوا رُجحان بھی قناعت سے دُوری کی چُغلی کھا رہا ہے۔غربت، اِفلاس اور بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی اور خُودسوزی کے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ہیں، معاشرے کی اس بدترین صورت کی بہت بڑی وجہ قناعت کوعملاً نہ اپنانا بھی ہے۔ جب زندگی چنددنوں کی ہے، دنیا کی کسی شے کو بَقا (یعنی دنیا کی کوئی شے ہمیشہ رہنے والی) نہیں ہے، ایسے میں قناعت کو چھوڑ کر حرص و طَمَع میں پریشان رہناعقل مندی نہیں ہے اور نہ ہی سعادت مندی۔ اس لئے قناعت کو اپنا شَیوَہ (یعنی اصول) بنائیے، ایسا کرنے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سکون و اطمینان کے ساتھ سعادت مندی آپ کااستقبال کرے گی۔

islamic events © 2019,

Monday, December 9, 2019

pukarna[پکارنا]

pukarna[پکارنا]

پکارنا


حضرتِ سیِّدُنا جارِیہ اَنصارِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں: سرکارِ نامدار،دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جب کسی کا نام یاد نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسے’’یَا اِبْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یعنی اے عبد اللّٰہ کے بیٹے !‘‘کہہ کر بلاتےتھے(جمع الجوامع)۔
امام شرفُ الدِّین نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں:جس کا نام معلوم نہ ہو اس کو ایسے لفظ سے پکارنا چاہیے جس سے اسے اَذِیّت نہ ہو،اس میں جھوٹ نہ ہواور نہ ہی خوشامد مثلاً:اے بھائی،اے میرے سردار،اے فُلاں،اے فُلاں کپڑے والے،اے گھوڑے والے،اے اُونٹ والے،اےتلوار والے ، نیزے والے وغیرہ ایسے اَلفاظ جو پکارنے والے اورپکارے جانے والے دونوں کے حسبِ حال ہوں ۔
ہمیں اکثر کسی کو بُلانے،اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اسے پُکارنا ہوتا ہے،چنانچہ مسلمان چاہے وہ ہم سے بڑے ہوں یا چھوٹے،اُن کو پکارنے،ذِکْر کرنے میں اُ ن کے مقام ومرتبے کا خیال رکھا جائے اور اسی مُناسَبت سے اَلفاظ اور اَلقاب کا اِنتخاب کیا جائے،اگر نام معلوم ہو تو حسبِ ضرورت نام بھی لیا جائے مثلاً

عُلَمائے کرام ومفتیانِ عِظام اور قابلِ احتِرام دینی شخصیات سے ہم کلام ہونے اور ان کا تذکرہ کرنے میں بھی ادب واحتِرام کوپیشِ نظر رکھنابہت ضروری ہے، مثلاًیوں کہہ کر مُخاطب کیجئے: ”مُفتی صاحِب !حضرت ! حُضور! جناب!“ وغیرہ۔دینی استاذ رُوحانی باپ ہوتا ہے، اس لئے ان کو بھی تعظیمی انداز سے ”اُستاذِ محترم ،اُستاذجمیل صاحِب ،یَااُسْتَاذِیْ“ کہہ کر پکارنا چاہئے۔سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:عِلْم حاصل کرو اور عِلْم کے لئےاطمینان ووَقار سیکھو اور جس سے عِلْم حاصل کررہے ہو اس کے سامنے عاجِزی واِنکساری اختیار کرو(معجم اوسط)۔
اسلام ایک کامِل واَکمل دین ہے جو ہمیں بُزُرگوں کا اِحترام سکھاتا ہے۔چنانچہ بوڑھوں کو حسبِ رَواج وعُرف عزّت سے پکارنا چاہئے مثلاً بعض علاقوں میں’’بابا جی‘‘،’’بڑے مِیاں‘‘ کہہ کرپکارنا مُرَوَّج ہے ۔اگر دادا، دادی یا نانا ،نانی حیات ہوں تو ان کو دادا حُضور، دادا جان ،دادا جی ، نانا حُضور ، ناناجان، نانا جی وغیرہ کہہ کر پکارنا چاہئے۔ سرکارِ ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:جو نوجوان کسی بزرگ کے سِن رَسِیدہ (یعنی بوڑھے)ہونے کی وجہ سے اس کی عزّت کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لئے کسی کو مُقرّر کردیتا ہے جو اس نوجوان کے بڑھاپے میں اس کی عزّت کرے گا(ترمذی)۔
والِدین کا اِحتِرام کرنا،انہیں عزّت سے پکارنا دونوں جہانوں میں ڈھیروں بھلائیاں پانے کا سبب ہے۔والِد صاحب کو حسبِ موقع اور حسبِ رَواج ”ابّوجی، ابّاحُضور، بابا“ وغیرہ کہہ کر پکارنا چاہئے، دُرِّ مختار میں ہے کہ باپ کو اس کا نام لے کر پکارنا مکروہ ہےاور والِدہ محترمہ کو ”امّی حُضور،امّی جان،امّی جی“ وغیرہ کہہ کر پکارنا چاہئے۔

