Saturday, August 31, 2019

mahe muharram ul haram/youme ashura[ماہ محرم الحرام/یومِ عاشورہ]

mahe muharram ul haram[ماہ محرم الحرام]

ماہ محرم الحرام


اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔(سورہ التوبہ ،آیت:۳٦)۔
اسلامی سال کاآغاز محرم الحرام کہ مہینہ سے ہوتا ہےمحرم کو محرم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں جنگ و قتال حرام ہے۔یہ مہینہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اس مہینہ کی عظمت زمانہ جاہلیت میں یوں تھی کہ لوگ اس مہینہ میں جنگ و جدال ا ور قتل و غارت گری سے اجتناب کرتے تھے اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ۔یہ مہینہ انتہائی فضیلت و عظمت اور عزت و برکت والا مہینہ ہے اس مہینہ کو تاریخ عالم اور تاریخ اسلام سے ایک خاص نسبت حاصل ہے ۔
mahe muharram ul haram/youme ashura[ماہ محرم الحرام/یومِ عاشورہ]
یومِ عاشورہ:عاشورہ کی وجہ تسمیہ میں علما ء کا اختلاف ہے اس کی وجہ مختلف طور پر بیان کی گئی ہے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ چونکہ یہ محرم کا دسواں دن ہوتا ہے اس لئے اس کو عاشورہ کہا گیا، بعض کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بزرگیاں دنوں کے اعتبار سے امت محمدیہ کو عطا فرمائی ہیں اس میں یہ دن دسویں بزرگی ہے اسی مناسبت سے اس کو عاشورہ کہتے ہیں ۔

یوم عاشورہ کی فضیلت:حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہما سے مروی ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مَدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہود کو عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے دیکھ کر پوچھا کہ تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اِسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم پر غلبہ عطا فرمایا تھا لہٰذا ہم تعظیماً اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ، اس پر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہیں چنانچہ آپ نے بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(مسلم)۔
یومِ عاشورہ کے فضائل میں بکثرت روایات آتی ہیں ۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس دن ان کی پیدائش ہوئی، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے۔ اسی دن عرش، کرسی ، آسمان وزمین، سورج ، چاند ستارے اور جنت پیدا ہوئے۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیداہوئے، اسی دن انہیں آگ سے نجات ملی، اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی اور فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے ۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، اور اسی دن وہ آسمان پر اٹھالیے گئے۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مقام (آسمان) پراٹھالیا گیا۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لگی۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو عظیم سلطنت عطا ہوئی ۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس ہوئی ۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی تکلیف دُور ہوئی۔ اسی دن زمین پر آسمان سے پہلی بارش ہوئی۔ اسی دن حضرت امام حسین ؓ اور ان کے رفقاء نے میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرما کر حق کے پرچم کو سر بلند فرمایا۔

محرم کی پہلی رات کے نوافل: ماہِ محرم کی پہلی شب میں چھ رکعات تین سلام کے ساتھ ادا کرے ۔ اس کی ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور تین بار سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسٌ پڑھے۔ اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ پھرمحرم کے مہینے کی ہر شب سوبار پڑھے:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، ۔ لَہ، الْمُلْکُ وَلَہ، الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ حَیٌّ الَّا یَمُوْتُ اَبْدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ اَللّٰہُمَ لَا مَانِعُ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذُالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُ (ترجمہ) سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ملک اُسی کا ہے، تعریف اُسی کے لیے ہے۔ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور نہیں مرے گا۔ صاحبِ جلا ل اور اکرام ہے ۔ اے اللہ اس چیز کا جو تونے دی کوئی مانع نہیں ہے اور جس چیز کو تونے روک دیا اسے کوئی نہیں دے سکتا اور صاحب دولت کو تجھ سے بے نیاز ہونا کوئی نفع نہیں دیتا۔
یکم محرم شریف کے دن دو رکعت نماز نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے۔ سلام کے بعد ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے:اَللّٰہُمَّ اَنْتَ اللّٰہُ الْاَبَدُ الْقَدِیْمُ ہٰذِہ سَنَہٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ وَالْاَمَانَ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَابِرِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ ذِیْ شَرٍّ وَّمِنَ الْبَلَاءِ وَ الْاٰفَاتِ وَاَسْئَلُکَ الْعَوْنَ وَالْعَدْلَ عَلٰی ہٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِشْتِغَالِ بِمَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ یَا بَرُّ یَا رَءُ وْفُ یَا رَحِیْمُ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔جو شخص اس نماز کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اوپر دو فرشتے مقرر فرمادے گا تاکہ وہ اس کے کاروبار میں اس کی مدد کریں۔ اور شیطان لعین کہتا ہے کہ افسوس میں اس شخص سے تمام سال ناامید ہوا۔
پہلی محرم الحرام کو جو یہ دعا پڑھے تو شیطانِ لعین سے محفوظ رہے اور سارا سال دو فرشتے اس کی حفاظت پر مقرر ہوںگے ۔ دعا یہ ہے: اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَبَدِیُّ الْقَدِیْمُ وَہٰذِہ سَنَۃٌ جَدِیْدَۃٌ اَسْئَلُکَ فِیْہَا الْعِصْمَۃَ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَاَوْلِیَائِہ وَالْعَوْنَ عَلٰی ہٰذِہِ النَّفْسِ الْاَمَّارَۃِ بِالسُّوْءِ وَالْاِ شْتِغَالَ بِمَا یُقَرِّ بُنِیْ اِلَیْکَ یَا کَرِیْمُ

نوافل برائے شبِ عاشورہ:جو شخص اس رات میں چار رکعات نماز پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد پچاس ٥٠ مرتبہ سورہئ اخلاص پڑھے تو اللہ عزوجل اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس سال آئندہ کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اور اس کے لئے ملاءِ اعلیٰ میں ایک محل تیار کرتا ہے۔
اس رات دو ٢ رکعات نفل قبر کی روشنی کے واسطے پڑھے جاتے ہیں جن کی ترکیب یہ ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد تین تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے۔ جو آدمی اس رات میںیہ نماز پڑھے گا تو اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت تک ا س کی قبر روشن رکھے گا۔ محرم الحرام اور روزہ:اس ماہ مبارک میں روزوں کا بہت زیادہ ثواب ہے حدیث پاک میں آتا ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:محرم الحرام کے ہر دن کا روزہ ایک ایک ماہ کے برابر ہے۔
ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: رمضان کے بعدمحرم کا روزہ افضل ہے اورفر ض کے بعد افضل نماز رات کے نوافل ہیں۔ (مسلم)۔
عاشورے کے روزے رکھنے کی فضیلت:حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اگر مومن اللہ کی راہ میں روئے زمین پر مال خرچ کرے تو اسے (اس قدر) بزرگی حاصل نہ ہوگی جس قدر کوئی عاشورے کے روز روزہ رکھے۔ اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھل جائیں ، وہ جس دروازے سے داخل ہونا پسند کرے گا داخل ہوگا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اس کا اجر توریت، انجیل ، زبور اور قرآن میں جتنے حرف ہیں ان کی تعداد کے مطابق ہر حرف پر بیس نیکیاں ہونگی۔ جس شخص نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب ملے گا۔

حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمْ نے ہجرت سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا۔جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن کی جستجو کی تاکید کی تاآنکہ، آپ نے آخر عمر شریف میں فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو آئندہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا مگر آپ نے اسی سال وِصال فرمایا اور دسویں کے علاوہ روزہ نہ رکھامگر آپ نے اس دن یعنی نویں اور دسویں اور گیارہویں محرم کے دنوں میں روزہ رکھنے کو پسند فرمایا۔
ایصالِ ثواب برائے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ:امیر المومنین امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کے ایصال ثواب کیلئے دورکعات نماز ادا کرے اور دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد دس بار سورہ اخلاص پڑھے ۔ سلام کے بعد نو ٩ نو ٩ بار آیت الکرسی اور درود شریف پڑھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اس روز دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ اس کی پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد اَلَمْ نَشْرَحْ اور دوسری میں اِذَاجَآءَ پچیس پچیس بار پڑھے۔
محرم الحرام اور رزق میں برکت کا نسخہ:حدیث مبارکہ میں آتا ہے جس نے عاشوراء کے روز اپنے گھر میں رزق کی فراخی کی اللہ پاک اس پر سارا سال فراخی فرمائے گا۔
ہر حاجت پوری ہوگی (انشاء اللہ):جو شخص عاشورے کے روز حاجت کے لیے یہ دعا مانگے اس کی حاجت پوری ہوگی۔بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم:اِلٰہِیْ بُحُرْمَتِ الْحُسَیْنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّّہِ وَ اَبِیْہِ وَجَدِّہِ وَ بَنِیْہِ فَرِّجْ عَمَّا اَنَا فِیْہِ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ اَجْمَعِیْنَ(ترجمہ) اللہ کے نام سے شروع بڑا مہربان نہایت رحم والا۔ اے اللہ! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اُن کے بھائی، اُن کی والدہ، اُن کے والد اور اُن کے نانا کی حرمت کے واسطے سے میں جس حاجت میں ہوں وہ مجھ پر کھول دے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بہترین خلائق محمدا پر اور آپ ا کی تمام آل پر رحمت فرما۔

دعائے عاشورہ:یہ دعا بہت مجرب ہے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص عاشورہ محرم کے طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اس دعا کوپڑھ لے یا کسی سے پڑھوا کر سن لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ یقینا سال بھر تک اس کی زندگی کا بیمہ ہو جائے گا۔ ہرگز موت نہ آئے گی اور اگر موت آنی ہی ہے تو عجیب اتفاق ہے کہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوگی۔ وہ دعا یہ ہے ۔
یَا قَابِلَ تَوْبَۃِ اٰدَمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔یَا فَارِجَ کَرْبِ ذِی النُّوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔یَا جَامِعَ شَمْلِ یَعْقُوْبَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔یَا سَامِعَ دَعْوَۃِ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔یَا مُغِیْثَ اِبْرَاہِیْمَ مِنَ النَّارِ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔ یَا رَافِعَ اِدْرِیْسَ اِلَی السَّمَآءِ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ۔۔ یَا مُجِیْبَ دَعْوَۃِ صَالِحٍ فِی النَّاقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ۔۔یَا نَاصِرَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَآءَ ۔۔ یَا رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ رَحِیْمُھُمَا صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ صَلِّ عَلٰی جَمِیْعِ الْاَنْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَاقْضِ حَاجَاتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَطِلْ عُمُرَنَا فِیْ طَاعَتِکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ رِضَاکَ وَ اَحْیِنَاحَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَّ تَوَفَّنَا عَلَی الْاِیْمَانِ وَ الْاِسْلَامِ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط اَللّٰھُمَّ بِعِزِّ الْحَسَنِ وَ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہ وَ جَدِّہ وَ بَنِیْہ فَرِّجْ عَمَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ ط
پھر سات بار پڑھے:سُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْءَ الْمِیْزَانِ وَ مُنْتَھَی الْعِلْمِ وَ مَبْلَغَ الرِّضٰی وَ زِنَۃِ الْعَرْشِ لَا مَلْجَاءَ وَ لَا مَنْجَاءَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّا اِلَیْہِ ط سُبْحَانَ اللّٰہِ الْشَفْعِ وَ الْوِتْرِ وَ عَدَدَ کَلِمَاتِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط وَ ھُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ط نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ط وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ط وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہ وَ صَحْبِہ وَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ عَدَدَ ذَرَّاتِ الْوُجُوْدِ وَ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ط
محرم الحرام کس قدر عظمت و برکت والا مہینہ ہےاور اس مہینہ میں روزوں کی کیسی فضیلت ہے بالخصوص عاشورہ کے روزہ کی، اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اس مہینہ کی برکت و فضیلت سے مالا مال فرمائے۔آمین

islamic events © 2019,

Friday, August 30, 2019

hashar wa nashar [حَشْر ونَشْر]

hashar wa nashar [حَشْر ونَشْر]

حَشْر ونَشْر


حَشْر ونَشْر کسے کہتے ہیں؟ ’’نَشْر‘‘ کا معنیٰ ہے موت کے بعد مخلوق کوزندہ کرنا جبکہ’’ حَشْر‘‘ کا معنیٰ ہے انہیں میدانِ حساب اور پھر جنّت و دوزخ کی طرف لے جانا۔ انکار کرنے والے کا حکم حشر ونشر کا عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اس بات پر اُمّت کا اجماع ہے کہ حشر و نشر کا انکا رکرنے والا کافر ہے۔
حشر کس کا ہو گا؟ حشر صرف رُوح کا نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں کا ہے، جو کہے صرف رُوحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گےوہ بھی کافر ہے۔دنیا میں جو رُوح جس جسم کے ساتھ متعلّق تھی اُس رُوح کا حشر اُسی جسم میں ہوگا، یہ نہیں کہ کوئی نیا جسم پیدا کرکے اس کے ساتھ روح متعلّق کر دی جائے۔ جنہیں جانوروں نے کھالیا مرنے کے بعد جسم کے اجزا اگرچہ بِکھر گئے ہوں یا مختلف جانوروں کی غذا بن گئے ہوں اﷲ پاک ان سب اَجزا کو جمع فرماکر قِیامت کے دن اُٹھائے گا۔
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قیامت کے دن لوگ اپنی قبروں سے ننگے بدن،ننگے پاؤں،ناختنہ شُدہ اُٹھیں گے۔ (مسلم) ضَروری وضاحت یاد رہے! یہ خطاب اُمّت کو ہے جس کا ظاہر یہ ہے کہ حضراتِ انبیاءِ کرام (علیہم السَّلام) سب مستثنیٰ (یعنی اس سے الگ) ہیں اور وہ سب بِفَضْلِہٖ تعالٰی لباس میں ہوں گے۔

