Friday, January 31, 2020

Hazrat Sayyiduna Maulana Jalaluddin Mohammad Romi R.A[حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Hazrat Sayyiduna Maulana Jalaluddin Mohammad Romi R.A[حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


اسلام کی بدولت دنیا کو کئی ایسی ہستیاں نصیب ہوئیں جن کے قراٰن و سنّت سے معمور زندہ جاوید اَفْکار، متأثرکُن کردار اور دل کی کیفیت بدل دینے والی تصانیف و تالیفات اور اَشعار نے ہر دور میں انسانیت کی راہنمائی کی، ان میں سے ایک ہستی حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بھی ہے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام ”محمد“ لقب ”جلالُ الدّین“ ہے جبکہ شہرت ”مولانا رُوم“کے نام سے ہے۔ آپ کی ولادت ٦ربیعُ الاَوّل ٦۰۴ہجری کو بَلْخ میں ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے۔
مولانا جلالُ الدّین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت والدِ گرامی حضرت مولانا بَہاءُالدّین محمدصِدِّیقی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے فرمائی، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے والد کے ساتھ بغداد آئے یہاں قیام کے دوران فِقہِ اَربَعَہ کی تَروِیج و اِشاعت کے لئے قائم مَدْرَسَۂ مُسْتَنْصِرِيَّة میں آپ کی علمی نشو و نما ہوئی۔
جب والدِ گرامی قُونِیَہ (ترکی) میں مستقل طور پر مقیم ہوگئے تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بھی یہیں مستقِل رہائش اختیار کرلی، والدِ ماجد کے وصال کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قُونِیَہ کے مدارس میں تدریس فرماتے رہے۔

حضرت مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی علیہ رحمۃ اللہ القَوی حضرت سیّدنا شمسُ الدّین محمد تبریزی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کے دستِ اقدس پر بیعت تھے۔
مولانا رومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور فتاویٰ کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی شریف“ کو عالَم گیر شہرت حاصل ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ہے۔
مولانا جلالُ الدّین رومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آخری وصیت یہ فرمائی : میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ پاک سےظاہرو باطن میں ڈرتے رہو،کھانا تھوڑا کھاؤ،کم سو، گفتگو کم کرو، گناہ چھوڑ دو، ہمیشہ روزے سے رہو،رات کا قیام کرو، خواہشات کو چھوڑ دو،لوگوں کا ظلم برداشت کرو ، کمینوں اور عام لوگوں کی مجلس ترک کردو،نیک بختوں اور بزرگوں کی صحبت میں رہو بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔بہتر کلام وہ ہے کہ جو تھوڑا اور بامعنی ہو۔
Hazrat Sayyiduna Maulana Jalaluddin Mohammad Romi R.A[حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]
حضرت سیّدنا مولانا جلالُ الدّین محمد رُومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال ۵جُمادَی الاُخریٰ ٦۷۲ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار مبارک تُرکی کے شہر قُونِیَہ میں ہے۔
islamic events © 2020,

Friday, January 24, 2020

Masjid E Quba[مسجد قباء]

Masjid E Quba[مسجد قباء]

مسجد قباء


حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ایک زمین کو پسند فرمایا جہاں خاندان عمرو بن عوف کی کھجوریں سکھائی جاتی تھیں اسی جگہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے مقدس ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ یہی وہ مسجد ہے جو آج بھی مسجد قباء کے نام سے مشہور ہے اور جس کی شان میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْه ط فِيْه رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهرُوْا ط وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُطَّهرِيْنَ (توبه)۔
یقینا وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے پرہیزگاری پر رکھی ہوئی ہے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں اس (مسجد) میں ایسے لوگ ہیں جن کو پاکی بہت پسند ہے اور اﷲ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

مسجد قباء کی تعمیر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بھی بہ نفس نفیس اپنے دست مبارک سے اتنے بڑے بڑے پتھر اُٹھاتے تھے کہ ان کے بوجھ سے جسم نازک خم ہو جاتا تھا اور اگر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے جاں نثار اصحاب میں سے کوئی عرض کرتا یا رسول اﷲ ! آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر ہمارے ماں باپ قربان ہو جائیں آپ چھوڑ دیجیے ہم اٹھائیں گے، تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی دلجوئی کے لیے چھوڑ دیتے مگر پھر اسی وزن کا دوسرا پتھر اٹھا لیتے اور خود ہی اس کو لاکر عمارت میں لگاتے اور تعمیری کام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ آواز ملا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے یہ اشعار پڑھتے جاتے تھے کہ
اَفْلَحَ مَنْ يُّعَالِجُ الْمَسْجِدَا
وَيَقْرَئُ الْقُرْاٰنَ قَائِمًا وَّقَاعِدًا
وَلَا يَبِيْتُ اللَّيْلَ عَنْه رَاقِدًا

