Friday, November 29, 2019

Hazrat Khawaja Mohkam din Serani RA[حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ]

Hazrat Khawaja Mohkam din Serani RA[حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ]

حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ


قددۃالسّالکین،سلطانُ العارفین،شہبازِوقت،قطبِ زمانہ حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کی ولادت باسعادت ۱۱۳۷ھ مین گوگیرہ(اوکاڑہ)پنجاب،پاکستان میں ہوئی۔حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ علیہ کو صاحبِ اسیر اور سیرانی بادشاہ کے القاب سے پکارہ جاتا ہے۔
خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپؒ کے والد حافظ محمد عارف رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کی زیرِ سایہ ہوئی،آپ رحمۃاللہ تعالٰی علیہ شیخ الشیوخ حضرت بابا فریدالدّین گنج شکر رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کے ہم عصر ہیں،خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ سلسلہ اویسہ میں بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے،آپ رحمۃاللہ تعالٰی علیہ حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کا مئظہراتم تھے اور طریقت کے اعلٰی منصب پر فائز تھے،آپؒ کا مقام بہت ارفع واعلٰی ہے۔

حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے قول و عمل میں خود کو حضرت خواجہ اویس قرنی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کا نمونہ بنایا ہوا تھا اور ان نفوسِ قدسی کی طرح انتہائی سادہ زندگی بسر فرمائی۔آپ رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے اپنی تمام زندگی اسلامی تعلیمات عام کرنے میں گزاری ۔آپؒ کی تصنیف ” تلقینِ لدنی“ ہر لحاظ سے بے مثال ہے۔
Hazrat Khawaja Mohkam din Serani RA[حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ]
حضرت خواجہ محکم الدّین سیرانی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ ٦۲ سال کی عمر میں ۵ ربیع الآخر ۱۱۹۷ ھ کو اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا،آپ رحمۃاللہ تعالٰی علیہ کا مزارخانقاہ شریف (نزدسمہ سٹہ ضلع بہاول پور) پاکستان میں مرکزِ فیوض و برکات ہے۔

islamic events © 2019,

Thursday, November 28, 2019

BAGHDADI O JILANI NUSKHA[بغدادی و جیلانی نسخہ]

BAGHDADI O JILANI NUSKHA[بغدادی و جیلانی نسخہ]

بغدادی و جیلانی نسخہ


نُسخۂ بغدادی


اِن شاءاللہ سال بھر تک آفتوں سے حفاظت

ربیع الآخر کی گیارھویں شب(بڑی رات) سارا سال مصیبتوں سے حفاظت کی نیت سے سرکارِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃاللہِ لاکرم کے گیارہ نام (اول آخر گیارہ بار درود شریف) پڑھ کر گیارہ کھجوروں پر دم کرکے اسی رات کھالیجئے،اِن شاءاللہ سارا سال مصیبتوں سے حفاظت ہوگی۔

گیارہ نام یہ ہیں


یَاشَیخ مُحیُ الدِّین
یَا سَیِّدمُحیُ الدِّین
یَا مَولَانَا مُحیُ الدِّین
یَا مَخدُوم مُحیُ الدِّین
یَا دَروَیش مُحیُ الدِّین
یَا خَواجَہ مُحیُ الدِّین
یَا سُلطَان مُحیُ الدِّین
یَا شَاہ مُحیُ الدِّین
یَا غَوث مُحیُ الدِّین
یَا قُطب مُحیُ الدِّین
یَا سَیِّدَ السَّادَات عَبدَ القَادِرمُحیُ الدِّین


جیلانی نسخہ


پیٹ کی بیماریوں کے لیے

ربیع الآخر کی گیارھویں رات تین کھجوریں لے کر ایک بارسُوْرَۃُ الْفَاتِحہ، ایک مرتبہ سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص ، پھر گیارہ بار یَاشیْخ عَبدَالقَادِر جِیلانی شَیئًا لِلّٰہِ اَلْمَدَد( اوّل آخر ایک بار دُرود شریف ) پڑھ کر ایک کھجور پر دم کیجئے ، اس کے بعد اسی طرح دوسری اور تیسری کھجور پر بھی پڑھ کر دم کردیجئے ، یہ کھجوریں راتوں رات کھانا ضَروری نہیں جو چاہے جب چاہے جس دِن چاہے کھاسکتا ہے ۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ پیٹ کی ہر طرح کی بیماری (مثلاً پیٹ کا درد، قبض، گیس ، پیچش ، قے ، پیٹ کے اَلسَر وغیرہ) کے لیے مفید ہے ۔

islamic events © 2019,

Wednesday, November 27, 2019

matehatO[ماتحتوں]

matehatO[ماتحتوں]

ماتحتوں


اس دنیا کا رنگ ہے کہ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر۔ مقام و مرتبہ کا یہ فرق اس لئے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ کم حیثیت شخص کو نیچ اور حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حُسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کا حُسن ماتحتوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنے کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے: حضرت سیّدُنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے (دس سال تک) سفر و حَضر میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (بخاری)۔

ماتحتوں کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی اور کٹوتی بددیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے۔ حدیثِ قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے:تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد)۔
ماتحتوں سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی یا نقصان ہوجائے تو درگزر کیا جائے۔ موقع محل کی مناسبت سے دُرست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے لیکن ان کو ہدفِ تنقید بنالینا، کَھری کَھری سنانا، ذلیل کرنا اور معمولی غلطیوں پر بھی گرفت کرنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ پاک علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام سے عرض کیا کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک مُعاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:ہر روز ۷۰ بار۔(ابو داؤد)۔
ماتحتوں سے ہمیشہ نیکی اوربھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ صاحبِ منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو اچھے انداز میں پیش آیا ہی جاتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اپنے تنخواہ دار ملازم کے ساتھ بھی ہمیشہ حُسنِ سلوک کیا جائے۔ ان کی ضَروریات کا خیال رکھا جائے، اچھے طریقے سے خیر خیریت دریافت کی جائے اور مشکلات میں حسبِ استطاعت مدد کی جائے۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بدبختی ہے۔(ابوداؤد)۔
اللہ پاک ہمیں ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Monday, November 25, 2019

ashab E kahf[اَصحَابِ کَہْف]

ashab E kahf[اَصحَابِ کَہْف]

اَصحَابِ کَہْف


آج سےتقریباً دو ہزارسال پہلے ملکِ رُوم کے شہر ”اُفسُوس“ میں ایک ظالم بادشاہ دَقیانُوس کی حکومت تھی۔ جو شخص بُتوں کی پُوجانہ کرتا اسے قتل کروادیتا۔ایک دن اِیمان والوں کے قتل کا مَنظر دیکھنے کے لئے چند نوجوان (اَصحَابِ کَہْف)آئے، اللہ عزّوجلّ نے اُن کی آنکھوں سے پَردے ہٹادئیے تواُنہوں نے دیکھا کہ جس مؤمن کوبھی قتل کیا جاتا فرشتے آسمان سے اُترتے اور اُس کی رُوح کو اپنےساتھ لے جاتے، یہ اِیمان اَفروزمَنظردیکھ کر وہ سب نوجوان ایمان لے آئے۔
بادشاہ دَقیانُوس کوسفر پر جاتے ہوئے اِس بات کا عِلْم ہوا،تو اُس نے اُنہیں تین دن کی مہلت دی کہ میرےواپس آنے تک ایمان سےپِھر جاؤ ورنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا۔ تیسرے دن یہ صاحبِ ایمان نوجوان (اَصحَابِ کَہْف)کچھ مال لے کر رات کے وقت شہر سے رُخصت ہوگئے، راستے میں اُنہیں اپنے خاندان کی بکریاں چَرانے والا ایک چَرواہا ملا،جسے اُنہوں نے اپنا ماجرا بیان کیااور اسے بھی اِیمان کی دعوت دی، چَرواہے نے اِیمان قبول کیا اور اُن کے ساتھ شامل ہوگیا، چَرواہے کا رَکھوالی کرنے والا کُتّا بھی ساتھ ہی چل پڑا، یہ سب سفر کرتے کرتے صُبح کے وقت شہر سے تقریباً ٦ میل دُور ایک غار میں پہنچے اور کھانا کھا کر سوگئے، یہی وجہ ہے کہ اِنہیں اَصحَابِِ کَہْف یعنی غار والے کہا جاتا ہے۔

