شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ عبد الحق محدث دہلوی ابن شیخ سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ فیروز بن شیخ موسیٰ بن ملک معزالدین بن آغا محمد ترک بخاری، شیخ محقق کی کنیت ابو المجد ہے۔ماہ محرم ۹۸۵ھ کو شیخ محقق دہلی میں پیدا ہوئے، یہ اسلام شاہ سوری کا زمانہ تھا، والد ماجد نے خاص تربیت و تعلیم کے ذریعہ آپ کے افکار و اذہان کو منور ومجلیٰ کر دیا اور آپ کو علوم عقلیہ و نقلیہ، ظاہری و باطنی میں کمال پیدا ہوگیا، دو تین مہینے میں قرآن شریف ختم کر لیا ، قریب ایک مہینہ میں لکھنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، بارہ تیرہ سال کی عمر میں شرح شمسیہ اور شرح عقائد جیسی دقیق اور معرکۃ الآرا کتابیں پڑھ لیں، اور پندرہ سولہ سال میں مختصر و مطول اور اٹھارہ سال کی عمر میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ پڑھ کر ان پر عبور حاصل کرلیا، علماے ماوراء النہر سے بھی اکتساب علم کیا اور ہر علم و فن کے امام بن گئے، عبادت و ریاضت میں بھی یکتاے زمانہ تھے، علما و مشائخ کی صحبت بابرکت کی طرف خاص التفات تھا ، یہ شہنشاہ اکبر کا دور تھا، اسلامی رسومات کی پامالی، اور بدعات و خرافات کے فروغ میں حکومتی امداد و سرپرستی نے آپ کو کبیدہ خاطر بنا ڈالا، اور اس ماحول سے تنگ آکر ۳۸؍ سال کی عمر میں ۹۹٦ھ میں حجاز مقدس کا سفر اختیار فرمایا، وہاں کے علما و محدثین سے صحیح بخاری و مسلم کا درس لیا، پھر شیخ عبد الوہاب متقی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے علم حدیث کی تکمیل کی اور علم طریقت و سلوک میں تبحر حاصل کیا، مدینہ منورہ میں حاضری دی، بار بار زیارت رسول کریم ﷺسے مشرف ہوئے، تین سال حجاز مقدس میں قیام کے بعد اپنے شیخ کے حکم پر ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان واپس آگئے،اور دہلی میں مدرسہ قائم فرماکر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف و خدمت حدیث میں ہمہ دم مشغول ہوگئے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ سید موسیٰ گیلانی سے بیعت کی اور خلافت سے نوازے گئے، ان کے علاوہ عبد الوہان متقی اور خواجہ باقی باللہ نے بھی خلافت سے نوازا، آپ کو سلسلہ قادریہ ، چشتیہ، شاذلیہ، مدنیہ اور نقش بندیہ کی خلافت ملی تھی لیکن قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا اور ان کی ارادت و عقیدت کا مرکز شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھے،آپ نے پندرہ سے زائد علوم و فنون میں ساٹھ سے زائد تصنیفات و تحقیقات یاد گار چھوڑی ہیں جن میں اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ، لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،مدارج النبوۃ، جذب القلوب، اخبار الاخیار وغیرہا کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی محققانہ عبارات آپ بھی ارباب علم و تحقیق کے درمیان قابل استناد ہیں۔
۔۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ کو علم و تحقیق اور رشد و ہدایت کا یہ آفتاب چورانوے سال کی عمر میں غروب ہوگیا، وصیت کے مطابق آپ کے فرزند شیخ نور الحق نے نماز جنازہ پڑھائی۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا مزار حوض شمسی سے جانب اتر نئی آبادی اسلام پور مہرولی، دہلی۳۰ میں ہے ۔
No comments:
Post a Comment