حضرتِ سیّدُنا امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے مختلف روایات میں یوں تَطْبِیق بیان فرمائی ہے کہ کچھ لوگ بے لباس ہوں گے جبکہ بعض لوگوں نے لباس پہنے ہوں گے۔ فقیہِ اعظم حضرت علّامہ مفتی محمد نوراللہ نعیمی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی فرماتے ہیں:سب صحابۂ کرام اور اولیاءِ عظام بھی لباس میں ہوں گے۔نیز شہید اور خَواصّ مَؤمنین لباس میں ہوں گے۔
حشر میں لوگوں کی حالتیں حضرت علّامہ ابراہیم بیجوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:حشر میں لوگوں کے مَرتبے جُدا جُدا ہوں گے: مُتقی سُوار ہوں گے، تھوڑے عمل والے لوگ پیدل ہوں گے جبکہ کافر منہ کے بَل چلتے ہوں گے۔نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ کافر مُنہ کے بل کیسے چلیں گے؟ تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس ذات نے انہیں قدموں پر چلایا وہ منہ کے بَل چلانے پر بھی قادر ہے۔ (ترمذی) کسی کو ملائکہ گھسیٹ کر لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی(یعنی میدانِ محشر میں لے جائے گی)۔
سب سے پہلے! ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے پہلے قبرِ انور سے یوں باہر تشریف لائیں گے کہ دَہنے ہاتھ میں حضرتِ سیّدنا صدیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں حضرتِ سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ ہوگا۔(ترمذی) پھر مکۂ مُعظمہ و مدینۂ طیبہ کے مَقابِر (قبرستانوں) میں جتنے مسلمان دَفْن ہیں، سب کو اپنے ساتھ لے کر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔( ترمذی ) پھر اہلِ شام اور باقی لوگ اپنی اپنی قَبْروں سے باہر آئیں گے۔

حشر کہاں ہو گا؟یہ میدانِ حشر ملکِ شام کی زمین پر قائم ہوگا۔ زمین ایسی ہموار ہو گی کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ گِر جائے تو دوسرے کنارے سے دکھائی دے۔زمین بدل دی جائے گی: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے:( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن بدل دی جائے گی زمین اِس زمین کے سوا اور آسمان۔(پ۱۳،ابرٰھیم:۴۸)۔
اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں ذکر کئے جانے والے مختلف اقوال کے بارے میں امام جلالُ الدّین عبدالرحمن سُیوطی علیہ رحمۃ اللہ القَوی حافظ ابنِ حجر عسقلانی علیہ رحمۃ اللہ الغنِی سے یوں نقل فرماتے ہیں: زمین کا روٹی ہونا ، غبار والا ہونا اور آگ بن جانا جو احادیث میں آیا ہے اس میں کوئی مُنافات (ٹکراؤ) نہیں، بلکہ ان کو اس طرح جمع کیا جاسکتا ہے کہ بعض زمین کے ٹکڑے روٹی، بعض غبار، اور بعض آگ ہوجائیں گےاور آگ ہونے والا قول سمندر کی زمین کے ساتھ خاص ہے(کہ سمُندر کی زمین آگ کی ہوجائے گی)۔تفسیرِ مظہری میں ہے: ہوسکتا ہے کہ مؤمنین کے قدموں کی جگہ روٹی ہوجائے اور کفّار کے قدموں کی جگہ غُبار والی اور آگ والی ہوجائے۔

islamic events © 2019,

Thursday, August 29, 2019

rooh[رُوح]

rooh[رُوح]

رُوح


رُوح کیا چیز ہے؟ اللہ پاک کا قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے: (قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵))ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور تمہیں علم نہ ملا مگر تھوڑا۔(پ۱۵،بنی اسرآءیل:۸۵))۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رُوح کے بارے میں علم نہ ہو حالانکہ اللّٰہ پاک نے یہ ارشاد فرما کر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پراحسان فرمایا ہے:(وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳)) ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللّٰہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔(پ۵، النسآء: ۱۱۳)) نبیِّ کريم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پردہ فرمانے سے پہلے اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کورُوح اور اس کے علاوہ ہر مُبْہَم چیز کا علم عطا فرما دیا تھا۔
روح کو فنا نہیں یاد رہے! موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں،نہ یہ کہ روح مَر جاتی ہے، جو روح کو فنا مانے،بد مذہب ہے۔موت کے بعد روح کی جاننے ،سننے اور دیکھنے کی صلاحیت نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔روح کا جسم سے تعلق مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔

روحوں کے بارے میں عمومی خیالات عام طور پر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں مکان میں رُوح کا ڈیرا ہے ،وہ مار دیتی ہے،فلاں جگہ ایک آدمی قتل ہوا تھا وہاں اس کی روح بھٹک رہی ہے،قتل ہونے والوں کی روحیں دنیا میں بھٹکتی رہتی ہیں،اس حویلی میں کافر روحوں کا بسیرا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بے سَروپا تَوَہُّمات ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلّق نہیں، وفات کے بعد مؤمنین کی روحیں ”رِمیائیل“ نامی فرشتے کےحوالےکی جاتی ہیں، وہ مؤمنین کی روحوں کے خازِن ہیں۔ جبکہ کفّار کی روحوں پر مقرر فرشتے کا نام”دَومہ“ہے۔
روحوں کے مقامات کافروں کی روحیں مخصوص جگہوں پر قید ہوتی ہیں جبکہ مسلمانوں کی روحوں کے مختلف مقامات بھی مُقَرّر ہیں اور انہیں اورمقامات پرجانے کی اجازت بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سیِّدُناامام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالِق فرماتے ہیں:مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔
نبیّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمنین کی اَرواح سبز پرندوں میں ہوتی ہیں، جنّت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں۔ عرض کی گئی:اور کافروں کی روحیں؟ ارشاد فرمایا: سِجّین میں قید ہوتی ہیں۔

مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر ، بعض کی چاہِ زمزم شریف(یعنی زم زم شریف کے کنویں ) میں، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قِنْدیلوں میں اور بعض کی اعلیٰ عِلّیِّین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے اُن کو تعلّق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر (پرندہ) پہلے قَفَس (پنجرے) میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔
خبیث روحیں کافروں کی خبیث روحوں کے بھی مقام مقرّر ہیں وہ آزاد نہیں گھومتیں بلکہ بعض کی اُن کے مَرگھٹ (مردے جلانے کی جگہ) یا قبر پر رہتی ہیں، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ(یعنی وادی) ہے ، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین میں اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں، مگر کہیں جانے آنے کا اختِیار نہیں، کہ قید ہیں۔
یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسُخ اور آواگون کہتے ہیں، محض باطل اور اس کا ماننا کفر ہے۔
جانوروں کی روحیں جانوروں کی اَرواح کے متعلّق علما کے کئی اقوال ہیں۔تفسیرِ روح المعانی میں ہے:جانوروں کی اَرواح ہوا میں مُعَلَّق رہتی ہیں یا جہاں اللہ پاک کو منظور ہوتا ہے وہاں رہتی ہیں اور ان کا اپنے جسموں سے کوئی تعلّق نہیں ہوتا۔

islamic events © 2019,

Wednesday, August 28, 2019

hazrat sayyiduna umar farooq e azam R.A[حضرت سیّدنا عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ]

hazrat sayyiduna umar farooq e azam R.A[حضرت سیّدنا عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ]
hazrat sayyiduna umar farooq e azam R.A[حضرت سیّدنا عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ]

امامُ العادِلین،غیظُ المنافقین ،امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا عُمَر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ


خلیفۂ دُوُم حضرتِ سیِّدُنا عُمَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کُنْیَت’’ابوحَفْص‘‘ اور لقَب ’’فاروقِ اَعظم‘‘ہے۔آپ کی ولادت واقعہ فیل کے ۱۳/ سال بعد مکہ شریف میں ہوئی ۔ ایک روایت میں ہے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ۳۹ مردوں کے بعد، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دُعا سے اِعلانِ نُبُوَّت کے چھٹے سال میں ایمان لائے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے اسلام قَبول کرنے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اوراُن کو بَہُت بڑا سہارا مل گیا یہاں تک کہ حُضُور رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر حَرَمِ محترم میں اِعْلانِیہ نَماز ادا فرمائی۔
حضرتِ سیِّدُنا عُمَر بن خَطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اِسلامی جنگوں میں مُجاہِدانہ شان کے ساتھ کُفّارِ نا ہبخار سے بر سرِپَیکار رہے اور سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تمام اسلامی تحریکات اورصُلْح وجنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں وزیر ومُشیر کی حیثیَّت سے وفادار ورفیقِ کار رہے۔حضرتِ سیِّدُنا عُمَر بن خَطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اَکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تمام صَحابۂ کِرام عَلَيْهِمُ الّرِّضْوَان سے اَفضل ہیں۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں،آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد ۵۳۷ ہے۔