بادشاہ دَقیانُوس کو سفر سے واپسی پر اَصحَابِِ کَہْف کے غار میں پَناہ لینے کا پتہ چلا، تو اُس نے غار کے مُنہ پر دیوار بنوا دی ،تاکہ وہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے یہیں اِنتقال کرجائیں اور یہی غار اُن کی قَبر بن جائے۔جس حکومتی مُلازِم کویہ کام دیا گیا،اُس نے اَصحَابِِ کَہْف کے نام، تعداد اور اِن کا پورا واقعہ عُمدہ قسم کے سِیسہ (ایک سیاہی مائل نیلے رنگ کی دھات جس سے بندوق کی گولیاں اور چھرے وغیرہ بنائے جاتے ہیں)سے بَنی تختی پر لکھوایا اور اُسے تانبے کے ایک صَندوق میں بند کر کے دیوارکی بُنیادوں میں رکھوادیا۔
اَصحَابِ کَہْف(تقریباً)۳۰۹ سال تک مکمّل سوئے رہے، اِس دوران کسی بھی آواز کے سَبب ایک لمحے کیلئے بھی بیدار نہ ہوئے۔ اِس عرصے میں کئی بادشاہ آئے اور گئے،یہاں تک کہ ایک نیک دل بادشاہ بَیدَرُوس کی حکومت آگئی، اِس کے زمانے میں کئی فتنے اٹھے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا، کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت آنے کا کچھ لوگ انکار کرنے لگے تھے، بَیدَرُوس نے یہ حالت دیکھ کر بارگاہِ الٰہی میں فریاد کی: یااللہ عزّوجلّ! کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے لوگوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت آنے کا یقین ہو۔ چنانچہ اللہ عزّوجلّ نے بادشاہ کی دُعا یوں قبول فرمائی کہ ایک چَرواہے نے اپنی بکریوں کے آرام کے لئے اُس غار کو چُنا اور لوگوں کے ساتھ مل کر غار کے منہ پر بنی دیوار کو گرادیا، دیوار گرتے ہی لوگوں پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ سب وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

دیوار گِرنے کے بعد اَصحَابِ کَہْف بیدار ہوگئے، حالت ایسی تھی جیسے ایک رات سوئے ہوں، چہرے تروتازہ اور کپڑے بالکل صاف ستھرے تھے، نیز اُن کا کُتّا غار کے کنارے کلائیاں پھیلائے لیٹا تھا۔ اَصحَابِ کَہْف صبح کے وقت سوئے تھے اور جب اٹھے تو سورج ڈوبنے میں کچھ وقت باقی تھا۔انہوں نے نماز ادا کی اور اپنے ساتھی یَمْلِیْخا کو کھانا لانے کے لئے بھیجا۔ یَمْلِیْخا ایک تندوروالے کی دُکان پر گئے اور کھانا خریدنے کے لئے دَقْیانُوسی دور کا سِکّہ دیا، صدیوں پُرانا سِکّہ دیکھ کر بازار والے سمجھے کہ اِن کے ہاتھ کوئی پُرانا خزانہ آ گیا ہے، وہ یَمْلِیْخا کو حاکم کے پاس لے گئے، اُس نے پوچھا: خزانہ کہاں ہے؟ یَمْلِیْخا بولے: یہ خزانہ نہیں ہمارا اپنا پیسا ہے، حاکم کہنے لگا: یہ کیسے ممکن ہے! یہ سِکّہ ۳۰۰ سال پُرانا ہے، ہم نے تو کبھی یہ سِکّہ نہیں دیکھا، یَمْلِیْخا بولے: دَقیانُوس بادشاہ کا کیا حال ہے؟ حاکم بولا: آج کل اِس نام کا کوئی بادشاہ نہیں ہے، سینکڑوں سال پہلے اِس نام کا ایک کافر بادشاہ گزرا ہے، یَمْلِیْخا نے کہا: کل ہی تو ہم دَقْیانُوس سے اپنی جان بچا کر غار میں چھپے تھے، آئیے! میں آپ کو اپنے ساتھیوں سے ملواتا ہوں۔
حاکم اور کئی لوگ غار کی طرف چل پڑے، غار میں موجود اصحاب نے جب لوگوں کی آواز سنی تو سمجھے کہ یَمْلِیْخا پکڑے گئے ہیں اور دقیانوسی فوج اِنہیں بھی پکڑنے آ رہی ہے، یَمْلِیْخا نے غار میں پہنچ کر ساتھیوں کو سارا ماجرا بتایا، حاکم نے غار کے کنارے صندوق دیکھا تو اُسے کھلوایا، اندر سے تختی ملی جس پر اَصحَابِ کَہْف کا حال لکھا تھا، حاکم نے یہ خبر بادشاہ بَیدَرُوس تک پہنچائی، وہ بھی آ گیا اور اُس نے اَصحَابِ کَہْف کا حال دیکھ کر سجدۂ شکر کیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مرنے کے بعد زندہ ہونے اور قیامت کا یقین دلانے کے لئے نشانی عطا فرمائی۔ اِس کے بعد اَصحَابِ کَہْف غار میں آ کر سوگئے اور اُن کی روح قبض کر لی گئی، بَیدَرُوس نے لکڑی کے صندوقوں میں اُن کے مبارک جسم رکھے، غار کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا اور لوگوں کے لئے دن مقرر کر دیا کہ ہر سال عید کی طرح وہاں آیا کریں۔
ایک قول کے مطابق اَصحَابِ کَہْف کی تعداد ۷تھی جن کے نام یہ ہیں:(۱)مَکْسِلْمِیْنَا (۲)یَمْلِیْخَا (۳)مَرْطُوْنَسْ (۴)بَیْنُوْنُسْ (۵)سَارِیْنُوْنُسْ (٦)ذُوْ نَوَانِسْ (۷)کَشْفَیْطَطْنُوْ نَسْ اور کُتّے کا نام قِطْمِیْر تھا۔

islamic events © 2019,

Sunday, November 24, 2019

sukoon[ سُکون]

sukoon[ سُکون]

سُکون


سُکون کی تلاش کسے نہیں ہوتی؟ اس سکون کو انسان جگہ جگہ تلاش کرتا ہے کبھی اسے لگتا ہے کہ زیادہ دولت کمالوں تو سکون مل جائے گا، دولت سے سکون ملتا تو قَارُون کو مل جاتا مگر وہ تو اپنے خزانوں کے ساتھ ہی زندہ زمین میں دَفْن ہوگیا! بعض لوگ اپنا سکون حکومت اور طاقت میں تلاشتے ہیں، حکومت سے سکون ملتا تو فرعون و نَمرود کیوں برباد ہوتے! کچھ لوگ شہرت میں سکون کو ڈھونڈتے ہیں، شہرت تو ابوجہل کو بھی ملی مگر کیا اسے سکون بھی ملا؟ یقیناً نہیں۔
سکون کی تلاش میں لوگ اورکیا کچھ نہیں کرتے!مثلاًکسی نے رُومانی و جاسوسی ناولوں اور ڈائجسٹوں کو پڑھنا شروع کردیا ،کسی نے تفریحی مقامات پر جاکر سرسبز پہاڑوں، برف باری، آبشاروں اور باغات میں گھوم پھر کر سکون پانے کی کوشش کی ،کسی نے اُوٹ پٹانگ قسم کے کھیل کھیلنے یا دیکھنے کو سکون کا سبب سمجھا ،کسی نے موسیقی سُننے، ڈانس کرنے، فلمیں ڈرامے دیکھنے میں سکون کو ڈھونڈا ،کسی نے ہیروئین، چرس، گانجا وغیرہ کے نشے میں تو کسی نے جنسی افعال میں سکون پانا چاہا اور کسی کو غیبت، چغلی، تکبر وغیرہ میں سکون محسوس ہوا بعضوں کو اپنی ڈیوٹی اور ذِمّہ داری پوری کرنے پر سکون ملتا ہے تو کئی سُست و کاہل کچھ نہ کرنے میں سکون پاتے ہیں۔

انسان نے سُکون کی تلاش کے جتنے راستے اپنے طور پر اپنائے ان میں کہیں آخِرت برباد ہوئی، کہیں وقت ضائع ہوا تو کہیں رَقْم، کہیں صحت برباد ہوئی اور کہیں دوسرے لوگ بےسکون ہوئے لیکن حقیقی سکون پھر بھی نہیں ملا اور جسے انسان نے سکون سمجھا وہ وقتی کیفیت اور نظر کا دھوکا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ حقیقی سکون کیسے ملے؟ اس کیلئے ہمیں چاہئے کہ سب سے پہلے ہم سکون کا معیار بدلیں، فضولیات اور گناہوں میں سکون کی تلاش نادانی ہے، ہمیں پیدا کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ یقیناً ہم سے زیادہ ہمارے دل و دماغ اور جسم و روح کو جانتا ہے، اس نے ہمارے دِلوں کا سکون اور چین اپنی یاد میں رکھا ہے، چنانچہ پارہ ۱۳سُوْرَۂ رَعْد کی آیت ۲۸ میں ارشاد ہوتا ہے:( اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸))ترجمۂ کنزُالایمان: سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔
اس آیت کے تحت تفسیرِ خزائنُ العرفان میں ہے: اس کے رَحْمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرکے بے قرار دِلوں کو قرار و اطمینان حاصل ہوتا ہے اگرچہ اس کے عَدْل و عِتاب کی یاد دلوں کو خائف کردیتی ہے۔