رشتے دار دو قسم کے ہوتے ہیں،ایک وہ جو عمر میں ہم سے بڑے ہیں اوردوسرے وہ جن کی عمر ہم سے کم ہوتی ہے۔ بڑے رشتے داروں کو پکارنے کے لئے مختلف زبانوں اور علاقوں میں مختلف اَلفاظ اور اَندازرائج ہیں،ان میں سے جو اَدب کے زیادہ قریب اور شریعت کے مطابق ہوں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ انہیں اِختیار کرنا چاہیے۔بعض علاقوں میں ماموں جان،چچّا جان، بھائی جان وغیرہ بولا جاتا ہے حالانکہ وہ حقیقی ماموں،چچا یا بھائی نہیں ہوتے۔کم عمر رشتے داروں مثلاًچھوٹے بھائی بہن،بھانجے، بھتیجے نیز اپنی اولاد سے گُفتگو اور انہیں پکارنے میں شفقت سے بھرپور اورمُہذَّب انداز اَپنانا اور’’ آپ جناب‘‘سے بات کرنا نہ صِرف بات کرنے والے کی شخصیّت کی عکّاسی کرتا ہے بلکہ یہ اَنداز بچّوں کی تربیت میں بھی مُعاوِن ثابِت ہوتا ہے کیونکہ بچے عُمُوماً بڑوں کے اَقوال و اَفعال سے اثر لیتے اور ان کی نقّالی کرتے ہیں۔
بیوی اپنے شوہر کو، شوہر بھی اپنے بیوی کو جو اَنداز زیادہ مُہذَّب ہو وہ اختیار کرے۔ عورت کو یہ مکروہ ہے کہ شوہر کو نام لے کر پکارے۔ بعض جاہلوں میں یہ مشہور ہے کہ عورت اگر شوہر کا نام لے لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، یہ غلط ہے۔شاید اسے اس لئے گڑھا ہو کہ اس ڈر سے کہ طلاق ہو جائے گی شوہر کا نام نہ لے گی۔
خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں۔(پ۲٦،الحجرات:۱۰) دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا مسلمان چاہے اس سے ہماری کوئی واقفیت یا رشتے داری نہ ہو لیکن مسلمان ہونے کے باعِث وہ ہمارا اسلامی بھائی ہے لہٰذا اسے پُکارتے اور اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے نام کے ساتھ ’’بھائی‘‘ کہنا مُناسِب ہے۔ہونٹوں سے’’شِش شی‘‘ کی آواز نکال کر،’’اوئے، اَبے‘‘ کہہ کر کسی کو بُلانا یا مُتَوَجِّہ کرنا اچّھا انداز نہیں۔

islamic events © 2019,

Saturday, December 7, 2019

hazrat muhammad shah dulha sabzwari bukhari R.A[حضرت محمد شاہ دولہا سبزواری بخاری رحمۃ اللہ علیہ]

hazrat muhammad shah dulha sabzwari bukhari R.A[حضرت محمد شاہ دولہا سبزواری بخاری رحمۃ اللہ علیہ]