خلیفۂ اوّل ، امیرُالْمُؤمِنِین ،حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے بعدحضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو خلیفہ مُنتخَب فرمایا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے تختِ خِلافت پر رَونق اَفروز رہ کر جانَشینی ٔ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تمام تر ذِمّے داریوں کو بَطریقِ اَحْسن سر اَنجام دیا۔مسندِ خلافت پر دس سال چھ ماہ تک فائز رہے۔دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزاراورتیس مربع میل پر پھیل گیا۔
فضائل ومناقب:حضور رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔[تر مذی]۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے “حق” عمر کے زبان اور دل پر رکھ دیا ہے. [ترمذی]۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے۔تو میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرئیل اور میکا ئیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابو بکر اور عمر ہیں۔۔[ترمذی]۔حضور نبی کریم ﷺ نے فر مایا کہ:ابو بکر اور عمر اگلے اور پچھلےتمام جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں ،سوائے نبیوں اور رسولوں کے۔[ترمذی]۔

تاریخِ عالَم کے اس عظیم حکمران کی پوری زندگی عزّت و شرافت اور عظمت کے کارناموں کی اعلیٰ مثال تھی، ۲٦ذو الحجۃ الحرام کی صبح ایک مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر فجر کی نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا اور شدید زخمی کردیا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، جب لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اٹھا کر آپ کے گھر میں لائے تو مسلسل خون بہنے کی وجہ سے آپ پر غشی طاری ہوچکی تھی ہوش میں آتے ہی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وضو کرکے نمازِ فجر ادا کی پھر چند دن شدید زخمی حالت میں گزار کر اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ حضرتِ صُہَیْب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور گوہرِ نایاب ، فیضانِ نُبُوَّت سے فَیضیاب خلیفۂ رسالت مآب حضرتِ سیِّدُناعمر بن خطّاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روضۂ مُبارَکہ کے اندریکم مُحَرَّمُ الْحرام ۲۴ ہجری اتوار کے دن حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلوئے اَنور میں مَدفون ہوئے جو کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلوئے پاک میں آرام فرما ہیں۔ بوقتِ شہادت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عُمْر مبارک ٦۳برس تھی۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدْقے ہماری بے حِساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم۔۔۔

islamic events © 2019,

Tuesday, August 27, 2019

hisab o kitab[حساب و کتاب]

hisab o kitab[حساب و کتاب]

حساب و کتاب


عقیدہ حساب حق ہے،یعنی قراٰن و سنّت اور اجماع سے ثابت ہے۔ مومن ،کافر،انسان اور جنّات سب کا حساب ہو گا سوائے اُن کے جن کا اِسْتِثْناء کیا گیا ہے۔حساب کا منکر کافر ہے۔
حساب کیا ہے؟ حساب کا لغوی معنیٰ ہے ”شمار کرنا“ اور اصطلاحی معنیٰ ہے ”اللہ تعالیٰ کا لوگوں کو محشر سے پلٹنے سے پہلے اُن کے اعمال پر آگاہ کرنا“ ۔
حساب کی کیفیت ہر ایک سے حساب کی کیفیت مختلف ہوگی،کسی کا آسانی سے، کسی کا سختی سے، کسی کا خُفیہ، کسی کا اعلانیہ، کسی کا ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ اور کسی کا فضل تو کسی کا عدل کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔
حساب کی سختی فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ایک شخص کو حساب کتاب کے لئے کھڑا کیا جائے گا تو اسے اس قدر پسینہ آئے گا کہ اگر ۱۰۰۰پیاسے اونٹ اسے پئیں تو اچھی طرح سیراب ہو جائیں۔
اعمال میں سب سے پہلے کس چیز کا حساب ہو گا؟ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون بہانےکےمتعلّق فیصلہ کیا جائے گا۔ جبکہ ایک فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہے: سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا۔

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں:خیال رہے کہ عبادات میں پہلے نماز کا حساب ہوگا اورحقوق العباد میں پہلے قتل و خون کا یا نیکیوں میں پہلے نماز کا حساب ہے اور گناہوں میں پہلے قتل کا۔
نعمتوں میں پہلے کس کا حساب؟ فرمانِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: قیامت میں نعمتوں کے متعلّق بندے سے پہلا سوال جو ہوگا وہ یہ کہ اس سے کہا جائے گا: کیا ہم نے تیرے جسم کو صحت نہیں بخشی اور کیا ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سےسیرنہیں کیا؟ حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں:یعنی دوسری نعمتوں کے مقابلہ میں ان نعمتوں کا حساب پہلے ہوگا۔
حساب سے جلد نجات پانے والا سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اے لوگو! بے شک بروز قیامت اس کی دہشتوں (یعنی گھبراہٹوں ) اور حساب کتاب سے جلد نجات پانے والا شخص وہ ہو گا جس نے تم میں سے مجھ پر دُنیا کے اندر بکثرت درود شریف پڑھے ہوں گے۔
بلا حساب جنّت میں داخلہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میری اُمّت سے 70 ہزار بےحساب جنّت میں داخل ہوں گے اور ان کے طفیل میں ہر ایک کے ساتھ ۷۰ ہزار اور اللہ کریم ان کے ساتھ تین جماعتیں اور کردے گا، معلوم نہیں ہر جماعت میں کتنے ہوں گے، اس کا شمار وہی جانے۔

islamic events © 2019,

Monday, August 26, 2019

mizan[ میزان(اعمال تولنے کی ترازو)۔]

 mizan[ میزان(اعمال تولنے کی ترازو)۔]

میزان


حضرت سیّدنا داؤد علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کی: مولیٰ مجھے میزان دکھا دے۔ جب آپ نے اُسے دیکھا تو بے ہوش ہو گئے ، جب اِفاقہ ہوا تو عرض کی :یا الٰہی!کس میں طاقت ہے جو اس کے پلڑے کو اپنی نیکیوں سے بھر دے؟ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:اے داؤد!اِنِّي اِذَا رَضِيْتُ عَنْ عَبْدِی مَلَأتُهَا بِتَمْرَةٍ بے شک جب میں اپنے بندے سے راضی ہو جاؤں گا تو اِسے ایک کھجور سے ہی بھر دوں گا۔
عقیدہ میزان (اعمال تولنے کی ترازو) حق ہے، یعنی دلائلِ سمعیہ قطعیہ (قراٰن و سنّت) سے ثابت ہے۔اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔
قراٰن پاک میں ہے: (وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸))ترجمۂ کنزالایمان: اور اس دن تول ضرور ہونی ہے تو جن کے پلے بھاری ہوئے وہی مراد کو پہنچے۔ جمہور مفسّرین کے نزدیک اس آیت میں ’’ وَزْن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘مراد ہے۔
میزان کی وسعت نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس میں سَما جائیں۔ فرشتے کہیں گے: یااللہ! اس میں کس کا وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالٰی ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کا چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔

میزان کی صفات امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی فرماتے ہیں: میزان کو نصب کیا جائے گا،اس کے دو پلڑے ہیں، عرش کی سیدھی جانب کا پلڑا نورانی ہے جبکہ دوسرا تاریک (سیاہ) پلڑا عرش کی بائیں جانب ہے۔ نورانی پلڑا نیکیوں کیلئے جبکہ سیاہ پلڑاگناہوں کے لئے ہو گا۔حضرت سیّدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میزان کا ایک پلڑا جنّت پر اور دوسرا دوزخ پر ہوگا۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے:وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نیکیوں کا پلّہ اگر بھاری ہو گا تو اُوپر اٹھے گا اور بدی کا پلّہ نیچے بیٹھے گا، قال اللہ عَزَّوَجَلَّ:( اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ-) ترجمہ کنزالایمان: اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اسے بلند کرتا ہے( جس کتاب میں لکھا ہے کہ نیکیوں کا پلہ نیچا ہوگا غلط ہے۔
میزان کے نگران حضرت سیّدنا حُذَیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: صَاحِبُ الْمِيزَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جِبْرِيلُ یعنی قیامت کے دن میزان کے نگران حضرت جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں گے۔ حضرت علامہ ابراہیم باجُوْرِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نقل فرماتے ہیں: حضرت سیّدنا جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام ترازو کی ڈنڈی ہاتھ سے پکڑے ہوں گے، کانٹے پر ان کی نظر ہوگی جبکہ حضرت سیّدنا میکائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام میزان کے امین ہوں گے۔

islamic events © 2019,

Sunday, August 25, 2019

hoz e kausar[حوضِ کوثر]

hoz e kausar[حوضِ کوثر]

حوضِ کوثر


عقیدہ اللہ کریم ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخرت میں جو حَوض عطا فرمائے گا اس پر ایمان رکھنا واجب ہے، جو اس کا انکار کرے وہ فاسِق و بدعتی ہے۔ حضرت علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حَوضِ کوثر کے متعلق احادیث ۵۰سے زائد صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے مروی ہیں۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کے لئے ایک حَوض ہے اور انبیا آپس میں فخر کریں گے کہ کس کے حَوض پر زیادہ لوگ آتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ میرے حَوض پر سب سے زیادہ لوگ ہوں گے۔(ترمذی)۔
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بلاشبہ حوض کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا اور بَرف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ اس کی خوشبو کَستُوری سے بڑھ کر اور پیالے ستاروں کی تعداد سے زیادہ ہیں، جو انسان اس سے پیئے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس سے پی کر جانے والا انسان ہمیشہ سیراب رہے گا۔( حدیث)۔
حوضِ کوثر کے پرنالے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنّت سے حوض میں دو پرنالے بہتے ہیں ان میں سے ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا ہے۔(مسلم)۔حوضِ کوثر کی لمبائی چوڑائی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میرا حوض ایک مہینے کی مَسافَت کا ہے۔ اس کے گوشے برابر ہیں۔ (بخاری)۔

یعنی حوضِ کوثر جو میرا حوض ہے اس کی لمبائی چوڑائی کا یہ حال ہے کہ اگر اس کے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کی طرف چلا جائے تو چلنے والا ایک مہینہ میں وہاں پہنچے۔ حوضِ کوثر مُرَبَّع ہے لمبائی چوڑائی برابر اور اس کا ہر گوشہ زَاوِیہ قائمہ ہے حَادَّہ یا مُنْفَرِجَہ نہیں بلکہ گہرائی بھی ہر جگہ یکساں ہے یہ نہیں کہ کنارہ پر کم گہرا بیچ میں زیادہ گہرا۔
حوضِ کوثر کہاں ہوگا؟ حَوضِ کوثر کے مقام میں کئی اَقوال ہیں: حضرت امام ابراہیم بن محمد باجوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جمہور کا قول یہ ہے کہ حَوضِ کوثر پُل صِراط سے پہلے ہوگا، بعض نے اس کی تصحیح فرمائی ہے کیونکہ لوگ اپنی قبروں سے پیاسے نکلیں گے تو انہیں پانی پلانے کے لئے حوض پر لایا جائے گا۔بعض علما کے نزدیک حوضِ کوثر پُل صِراط کے بعد ہو گا۔حضرت امام محمدقُرطُبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:صحیح یہ ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو حوض ہوں گے ایک پُل صِراط سے پہلے اور پُل صِراط کے بعد،ان دونوں کا نام کوثر ہے۔
حضرت سیّدنا امام جلالُ الدّین سُیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں یوں بھی تطبیق ہوسکتی ہےکہ بعض لوگ پُل صِراط عبور کرنے سے پہلے حوض سے جام پئیں گے اور بعض کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پُل صِراط عُبور کرنے کے بعد حَوض سے پلایا جائے گا تاکہ پُل صِراط عُبور کرکے گناہوں سے پاک ہوجائیں پھر حوض سےپئیں۔یہ قول زیادہ قوی ہے۔

کیا حَوضِ کوثر اسی زمین پر ہوگا حضرت سیِّدُنا امام محمد قُرطُبی رحمۃ اللہعلیہ فرماتےہیں:تمہارے وَہم و خَیال میں بھی یہ نہ آئے کہ حوض اسی سطحِ زمین پر ہوگا بلکہ حَوض اس تبدیل کردہ زمین پر ہوگا جو چاندی کی طرح سفید ہوگی، اس پر نہ تو کبھی خون بہایا گیا ہوگا اور نہ ہی کسی پر ظلم کیاگیا ہوگا۔
حوضِ کوثر پر سب سے پہلے کون رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اَوَّلُ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ اَهْلُ بَيْتِی وَمَنْ اَحَبَّنِي مِنْ اُمَّتِي یعنی سب سے پہلے میرے پاس حَوضِ کوثر پر آنےوالے میرے اہلِ بیت ہیں اور میری اُمّت میں سے میرے چاہنے والے۔(حدیث)۔حَوضِ کوثر پر جنہیں چابُک مارے جائیں گے حضرت سیِّدُنا امامِ حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم سے بُغض (دشمنی) مت رکھنا کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:لَایُبْغِضُنَا وَ لَایَحْسُدُنَا اَحَدٌ اِلَّا ذِیْدَ عَنِ الْحَوْضِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِسِیَاطٍ مِنْ نَارٍ یعنی جو ہم سے بُغض و حَسَد کرے گا، اسے قِیامت کے دن حَوضِ کوثر سے آگ کے چابکوں کے ذریعے دُور کیا جائے گا۔(حدیث)۔
آبِ کوثر سے بھرا پیالہ چاہئے تو یہ دُرودِ پاک پڑھا کیجئے کہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص حَوضِ کوثر سے بھرا پیالہ پینا چاہے وہ اس دُرُودِ پاک اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَاَوْلَادِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیّٰتِہٖ وَاَھْلِ بَیْتِہٖ وَاَصْھَارِہٖ وَاَنْصَارِہٖ وَاَشْیَاعِہٖ وَمُحِبِّیْہِ وَاُمَّتِہٖ وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ اَجْمَعِیْنَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ کو پڑھے۔

islamic events © 2019,

Saturday, August 24, 2019

pul sirat[پُل صراط]

pul sirat[پُل صراط]