وہ کامیاب ہے جو مسجد تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور سوتے ہوئے رات نہیں گزارتا۔(وفاء الوفاء ج۱ ص۱۸۰)۔
مسجد قباء کی فضیلت:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اپنی قیام گاہ سے باطہارت مسجد قباء آئے اور دو رکعت ادا کرے اسے عمرہ کا ثواب ہے(سنن ابن ماجہ)-نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مسجد قباء میں نماز ادا کرنا عمرہ ادا کرنے کی طرح ہے(سنن الترمذی)-

islamic events © 2020,

Thursday, January 23, 2020

Hadees ki zaroorat[حدیث کی ضرورت]

Hadees ki zaroorat[حدیث کی ضرورت]

حدیث کی ضرورت


قرآنِ کریم مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں جب تک کہ احادیثِ معلِّمِ کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نمازہی کو لیجئے، قرآن کریم میں کم وبیش سات سو(۷۰۰)مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر ا س کے قائم کرنے کا حکم دیاگیاہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ) (نماز قائم کرو)۔
چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ صلاۃ ہے کیا، اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور اگر اس کا معنی سمجھنے کیلئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں گے اور اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کے مابین بہت فرق ہے۔
الغرض اس کے اصطلاحی معنی ہمیں صرف احادیث یعنی سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال سے ہی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کیلئے نیز زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں ہادی برحق صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہے

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں کو قرآن کریم سکھانے اور انہیں ستھرا کرنے کیلئے نبی ِآخرالزماں صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا، چنانچہ ربّ عزوجل فرماتاہے:ترجمہ کنزالایمان: جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلے گمراہی میں تھے (آل عمران: ۱٦۴)۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اسی لئے تو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔اگرقرآن کریم مطلقاً آسان ہوتااور اسے بغیر رہنمائی کے سمجھا جاسکتاتواللہ تعالی اس کے سمجھانے کیلئے خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کوبطورِ معلِّمِ کائنات مبعوث کیوں فرماتا؟ نیز قرآن کریم کے آسان ہونے کے باوجود کسی سکھانے والے کو بھیجنا عبث قرار پاتا حالانکہ اللہ تبارک وتعالی کی یہ شان نہیں کہ اس کی طرف کوئی عبث و فضول راہ پائے۔

islamic events © 2020,

Saturday, January 18, 2020

Imam muhammad bin hasan shaybani R.A[امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Imam muhammad bin hasan shaybani R.A[امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


کوفہ شہر میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے حلقۂ درس سے تِشْنگانِ علم (علم کے پیاسے) اپنی پیاس بجھا رہے تھے۔ ایک دن ایک لڑکا حاضر ہوا۔ ذِہانت جس کے چہرے سے عِیاں (ظاہر) تھی۔ اس نے امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم سے پوچھا: اس نابالغ لڑکے کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے جو رات کو عشا کی نماز پڑھ کر سوئے اور اسی رات فجر سے پہلے وہ بالغ ہوجائے، کیا اُسے نمازِ عشا دوبارہ پڑھنی چاہئے؟ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے فرمایا: ہاں! اسے نماز دُہرانی ہوگی۔ یہ سنتے ہی وہ لڑکا اُٹھا اور مسجد کے ایک کونے میں جاکر نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔ اس امامِ ذِی شان نے اس نوجوان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:یہ لڑکا اِنْ شَآءَ اللہ تعالٰی ترقّی کرے گا۔ زمانے کی آنکھوں نے دیکھا کہ امامِ اعظم حضرتِ سیّدنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی نظرِ فیضِ اثر پانے والا یہ نَوعمر لڑکا اپنے وقت کا امام بنا اور دنیا میں آج تک امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کا فرمان پورا ہوا اور آپ مُجْتَہِد فِی الْمَذہَب کےمنصب پر فائز ہوئے۔
امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی پیدائش مبارَکہ ۱۳۲ھ کو مشرقی عراق کے شہر واسط میں ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا نام محمد بن حسن اور کنیت ابو عبداللہ ہے۔اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم کی بارگاہ میں علمِ فقہ سیکھنے کے لئے حاضر ہوئے۔ امام صاحب نے فرمایا کہ پہلے قراٰ نِ پاک یاد کرکے آؤ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک ہفتے میں قراٰنِ پاک حفظ کرکے دوبارہ حاضرِ خدمت ہوگئے اور امامِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم نے انہیں اپنی شاگردی میں قبول فرما لیا۔

امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے امامِ اعظم اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما سمیت امام مالک، امام اوزاعی، امام سفیان ثَوری، مِسْعَر بن کِدام اور عمر بن ذر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین جیسی عظیم ہستیوں سے علم حاصل کیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو یہ بھی ہے کہ مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) میں سے ہر ایک نے آپ سے بِالواسطہ یا بِلاواسطہ اِستفادہ کیا ہے۔ امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی نے آپ سے براہِ راست علم سیکھا، فقہِ مالکی کی کتبِ اسدیہ کے مؤلّف اسد بن فُرَات رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ امام محمد کے شاگرد تھے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا کہ مشکل ترین مسائل کا علم آپ کو کہاں سے حاصل ہوا؟ تو انہوں نے کہا کہ امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کتابوں سے۔ان چاروں مذاہب میں آپ کا فیضان پایا جاتا ہے۔
امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ رات کو بہت کم سوتے اور اکثر وقت مطالعہ میں گزارتے۔ جب کوئی مسئلہ حل ہوجاتا تو فرماتے: بھلا شہزادوں کو یہ لذّت کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ کسی نے پوچھا: آپ سوتے کیوں نہیں؟ تو فرمایا: میں کیسے سو جاؤں جب لوگوں کی آنکھیں (شرعی مسائل میں) ہم پر اعتماد کرکے سوئی ہوئی ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کثیرُ التّصانیف بزرگ تھے۔ علمِ حدیث میں آپ کی مشہور کتاب مؤطا امام محمد ہے جس کی اکثر روایات آپ نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے لی ہیں۔ اسی طرح کتابُ الآثار بھی علمِ حدیث میں آپ کی مشہور تالیف ہے۔ اس کے علاوہ فقہِ حنفی میں امام محمد کی چھ کتابوں کا مجموعہ مشہور ہے جنہیں ظاہرُالرّوایہ کہا جاتا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں: اَلْجَامِعُ الْکَبِیْر، اَلْجَامِعُ الصَّغِیْر، اَلسِّیَرُ الْکَبِیْر، اَلسِّیَرُ الصَّغِیْر، مَبْسُوط، زِیَادات۔ اس کے ساتھ ساتھ فقہِ حنفی ہی میں اَلْجُرْجَانِیَّات، اَلْکَیْسَانِیَّات، اَلْھَارُوْنِیَّات، اَلرِّقِّیَّات بھی مشہور ہیں۔حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے وصال کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ عراق کے قاضیُ القضاہ مقرر ہوئے۔

امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال ۱۴جُمادَی الاُخریٰ ۱۸۹ھ میں ہوا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو ”رَے“(عراق) کے مقام پر دفن کیا گیا۔اللہ تعالیٰ کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

islamic events © 2019,

Tuesday, January 14, 2020

Sadr ul Afazil Mufti Syed Naeemuddin Muradabad R.A[صدرُ الاَفاضِل مفتی سیّد نعیم الدّین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ]

Sadr ul Afazil Mufti Syed Naeemuddin Muradabad R.A[صدرُ الاَفاضِل مفتی سیّد نعیم الدّین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ]

صدرُ الاَفاضِل مفتی سیّد نعیم الدّین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ


امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت مجدّدِ دین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے خُلَفا میں ایک اہم شخصیت صدرُ الاَفاضِل، بدرُالاماثِل مفتی سیّد محمد نعیم الدّین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔آپ علیہ الرَّحمہ بَیَک وقت مفسّر، محدّث، مُناظر، خطیب، محرّر اورقومی راہنماتھے۔
صدرُ الاَفاضِل رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۲۱ صفر المظفر ۱۳۰۰ ھ کو مراد آباد(ہند) میں ہوئی۔ تاریخی نام غلام مصطفیٰ رکھا گیا مگر سیّد محمد نعیم الدّین کے نام سے مشہور ہوئے۔آٹھ سال کی عمر میں قراٰنِ پاک حفظ کر لیا۔ والد ِ مکرّم مولانا سیّد مُعین الدّین نُزْہَت سے اردو اور فارسی لکھنا پڑھنا سیکھی۔ درسِ نظامی کی تعلیم مولانا شاہ فضل احمد امروہی اور مولانا شاہ گل محمد قادری علیہما رحمۃ اللہ الہادِی سے حاصل کی۔ ۱۹سال کی عمر میں درسِ نظامی سے فراغت حاصل کی اور ایک سال فتویٰ نویسی کی مشق فرمائی۔

