Saturday, November 23, 2019

Anjane Khauf[انجانے خوف]

 Anjane Khauf[انجانے خوف]

انجانے خوف


وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے،کالی بِلّی کے راستہ کاٹنے یا گھر کی چَھت پر اُلّو کے بولنے سے ہمیں کچھ نقصان نہیں پہنچے گا،کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے سے کالی بلی نہیں گزرتی پھر بھی انہیں کوئی نہ کوئی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے لہٰذا کالی بلی میں کوئی نُحوست نہیں ہے۔سُورۂ تَوبَہ میں اللہ پاک مسلمانوں سے اِرشادفرماتا ہے کہ یوں کہا کریں:( لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱))تَرجَمۂ کنزُ الایمان:ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسا چاہیے۔(پ۱۰، التوبہ: ۵۱)امام فخر الدّین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ کبیر میں فرماتے ہیں : اس آیتِ مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ ہمیں کوئی خیر و شَر، خوف و اُمید، شدّت و سختی نہیں پہنچے گی مگر وہی کہ جو ہمارا مقدر ہے اور اللہ کریم کے پاس لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:اللہ پاک نے ہر ایک جان کو پیدا فرمایا ہے اور اس کی زندگی، رِزْق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے۔(ترمذی)لہٰذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اس بات پر یقینِ کامل ہونا چاہئے کہ رَنج ہو یا خُوشی! آرام ہو یا تکلیف! اللہ پاک کی طرف سے ہے اور جو مشکلات، مصیبتیں، تنگیاں اور بیماریاں ہمارے نصیب میں نہیں لکھی گئیں وہ ہمیں نہیں پہنچ سکتیں۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: یقین رکھو کہ اگر پوری اُمّت اس پر متفق ہوجائے کہ تم کو نفع پہنچائے تو وہ تم کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر اس چیز کاجو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی اور اگر سب اس پر متفق ہوجائیں کہ تمہیں کچھ نقصان پہنچا دیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اس چیز سے جو اللہ نے لکھی۔(ترمذی)حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نے اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں یعنی ساری دنیا مِل کر تم کو نفع نہیں پہنچا سکتی اگر کچھ پہنچائے گی تو وہ ہی جو تمہارے مقدر میں لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا لکھا ہوا نفع دنیا پہنچا سکتی ہے۔ طبیب کی دوا شِفا دے سکتی ہے، سانپ کا زہر جان لے سکتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا طے شُدہ اس کی طرف سے (ہے)، حضرت یوسف (علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام) کی قمیص نے دیدۂ یعقوبی (یعنی حضرت سیِّدُنا یعقوب علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی آنکھوں) کو شِفا بخشی، حضرت عیسیٰ (علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام) مُردے زندہ، بیمار اچھے کرتے تھے مگر اللہ کے اِذن (یعنی اِجازت) سے،لکھنے سے مراد لوحِ محفوظ میں لکھنا ہے اگرچہ وہ تحریر قلم نے کی مگر چونکہ اللہ کے حکم سے کی تھی اس لیے کہا گیا کہ اللہ نے لکھا مطلب ظاہِر ہے کہ اگر سارا جہاں مل کر تمہیں کوئی نقصان دے تو وہ بھی طے شدہ پروگرام کے تحت ہوگا کہ لوحِ محفوظ میں یوں ہی لکھا جاچکا تھا خیال رہے کہ تدبیر بھی تقدیر میں آچکی ہے لہٰذا تدبیر سے غافل نہ رہو مگر اس پر اِعتماد نہ کرو نظر اللہ کی قدرت و رحمت پر رکھو۔

مصیبت آنے پر خود کو اللہ پاک سے ڈرانے، صَبْر پر استِقامت پانے اور غَلَط قدم اٹھانے سے خود کو بچانے کے لئے توبہ و اِستِغفار کرتے ہوئے یہ ذِہْن بھی بنایئے کہ ہم پر جو مُصیبت نازِل ہوئی ہے اُس کا سبب ہمارے اپنے ہی کرتُوت ہیں نہ کہ کسی کی نُحوست کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، پارہ ۲۵سورۃُ الشُّوریٰ کی۳۰ویں آیتِ کریمہ میں ارشادِ ربّانی ہے:( وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)) تَرجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔
صدرُالاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:یہ خطاب مُؤمنین مُکَلَّفِین سے ہے جن سے گناہ سَرزَد ہوتے ہیں، مُراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مؤمنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ان تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مؤمن کی تکلیف اُس کے رَفعِ دَرَجات ( یعنی بلندیِ دَرَجات) کےلیے ہوتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم پر آنے والی مصیبت ہمارے گناہوں کی فوری سزا ہوتی ہے، چُنانچِہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِذَا اَرَادَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ بِعَبْدٍ خَیْرًا عَجَّلَ لَہٗ عُقُوْبَۃَ ذَنْبِہٖ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے بھلائی کا اِرادہ کرتا ہے تو اُس کے گناہ کی سزافوری طور پراُسے (دنیا ہی میں) دے دیتا ہے۔ (مسند امام احمد) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تمام گناہوں میں سے جس گناہ کی سزا اللہ پاک چاہتا ہے قیامت تک مؤخر فرما دیتا ہے سِوائے والدین کی نافرمانی کے کہ اس کی سزا وہ موت سے پہلے زندگی میں ہی دے دیتا ہے۔(شعب الا یمان)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے نماز چھوڑی اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کوگھٹا ديا۔(کنزالعمال) حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سُود سے (بظاہر) مال زیادہ ہوجاتا ہے،مگر اس کا انجام یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند امام احمد) علّامہ عبدُ الرؤوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: سُود کے ذریعے مال میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے مگر سُود لینے والے شخص پر (مال کی) تباہی و بربادی کے جو دروازے کُھلتے ہیں ان کی وجہ سے وہ مال کم ہوتے ہوتے بِالآخر ختم ہوجاتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی رضا پر راضی رہنے، بدشُگونی سے بچنے اور گناہوں سے دُور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...