پُل صراط


عقیدہ”صِراط“ حق ہے۔ اس پر ایمان لانا واجب اور اِس کا انکار گمراہی ہے۔ اس پُل سے گزرے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا کیونکہ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے۔
نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جہنَّم پر ایک پُل ہے جو بال سے زِیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے، اس پر لوہے کےکُنڈے اور کانٹے ہیں جسے اللہ پاک چاہے گا یہ اُسے پکڑیں گے۔ لوگ اُس سے گزریں گے، بعض پلک جھپکنے کی طرح، بعض بجلی کی طرح، بعض ہوا کی طرح، بعض بہترین اور اچھے گھوڑوں اور اُونٹوں کی طرح (گزریں گے) اور فِرشتے کہتے ہوں گے: ’’رَبِّ سَلِّمْ، رَبِّ سَلِّمْ‘‘ (یعنی اے پَروَردگار سلامتی سے گزار، اے پروَر دگار سلامتی سے گزار ) بعض مسلمان نجات پائیں گے، بعض زخمی ہوں گے، بعض اَوندھے ہوں گے اور بعض منہ کے بل جہنَّم میں گِر پڑیں گے۔ (حدیث:) حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: ان کی رفتاروں میں یہ فرق ان کے نیک اعمال اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا جیسا عمل، جیسا اخلاص ویسی وہاں کی رفتار۔ یہاں اَشِعَّۃُ اللَّمۡعَات نے فرمایا کہ اعمال سببِ رفتار ہیں اور حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی نگاہِ کرم اصلی وجہ رفتار کی ہے جتنا کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قُرْب زیادہ اتنی رفتار تیز۔
پُل صراط ہر ایک کے لئے بال سے زیادہ باریک نہیں ہو گا بلکہ جس کے لئے اللہ کریم چاہے گا اُس کے لئے وسیع و عریض وادی کی طرح ہو گا جیسا کہ حضرت سیِّدُنا سَعید بن ابو ہِلال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: میرے پاس یہ بات پہنچی ہے کہ قیامت کے روز پُل صراط بعض لوگوں پر بال سے بھی زیادہ باریک ہوگا اور بعض کے لئے کُشادہ وادی کی طرح ہوگا۔(حدیث)۔

پُل صراط سے ہر ایک کو گُزرنا ہے جیسا کہ قراٰنِ مجید میں ہے:( وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱)) ترجمۂ کنزالایمان: اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو تمہارے ربّ کے ذمہ پر یہ ضرور ٹھہری ہوئی بات ہے۔ (پ۱٦، مریم: ۷۱) ۔حضرت سیّدنا عَبداللّٰہ بن مَسعود، حضرت سیّدنا حسن اور حضرت سیّدنا قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنھم سے روایت ہے کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو کہ جہنم کے اوپر بچھایا گیا ہے۔
سب سے پہلے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم گزر فرمائیں گے، پھر اور انبیاء و مرسلین، پھر یہ اُمّت پھر اور اُمتیں گزریں گی۔ اللہ کریم نے حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلَیْہِ السَّلَام سے ارشاد فرمایا: اے داوٗد! کیا تم جانتے ہو پل صراط پر سب سےتیزی سے گزرنے والے کون ہوں گے؟ وہ جو میرے فیصلے پر راضی رہے اور ان کی زبانیں میرے ذکر سے تَر رہیں۔پُل صراط سے گُزرنے والا آخری شخص پیٹ کے بَل گِھسَٹ گِھسَٹ کر گزرے گا، وہ اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کرے گا: یا اللہ مجھے اتنی دیر کیوں لگی؟ اللہ کریم ارشاد فرمائے گا: تجھے میں نے دیر نہیں کروائی بلکہ تجھے تیرے اعمال نے دیر کروائی ہے۔
ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا کعبُ الاَحْبار علیہ رحمۃ اللہ الغفَّار نے سورۂ مریم کی یہی آیت( وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-) تلاوت کی: پھر فرمایا: تم جانتے ہو کہ دوزخ پر لوگوں کا گزرکس طرح ہوگا؟ پھر خود ہی فرمانے لگے: جہنم لوگوں پر ایسےظاہر ہو گا گویا چربی کی تَہ جمی ہے، جب نیک و بد کے قدم اس پر جَم جائیں گے تو ایک منادی ندا دےگا: اے جہنم! اپنے اصحاب پکڑلے اور میرے اصحاب چھوڑ دے پھرجہنم میں جانےوالےاس میں گرنے لگیں گےوہ انہیں اس طرح پہچان لےگاجیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے، مؤمن اسےاس طرح پار کر لیں گے کہ ان کے کپڑوں پر کوئی نشان نہیں ہوگا۔

جنَّتیوں پر یہ انعام بھی ہو گا کہ اُنہیں جہنم کی ہلکی سی آواز بھی سُنائی نہیں دے گی چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ( لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ-وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲)) (پ۱۷،الانبیآء:۱۰۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ اس کی ہلکی سی آواز بھی نہ سنیں گے اور وہ اپنی دل پسند نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
پُل صراط کی مسافت کتنی ہے اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:۱۔بہت سے علماء و مفسرین نے حضرت سیِّدنا امام مجاہد اور حضرت سیّدنا امام ضحّاک رَحِمَہُمَا اللہ تعالٰی سے نقل فرمایا کہ پُل صراط کا سفر تین ہزا ر سال کی راہ ہے، ایک ہزار سال اوپر چڑھنے کے،ہزار سال نیچے اُترنے کے اور ہزار سال اس کی سطح پر چلنے کے۔۲۔حضرتِ سیِّدُنا فُضَیْل بن عِیاضرَحمۃُ اللہ تعالٰی عَلیہِ سے منقول ہے: پُل صراط کاسفر پندرہ ہزا ر سال کی راہ ہے، پانچ ہزار سال اوپر چڑھنے کے، پانچ ہزار سال نیچے اُترنے کے اور پانچ ہزار سال(اس کی پشت پر)چلنے کے۔ اس پر سے وہ گزرسکے گا جو خوفِ خدا کے باعث ناتوان وکمزور ہوگا۔
نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صراط پر کھڑے رَبِّ سَلِّمْ رَبّ سَلِّم دُعا کر رہے ہوں گے۔(مسلم)اور فرشتے بھی اس پر کھڑے عرض کررہے ہوں گے: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! سلامتی سےگزار، سلامتی سے گزار۔اللہ کریم ہمیں سلامتی سے پل صرط سے پار لگائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Friday, August 23, 2019

kab gunahon se kinara[مُناجات:کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یارب!]

kab gunahon se kinara[مُناجات:کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یارب!]

کلام سنیے


مُناجات



کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یارب!

نیک کب اے مِرے اللہ! بنوں گا یارب!

کب گناہوں کے مَرَض سے میں شِفا پاؤں گا

کب میں بیمار مدینے کا بنوں گا یارب!

آج بنتا ہوں مُعَزَّز جو کُھلے حشر میں عیب

آہ! رُسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یارب!

عَفْو کر اور سدا کے لئے راضی ہوجا

گر کرم کردے تو جنّت میں رہوں گا یارب!

دے دے مرنے کی مدینے میں سعادت دیدے

کس طرح سندھ کے جنگل میں مروں گا یارب!

کاش! ہر سال مدینے کی بہاریں دیکھوں

سبز گُنبد کا بھی دیدار کروں گا یارب!

اِذْن سے تیرے سرِ حَشْر کہیں کاش! حُضور

ساتھ عطّاؔر کو جنّت میں رکھوں گا یارب!

از شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہِ

islamic events © 2019,

Thursday, August 22, 2019

sahaba kiram[صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم]

sahaba kiram[صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم]

صحابۂ کرام


ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:تم میں فتح سے پہلے خرچ کرنے والے اور جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، وہ بعد میں خرچ کرنے والوں اور لڑنے والوں سے مرتبے میں بڑے ہیں اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز کا وعدہ فرمالیا ہے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ۲۷، الحدید:۱۰)۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی کئی اقسام ہیں جیسے خلفائے اربعہ، عشرۂ مبشرہ، اصحابِ بدر، اصحابِ اُحد، اصحابِ بیعتِ رضوان، اہلِ بیت وغیرھم۔ ان میں کئی اقسام ایک دوسرے میں داخل بھی ہیں۔صحابۂ کرام کی افراد کی تعداد کے اعتبار سے ایک بڑی تقسیم تو مہاجرین و انصار ہے اور دوسری تقسیم وہ ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی یعنی فتحِ مکّہ سے پہلے والے اور بعد والے۔
اس آخری تقسیم کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِن صحابہ میں درجہ بندی فرما دی کہ فتحِ مکّہ سے پہلے والے، بعد والوں سے افضل ہیں۔ یہ معاملہ افضلیت کا ہے لیکن جہاں تک بارگاہِ خداوندی میں ان کے مقبول اور جنّتی ہونے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ”ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنّت) کا وعدہ فرمالیا ہے“ اس سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ جنّتی اور خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ہر صحابی، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحابیت کی نسبت سے ہمارے لئے واجبِ تعظیم ہے اور کسی بھی صحابی کی گستاخی حرام اور گمراہی ہے۔ قرآن و حدیث عظمتِ صحابہ کے بیان سے معمور ہیں اور کوئی صحابی بھی اس عظمت و شان سے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے۔

صحابہ کی عظمت و شان قرآن سے:صحابہ رضی اللہ عنھم کی ایک بڑی جماعت کے بارے میں ارشاد فرمایا:”بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اوّلین اور دوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔“(پ۱۱، التوبۃ:۱۰۰) اسی پاک گروہ کی ایمانی قوّت، قلبی کیفیت اور عملی حالت قرآن میں یوں بیان فرمائی گئی: ”محمداللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت، آپس میں نرم دل ہیں۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا، اللہ کا فضل و رِضا چاہتے ہیں، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے۔ یہ ان کی صفت تورات میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔“(پ۲٦، الفتح:۲۹) یہی متّقین، صالحین، خاشعین، صدیقین کے سردار ہیں جن کے دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب سے پہلے کیا اور بذاتِ خود کیا جیسا کہ قرآن میں ہے: ”بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا، جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔“(پ۴، آل عمران:۱٦۴) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا:”اگر وہ (غیرمسلم) بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا (اے صحابہ) تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پا گئے۔“(پ۱، البقرۃ:۱۳۷) اسی مبارک گروہ کی سب سے بڑی تعداد کا نام مہاجرین و انصار ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بالکل صراحت سے جنّت و مغفرت و رزقِ کریم یعنی عزّت والی روزی کا مُژدہ سناتے ہوئے فرمایا:”اور وہ جو ایمان لائے اور مہاجر بنے اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچّے ایمان والے ہیں، ان کے لئے بخشش اور عزّت کی روزی ہے۔“(پ۱۰،الانفال:۷۴)۔

صحابہ کی عظمت و شان احادیث سے:اِنہی صحابہ کا امّت میں سب سے افضل اور فائق ہونا، نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں واضح کیا:”میرے اصحاب کو بُرا بھلا نہ کہو، اس لئے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کے ایک مُد (ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مُد کے آدھے کو۔“ (بخاری)اِنہی صحابہ سے مَحبّت رکھنے، ان کی محبّت کو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مَحبت اور ان سے بغض کو نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بغض قرار دیا اور ان کے متعلّق دل و زبان سنبھالنے کا حکم دیا:”میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا۔ پس جس شخص نے ان سے مَحبت کی تو اس نے میری مَحبت کی وجہ سے ان سے مَحبت کی اور جس نے ان سے بُغْض رکھا تو اس نے میرے بُغْض کے سبب ان سے بُغْض رکھا اور جس نے انہیں اِیذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے اِیذا پہنچائی اور جس نے مجھے اِیذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔“( ترمذی)۔
اوپر ذکر کردہ آیات و احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام صحابہ جنّتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہے اور یہ خدا سے راضی ہیں ۔ان کے لئے جنّت کے باغات ہیں یہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھی ہیں ۔کُفّار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل عبادت و رکوع و سجدہ کے شوقین رِضائے الٰہی کے طلب گار نورانی چہروں والے، پاک دل، پاک سیرت، اصحابِِ حکمت، معیاری ایمان والے۔ راہِ خدا میں جان، مال، گھربار قربان کرنے والے مومنوں کے مددگار سچّے ایمان والے ۔خدا کی طرف سے مغفرت و رزقِ کریم کے مستحق اُمت میں سب سے افضل ۔ان کی مَحبت، نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحبت ان سے بغض، نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بُغْض انہیں تکلیف دینا، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف دینا ہے ان کی تعظیم فرض، توہین حرام اور ان کے گستاخ، خدا کی گرفت کا شکار ہوں گے۔
اللہ کریم ہمیں دل و جان، زبان و قلم سے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور جنّت میں ان کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین

islamic events © 2019,

Tuesday, August 20, 2019

abdullah shah ghazi R.A[حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ]

abdullah shah ghazi R.A[حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ]

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ


حضرت عبد اﷲ شاہ غازی ۹۸ھ میں حضرت محمد نفس ذکیہ کے گھر مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کاسلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضرت علی کرم اﷲوجہہ الکریم سے جاملتا ہے ۔آپ حسنی وحسینی سادات میں سے ہے آپ کا شجرہ نسب حسنی میں ابو محمد عبد اﷲالاشتربن سید محمد نفس ذکیہ بن سید محمد عبد اﷲبن سیدنا امام حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سید ناعلی مرتضیٰ کرم اﷲوجہہ الکریم اورماں کی جانب حسینی ہے حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت حضرت امام حسین رضی اﷲتعالیٰ عنہ کانکاح حضرت امام حسن مثنیٰ سے ہواتھا ۔آپ حضرت امام موسیٰ کاظم سے عمر میں تین سال بڑے اور اما م جعفر صادق سے عمر میں پندرہ سال چھوٹے تھے ،تلوار چلانے اور اونٹ سواری میں آپ کاثانی نہیں تھا اس لئے آپ کو الاشتر یعنی اچھا اونٹ چلانے والا جو کہ آپ کے نام کاجز بن گیا ۔عبد اللہ شاہ غازی کی کنیت ابو محمد اور لقب العشتر ہے۔آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے والد کے زیر سایہ ہوئی آپ علم حدیث میں مہا رت رکھتے تھے اس لیے آپ کا محدثین میں بھی شمار کیا گیا۔آپ ’’میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں ‘‘کے خانوادے کے روشن چراغ تھے آپ میں علم کے جو ہر موجو د تھے آپ علم کی تابانیوں سے عرش تافرش بقعہ نو ر تھے۔آپ کا تابعی ہونا بھی ممکنات میں سے ہے آپ کے زمانے میں کئی صحابہ کرام روئے زمین پر موجود اپنے علم کے نور بکھیر رہے تھے ۔