اعلیٰ حضرت سے تعلّق ۲۰سال کی عمر میں پہلی کتاب علم ِ غیب نَبَوی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پرتالیف فرمائی جس کا نام "اَلْکَلِمَۃُ الْعُلْیَا لِاِعْلَاءِ عِلْمِ الْمُصْطَفٰی"ہے۔ جب یہ کتاب امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کی بارگاہ میں پیش کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مَا شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بڑی عمدہ نفیس کتاب ہے۔ یہ نوعمری اور اوراتنے احسن دلائل کے ساتھ اتنی بلند کتاب مُصنّف کے ہونہار ہونے پر دلالت کرتی ہے۔پھر اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کی بارگاہ میں پہلی بار حاضری کا شرف ملا۔ اس کے بعد صدرُ الاَفاضِل رحمۃ اللہ علیہ کی یہ حالت ہوگئی کہ ہرپیر اور جمعرات کولازمی اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کی بارگاہ میں حاضری دیتے۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ آپ پر بہت اعتماد فرماتے اور اہم امور میں آپ سے مشورہ فرماتے تھے۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ کے ترجمۂ قراٰن بنام” کنزالایمان“ پر آپ نے تفسیری حاشیہ خزائن العرفان تحریر فرمایا۔ جو سابقہ معتَمد تفاسیر کا خلاصہ اور مشہورِ زمانہ ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استادِ مکرم مولانا شاہ گل محمد قادریعلیہ رحمۃ اللہ القَویسے سلسلۂ عالیہ قادریہ میں شرفِ بیعت حاصل کیا۔اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزت کے علاوہ آپ کو اپنے مرشِد گرامی اور شیخ المشائخ مولانا شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے بھی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔

صدرُ الاَفاضِل رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۱۰ء مراد آباد میں مدرسہ انجمن اہلِ سنّت وجماعت کی بنیاد رکھی جو بعد میں جامعہ نعیمیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ کی تربیت سے ایسے شاگردتیار ہوئے جنہوں نے مزید مدارس قائم فرمائے۔ بانیِ دارالعلوم حزب الاحناف مولانا ابوالبرکات سیّد احمد قادری صاحب، بانیِ دار العلوم نعیمیہ کراچی مولانا محمد عمر نعیمی، بانی ِدارالعلوم حنفیہ بصیر پور اوکاڑہ مولانا ابوالخیر نور اللہ نعیمی، بانی دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور مفتی محمد حسین نعیمی علیھم الرحمۃ ان چند میں سے ایک ہیں۔
صدرُ الاَفاضِل رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں عقائد واعمال میں طرح طرح کے فتنے پیدا ہورہے تھے ۔ آپ نے ان تمام کے ردّ میں قائدانہ کردار اداکیا۔ تحریکِ پاکستا ن میں بھی آپ کا کردار مثالی رہا۔آپ کی کوششوں سے بنارس(ہند) میں آل انڈیا سنی کانفرنس ۱۹۴٦ء میں منعقد ہوئی جس میں مطالبۂ پاکستان کی زبردست حمایت کی گئی۔
صدرُ الاَفاضِل رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں تفسیرِ خزائنُ العرفان کے علاوہ :اَطْیَبُ الْبَیان فِی رَدِّ تَقْوِیَۃِ الْاِیمان،کتابُ العقائد، سوانحِ کربلا،کشفُ الحِجابِ عَنْ مَسَائلِِ اِیصالِِ الثَّواب، سیرتِ صحابہ ،آدابُ الاخیار اورنعتیہ دیوان بنام ریاض نعیم وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے پندرہ روزہ رسالہ”السواد الاعظم“ بھی جاری فرمایاجو بعد میں ماہنامہ بنا۔
Sadr ul Afazil Mufti Syed Naeemuddin Muradabad R.A[صدرُ الاَفاضِل مفتی سیّد نعیم الدّین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ]
صدرُ الاَفاضِل مفتی سیّد محمد نعیم الدّین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک ۱۹ ذوالحجۃ الحرام ۱۳٦۷ھ بروز جمعۃ المبارک کو ہوا۔ جامعہ نعیمیہ مرادآباد ہندکی مسجد کے گوشے میں آپ کا مزار مبارک رحمتِ الٰہی کے سائے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہواور آپ کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
islamic events © 2019,

Monday, January 13, 2020

Imam Abu Bakar Bin Hussain Baihaqi R.A[امام ابوبکراحمد بن حسین بَیْہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

Imam Abu Bakar Bin Hussain Baihaqi R.A[امام ابوبکراحمد  بن حسین بَیْہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ]

امام ابوبکراحمد بن حسین بَیْہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