حضرت محمد شاہ دولہا سبزواری بخاری رحمۃ اللہ علیہ


حضرت محمد شاہ دولہا سبزواری بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسمِ گرامی محمد شاہ تھا اور آپ کا سلسلۂ نسب سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتاہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا آبائی وطن بخارا ہےمحمد شاہ دولہا سبزواری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دینی تعلیم بخارا میں حاصل کی۔ صدیوں پہلے سندھ کی دھرتی پر آنے والے بزرگوں میں ایک شخصیت آپکی ہے۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اسلام کی تبلیغ کی خاطر وطن سے "سبزوار" علاقے کا قصد فرمایا اور یہاں پہنچنے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔
محمد شاہ دولہا سبزواری رحمۃ اللہ علیہ کے دوست حق پرکئی ہزار کافر دولت اسلام سے سرفراز ہوئے۔سبزوار سے آپ نے ہندکا قصد فرمایا اور کئی علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے سندھ میں تشریف لائے اور کراچی کے علاقے کھارا در میں مستقل قیام فرمایا اور کھارا در میں جہاں آپ کا مزار ہے وہیں ایک جھونپڑی میں مشغول عبادت رہے، درگاہ شریف کے برابر میں موجود ہ مسجد حیدری جو آج بھی قائم ہے ، اس کی بنیاد آپ نے اپنے دست مبار ک سے رکھی۔
اس زمانے میں آج کل کی طرح لمبی لمبی سڑکیں اور بلند و بالا عمارتیں نہ تھیں بلکہ وہاں لیاری ندی بہتی تھی اور سندھی زبان میں کنارہ کو ‘‘کندی’’ کہتے ہیں ۔ اور آپ نے اس ندی کے کنارے اپنا قیام فرمایا اس لیے آپ کو کندی والا بخاری کے نام سے بھی یاد کرنے لگے اور آج بھی آپ کا مزار اس نام سے مشہور ہے۔

محمد شاہ دولہا سبزواری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے کوئی سائل خالی نہیں جاتا اگر نیت صاف تو اپنے دامن کو مرادوں سے بھر کر لے جاتا ہے۔دنیاوی کوئی پریشانی ہو چاہے کاروباری،گھریلو،ذہنی یہاں آکر ان کے وسیلہ سے دعا کرنے پر جلد قبولیت کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔جسکے دل میں حج بیت اللہ کی خواہش ہو یہاں آکر دعا مانگنے پر اللہ کی رحمت سے اسے یہ سعادت عطا کر دی جاتی ہے۔
hazrat muhammad shah dulha sabzwari bukhari R.A[حضرت محمد شاہ دولہا سبزواری بخاری رحمۃ اللہ علیہ]
دولہا شاہ سبزواری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ۱۷ ربیع الثانی ۷۰۱ ھ بعد نماز ظہر کراچی میں ہوا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دور کے بزرگوں میں حضرت سید یوسف شاہ علیہ الرحمۃ (منوڑا) حضرت حاجی غائب شاہ (کیماڑی) حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ الرحمہ (کلفٹن) وغیرہ تھے۔ اور ان بزرگوں نے بھی کراچی میں سمندر کے کنارے پر قیام کرنا پسند فرمایا۔ اور اپنی آخری آرام گاہ بھی کراچی کو پسند فرمایا ۔ حضرت سید محمدشاہ دولہا سبزواری کندی وال بخاری علیہ الرحمہ کے قرب میں آپ کے خلیفہ اوراولاد کے مزارات بھی موجود ہیں ان کابھی انہی دنوں عرس منایا جاتا ہے۔ انہیں پنج مزار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

islamic events © 2019,

Friday, December 6, 2019

Hazrat Sayyiduna Khwaja Nizamuddin Auliya R.A[ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Hazrat Sayyiduna Khwaja Nizamuddin Auliya R.A[ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