ذِکْرُ اللہ کی اقسام صدرُ الاَفاضل حضرت مولانا مفتی سیِّد محمد نعیم الدّین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی سُوْرَۂ بَقَرَہ کی آیت ۱۵۲: ( فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ) (ترجمۂ کنزُالایمان:تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا۔) کے تحت تفسیرِ خزائنُ العِرفان میں لکھتے ہیں: ذِکْر تین طرح کا ہوتا ہے: (۱)لِسانی (یعنی زبان سے) (۲)قَلْبی (یعنی دل سے) (۳)بِالجوَارِح (اعضائے جسم سے)۔ ذِکْرِ لِسانی تسبیح، تقدیس، ثنا وغیرہ بیان کرنا ہے، خطبہ، توبہ، اِستغفار، دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ ذکرِ قلبی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا، اس کی عظمت و کِبریائی اور اس کے دلائلِ قدرت میں غور کرنا عُلَماء کا استنباطِ مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔ ذکر بِالْجَوارِح یہ ہے کہ اعضا طاعتِ الٰہی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لئے سفر کرنا یہ ذِکْر بِالجوارح میں داخل ہے۔ نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے، تسبیح و تکبیر، ثناء و قراءت تو ”ذکرِ لسانی“ ہے اور خُشُوع و خُضوع، اخلاص ”ذکرِ قلبی“ اور قِیام، رُکوع و سُجود وغیرہ ”ذکر بِالجوارح“ہے۔
جب ہمارا سُکون یادِ الٰہی سے وابستہ ہوجائے گا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں نماز میں بھی لطف آئے گا، روزہ رکھنے میں راحت ملے گی، زکوٰۃ ادا کرنے پر چین آئے گا، فرض حج کرنے پر قرار ملے گا۔اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچّی مَحَبّت کی بے قراری نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Saturday, November 23, 2019

Anjane Khauf[انجانے خوف]

 Anjane Khauf[انجانے خوف]

انجانے خوف


وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے،کالی بِلّی کے راستہ کاٹنے یا گھر کی چَھت پر اُلّو کے بولنے سے ہمیں کچھ نقصان نہیں پہنچے گا،کتنے ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے سے کالی بلی نہیں گزرتی پھر بھی انہیں کوئی نہ کوئی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے لہٰذا کالی بلی میں کوئی نُحوست نہیں ہے۔سُورۂ تَوبَہ میں اللہ پاک مسلمانوں سے اِرشادفرماتا ہے کہ یوں کہا کریں:( لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱))تَرجَمۂ کنزُ الایمان:ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسا چاہیے۔(پ۱۰، التوبہ: ۵۱)امام فخر الدّین رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ کبیر میں فرماتے ہیں : اس آیتِ مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ ہمیں کوئی خیر و شَر، خوف و اُمید، شدّت و سختی نہیں پہنچے گی مگر وہی کہ جو ہمارا مقدر ہے اور اللہ کریم کے پاس لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:اللہ پاک نے ہر ایک جان کو پیدا فرمایا ہے اور اس کی زندگی، رِزْق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے۔(ترمذی)لہٰذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا اس بات پر یقینِ کامل ہونا چاہئے کہ رَنج ہو یا خُوشی! آرام ہو یا تکلیف! اللہ پاک کی طرف سے ہے اور جو مشکلات، مصیبتیں، تنگیاں اور بیماریاں ہمارے نصیب میں نہیں لکھی گئیں وہ ہمیں نہیں پہنچ سکتیں۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: یقین رکھو کہ اگر پوری اُمّت اس پر متفق ہوجائے کہ تم کو نفع پہنچائے تو وہ تم کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر اس چیز کاجو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی اور اگر سب اس پر متفق ہوجائیں کہ تمہیں کچھ نقصان پہنچا دیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اس چیز سے جو اللہ نے لکھی۔(ترمذی)حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نے اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں یعنی ساری دنیا مِل کر تم کو نفع نہیں پہنچا سکتی اگر کچھ پہنچائے گی تو وہ ہی جو تمہارے مقدر میں لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا لکھا ہوا نفع دنیا پہنچا سکتی ہے۔ طبیب کی دوا شِفا دے سکتی ہے، سانپ کا زہر جان لے سکتا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا طے شُدہ اس کی طرف سے (ہے)، حضرت یوسف (علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام) کی قمیص نے دیدۂ یعقوبی (یعنی حضرت سیِّدُنا یعقوب علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی آنکھوں) کو شِفا بخشی، حضرت عیسیٰ (علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام) مُردے زندہ، بیمار اچھے کرتے تھے مگر اللہ کے اِذن (یعنی اِجازت) سے،لکھنے سے مراد لوحِ محفوظ میں لکھنا ہے اگرچہ وہ تحریر قلم نے کی مگر چونکہ اللہ کے حکم سے کی تھی اس لیے کہا گیا کہ اللہ نے لکھا مطلب ظاہِر ہے کہ اگر سارا جہاں مل کر تمہیں کوئی نقصان دے تو وہ بھی طے شدہ پروگرام کے تحت ہوگا کہ لوحِ محفوظ میں یوں ہی لکھا جاچکا تھا خیال رہے کہ تدبیر بھی تقدیر میں آچکی ہے لہٰذا تدبیر سے غافل نہ رہو مگر اس پر اِعتماد نہ کرو نظر اللہ کی قدرت و رحمت پر رکھو۔

مصیبت آنے پر خود کو اللہ پاک سے ڈرانے، صَبْر پر استِقامت پانے اور غَلَط قدم اٹھانے سے خود کو بچانے کے لئے توبہ و اِستِغفار کرتے ہوئے یہ ذِہْن بھی بنایئے کہ ہم پر جو مُصیبت نازِل ہوئی ہے اُس کا سبب ہمارے اپنے ہی کرتُوت ہیں نہ کہ کسی کی نُحوست کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، پارہ ۲۵سورۃُ الشُّوریٰ کی۳۰ویں آیتِ کریمہ میں ارشادِ ربّانی ہے:( وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)) تَرجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔
صدرُالاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:یہ خطاب مُؤمنین مُکَلَّفِین سے ہے جن سے گناہ سَرزَد ہوتے ہیں، مُراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مؤمنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ان تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مؤمن کی تکلیف اُس کے رَفعِ دَرَجات ( یعنی بلندیِ دَرَجات) کےلیے ہوتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم پر آنے والی مصیبت ہمارے گناہوں کی فوری سزا ہوتی ہے، چُنانچِہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِذَا اَرَادَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ بِعَبْدٍ خَیْرًا عَجَّلَ لَہٗ عُقُوْبَۃَ ذَنْبِہٖ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے بھلائی کا اِرادہ کرتا ہے تو اُس کے گناہ کی سزافوری طور پراُسے (دنیا ہی میں) دے دیتا ہے۔ (مسند امام احمد) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تمام گناہوں میں سے جس گناہ کی سزا اللہ پاک چاہتا ہے قیامت تک مؤخر فرما دیتا ہے سِوائے والدین کی نافرمانی کے کہ اس کی سزا وہ موت سے پہلے زندگی میں ہی دے دیتا ہے۔(شعب الا یمان)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے نماز چھوڑی اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کوگھٹا ديا۔(کنزالعمال) حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سُود سے (بظاہر) مال زیادہ ہوجاتا ہے،مگر اس کا انجام یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند امام احمد) علّامہ عبدُ الرؤوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: سُود کے ذریعے مال میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے مگر سُود لینے والے شخص پر (مال کی) تباہی و بربادی کے جو دروازے کُھلتے ہیں ان کی وجہ سے وہ مال کم ہوتے ہوتے بِالآخر ختم ہوجاتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی رضا پر راضی رہنے، بدشُگونی سے بچنے اور گناہوں سے دُور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2019,

Friday, November 22, 2019

nakhun[ناخن]

nakhun[ناخن]

ناخن


اسلام نے انسان کوظاہری وباطنی نفاست اورپاکیزگی کا تصور دیا ہےاور اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے۔خلیفۂ مفتی اعظم ہند، علامہ عبدالمصطفی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:صفائی ستھرائی کی مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار اور محبوبِِ پروردگار ہے۔
ظاہر ی صفائی میں ایک چیز انسان کے ناخن بھی ہیں۔ اسلام میں ۴۰ دن کے اندر اندر ناخن تراشنے کا حکم ہے اور بلاعذرِ شرعی ۴۰ دن سے زائد کردینا ناجائز وگناہ ہے۔رسول کریم، رؤف و رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا:جو مُوئے زیر ِناف اور ناخن نہ تراشے اور مُونچھ نہ کاٹے،وہ ہم میں سے نہیں۔(مسنداحمد) جمعے کے دن ناخن تراشنے والادس (۱۰)دن تک اس کی برکتیں پاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے :جو جمعہ کے دن ناخن ترشوائے ،اللہ تعالیٰ اس کو دوسرے جمعہ تک بلاؤں سے محفوظ رکھے گااور ۳ دن زائدیعنی ۱۰ دن تک۔
طِبّی لحاظ سے بھی بڑے ناخن مضرِصحت(یعنی صحت کے لیے نقصان دہ ) ہیں ۔حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :ناخن میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے اگر ناخن کھانے یا پانی میں ڈبوئے جائیں تو وہ کھانا بیماری پیدا کرتا ہے اسی لئے انگریز وغیرہ چھری کانٹے سے کھانا کھاتے ہیں کیونکہ عیسائیوں کے یہاں ناخن بہت کم کٹواتے ہیں ۔