مُحدّثِینِ عِظام میں بلند پایَہ عِلمی مَقام رکھنےوالی ایک شخصیت شیخُ الاسلام ، فقیہِ جلیل،حافظِ کبیر امام ابوبکراحمد بن حسین بَیْہقی شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بھی ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت شعبانُ المعظّم ۳۸۴ ھ کوخُراسان کے مشہورشہر بَیْھَق(نزدنیشاپور،ایران)میں ہوئی۔ بَیْھَق شہر کی نسبت سے آپ کوبَیْھَقِی کہا جاتا ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے علومِ دینیہ اور علمِ حدیث کےحصول کے لئے حجاز، مکّۂ مکرّمہ، عراق، جبال،نیشاپور، طابران، دامغان، اِسْفَرَایین اوردیگر کئی علاقوں کا سفر فرمایا اور ۱۵ سال کی عُمْر سے ہی سَماعِ حدیث(استاذصاحب سے براہِ راست حدیثِ پاک کے الفاظ سننے) کی طرف مائل ہوئے۔ امام بیہقی کے اَساتِذہ میں صاحبِ مُسْتَدْرَک امام ابوعبداللہ حاکم نیشا پوری شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کا نام سَرِ فہرست ہے۔ان کے علاوہ امام ابوبکرمحمدبن فُورَک شافعی اورمحدث ابوسعیدمحمدبن موسیٰ صَیْرَفی رحمہما اللہ تعالیٰ سےبھی اکتسابِِ فیض کیا۔ امام تاجُ الدّین سُبُکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے نقل فرمایا ہے کہ آپ کے اساتِذہ وشُیوخ کی تعداد ۱۰۰سے زیادہ ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مشہور شاگردوں میں شیخُ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری ہروی، سیّدُنا ابوعبد الله محمد بن فضل فَراوی شافعی،حافظ زاهر بن طاهر شَحَّامی،سیدناابو الْمَعالی محمد بن اسماعيل فارسی رحمھم اللہ تعالیٰ اوران کے علاوہ دیگرکئی حضرات شامل ہیں۔

حافظ عبدُالغافربن اسماعیل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ ”بیہقی“ فقیہ(مفتی)،حافظِ حدیث، قوّتِ حفظ میں یگانۂ روزگار(اپنے زمانے میں بے مثال) اورضَبْط و اِتّقان میں اپنے ہم عصروں سےمُمتاز تھے،امام حاکم کے بڑے شاگردوں میں سےہیں مگرکئی عُلوم ان سےزیادہ جانتے تھے، بچپن ہی میں احادیثِ مبارکہ کو لکھنا اوریاد کرنا شروع کر دیاتھا،امام بیہقی نے علمِ حدیث اورفِقْہ میں بےنظیر اور لا جواب کتابیں لکھیں۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عقائد، احادیث، فقہ، مَناقب وغیرہ کئی اہم عُنوانات پر کُتُب تصنیف کی ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں سے دَلَائِلُ النُّبُوَّۃ ، شُعَبُ الْاِیْمَان، مَعْرِفَۃُالسُّنَنِ وَالْآثَار، اَلسُّنَنُ الْکَبِیْر، اَلسُّنَنُ الصَّغِیْر ، کِتَابُ الْاَسْمَاءِ وَالصِّفَات، اورحَیَاۃُ الْاَنْبِیاء کا نام سرِفہرست ہے۔ زُہدوتقویٰ آپرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے زُہْدوتَقْویٰ کو بیان کرتے ہوئے امام ابوالحسن حافظ عبدُالغافر بن اسماعیل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القوی علمائے سابِقین(پہلے کے علما) کی سیرتِ مبارَکہ کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، دنیاوی مال میں سے بہت تھوڑے پر گزربسر کرنے والے اور زُہد و تقویٰ سے آراستہ تھے۔امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ زندگی کے آخری ۳۰سال(ممنوع ایّام کے علاوہ) ہردن روزے سے رہے۔ امام ابوبکراحمد بن حسین بَیْہقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی عمر ِمبارَکہ کا آخری حصّہ نیشاپور میں گزارا،وہیں بیمار پڑگئےاور وقتِ رِحْلَت آپہنچا۔ ۱۰ جمُادی الاُولیٰ ۴۵۸ھ کو نیشاپور میں ہی داعیِ اَجل کو لبّیک کہا اور آپ کی تدفین بیہق میں ہوئی۔اللہ پاک کی ان پررحمت ہواوران کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔

islamic events © 2019,

Saturday, January 11, 2020

Hazrat Khalid bin waleed R.A[حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ]

Hazrat Khalid bin waleed R.A[حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ]

حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ


مجاہدِ اسلام، قائدالمسلمین، سیف اﷲ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت با سعادت مکۃ المکرمہ میں خاندانِ قریش کے قبیلہ بنی مخزوم میں ہوئی۔آپؓ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اشراف میں سے ہیں ۔ ان کی والدہ حضرت بی بی لبابۂ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہاام المؤمنین حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بہن تھیں اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بچپن کے دوست تھے۔
حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہادری اورفن سپہ گری وتدابیر جنگ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے انکی اسلام دشمنی مشہورتھی ۔ جنگ بدر اور جنگ احد کی لڑائیوں میں یہ کفار کے ساتھ رہے اوران سے مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچا مگر ناگہاں ان کے دل میں اسلام کی صداقت کا ایسا آفتاب طلوع ہوگیا کہ ۷ھ میں یہ خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر درباررسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم میں حاضر ہوگئے اور دامن اسلام میں آگئے اور یہ عہد کرلیا کہ اب زندگی بھرمیری تلوار کفار سے لڑنے کے لئے بے نیام رہے گی، چنانچہ اس کے بعد ہر جنگ میں انتہائی مجاہدانہ جاہ وجلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں شمشیربکف رہے یہاں تک كه ۸ھ میں جنگ موتہ میں جب حضرت زید بن حارثہ وحضرت جعفربنابی طالب وحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں سپہ سالاروں نے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کرلیا تو اسلامی فوج نے ان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیااورانہوں نے ایسی جاں بازی کے ساتھ جنگ کی کہ مسلمانوں کی فتح مبین ہوگئی اوراسی موقع پر جب کہ یہ جنگ میں مصروف تھے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے ان کو ”سیف اللہ”(اللہ کی تلوار)کے خطاب سے سرفراز فرمایا ۔

امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب فتنہ ارتداد نے سراٹھایاتو انہوں نے ان معرکوں میں بھی خصوصاًجنگ یمامہ میں مسلمان فوجوں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری قبول کی اورہر محاذپر فتح مبین حاصل کی ۔ پھر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران رومیوں کی جنگوں میں بھی انہوں نے اسلامی فوجوں کی کمان سنبھالی اوربہت زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں۔
آپ ؓ کو سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم سے شدید محبت اور والہانہ عقیدت تھی، حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ عمرہ کیا،تو آپ ﷺنے حلق کروایا،لوگوں نے موئے مبارک کی طرف سبقت کی، میں بھی پیشانی کے موئے مبارک لینے میں کامیاب ہوگیا،میں نے ان کو اپنی ٹوپی کے اگلے حصہ میں محفوظ رکھا،جس طرف متوجہ ہوا اس کی برکت سے میں نے فتح پائی،کامیابیوں سے ہم کنار ہوا،آپ جنگی مہارت وصلاحیت کے حوالے سے لاثانی تھے۔

حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشاعتِ اسلام کے لئے محیرالعقول کارنامے انجام دئیے، فرزندانِ توحید کے دلوں میں جوش وجذبہ اور عشق وعقیدت کا چراغ فروزاں کیا،آپ ؓ کی پوری زندگی میدانِ جنگ میں گزری، معرکوں اور جنگوں میں آپ پیش پیش تھے،آپ ؓ کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جس پر تلوار کی ضرب ، نیزے کا زخم اور تیر کا نشان نہ ہو، آپ ؓ کی قیادت میں لشکرِ اسلام فتح یاب ہوا، دشمنانِ اسلام کی سرکوبی ہوئی،سینکڑوں قبائل آپ ؓ کی بدولت مشرف باسلام ہوئے،دشمنانِ دین کے لئے شمشیرِ برہنہ تھے ،آپ ؓ کی ان عظیم الشان خدمات پر آپ کو سیف ﷲ کا لقب ملا،اپنا تمام تر جنگی سازوسامان راہِ خدا میں وقف کردیا، حضرت عبدﷲ بن عباس اور حضرتِ جابر بن عبدﷲ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسے اکابر صحابہ کو آپ سے شرفِ روایت حاصل ہے۔
Hazrat Khalid bin waleed R.A[حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ]
حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ٦۰سال کی عمر میں ۲۸جمادی الاولی ۲۱ھ میں وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک شام(حِمْص) میں زیارت گاہِ خواص وعوام ہے۔

islamic events © 2019,

Friday, January 10, 2020

Hujjat ul Islam hazrat Molana shah mohammad Hamid Raza Khan R.A[حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ]

Hujjat ul Islam hazrat Molana shah mohammad Hamid Raza Khan R.A[حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ]

حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ


وارثِ علم ومعرفت ، نائبِ اعلی حضرت ،استاذِ محدثِ اعظم پاکستان، حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان قادری رضوی نوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ولادت با سعادت ربیع الاول ۱۲۹۲ھ بمطابق ۱۸۷۵ء محلہ سودگراں بریلی شریف (یو۔پی)ہند میں ہوئی ۔
مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تعلیم وتربیت اپنے والد ماجد آفتابِ علم وفضل، مجدّدِدین وملت ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے زیرِ سایہ ہوئی ، اورآپ نے اورادواعمال ، اذکار و اشغال اورجمیع سلاسل کی اجازت بھی عطا فرمائی ، بیعت وخلافت نورالعارفین حضرت سید ابوالحسین احمد نوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے حاصل ہے ، آپ تمامعلوم فنون میں کامل دسترس اور مہارتِ تامہ رکھتے تھے ، عرب وعجم کے بڑے بڑے علما وفضلاء نے آپ کی فصاحت وبلاغت، علم وفضل کی جلوہ سامانیوں پر داددی ، کلماتِ تحسین فرمائے اور اَسنادسے نوازا، دنیائے اسلام میں آپ کی شخصیت عظیم مقام ومرتبہ کی حامل ہے ۔

حجۃ الاسلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے والد کے جانشین اوروارث وامین تھے ، آپ کی شخصیت حقانیتِ اسلام کی دلیل تھی، آپ نے خد متِ دین میں اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ صرف کردیا، اپنے درس وتدریس سے ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا، مفتی ٔ اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان ، شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی، شیربیشۂ اہلِ سنت مولاناحشمت علی خان، محدثِ اعظم پاکستان مولاناسردار احمدرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہِم آپ کے اجلہ خلفاء وتلامذہ میں سے ہیں ، آپ کی تقریر وتحریر سے اسلام و سنیّت کی تبلیغ ہوئی ، دینِ متین کی تبلیغ اور حفاظتِ ناموسِ مصطفیٰ آپ کی زندگی کے اصل مقاصد تھے ، آپ کی زندگی غلبۂ اسلام، بلندیٔ پرچمِ اسلام، علم کی نشر و اشا عت اور خدمتِ دین کے لئے وقف تھی، تاحیات تعلیمی ، تبلیغی ، سیاسی اور سماجی خدمات کے کارہائے نمایاں انجام دئیے ، گوناں گوں مشاغل کے باوجودآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی قابلِ صد مبارک باد تصانیف محتاجِ تعارف نہیں ، الدولۃ المکیہ کا ترجمہ آپ کا علمی ادبی شاہکار ہے ، فتاویٰ حامدیہ آپ کی فقہی شان و عظمت کا بیّن ثبوت ہے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بہترین شاعر بھی تھے ، حمد ونعت اور کئی منقبتیں کہیں جن کے پڑھنے ، سننے سے ایمان تازہ ہوتا ہے اوردل کو سرور ملتا ہے ۔ان کا مجموعہ’’بیاضِ پاک حُجَّۃُ الاسلام ‘‘کے نام سے معروف ہے ۔
Hujjat ul Islam hazrat Molana shah mohammad Hamid Raza Khan R.A[حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ]
حجۃ الاسلام حضرت مولانا شاہ محمد حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ نے ۱۷ جمادی الاولیٰ۱۳٦۲ھ بمطابق ۲۳ مئی ۱۹۴۳ء کووصال فرمایا، آپ کا مزاربریلی شریف(ہند)میں زیارت گاہِ خواص وعام ہے۔

islamic events © 2019,

Wednesday, January 8, 2020

hazrat fatima binte asad R.A[حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا]

hazrat fatima binte asad R.A[حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا]

حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا


پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چچی جان اور حضرت سیّدُنا علی المرتضی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتُنا فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام کی ایک اہم ہستی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام اسد بن ہاشم بن عبد مناف اور والدہ کا نام فاطمہ بنت ھَرِم بن رواحہ ہے ،آپ کا تعلق قبیلہ بنی ہاشم سے ہے ۔آپ بھی اُن خوش نصیب شخصیات میں شامل ہیں جو ایمان کی دولت سے سَرفراز ہوئیں اور مدینہ شریف ہجرت کی۔
سیّدتُنا فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کا نکاح ابوطالب سےہوا ۔آپ کی اولاد کی فہرست میں درج ذیل نام شامل ہیں:حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل، طالب، حضرت اُمِّ ہانی، حضرت جُمانہ، رِیطہ۔
جب مدینۂ منوّرہ میں آپ رضی اللہ عنھا کا انتقال ہوا تو حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور ان کے سِرہانے بیٹھ کرارشاد فرمایا:”اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے! میری والدۂ محترمہ کے بعد آپ میری ماں تھیں، خود بُھوکی رہتیں مجھے کھلاتیں، خود پُرانے کپڑوں میں گزارہ کرتیں مجھے نئے کپڑے پہناتیں، اچھے کھانے خود نہ کھاتیں بلکہ مجھے کھلاتیں، صرف اس نیّت سے کہ اللہ پاک کی رضا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہو“۔