سرزمینِ ہند پر اللّٰہ تعالٰی نے جن اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کو پیدا فرمایا اُن میں سے ایک سِلسِلۂ چشتیہ کے عظیم پیشوا اور مشہور ولیُ اللہ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بھی ہیں۔
حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام محمد اور اَلقابات شیخ المشائخ، سلطانُ المشائخ، نِظامُ الدّین اور محبوبِ اِلٰہی ہیں، آپ نَجیبُ الطَّرَفَیْن (یعنی والد اور والدہ دونوں کی طرف سے) سیّد ہیں، آپ کی ولادت ۲۷صفر المظفر ٦۳۴ھ بدھ کے روز یُوپی ہند کے شہر بدایوں میں ہوئی، والد حضرت سیّد احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مادَرزاد (پیدائشی) ولی تھے، والدہ بی بی زُلیخا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا بھی اللہ کی ولیہ تھیں۔
ناظرہ قراٰنِ پاک و ابتدائی تعلیم اپنے محلّے سے ہی حاصل کی، پھر بدایوں کے مشہور عالمِ دِین مولانا علاءُ الدِّین اُصُولی علیہ رحمۃ اللہ الوَ لی سے بعض عُلُوم کی تکمیل کی اور انہوں نے ہی آپ کو دستار باندھی، بعداَزاں بدایوں و دِہلی کے ماہرینِ فن عُلَما اور اَساتذہ کی درسگاہوں میں تمام مُرَوَّجَہ عُلوم و فنون کی تحصیل کی۔

مختلف مَقامات اور شُیوخ سے عُلوم و مَعرِفَت کی مَنازِل طے کرتے ہوئے آپ حضرت سیّدنا بابا فریدُالدِّین مسعود گنج شکر علیہ رحمۃُ اللہِ الاکبر کی بارگاہ میں پہنچے اور پھر اِسی دَر کے غلام و مُرید ہوگئے، جب رُوحانی تربیَت کی تکمیل ہوئی تو پیر و مُرشد نے خلافت سے نوازا۔
حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی پوری زندگی طلبِ علم، عبادت و رِیاضت، مُجاہَدہ اور لوگوں کی تربیت و اِصلاح میں گزار دی، آپ نہایت متقی، سخی، اِیثار کرنے والے، دِل جوئی کرنے والے، عَفْوودَر گزر سے کام لینے والے، حلیم و بُردبار، حُسنِ سُلوک کے پیکر اور تارِکِ دُنیا تھے۔ منقول ہے کہ چھجونامی ایک شخص کو خواہ مخواہ آپ سے عَداوت (یعنی دشمنی) تھی،وہ بلا وجہ آپ کی برائیاں کرتارہتا، اس کے اِنتقال کے بعد آپ اس کے جنازے میں تشریف لے گئے، بعدِ دفن یوں دعا کی:یااللہ!اس شخص نے جو کچھ بھی مجھے کہا یا میرے ساتھ کیا ہے میں نے اس کو معاف کیا، میرے سبب سے تُو اس کو عذاب نہ فرمانا۔

حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاءرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ایک مشہور کرامَت یہ ہے کہ ایک دن آپ کے کسی مُرید نے محفل مُنعقد کی، جس میں ہزاروں لوگ اُمنڈ آئے جبکہ کھانا پچاس ساٹھ افراد سے زائد کا نہ تھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خادِمِ خاص سے فرمایا: لوگوں کے ہاتھ دُھلواؤ، دَس دَس کے حلقے بناکر بٹھاؤ، ہر روٹی کے چار ٹکڑے کرکے دَستر خوان پر رکھو، بِسْمِ اللہ پڑھ کر شروع کرو۔ ایسا ہی کیا گیا تو نہ صرف ہزاروں لوگ اُسی کھانے سے سَیر ہوگئے بلکہ کچھ کھانا بچ بھی گیا۔
چندملفوظات:کچھ مِلے تو جمع نہ کرو، نہ مِلے تو فکر نہ کرو کہ خدا ضرور دے گا۔ کسی کی بُرائی نہ کرو۔ (بلا ضرورت) قرض نہ لو۔ جَفا (ظلم)کے بدلے عطا کرو، ایسا کرو گے تو بادشاہ تمہارے دَر پر آئیں گے۔ فَقْر و فاقَہ رَحمتِ اِلٰہی ہے، جس شب فقیر بھوکا سویا وہ شب اُس کی شبِ مِعراج ہے۔ بلاضرورت مال جمع نہیں کرنا چاہئے۔ راہِ خدا میں جتنا بھی خرچ کرو اِسراف نہیں اورجو خدا کیلئے خرچ نہ کیا جائے اِسراف ہے خواہ کتنا ہی کم ہو۔
Hazrat Sayyiduna Khwaja Nizamuddin Auliya R.A[ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]
حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وِصال ۱۸ربیع الآخر ۷۲۵ہجری بروز بدھ ہوا، سیّدنا ابوالفتح رُکنُ الدِّین شاہ رُکنِ عالَم سُہروردی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے نمازِ جنازہ پڑھائی، دِہلی میں ہی آپ کا مزارشریف ہے۔

islamic events © 2019,

Thursday, December 5, 2019

jhoota ilzam[جھوٹا اِلزام]

jhoota ilzam[جھوٹا اِلزام]

جھوٹا اِلزام

مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشُبہ بُرا ہے لیکن کسی پر گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا اِلزام لگانااِس سے کہیں زیادہ بُرا ہے۔ ہمارے مُعاشرے میں جو برائیاں ناسُور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تُہمت وبہتان یعنی جھوٹا اِلزام لگانا بھی ہے۔ چوری، رشوت، جادو ٹونے، بدکاری، خِیانت، قتل جیسے جھوٹے اِلزامات نے ہماری گھریلو، کاروباری، دفتری زندگی کا سُکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو ۱للہ عَزَّوَجَلَّ اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا) اس میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو۔ (ابوداؤد) دشمنی، حسد، راستے سے ہٹانے، بدلہ لینے، سَستی شہرت حاصل کرنے کی کیفیات میں گُم ہوکر تُہمت و بہتان تراشی کرنے والے تو اِلزام لگانے کے بعد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن جس پر جھوٹاالزام لگا وہ بقیہ زندگی رُسوائی اور بدنامی کا سامنا کرتا رہتاہے۔

اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن لکھتے ہیں: کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرامِ قطعی ہے خصوصاً مَعَاذَاﷲ اگرتہمتِ زنا ہو۔ کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانا زیادہ خطرناک ہے لیکن بعض بے باک لوگ یہ بھی کر گزرتے ہیں اور اتنانہیں سوچتے کہ اس عورت اور اس کے گھر والوں پر کیا گزرے گی! جو کسی عورت پر زنا کا اِلزام لگائے اور چار گواہوں کی مدد سے اسے ثابت نہ کرسکے تواس کی شرعی سزا”حدِّ قَذْف“ ہے یعنی سلطانِ اسلام یا قاضیِ شرع کے حکم سے اسے ۸۰ کوڑے مارے جائیں گے۔
سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اِنَّ قَذْفَ الْمُحْصَنَۃِ یَھْدِمُ عَمَلَ مِائَۃِ سَنَۃٍ یعنی کسی پاک دامن عورت پر زِناکی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو بربادکرتاہے۔ (معجم کبیر) فیض القدیر میں ہے: یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بُہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کردے گا۔
کسی پر جھوٹا اِلزام لگانا بہت آسان سمجھا جاتا ہے لیکن جس پر اِلزام لگابَسا اوقات اس کی نسلیں بھی متأثر ہوتی ہیں، ذرا سوچئے جس کی اولاد کو یہ طعنہ ملےکہ تمہارا باپ چور ہے اس کے دل پر کیا گزرے گی؟ جنابِ رسالت مآب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل علیہ السَّلام سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بِلاوجہ اِلزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔

تمام نبیوں کےسردار،مدینےکے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اِسْتِفْسَار فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے عرض کی: ہم میں مفلِس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا:میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہو گی،فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فُلاں کا مال کھایا ہو گا،فُلاں کا خون بہایا ہو گا اورفُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنَّم میں پھینک دیا جائے گا(مسلم) ۔
اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت وبہتان سے توبہ کر لیجئے ، بُہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور مُعافی مانگنا ضَروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضَروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فُلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔ نفس کے لئے یقیناً یہ سخت گِراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سی ذِلّت اٹھانی آسان جبکہ آخِرت کا مُعامَلہ انتِہائی سنگین ہے، ۱للہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔

islamic events © 2019,

Wednesday, December 4, 2019

urs[عُرس]

urs[عُرس]

عُرس


یہ”عُرس“کیا ہوتا ہے؟ ویسے تو عُرس عربی زبان میں شادی کو کہا جاتا ہے،اور اسلام میں بزرگانِ دین کی سالانہ فاتحہ کی محفل جو ان کی تاریخِ وفات پر ہوا سے بھی عرس کہتے ہیں، کیونکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قبر میں جب سوالات کرنے والے فرشتے مَیِّت کا امتحان لیتے ہیں اور وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوس لَا یُوقِظُہ اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہٖ اِلَیْہ یعنی اُس دُلہن کی طرح سوجا کہ جس کو اس کے گھر والوں کے سوا کوئی نہیں جگاتا۔ (ترمذی) تو چونکہ فرشتوں نے ان کو عَرُوس کہاہوتا ہے اس لئے وہ دن عُرس کہلاتا ہے۔
اسی وجہ سے جس تاریخ کوصحابَۂ کرام،تابعین،عُلَمائے دین اور اولیائےکرام میں سے کوئی اس دنیا سے رُخْصَت ہوئے ہوتے ہیں اس تاریخ کو عقیدت مندوں کی ایک تعداد ان کے مزارات پر حاضری دیتی ہے اور فیض یاب ہوتی ہے،ان سے محبّت رکھنے والے مسلمان ان کے ایصالِ ثواب کے لئے مزارات کے قریب اور دیگر مقامات پر دِینی محافل کااہتمام کرتے ہیں جن میں تلاوت و نعت اور ذِکْرواَذْکار کے علاوہ عُلَما بیانات کے ذریعے اللہ پاک کے اَحکامات، اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں،صاحبِ مزارکاتعارف،ان کی سِیرت کے بارے میں بتاتے اور بزرگوں کی تعلیمات لوگوں میں عام کرتےہیں۔ انہی محفلوں کو”بزرگوں کا عُرس“ کہا جاتا ہے۔

عُرس منانے سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ اللہ پاک کے نیک بندوں کاعرس منانے کے ہمیں بہت سارے فائدے حاصل ہوتے ہیں: سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ہم پر اللہ پاک کی رحمت نازل ہوتی ہے،روایت میں ہے:اللہ کے نیک بندوں کے ذِکْرکے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ان کا ذکرِخیرکرنے اور سننے سے ہمارے دل میں نیک بندوں کی مَحبَّت پیدا ہوتی ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کَل قیامت میں ہم اللہ کے ان پیاروں کے ساتھ ہوں گے کیونکہ جو اللہ کی رضا کے لئے کسی سے مَحبَّت رکھے وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔عرس منانے کی برکت سے ہمیں بزرگوں اور نیک بندوں کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں کہ انہوں نے کس طرح اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاری اسی طرح ان کے تقویٰ و پرہیزگاری اور علم و عمل کے واقعات سُن کر ہمارے اندر بھی تقویٰ و پرہیزگاری اور علم و عمل کا جذبہ بیدار ہوتاہے۔ اللہ کریم ہمیں بھی بزرگوں سے مَحبَّت کااظہار اور ان کی برکتیں پانےکےلئےان کاعرس منانےکی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...