سندھ آمد: بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہو چکی تھی جب ۱۳۸ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضرت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ ابن کثیر نے تاریخ الکامل’ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔
آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کو اپنے درمیان پا کر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ ۱۴۵ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں ۱۵ رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ ۲۵ ذیقعد (۱۴فروری ۷۶۳ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔
گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت’ عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔

سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت’ اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ شاہ غازی شکار کی غرض سے جنگلوں میں جارہے تھے تو فوجوں نے اُن سے اچانک لڑائی شروع کردی۔ اچانک کسی ظالم کی تلوار آپ کے سرِمبارک پر لگی جس سے زخمی ہوکر گر پڑے ، اسی اثنا میں آپ کے ساتھیوں کے حملے سے مخالف افواج بھاگنے پر مجبور ہوگئیں۔ جب آپ کے ساتھی آپ کے قریب پہنچے تو آپ جام شہادت نو ش کرچکے ۔یہ ۲۰ ذوالحج ۱۵۱ ھ کا دن تھا ۔
حضرت عبدللہ شاہ غازی کی سب سے بڑی کرامت سمندر کے قریب مزار کے نیچے میٹھے پانی کا چشمہ ہے جو آپ کی چلہ گاہ میں بھی موجود ہے۔ لوگ دور دور سے آتے ہیں اور یہ پانی پی کر شفا یاب ہوتے ہیں۔ آپ کے مزار پر آنے والے زائرین میں ہر مذہب کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ زائرین کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں آکر دل کو تقویت ملتی ہے اور مرادیں پوری ہوتی ہیں۔آپ کا عرس مبارک ہر سال ماہ ذوالحجہ کی ۲۰,۲۱,۲۲تاریخ کو بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔

islamic events © 2019,

Monday, August 19, 2019

karamaat e usman e ghani[کراماتِ عثمان غنی]

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت و کرامات و سخاوت پر مشتمل رسالہ.


karamaat e usman e ghani[کراماتِ عثمان غنی]

islamic events ©

Sunday, August 18, 2019

امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ

امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ

امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ


امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنوامیہ سے تھا۔ والد عفان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے جا ملتا ہے ۔ پیکر عفت و حیا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ امیرالمومنین، خلیفة المسلمین، بارگاہ خداوندی میں انتہائی مقرب، رہنمائے اہل صفا و غنا، استاذ الصابرین، پیشوائے سالکین، منبع جودوسخا، متصف بالحیا، ابوعبداللہ آپ رضى الله عنه کا نام عثمان کنیت: ابو عبد اللہ اور لقب ”غنی“” ذوالنورین “ یہ وہ فضیلت ہے جو آپ کے سواکسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی شخص کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئیں، اسی لیے آپ رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہتے ہیں۔
آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی پکار پر لَبَّیْک کہا۔ اسلام لانےکے بعد چچا حَکَم بن ابو العاص نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو رسیوں سے باندھ دیا اور دینِ اسلام چھوڑنے کا کہا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اسے صاف صاف کہہ دیا: میں دینِ اسلام کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے جد ا ہوں گا۔

حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو دفعہ کی، ایک مرتبہ حَبْشہ کی طرف تو دوسری بار مدینے کی جانب۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کااِعزازپایا ۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب پی، نہ بدکاری کے قریب گئے،نہ کبھی چوری کی نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا۔
خلافت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری وقت میں ایک کمیٹی بنائی جس میں حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبد اللہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم کو شامل کیا ۔اور ارشاد فر مایا کہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ جب حضور ﷺدنیا سے تشریف لے گئے تو ان سے راضی اور خوش تھےاس لئے یہ لوگ جن کو خلیفہ بنادے وہی مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد اس کمیٹی کے اتفاق سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ۱/محرم الحرام ،سن ۲۴/ہجری میں حضور ﷺ کے تیسرے خلیفہ کے طور پر نامزد کئے گئے اور لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کیا۔آپ نے کل بارہ سال تک خلافت کی ذمہ داری نبھائی جس میں چھ سال تو نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ گزرااور مسلمانوں کی بڑی ترقی ہوئی مگر آخر کا چھ سال حضور ﷺ کی خبر کے مطابق کہ”اے عثمان اللہ تعالیٰ تمہیں {خلافت} کی قمیص پہنائے گا جسے منافقین اتارنا چاہیں گے مگر تم نہ اتارنا۔
منافقین کی ایک جماعت نے آپ کو خلافت سے ہٹانے کا منصوبہ بنا یا اور پھر آپ کے خلاف فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کاناشروع کیامگر آخر وقت تک آپ حضور کی نصیحت پر جمے رہے اور صبر کرتے رہے یہاں تک ظالموں نے آپ کو شہید کردیا۔

شہادت: حضور اکرم ﷺ نے آپ کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺ اُحد پہاڑ پر چڑھے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم تھے ،اُحد پہاڑ کانپنے لگا تو حضور نے فر مایا:اےاُحد! ٹھہر جا،تجھ پر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دوشہید ہیں۔اور آپ ﷺ نے اپنے آخری وقت میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو آنے والی مصیبت پر صبر کرنے کی وصیت بھی فر مائی تھی۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:حضور اکرم ﷺ نے اپنے مرضِ وصال میں فر مایا کہ:میری خواہش ہے کہ میرے پاس میرا کوئی صحابی ہو۔تو ہم نے عر ض کیا کہ :یارسول اللہ!کیا ابوبکر کو بلائیں؟ تو حضور خاموش رہے پھر ہم نے عر ض کیا کہ:کیا عمر کو بلائیں ؟پھر بھی حضور خاموش رہے۔پھر میں نے عر ض کیا:عثمان کو بلائیں ؟تو حضور نے کہا کہ:ہاں۔پھر حضرت عثمان آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے گفتگو فر مائی تو حضرت عثمان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔حضرت ابو سہلہ کہتے ہیں کہ:فتنہ کے دنوں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا کہ: حضور نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا تو میں اس عہد پر صابر ہوں۔نیز حضور نے خود فتنہ کے دنوں میں آپ کے حق اور ہدایت پر ہونے کی خبر پہلے ہی صحابہ کو دے دی تھی۔حضرت مرہ بن کعب کا بیان ہے کہ:نبی کریم ﷺ نے فتنے کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ قریب ہی ہے اتنے میں ایک شخص کپڑا ،اوڑھے ہوئے گزرا تو حضور نے اس کی طرف اشارہ کر کے فر مایا کہ:یہ شخص اُس دِن حق پر ہوگا۔راوی کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی طرف گیا تو وہ حضرت عثمان تھے۔میں نے حضور سے عر ض کیا کہ:یارسول اللہ !یہ{حق پر ہوں گے؟}تو حضور نے فر مایا کہ:ہاں،یہ۔
امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ ۔۱۸ذی الحجہ ،سن ۳۵/ہجری کو جمعہ کادن تھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نےرات کو خواب میں رسول اکرم ﷺ کودیکھا کہ آپ ﷺ فر مارہے ہیں کہ:اےعثمان! ہمارے پاس آکر افطار کرو۔صبح کو حضرت عثمان نے روزہ رکھا اور اُسی دن عصر کے بعد جب آپ قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھے ظالموں نے آپ کو شہید کردیا ۔

islamic events © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...