ناخن جراثیم کی پناہ گاہ ہیں اور کئی پھیلنے والی بیماریوں مثلا ً ٹائیفائیڈ ،اسہال، آنتوں میں کِیڑے اور ورم کا سبب بنتے ہیں۔ بعض لوگ دانتوں سے ناخن کاٹنے کے عادی ہوتے ہیں،اس ناپسندیدہ عادت کو ختم کرنا چاہئےاس سے برص پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
پھریہ کہ ناخن تراشنا جہاں ایک طرف صحت کا باعث ہے تو دوسری جانب سنت ومستحب عمل ہے اور بندہ سُنّت کے مطابق انہیں تراش کر ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جمعہ کے دن ناخن ترشوانا مستحب ہے ،ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جمعہ کا انتظار نہ کریں کیونکہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیِ رِزق کا سبب ہے۔
ہاتھوں کے ناخن تر اشنے کے۲سنّت طریقوں میں سے ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ سیدھے ہاتھ کی شہادت کی اُنگلی سے شرو ع کر کے ترتیب وار چھنگلیا سمیت ناخن تراشیں مگر انگوٹھا چھوڑدیں ۔اب اُلٹے ہاتھ کی چھُنگلیا سے شروع کرکے ترتیب وار انگوٹھے سمیت ناخن تر اش لیں۔اب آخرمیں سیدھے ہاتھ کا انگو ٹھا جو باقی تھا اس کا ناخن بھی کاٹ لیں اور پاؤں کے ناخن تراشنے کی کوئی ترتیب منقول نہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کی انگلیوں میں خلال کرنے کی جو تر تیب ہے اُسی ترتیب کے مطابق پاؤں کے ناخن کاٹ لیں۔ یعنی سیدھے پاؤں کی چھنگلیاسے شروع کر کے ترتیب وار انگوٹھے سمیت ناخن ترا ش لیں پھر اُلٹے پاؤں کے انگو ٹھے سے شرو ع کر کے چھنگلیا سمیت ناخن کاٹ لیں۔

islamic events © 2019,

Thursday, November 21, 2019

ummul momineen hazrat sayyidatuna zainab bint e khuzaimah R.A[ام المؤ منین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا]

ummul momineen hazrat sayyidatuna zainab bint e khuzaimah R.A[ام المؤ منین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا]

ام المؤ منین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا


ام المؤ منین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا شمار تاریخ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے ،جو غریب پروری ، مسکین نوازی ، رحم دلی ، سخاوت اور فیاضی جیسے اوصاف میں نہایت بلند مقام پر فائز ہیں ۔سخی اور فیاض طبیعت نیز یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے اور انہیں کثرت کے کھانا کھلانے کے باعث آپ کا لقب ہی ام المساکین (مسکینوں کی ماں) مشہور ہوگیا تھا ۔حضرت سیدنا علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :”وَکَانَتْ تُدعٰی فِی الْجَاھِلیَّۃِ اُمُّ الْمَسَاکِیْنَ لِاِطْعَامِھَااِیَّا ھُم یعنی مساکین کو کھانا کھلانے کے باعث زمانۂ جاہلیت میں ہی زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو امُ المساکین کے لقب سے پکاراجانے لگا تھا“۔
آپ کا نام زینب ہے ۔ کہتے ہیں کہ زینب ایک خوب صورت اور خوشبو دار درخت کا نام ہے، اسی نسبت سے عورتوں کا یہ نام رکھا جاتا ہے۔آپ کے والد خُزَیمہ بن حارث ہیں ۔ حضرت مُضَر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں جا کر آپ کا نسب سرورِ عالَم،نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے نسب شریف سے مل جاتا ہے ۔ اس لیے آپ قریشی ہیں۔

سرورِ کائینات ، شہنشاہِ موجودات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حبالۂ عقد میں آنے سے پہلے اصح قول کے مطابق زینب بنت خزیمہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ رشتہ ازواج میں منسلک تھیں ۔یہ رسول ِ کریم ، رؤوف رحیم کے پھو پھی زاد بھائی ہیں اور قدیم الاسلام صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں شامل ہیں جو رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دار ِارقم (مکۂ مکرمہ )میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام لے آئے تھے ۔ غزوۂ بد رو احد میں شرکت کی اور احدمیں ہی جامِ شہادت نوش فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے حضور اقدسصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجیت کا شرف پایا اور ام المؤ منین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں ۔اس وقت حرمِ نبوی میں تین ازواج ِ مطہرات حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت سودہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ پہلے سے موجود تھیں جبکہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا کم و بیش چھ برس پہلے انتقال ہو چکا تھا ۔روایت میں ہے کہ جب سرکارِ رسالت مآب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے اپنا معاملہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سپرد کردیا ، پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے نکاح فرمالیا اور ساڑھے بارہ اوقیہ مہرِ نکاح مقرر فرمایا۔
آپ ان صحابیات میں سے ہیں ، جنہوں نے اپنی جانیں رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے ہبہ کردی تھیں اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :(تُرْجِیْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُـْٔوِیْۤ اِلَیْكَ مَنْ تَشَآءُؕ-وَ مَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكَؕ-) (پ ۲۲،الاحزاب:۵۱)تَرجَمۂ کنز الایمان: پیچھے ہٹاؤ اب میں سے جسے چاہو اور اپنے پاس جگہ دو جسے چاہو اور جسے تم نے کنارے کردیا تھا اسے تمہارا جی چاہے تو اس میں بھی تم پر کچھ گناہ نہیں۔

پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجیت میں آنے کے فقط آٹھ ماہ بعد ہی ربیع الآخر چار ہجری میں آپ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور اپنے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا ۔اس وقت آپ کی عمر مبارک ۳۰برس تھی ۔سرورِ کا ئینات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور تدفین کی ۔
واضح رہے کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ میں سے صرف دو ازواج ایسی ہیں ،جنہوں نے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیات ِ ظاہری میں انتقال فرمایا:ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبر یٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا:انہوں نے اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہِ رمضان المبارک میں انتقال فرمایا۔ان کی تدفین مکہ مکرمہ میں واقع حجون کے مقام پر ہوئی جو اہل ِ مکہ کا قبرستان ہے ۔ اب اسے جَنَّۃُ الْمَعْلیٰ کہا جاتا ہے۔
ام المؤ منین حضرت زینب بنت ِ خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور جَنَّۃُ الْبَقِیع شریف میں تدفین ہوئی ۔ان سے پہلے جب حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا انتقال ہوا تھا، اس وقت نماز ِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا ، اس لئے ان پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی ۔لہٰذا ازواج ِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ میں سے صرف آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور اقدس نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔

islamic events © 2019,

Wednesday, November 20, 2019

rabi ul akhir[رَبِیْعُ الْاٰخِر]

rabi ul akhir[رَبِیْعُ الْاٰخِر]

رَبِیْعُ الْاٰخِر


اسلامی سال کے چوتھے مہینہ کا نام ربیع الآخر ہے، اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینہ کا نام رکھنے کے وقت موسم ربیع کا آخر تھا اس لئے اس ماہ کا نام ربیع الآخر رکھا گیا۔
گیارہویں شریف:اسی مہینہ مبارک میں سیدنا و مولانا القطب الفرد الغوث شیخ الاسلام و المسلمین غوث الثقلین الشیخ محی الدین محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی الجیلانی الحنبلی المعروف پیرانِ پیر ، پیر دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا وصال مبارک ہوا۔ آپ کے وصال پاک کی تاریخوں میں ذرا سا اختلاف ہے ۔ بعض نے نویں، بعض نے سترہویں اور بعض نے گیارہویں ربیع الآخر کو وصال شریف بتایا ہے۔ محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ماثبت من السنّہ” کے صفحہ ١٢٣، پر رقمطراز ہیں۔
وَقَدْ اشْتَہَرَ فِیْ دِیَارِ نَا ہٰذَا الْیَوْمُ الْحَادِیْ عَشَرَ وَہُوَ الْمُتَعَارِفُ عِنْدَ مَشَائِخِنَا مِنْ اَہْلَ الْہِنْدِ مِنْ اَوْلَادِہ(ترجمہ) ہمارے ملک میں آج کل آپ کی تاریخ وصال ، گیارہویں تاریخ کو مشہور ہے اور ہمارے ہندوستان کے مشائخ اور ان کی اولاد کے نزدیک یہی متعارف و مشہور ہے۔
سال بھر اس تاریخ کو لوگ سرکارِ غوثیت کا عرس مبارک کرتے ہیں جس کو بڑی گیاہویں کہا جاتا ہے۔ اور اسی مناسبت سے اس ماہ کو ”گیارہویں شریف ” کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔

اس (رَبِیْعُ الْاٰخِر) مہینہ کی پہلی اور پندرہویں اور انتیسویں تاریخوں میں جو کوئی چار رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُل ہُوَ اللّٰہُ اَحَد پانچ پانچ مرتبہ پڑھے ۔ تو اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور ہزار بدیاں معاف کی جاتی ہیں اور اس کے لئے چار حوریں پیدا ہوتی ہیں۔
رَبِیْعُ الْاٰخِر کے مہینے کی تیسری شب کو چار رکعت نماز ادا کرے ، قرآن حکیم میں سے جو کچھ یاد ہے پڑھے ۔ سلام کے بعد یا بدوح یا بدیع کہے۔
ماہ رَبِیْعُ الْاٰخِر کی پندرہ کو چاشت کے بعد چودہ رکعتیں دو، دو رکعات ادا کرے ۔ اس نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ اقرأ سات بار پڑھے۔

islamic events © 2019,

Sunday, November 17, 2019

sheikh abdul haq muhaddis dehlvi R.A[شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ]

sheikh abdul haq muhaddis dehlvi R.A[شیخ  عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ]

