سُکون
سُکون کی تلاش کسے نہیں ہوتی؟ اس سکون کو انسان جگہ جگہ تلاش کرتا ہے کبھی اسے لگتا ہے کہ زیادہ دولت کمالوں تو سکون مل جائے گا، دولت سے سکون ملتا تو قَارُون کو مل جاتا مگر وہ تو اپنے خزانوں کے ساتھ ہی زندہ زمین میں دَفْن ہوگیا! بعض لوگ اپنا سکون حکومت اور طاقت میں تلاشتے ہیں، حکومت سے سکون ملتا تو فرعون و نَمرود کیوں برباد ہوتے! کچھ لوگ شہرت میں سکون کو ڈھونڈتے ہیں، شہرت تو ابوجہل کو بھی ملی مگر کیا اسے سکون بھی ملا؟ یقیناً نہیں۔
سکون کی تلاش میں لوگ اورکیا کچھ نہیں کرتے!مثلاًکسی نے رُومانی و جاسوسی ناولوں اور ڈائجسٹوں کو پڑھنا شروع کردیا ،کسی نے تفریحی مقامات پر جاکر سرسبز پہاڑوں، برف باری، آبشاروں اور باغات میں گھوم پھر کر سکون پانے کی کوشش کی ،کسی نے اُوٹ پٹانگ قسم کے کھیل کھیلنے یا دیکھنے کو سکون کا سبب سمجھا ،کسی نے موسیقی سُننے، ڈانس کرنے، فلمیں ڈرامے دیکھنے میں سکون کو ڈھونڈا ،کسی نے ہیروئین، چرس، گانجا وغیرہ کے نشے میں تو کسی نے جنسی افعال میں سکون پانا چاہا اور کسی کو غیبت، چغلی، تکبر وغیرہ میں سکون محسوس ہوا بعضوں کو اپنی ڈیوٹی اور ذِمّہ داری پوری کرنے پر سکون ملتا ہے تو کئی سُست و کاہل کچھ نہ کرنے میں سکون پاتے ہیں۔
انسان نے سُکون کی تلاش کے جتنے راستے اپنے طور پر اپنائے ان میں کہیں آخِرت برباد ہوئی، کہیں وقت ضائع ہوا تو کہیں رَقْم، کہیں صحت برباد ہوئی اور کہیں دوسرے لوگ بےسکون ہوئے لیکن حقیقی سکون پھر بھی نہیں ملا اور جسے انسان نے سکون سمجھا وہ وقتی کیفیت اور نظر کا دھوکا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ حقیقی سکون کیسے ملے؟ اس کیلئے ہمیں چاہئے کہ سب سے پہلے ہم سکون کا معیار بدلیں، فضولیات اور گناہوں میں سکون کی تلاش نادانی ہے، ہمیں پیدا کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ یقیناً ہم سے زیادہ ہمارے دل و دماغ اور جسم و روح کو جانتا ہے، اس نے ہمارے دِلوں کا سکون اور چین اپنی یاد میں رکھا ہے، چنانچہ پارہ ۱۳سُوْرَۂ رَعْد کی آیت ۲۸ میں ارشاد ہوتا ہے:( اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸))ترجمۂ کنزُالایمان: سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔
اس آیت کے تحت تفسیرِ خزائنُ العرفان میں ہے: اس کے رَحْمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرکے بے قرار دِلوں کو قرار و اطمینان حاصل ہوتا ہے اگرچہ اس کے عَدْل و عِتاب کی یاد دلوں کو خائف کردیتی ہے۔
ذِکْرُ اللہ کی اقسام صدرُ الاَفاضل حضرت مولانا مفتی سیِّد محمد نعیم الدّین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی سُوْرَۂ بَقَرَہ کی آیت ۱۵۲: ( فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ) (ترجمۂ کنزُالایمان:تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا۔) کے تحت تفسیرِ خزائنُ العِرفان میں لکھتے ہیں: ذِکْر تین طرح کا ہوتا ہے: (۱)لِسانی (یعنی زبان سے) (۲)قَلْبی (یعنی دل سے) (۳)بِالجوَارِح (اعضائے جسم سے)۔ ذِکْرِ لِسانی تسبیح، تقدیس، ثنا وغیرہ بیان کرنا ہے، خطبہ، توبہ، اِستغفار، دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ ذکرِ قلبی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا، اس کی عظمت و کِبریائی اور اس کے دلائلِ قدرت میں غور کرنا عُلَماء کا استنباطِ مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔ ذکر بِالْجَوارِح یہ ہے کہ اعضا طاعتِ الٰہی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لئے سفر کرنا یہ ذِکْر بِالجوارح میں داخل ہے۔ نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے، تسبیح و تکبیر، ثناء و قراءت تو ”ذکرِ لسانی“ ہے اور خُشُوع و خُضوع، اخلاص ”ذکرِ قلبی“ اور قِیام، رُکوع و سُجود وغیرہ ”ذکر بِالجوارح“ہے۔
جب ہمارا سُکون یادِ الٰہی سے وابستہ ہوجائے گا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں نماز میں بھی لطف آئے گا، روزہ رکھنے میں راحت ملے گی، زکوٰۃ ادا کرنے پر چین آئے گا، فرض حج کرنے پر قرار ملے گا۔اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچّی مَحَبّت کی بے قراری نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
No comments:
Post a Comment