حدیث کی ضرورت
قرآنِ کریم مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں جب تک کہ احادیثِ معلِّمِ کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نمازہی کو لیجئے، قرآن کریم میں کم وبیش سات سو(۷۰۰)مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر ا س کے قائم کرنے کا حکم دیاگیاہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ) (نماز قائم کرو)۔
چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ صلاۃ ہے کیا، اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور اگر اس کا معنی سمجھنے کیلئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں گے اور اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کے مابین بہت فرق ہے۔
الغرض اس کے اصطلاحی معنی ہمیں صرف احادیث یعنی سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال سے ہی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کیلئے نیز زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں ہادی برحق صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہے
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں کو قرآن کریم سکھانے اور انہیں ستھرا کرنے کیلئے نبی ِآخرالزماں صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا، چنانچہ ربّ عزوجل فرماتاہے:ترجمہ کنزالایمان: جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلے گمراہی میں تھے (آل عمران: ۱٦۴)۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اسی لئے تو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔اگرقرآن کریم مطلقاً آسان ہوتااور اسے بغیر رہنمائی کے سمجھا جاسکتاتواللہ تعالی اس کے سمجھانے کیلئے خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کوبطورِ معلِّمِ کائنات مبعوث کیوں فرماتا؟ نیز قرآن کریم کے آسان ہونے کے باوجود کسی سکھانے والے کو بھیجنا عبث قرار پاتا حالانکہ اللہ تبارک وتعالی کی یہ شان نہیں کہ اس کی طرف کوئی عبث و فضول راہ پائے۔
No comments:
Post a Comment