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ


شیخ عبد الحق محدث دہلوی ابن شیخ سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ فیروز بن شیخ موسیٰ بن ملک معزالدین بن آغا محمد ترک بخاری، شیخ محقق کی کنیت ابو المجد ہے۔ماہ محرم ۹۸۵ھ کو شیخ محقق دہلی میں پیدا ہوئے، یہ اسلام شاہ سوری کا زمانہ تھا، والد ماجد نے خاص تربیت و تعلیم کے ذریعہ آپ کے افکار و اذہان کو منور ومجلیٰ کر دیا اور آپ کو علوم عقلیہ و نقلیہ، ظاہری و باطنی میں کمال پیدا ہوگیا، دو تین مہینے میں قرآن شریف ختم کر لیا ، قریب ایک مہینہ میں لکھنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، بارہ تیرہ سال کی عمر میں شرح شمسیہ اور شرح عقائد جیسی دقیق اور معرکۃ الآرا کتابیں پڑھ لیں، اور پندرہ سولہ سال میں مختصر و مطول اور اٹھارہ سال کی عمر میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ پڑھ کر ان پر عبور حاصل کرلیا، علماے ماوراء النہر سے بھی اکتساب علم کیا اور ہر علم و فن کے امام بن گئے، عبادت و ریاضت میں بھی یکتاے زمانہ تھے، علما و مشائخ کی صحبت بابرکت کی طرف خاص التفات تھا ، یہ شہنشاہ اکبر کا دور تھا، اسلامی رسومات کی پامالی، اور بدعات و خرافات کے فروغ میں حکومتی امداد و سرپرستی نے آپ کو کبیدہ خاطر بنا ڈالا، اور اس ماحول سے تنگ آکر ۳۸؍ سال کی عمر میں ۹۹٦ھ میں حجاز مقدس کا سفر اختیار فرمایا، وہاں کے علما و محدثین سے صحیح بخاری و مسلم کا درس لیا، پھر شیخ عبد الوہاب متقی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے علم حدیث کی تکمیل کی اور علم طریقت و سلوک میں تبحر حاصل کیا، مدینہ منورہ میں حاضری دی، بار بار زیارت رسول کریم ﷺسے مشرف ہوئے، تین سال حجاز مقدس میں قیام کے بعد اپنے شیخ کے حکم پر ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان واپس آگئے،اور دہلی میں مدرسہ قائم فرماکر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف و خدمت حدیث میں ہمہ دم مشغول ہوگئے۔


شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے سلسلہ قادریہ کے مشہور بزرگ سید موسیٰ گیلانی سے بیعت کی اور خلافت سے نوازے گئے، ان کے علاوہ عبد الوہان متقی اور خواجہ باقی باللہ نے بھی خلافت سے نوازا، آپ کو سلسلہ قادریہ ، چشتیہ، شاذلیہ، مدنیہ اور نقش بندیہ کی خلافت ملی تھی لیکن قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا اور ان کی ارادت و عقیدت کا مرکز شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھے،آپ نے پندرہ سے زائد علوم و فنون میں ساٹھ سے زائد تصنیفات و تحقیقات یاد گار چھوڑی ہیں جن میں اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ، لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،مدارج النبوۃ، جذب القلوب، اخبار الاخیار وغیرہا کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی محققانہ عبارات آپ بھی ارباب علم و تحقیق کے درمیان قابل استناد ہیں۔
sheikh abdul haq muhaddis dehlvi R.A[شیخ  عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ]
۔۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ کو علم و تحقیق اور رشد و ہدایت کا یہ آفتاب چورانوے سال کی عمر میں غروب ہوگیا، وصیت کے مطابق آپ کے فرزند شیخ نور الحق نے نماز جنازہ پڑھائی۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا مزار حوض شمسی سے جانب اتر نئی آبادی اسلام پور مہرولی، دہلی۳۰ میں ہے ۔

islamic events © 2019,

sabr[صبر]

sabr[صبر]

صبر


زندگی کے سفر میں انسان ہمیشہ ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا، کوئی دن اس کے لئے نویدِ مَسَرَّت (خوشخبری)لے کر آتا ہے تو کوئی پیامِ غم، کبھی خوشیوں اور شادمانیوں کی بارش برستی ہے تو کبھی مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلتی ہیں۔ ان آندھیوں کی زَد میں کبھی انسان کی ذات آتی ہے، کبھی کاروبار اور کبھی گھر بار۔ الغرض! مصیبتوں اور پریشانیوں سے انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسی لئے اسلام نے مصیبتوں میں صَبْر اور خوشیوں میں اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: مؤمن کا معاملہ کتنا عجیب ہے کہ اس کے لئے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے اگر اسے خوشی پہنچے اور شکر کرے تو یہ اس کے لئے خیر ہے اور اگر مصیبت پہنچے اور اس پر صَبْر کرے تو یہ اس کے لئے بَھلائی ہے(مسلم)۔
صبر کا معنی ہے نفس کو اس چيز سے باز رکھنا جس سے رُکنے کا عَقْل اور شريعت تقاضا کررہی ہو۔ صبر بظاہر تین حَرْفی لفظ ہے مگر اپنے اندر ہمّت، حوصلہ، برداشت، تَحَمُّل، بھلائی، خیر، نرمی، سکون اور اطمینان کی پوری کائنات سَموئے ہوئے ہے۔ صبرِ جمیل (بہترین صبر) یہ ہے کہ مصیبت میں مبتلا شخص کو کوئی پہچان نہ سکے۔

مقامِ صبر پر فائز ہونا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قراٰنِ پاک میں ۷۰ سے زائد مرتبہ صبر کا ذکر فرمایا اور اکثر دَرَجات و بھلائیوں کو اسی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ نے صابرین کے ساتھ ہونے کا بھی وعدہ فرمایا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: (وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ(۴٦)) تَرجمۂ کنزُالایمان : اور صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔(پ:۱۰، الانفال :۴٦) اس کے علاوہ قراٰنِ پاک میں صبر کو تَقَرُّبِ الٰہی،دین کی سرداری، بہترین اوربے حساب اَجر، نُصْرَتِ رَبّانی اور رب کی رحمتیں پانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
احادیثِ مبارکہ :جس بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا۔(ترمذی) اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: جب میں بندۂ مؤمن کی دنیا کی پیاری چیز لے لوں پھر وہ صبرکرے تو اس کی جزا جنّت کے سوا کچھ نہیں(بخاری)۔
افسوس! آج ہم صبر سے بہت دور ہو چکے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ایک تعداد ذِہنی دباؤ، ڈپریشن،شوگر اور بلڈپریشر جیسے مُہْلِک اَمْراض میں مبتلا ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے عقلمندوں کی بصیرت کے چراغ بے صبری کی وجہ سے گُل ہو جاتے ہیں،آج دینی و دُنْیَوی معاملات میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کی سمت جارہا ہے،لڑائیاں عام ہوچکی ہیں، دوسروں کے بغض و کینے سے سینے بھرے ہوئے ہیں، آستینیں چڑھی ہوئی ہیں اور لوگ ماردھاڑ پر کمر بَسْتَہ ہیں۔

نبیِّ اکرم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مکمل زندگی صبر و تَحَمُّل سے لبریز ہے، کافروں نےمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ علیہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام پر ظلم و سِتَم کے پہاڑ توڑے، پتھر برسائے، راہ میں کانٹے بچھائے،جسمِ اَطْہر پر نجاسَتیں ڈالیں،ڈرایا،دھمکایا،بُرا بھلا کہا،قتل کی سازشیں کیں مگر کائنات کے آقاصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی کوئی ذاتی انتقامی کاروائی نہ کی، خود بھی صبر سے کام لیا اور رہتی دنیا تک اپنے ماننے والوں کو مصائب میں صبر کی تلقین ارشاد فرمائی۔ آپ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:جسے کوئی مُصیبت پہنچے اسے چاہئے کہ اپنی مُصیبت کے مقابلے میں میری مُصیبت یاد کرے بے شک وہ سب مُصیبتوں سے بڑھ کر ہے(حدیث)۔
یاد رکھئے! انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، گھریلوہو یا سماجی، صبر کے بغیر زندگی کی کتاب نامکمل رہتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر وقت صبر کی سواری پر سوار رہیں، مصیبتوں، پریشانیوں، بے جامخالفتوں اور غموں کا سامنا ہو بھی تو صبر ان تمام چیزوں کا بہترین جواب ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں صبر کی دولت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّ

islamic events © 2019,

Thursday, November 14, 2019

hazrat sayyidina imam ahmad bin hambal R.A[حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

hazrat sayyidina imam ahmad bin hambal R.A[حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


