صبر
زندگی کے سفر میں انسان ہمیشہ ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا، کوئی دن اس کے لئے نویدِ مَسَرَّت (خوشخبری)لے کر آتا ہے تو کوئی پیامِ غم، کبھی خوشیوں اور شادمانیوں کی بارش برستی ہے تو کبھی مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلتی ہیں۔ ان آندھیوں کی زَد میں کبھی انسان کی ذات آتی ہے، کبھی کاروبار اور کبھی گھر بار۔ الغرض! مصیبتوں اور پریشانیوں سے انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسی لئے اسلام نے مصیبتوں میں صَبْر اور خوشیوں میں اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: مؤمن کا معاملہ کتنا عجیب ہے کہ اس کے لئے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے اگر اسے خوشی پہنچے اور شکر کرے تو یہ اس کے لئے خیر ہے اور اگر مصیبت پہنچے اور اس پر صَبْر کرے تو یہ اس کے لئے بَھلائی ہے(مسلم)۔
صبر کا معنی ہے نفس کو اس چيز سے باز رکھنا جس سے رُکنے کا عَقْل اور شريعت تقاضا کررہی ہو۔ صبر بظاہر تین حَرْفی لفظ ہے مگر اپنے اندر ہمّت، حوصلہ، برداشت، تَحَمُّل، بھلائی، خیر، نرمی، سکون اور اطمینان کی پوری کائنات سَموئے ہوئے ہے۔ صبرِ جمیل (بہترین صبر) یہ ہے کہ مصیبت میں مبتلا شخص کو کوئی پہچان نہ سکے۔
مقامِ صبر پر فائز ہونا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قراٰنِ پاک میں ۷۰ سے زائد مرتبہ صبر کا ذکر فرمایا اور اکثر دَرَجات و بھلائیوں کو اسی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ نے صابرین کے ساتھ ہونے کا بھی وعدہ فرمایا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: (وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ(۴٦)) تَرجمۂ کنزُالایمان : اور صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔(پ:۱۰، الانفال :۴٦) اس کے علاوہ قراٰنِ پاک میں صبر کو تَقَرُّبِ الٰہی،دین کی سرداری، بہترین اوربے حساب اَجر، نُصْرَتِ رَبّانی اور رب کی رحمتیں پانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
احادیثِ مبارکہ :جس بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا۔(ترمذی) اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: جب میں بندۂ مؤمن کی دنیا کی پیاری چیز لے لوں پھر وہ صبرکرے تو اس کی جزا جنّت کے سوا کچھ نہیں(بخاری)۔
افسوس! آج ہم صبر سے بہت دور ہو چکے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ایک تعداد ذِہنی دباؤ، ڈپریشن،شوگر اور بلڈپریشر جیسے مُہْلِک اَمْراض میں مبتلا ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے عقلمندوں کی بصیرت کے چراغ بے صبری کی وجہ سے گُل ہو جاتے ہیں،آج دینی و دُنْیَوی معاملات میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کی سمت جارہا ہے،لڑائیاں عام ہوچکی ہیں، دوسروں کے بغض و کینے سے سینے بھرے ہوئے ہیں، آستینیں چڑھی ہوئی ہیں اور لوگ ماردھاڑ پر کمر بَسْتَہ ہیں۔
نبیِّ اکرم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مکمل زندگی صبر و تَحَمُّل سے لبریز ہے، کافروں نےمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ علیہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام پر ظلم و سِتَم کے پہاڑ توڑے، پتھر برسائے، راہ میں کانٹے بچھائے،جسمِ اَطْہر پر نجاسَتیں ڈالیں،ڈرایا،دھمکایا،بُرا بھلا کہا،قتل کی سازشیں کیں مگر کائنات کے آقاصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی کوئی ذاتی انتقامی کاروائی نہ کی، خود بھی صبر سے کام لیا اور رہتی دنیا تک اپنے ماننے والوں کو مصائب میں صبر کی تلقین ارشاد فرمائی۔ آپ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:جسے کوئی مُصیبت پہنچے اسے چاہئے کہ اپنی مُصیبت کے مقابلے میں میری مُصیبت یاد کرے بے شک وہ سب مُصیبتوں سے بڑھ کر ہے(حدیث)۔
یاد رکھئے! انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، گھریلوہو یا سماجی، صبر کے بغیر زندگی کی کتاب نامکمل رہتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر وقت صبر کی سواری پر سوار رہیں، مصیبتوں، پریشانیوں، بے جامخالفتوں اور غموں کا سامنا ہو بھی تو صبر ان تمام چیزوں کا بہترین جواب ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں صبر کی دولت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّ
No comments:
Post a Comment