Best Web Hosting in Pakistan
حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام احمد،کنیت ابو عبد اللہ ہے۔آپ کی پیدائش ربیع الاول شریف ۱٦۴ہجری میں بغداد شریف میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ امام اعظم کے شاگرد حضرت امام ابو یوسف کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے،لیکن بعد میں آپ نے علم حدیث کی طرف توجہ دی اور ۱۵سال کی عمر میں حدیثیں سننے کے لئے بغداد کے مشہور محدث شیخ ہیثم کی بارگاہ میں حاضری دی۔ان کے بعد مکہ مکر مہ،مدینہ منورہ،بصرہ،شام،کوفہ، یمن اور مصر گئے اور علم حدیث حاصل کیا۔
امام احمد بن حَنبَل کے استادوں میں یحیی بن سعید قطان شاگرد امام اعظم،بشر بن مفضل،سفیان بن عینیہ،ابوداؤد طیالسی اور امام شافعی نہایت مشہور ہیں۔اور آپ کے شاگردوں میں امام بخاری،امام مسلم اور امام ابو دا ؤد بہت مشہور ہیں۔
امام احمد بن حَنبَل کے زمانہ میں خلیفہ مامون رشید نے یہ عقیدہ پھیلا نا شروع کر دیا کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی مخلوق ہے۔ آپ نے فر مایا کہ قرآن اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی کی صفت ہے اور اس کی کوئی صفت مخلوق نہیں،آپ کو مجبور کیا گیاکہ آپ بادشاہ کے عقیدے کو قبول کر لیں لیکن آپ نے صاف انکار کر دیا اس کی سزا میں آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ،آپ کو کوڑوں سے مارا گیا یہاں تک کہ آپ لہولہان ہو گئے ،اس کے باوجود بھی آپ نے بادشاہ کے غلط عقیدے کو قبول نہیں فر مایا اور آخر دم تک حق بات پر قائم رہے۔

آپ کے علم وفضل،زہد وتقوی اور مشکل ترین آزمائش میں پورے اترنے کی وجہ سے ان کے زمانے کے بڑے بڑے علما نے خوب خوب خراج عقیدت پیش کیا۔
امام ابودا ؤد فر ماتے ہیں میرے دو سو استاد ہیں لیکن اُن میں امام احمد کی طر ح کوئی نہیں تھا۔آپ کبھی عام دنیاوی کلام نہیں کرتے جب بھی گفتگو فر ماتے تو کوئی علمی مسئلہ ہوتا۔
مشہور محدث حافظ ابو زرعہ فر ماتے ہیں کہ:امام احمد علم وفن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
علم حدیث کے مشہور زمانہ امام اسحاق بن راہویہ فر ماتے ہیں کہ:اگر اسلام کی خاطر امام احمد کی قر بانیاں نہیں ہوتیں تو آج ہمارے سینوں میں اسلام نہیں ہوتا۔
آپ کے استاذ یحیی بن سعید قطان فرماتے تھے کہ:بغداد میں جو لوگ بھی آئےاُن سب میں مجھے احمد بن حنبل زیادہ محبوب ہیں۔
امام احمد کا زہد وتقویٰ اور بے نیازی مشہور تھی،آپ عبادت اور ریاضت میں مشغول رہا کرتے تھے اور دن رات میں تین سو رکعات نفل نماز پڑ ھتے تھے اور ایک ہفتہ کی نماز میں پورا قرآن شریف تلاوت فر مالیتے تھے۔آپ کو لوگ تلاش کرتے تو آپ یا تو مسجد میں،یا نماز جنازہ میں،یا کسی بیمار کے پاس عیادت میں ہوتے۔

حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا دل عشق رسول سے منور تھا،آپ کے پاس حضور رحمت عالم ﷺ کا ایک مقدس بال تھا،آپ اس کو چومتے،ہونٹوں پر لگاتے اور بیمار ہو جاتے تو اس کو پانی میں ڈال کر پانی پی لیتے جس سے شفا حاصل ہوتی۔
سیّدنا امام احمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دعائیں قبول ہوتیں تھیں،بہت سے لوگ آپ کے پاس دعا کرانے آتے۔ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی بیمار ماں کے لئے جو ہاتھ پاؤں سے معذور تھیں دعا کرانے آیا تو آپ نے فر مایا کہ:ہم خود دعا کے محتاج ہیں،اُن سے کہنا کہ ہمارے لئے دعا کریں،وہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں گھر واپس آیا تو میری ماں گھر میں ٹھیک ٹھاک چل پھر رہی تھیں۔
hazrat sayyidina imam ahmad bin hambal R.A[حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]
حضرت سیّدنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ہجری میں جمعہ کے دن ہوا۔آپ کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ شاہی خاندان کے ایک سو شاہزادے آپ کے غسل اور دفن میں شر یک تھے اور آپ کے مقدس پیشانی کو چومتے تھے،بے شمار لوگوں نے جنازہ کی نماز میں شر کت کی،دربار خلافت کے حکم سے جب لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگایا گیا تو دس لاکھ سے زیادہ کا مجمع تھا۔اس بھیڑ بھاڑ اور آپ کی مقبولیت کو دیکھ کر بیس ہزار یہودی اور عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا۔آپ سے پہلے کبھی کسی کے جنازے میں اتنے لوگ شر یک نہیں ہوئے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Wednesday, November 13, 2019

sharm o haya[شرم و حیا]

sharm o haya[شرم و حیا]

شرم وحیا


Best Web Hosting in Pakistan
دُکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شَرْم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہِ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وَقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے دائرے میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اِس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر(بخاری) معلوم ہوا کہ کسی بھی بُرے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔
وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو ”شرم وحیا“ کہتے ہیں۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم) اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے(ابن ماجہ) ۔

صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فَروغ دیتا ہے۔رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرتِ انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو اُبھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔
حضرت سیّدُنا عمران بن حُصَین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کنواری، پردَہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (معجمِ کبیر) اسی حیا پَروَر ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت سیّدتُنا اُمِّ خَلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔(ابوداؤد) شرم و حیا بڑھائیے نورِ ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلیٰ) وہ لوگ جو مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس، روشن خیالی اور مادر پِدَر آزادی کو جِدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فَروغ دیتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نورِ ایمان کتنا کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے(مسلم) ۔

اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دور ہوتے جا رہے ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بُجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔ افسوس! وہ شرم و حیا جسے اسلام مَرد و زَن کا جُھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کَلَنک کا ٹیکا (بدنامی کا دھبّا) بتایا جا رہا ہے۔ مَحْرم و نامَحرم کا تصوّر اور شعور دے کر اسلام نے مَرد و زَن کے اِختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید نمایاں ہیں۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی(اجنبیہ) عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر اُن کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے(ترمذی)۔
میڈیا جس تَواتُر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قابلِ غور ہے کہ جو نئی نسل والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے اور حیا سوز مَناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نسلِ نَو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فَروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی ”تیزترین“ ہے۔
اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خَصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حیا کو مُتأثّر کرنے والے تمام عَوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتَشَخُّص اور روحِ ایمان کی حفاظت کی جائے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Tuesday, November 12, 2019

Short Cut[شارٹ کٹ]

Short Cut[شارٹ کٹ]

شارٹ کٹ


Best Web Hosting in Pakistan
دین ِاسلام میں ہربھلےکام کی ترغیب اورپذیرائی ہے جبکہ ہر برےکام مسلمانوں کو روکاگیاہے، شارٹ کٹ یعنی مختصرراستہ مطلقاًبرانہیں ہوتا، بسااوقات اِختِصار(مختصر کرنا) شریعت کو محبوب بھی ہوتاہے ، البتہ ہمارے زمانے کےلوگوں بالخصوص نوجوانوں میں زندگی کےکئی مَراحِل پرغلط شارٹ کٹ اپنانے کی خرابی عام ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سےکئی معاشرتی اور اخلاقی برائیاں جنم لےرہی ہیں، جبکہ کئی مقامات پردینی حدود واحکامات کو بھی پامال کیا جاتا اور ناجائز و حرام کاموں کا ارتکاب ہوتا ہے
امیربننےکےلئے ہمارے پچھلے اور پرانے لوگوں نے جو محنتیں کی ہیں،طریقۂ کار اختیار کیا ہے اور اپنی عمر کا ایک حصہ اس کوشش میں گزاراہے، آج کل نوجوانوں کی ایک تعداد ہے جو اس پورے پروسیجر کو اپنانے، محنت کرنے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے کے بجائے کسی ایسے راستےکی تلاش میں ہے جس سے وہ جلد سےجلد امیر ہوجائے، لہٰذاعام طور پر وہ درج ذیل ناجائز ذرائع میں سےکوئی ذریعہ اپناتے ہیں: جلد مالدار بننے کے ارادے سے بیرونِ ملک کا غیرقانونی سفر کرنا ، کرپشن یعنی بدعنوانی کرنا اور رشوت لینا ،نشہ آور اَشیاءبیچنایاان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ،چوری اور ڈکیتی کرنا،جواکھیلنا ،جُوئے کی پرچی لینا اور بینکوں کے پیسوں کے معاملے میں گھپلے کرنا، یہ سب امیر بننے کے غلط اور تباہ کن شارٹ کٹ ہیں، نیز جلد مالدار بننے کیلئے دنیا میں ان کے علاوہ بھی کوئی غلط راستہ اپنایاجاتاہو توکوئی بعید(دور)نہیں۔

دفاتِرمیں کام کرنے والے ملازمین کی آمدنی عموماً نارمل ہوتی ہے، بَسااوقات وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اِنکم بڑھےجبکہ ان کی اتنی قابلیت و صلاحیت نہیں ہوتی، لہٰذا وہ اپنے مقصد کو پانے کیلئے مختلف غلط شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہےکہ ناجائز طور پر اپنے سے اوپر والے کی جگہ لینے کی کوشش کرنا، اس کے لئے اپنے سینیئرز کی برائیاں اور بےجا شکایتیں بڑے آفیسرسے کرتے ہیں، بَسااوقات یہ کام اپنے سینیئرز سے حسد اور اَن بَن(ناراضی) کی بنا پربھی کیا جاتا ہے، اسی طرح کبھی مذکورہ دونوں صورتیں نہیں ہوتیں بلکہ مقصد صرف عہدے کا ہی حصول ہوتا ہے، جس کےلئے سینیئرز کی عزّت کو اُچھالاجاتاہے۔ یوں عام طورپراس طرح کے افراد اپنے حسد اورکینے کے باعث یا پھر مَنْصَب و شُہرت کے حصول کی خاطر جھوٹ، تہمت اور غیبت وغیرہ جیسے ناجائزو حرام کاموں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان صورتوں کومنصب اور عہدے کاغصب(چھیننا) بھی کہا جاسکتا ہے جو کہ مال کے غصب سے زیادہ بُرا ہے(حالانکہ مال کاغصب ناجائز و حرام ہے تو پھر عہدے کے غصب کےاُخرَوِی نتائج کس قدربھیانک ہوں گےاس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے)۔ ناجائز طور پر عہدے کے حصول کی دوسری صورت یہ ہے کہ جب صرف بےجا شکایتوں کے ذریعے بڑی پوسٹ کا حصول نہیں ہوپاتا توبسا اوقات ”رشوت دینے“ کے بُرے شارٹ کٹ کا سہارا لیا جاتا ہے، حالانکہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت دینے والے، لینے والے اوران دونوں کے درمیان معاملہ کروانے والے (دَلّال)پر لعنت فرمائی ہے اور کبھی غلط شارٹ کٹ کے ذریعے عہدے کے حصول کی تیسری صورت بھی ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک غیرِ قابل وغیرِ مستحق شخص رشتے داری یا محبت كی بنا پرکوئی عہدہ حاصل کرلیتاہے جبکہ کوئی شخص محض رشتہ داری یا محبت کا لحاظ کرتے ہوئے کسی کوعہدہ دےگا تووہ یقیناً کئی ایسی باتوں کو بھی نظر انداز کردے گا جو اس عہدے والے کے لئے ضروری ہوتی ہیں، نتیجۃً جس کو عہدہ دیا جائے گا وہ اس عہدے کی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نِبھا نہیں سکے گا۔ اسی وجہ سے امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: مَنِِ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا لِمَوَدَّةٍ اَوْ لِقَرَابَةٍ لَايَسْتَعْمِلْه اِلَّا لِذٰلِكَ فَقَدْ خَانَ اللہَ وَرَسُوْلَه وَالْمُؤْمِنِيْنَ یعنی جس نے کسی شخص کو محبت یا رشتہ داری کی وجہ سے کوئی عہدہ دیا اور کوئی وجہ عہدہ دینے کی نہ تھی تو اس نے اللہ پاک ، اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مومنوں سے خیانت کی۔

شارٹ کٹ کےذریعے عہدے کے حصول کی مذکورہ تینوں صورتیں تب ہی ممکن ہوتی ہیں جبکہ سسٹم میں بَدعُنوان اور کرپٹ لوگ شامل ہوں، جنہیں بجائے قابلیت وصلاحیت کےصرف مال ودولت، لحاظِ رشتہ ومحبت سےہی غرض ہو، ایسے بَدعُنوان لوگ دَرحقیقت اداروں اورملک وملّت کی عزّت و عظمت کونقصان پہنچانے، باصلاحیت افراد کی صلاحیتوں کاخون کرنے، ان کی دنیااوراپنی آخرت برباد کرنےکے علاوہ کوئی نمایاں کام نہیں کررہے ہوتے۔
ہر ملک میں لوگوں کی جان ومال اور عزّت کی حفاظت کے لئے کچھ نہ کچھ قوانین بنے ہوتےہیں، ان پرعمل ہرایک کیلئے فائدہ مَند ہوتا ہے، ان ہی میں سے ٹریفک کے اچھے قوانین بھی ہیں،ان قوانین پر عمل نہ کرکے شارٹ کٹ کرتے ہوئے بعض لوگ اپنی بلکہ دوسروں کی بھی جان ومال اورعزت کوداؤ پر لگادیتے ہیں، روڈ پارکرنے کے لئے پُل یا زیبرا کراسنگ کا استعمال نہ کرنا ،یوٹرن دور ہونے یا مطلوبہ مقام رونگ وے سے قریب ہونے کی وجہ سے رونگ وے استعمال کرنا ،ٹریفک جام کی صورت میں فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چڑھا دینا یا پھر عام صورتِ حال ہی میں نارمل راستہ اختیار کرنے کے بجائے کسی ایسی راہ کو اختیار کرنا کہ جو مزید مصیبت میں ڈال دے مثلاً: وہ تنگ ہویا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو وغیرہ۔ البتہ اگر شارٹ کٹ قانون تُڑواتا یاجان و مال اور عزّت کو خطرے میں نہ ڈالتا ہو تو اسے استعمال کرنےمیں کوئی حرج نہیں۔
ہمارے معاشرے میں جتنےبھی غلط شارٹ کٹ اپنائے جاتے ہیں ان کی ایجادمیں ایک بہت بڑا ہاتھ فلموں، ڈراموں کابھی ہے، اگران سے اور اس طرح کے دیگر دینِ اسلام سے دور کرنے والے کاموں سے خود کو اور اپنی اولادکونہ بچایاگیا توآئندہ نہ جانے کیسی کیسی بھیانک خرابیاں اس معاشرےمیں جنم لے سکتی ہیں۔
ہر معاملے میں غلط شارٹ کٹ اپنانےسےخودبھی بچئے اور دوسروں کو بھی بچائیے، نیز غلط شارٹ کٹ کی سوچ کو پروان چڑھانے والے اسباب کو ختم کیجئے۔ اللہ کریم ہمیں بھلائی والے کام اپنانے اور برے کاموں سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

Friday, November 8, 2019

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد  مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]
hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد  مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم


Best Web Hosting in Pakistan

حُضُورنبیِّ رَحْمت شفیعِ اُمَّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نامِ نامی اسمِ گرامی’’محمد‘‘ہے۔ دیگرآسمانی کتابوں میں آپ کا نام ’’احمد‘‘ مذکورہے جبکہ قراٰن واَحادیث وسیرت کی کتب میں آپ کےسینکڑوں صفاتی نام ذِکْرکئے گئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:’’مُزَّمِّل،مُدّثّر،رَءُوْف، رَحِیم،مُصطفٰے،مجتبیٰ،مرتضیٰ‘‘ وغیرہ جبکہ آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قبیلۂ قریش کےایک اعلیٰ خاندان بنو ہاشم سے تعلّق رکھتے تھے،والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمِنہ ہے،والد کی طرف سے نسب یوں ہے:محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بِن ہاشِم بن عبدِمَناف بِن قُصَی بِن کِلاب بِن مُرّہ۔ والدہ کی طرف سے نسب یوں ہے:محمد بِن آمِنہ بنتِ وَہب بن عبدِ مَناف بِن زُہرہ بِن کِلاب بِن مُرّہ ۔کلاب بن مُرّہ پر جاکر آپ کے والدین کا نسب مِل جاتاہے۔
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت با سعادت۱۲ربیع الاول بروز پیرمطابق۲۰اپریل۵۷۱ء کو ہوئی۔ اس تاریخ کو دنیا بھر میں مسلمان میلاد شریف مناتے ہیں۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت سے پہلے ہی والدِ ماجد کا انتقال ہوگیا۔ عمر مُبَارک تقریباً 5 سال کی ہوئی تو والدہ ماجدہ بھی وصال فرماگئیں اور آپ کی پرورش دا داجان حضرت عبدُ الْمُطّلب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی۔ دو سال کے بعد دادا جان بھی پردہ فرماگئے اور پرورش کی ذمّہ داری آپ کے چچا ابوطالِب نے سنبھالی۔
شرفائے عرب کا دستور کہ وہ اپنے بچّوں کو دودھ پلانے کے لئے گردو نواح کے دیہاتوں میں بھیجتے تھے تاکہ دیہات کی صاف ستھری آب وہوا میں ان کی جسمانی صحت اچّھی ہو جائے اور وہ فصیح عَرَبی زَبان بھی سیکھ جائیں۔اسی دستور کے موافق والدہ ماجدہ نے بچپن میں آپ کو حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ ان کےقبیلے بھیج دیاجہاں وہ آپ کو دودھ پلاتی رہیں۔اس عرصے میں آپ سے کثیر برکات کا ظہور ہوا۔ بچپن میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا جُھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا، چاند آپ کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔ بچّوں کی عادت کے مُطابق کبھی بھی کپڑوں میں بول و براز نہ فرمایا بلکہ ہمیشہ ایک معَیّن وَقْت پر رفع حاجَت فرماتے۔ عُمْرِ مُبَارک چند سال ہوئی تو باہر نکل کر بچّوں کو کھیلتادیکھتے مگر خود کھیل کود میں شریک نہ ہوتے، لڑکے کھیلنے کے لئے بلاتے تو فرماتے کہ میں کھیلنے کے لئے نہیں پیدا کیا گیا۔

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جوانی سچائی، دیانتداری،وفاداری، عہدکی پابندی، رحم وسخاوت، دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اورمفلسوں کی خبرگیری،الغرض تمام نیک خصلتوں کا مجموعہ تھی۔حِرْص، طَمع، دَغا، فریب، جُھوٹ، شراب نوشی، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری اور فحش گوئی وغیرہ تمام بُری عادتوں،مذموم خصلتوں اور عُیُوب ونَقائِص سے آپ کی ذاتِ گرامی پاک وصاف رہی۔ آپ کی راست بازی اور امانت ودیانت کا چرچا دُوردُور تک پہنچ چکاتھا ۔تجارت آپ کا خاندانی پیشہ تھا،۱۳سال کی عمر میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پہلی بار اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملکِ شام کاتجارتی سفر فرمایا جبکہ۲۳سال کی عمر میں بغرضِ تجارت حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مال لے کر اُن کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ ملکِ شام کا دوسرا سفراختیارکیا۔
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےچارسےزائد نکاح فرمائے جو آپ کی خصوصیت ہے۔ پہلا نکاح پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فر مایااور جب تک وہ حیات رہیں دوسرا نکاح نہ فرمایا۔آپ کی گیارہ اَزواجِ مُطَہَّرَات کے اَسمائے گرامی یہ ہیں:حضرتِ خدیجۃُ الکبریٰ،حضرتِ سَودَہ ،حضرتِ عائشہ ،حضرتِ حَفْصہ،حضرتِ اُمِّ سَلَمہ ،حضرتِ اُمِّ حبیبہ،حضرتِ زینب بنتِ جَحش ،حضرتِ زینب بنتِ خُز یمہ، حضرت ِمیمونہ،حضرتِ جُویریہ اور حضرتِ صَفِیّہ رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ۔آپ کی تین باندیوں کے نام یہ ہیں:حضرتِ مارِیہ قِبْطِیَّہ ،حضرتِ رَیحانہ اورحضرتِ نفیسہ رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ۔اولاد آپ کے تین شہزادے:حضرت قاسم ،حضرت عبدُاللہ(طیب وطاہر) اور حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہم اور چارشہزادیاں ہیں:حضرتِ زینب ، حضرتِ رُقیّہ،حضرتِ اُمّ کُلثوم اورحضرتِ فاطمۃُ الزّہراء رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ ۔آپ کی تمام اولاد مبارک حضرتِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوئی البتہ حضرتِ ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔
رشتہ دار چارمشہور چچا: حضرتِ حمزہ ،حضرتِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما،ابو طالِب اورابولہب۔چار پھوپھیاں: حضرتِ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، عاتِکہ، اُمیمہ اوراُمّ حکیم۔

چالیس سال کی عمر میں آپ مکۂ مکرمہ سے تقریباً تین میل دورغارِحرا میں تشریف لے جاتے اور رب تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔یہیں آپ پر پہلی وحی کانزول ہوا ۔چالیس سال کی عمر میں ہی آپ نے اِعلانِ نُبوّت فرمایا، پھرتین سال تک پوشیدہ طورپر تبلیغِ اسلام کا فریضہ سَرانجام دیتے رہے، خواتین میں سب سے پہلے آپ کی زوجہ حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،مَردوں میں سب سے پہلےحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہاور بچوں میں سب سے پہلےحضرت علیُّ المرتضیٰ شیرِخدا رضی اللہ تعالیٰ عنہاِسلام لائے، پھرحضرتِ عثمانِ غنی،حضرتِ زبیر بن عوام،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت طَلحہ بِن عُبَیْدُ اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی دامَنِ اِسلام میں آگئے۔ تین سال کے بعدآپ نے رب تعالیٰ کے حکم سے اپنے قبیلے والوں کو دعوتِ اِسلام دی، عذاب الٰہی سے ڈرایا، لیکن انہوں نے دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور ناراض ہوکر نہ صرف چلے گئے بلکہ آپ کے خلاف اَول فَول بکنے لگے۔اِعلانِ نبوت کے چوتھے سال آپ اعلانیہ طور پر دِینِ اِسلام کی تبلیغ فرمانے لگے، شِرک وبُت پرستی کی کھلم کھلا بُرائی بیان فرمانے لگے جس پر کفار آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے نیز آپ کو اور دیگر مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے۔آپ کے چچا حضرت حمزہ اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے قبول اسلام سے دِینِ اسلام کو بہت تقویت ملی لیکن پھر بھی کفّارکی مخالفت ختم نہ ہوئی بلکہ دِن بَدِن بڑھتی ہی گئی۔ کفارنے آپ کے خاندان والوں کا مکمل بائیکاٹ کر کے ایک پہاڑ کی گھاٹی تک محصورکردیا جسے ’’شعبِ ابی طالب‘‘ کہا جاتا ہے۔یہاں آپ تین سال رہے اور آپ کوبڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ حج کے موقع پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مختلف علاقوں سے آئے ہوئے قبائل کو دعوتِ اِسلام دیتے اورہرسال کچھ لوگ اِسلام قبول کرلیتے۔اعلانِ نبوت کےتیرہویں سال مدینے سے آئے ہوئے ۷۲افراد نے اِسلام قبول کیا اور واپَس جاکر اپنے یہاں دعوتِ اِسلام دینا شُروع کردی اوررفتہ رفتہ شمعِ اسلام کی روشنی مدینہ سے قُباتک گھر گھرپھیل گئی۔
اعلانِ نبوت کے تیر ہویں سال سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسلمانوں کو ہجرت کر کے مدینۂ منورہ جانے کی اجازت عطا فر مائی اور بعد میں حضرتِ سیّدنا ابو بکر صدِّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خود بھی ہجرت کرکے وہاں تشریف لے گئے۔ ہجرت کے بعد آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینۂ منوّرہ کو گیارہ سال شرفِ قیام بخشا، اِن سالوں پیش آنے والے مختلف اہم واقعات کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیے۔

پہلا سال مسجدِقُبا ومسجدِنبوی کی تعمیرکی گئی،پہلا جمعہ ادا فرمایا، اَذان واِقامت کی ابتدا ہوئی۔دوسرا سال قبلہ تبدیل ہوایعنی بیتُ الْمقدّس کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نَماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے،نمازِ عیدین و قربانی کا حکم دیاگیا۔ حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نکاح ہوا۔مسلمانوں کو غزوۂ بدر میں فتحِ مبین حاصل ہوئی۔ تیسرا سال کفّار کے ساتھ غزوۂ اُحُد کا معرکہ درپیش آیا۔ ایک قول کے مطابِق اسی سال شراب کو حرام قرار دیا گیا۔ چوتھا سال صلوٰۃ ُالخوف کا حکم نازل ہوا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ اُمِّ سَلَمہ اور حضرتِ زینب بنتِ جَحش رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے نکاح فرمایا۔ نمازِ قصراور پردے کا حکم نازل ہوا۔ پانچواں سال آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ جُویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا۔ غزوۂ احزاب یعنی غزوۂ خندق اور غزوۂ بنی مُصطَلق واقع ہوئے۔ تَیَمُّمْ کا حکم بھی اِسی سال نازل ہوا۔چھٹا سال صلح حُدیبیہ اوربیعتِ رِضوان واقع ہوئے۔آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف بادشاہوں کے نام اسلام کی دعوت پرمشتمل خُطوط روانہ فرمائے۔ حبشہ کے بادشاہ حضرت نَجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اِسلام قبول کیا ۔ اسی سال آپ پرجادو کیا گیا اور اس کے توڑ کیلئے سورۂ فَلَق وسورۂ نَاس نازل ہوئیں۔ساتواں سال غزوۂ خیبر اور غزوۂ ذاتُ الرّقاع واقع ہوئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ اُمِّ حبیبہ،حضرتِ صَفیہ اورحضرتِ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے نکاح فرمایا۔ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازِعصرکیلئے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دُعا سے سورج واپس پلٹا۔آٹھواں سال آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لختِ جگرحضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی، غزوۂ حنین واقع ہوا۔مکّۂ مکرّمہ فتح ہوا۔ نواں سال شاہِ حبشہ حضرت نَجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔ مختلف وُفود کی بارگاہِ رِسالت میں حاضِری ہوئی ۔ حج کی فرضیت کا حکم نازل ہوا ۔غزوۂ تبوک واقع ہوا جس کیلئے صحابہ ٔکرام علیہمُ الرِّضوان نے دِل کھول کر مالی معاونت کی ۔ دسواں سال اللہ کے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لخت جگرحضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا اور اسی سال آپ نے حج ادا فرمایا جسے حُجۃُ الوداع کہا جاتا ہے۔
hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد  مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]
گیارہواں سال ہجرت کے گیارہویں سال ۱۲ ربیع الاول بروزپیر بمطابق ۱۲جون٦۳۲عیسوی کو٦۳ سال کی عمر میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وِصال ِظاہری ہوگیااور حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے(یعنی گھر)میں تدفین ہوئی ۔
hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد  مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...