پھر غسلِ میّت ہوجانے کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفن پہنانے سے پہلے اپنی مبارک قمیص انہیں پہنانے کے لئے دی۔ جب لَحْدبنا نے کاوقت آیاتو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود لحدبنائی اور اس میں لیٹ کر اس طرح دُعا کی: ”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو جِلاتا (یعنی زندہ کرتا) اور مارتاہے اور خود زندہ ہے کہ کبھی نہ مرے گا، (اے اللہ!) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کو بخش دے، انہیں اِن کی حُجّت سکھا اور اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیا کے صدقے (وسیلے) ان کی قبر کو وسیع فرما، تُو سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔“ پھر چار تکبیروں کےساتھ ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں قبر میں اُتارا(معجمِ کبیر) ۔
جب قبر پر مٹی برابر کر دی گئی تو کسی نے عرض کی:یارسولَ اللہ ! آج ہم نے آپ کو وہ عمل کرتے دیکھا جو آپ نے پہلے کسی کے ساتھ نہ کیا۔ فرمایا:انہیں میں نے اپنا کُرتا اِس لئے پہنایا تاکہ یہ جنّت کے کپڑے پہنیں اور ان کی قبر میں اس لئے لیٹا تاکہ قبر دَبانے میں ان کے لئے تخفیف کرے اور یہ ابوطالب کے بعد خلقِ خدا میں سب سے زیادہ میرے ساتھ نیک سلوک کرنے والی تھیں(معجمِ اوسط)۔
حضرت سیّدتُنا فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کا مزار جنّتُ البقیع میں امیرُ المؤمنین حضرت سیّدناعثمان بن عفّان رضی اللہ عنہ کے مزار شریف کے پاس ہے۔ اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

islamic events © 2020,

Tuesday, January 7, 2020

Matti Kay Bartan[مٹی کے برتن]


Matti Kay Bartan[مٹی کے برتن]

مٹی کے برتن


مختلف لوگ مختلف چیزوں اسٹیل، پلاسٹک، شیشے اور مٹّی وغیرہ کے بنے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے ہیں، تاہم مٹّی کے برتن میں کھانے پینے کے اپنے فوائد ہیں۔ ہمارے مدنی آقا، دوجہاں کے داتا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مٹی کے برتنوں کو استعمال فرمانا بھی منقول ہے، چنانچہ حضرت سیّدُنا خَباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پختہ مٹّی کے برتن سے پانی پیتے ہوئے دیکھا۔
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم سے تانبے، پیتل کے برتنوں میں کھانا پینا ثابت نہیں۔ مٹی یا کاٹھ (یعنی لکڑی) کے برتن تھے اور پانی کے لئے مشکیزےبھی۔ مزید فرماتے ہیں: (مٹی کے برتن) میں کھانا پینا بھی تواضُع سے قریب تَر ہے، کھانے پینے کے برتن مٹّی کے ہونا افضل ہے کہ اِس میں نہ اِسراف ہے نہ اِترانا، حدیث میں ہے:جو اپنے گھر کے برتن مٹّی کے رکھےفرشتےاُس کی زیارت کریں۔

حضرت سیّدُنا شیخ ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم گھر میں مٹی کے علاوہ دوسرے برتن رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت سَری سَقَطی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا: کوشش کرنا کہ تمہارے گھر میں استعمال ہونے والے برتن تمہارے بدن یعنی مٹی سے ہوں۔
مٹّی کے برتنوں کو کھانے پینے کے علاوہ دیگر کاموں میں بھی استعمال کرکے ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے، فتاویٰ شامی میں ہے کہ مٹّی کے برتن سے وضو کرنا مستحب (یعنی ثواب کا کام) ہے۔
مِٹّی کے برتن استعمال کرنے سے دینی فوائد حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ دُنیاوی فوائد بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں جیسے مِٹّی کے برتنوں میں پکا ہوا کھانا اسٹیل اور دوسری دھاتوں میں پکے کھانے کی نِسْبَت زیادہ دیر تک اپنی اِفادِیَت قائم رکھتا ہے۔ ماہِرین کے مُطابِق نان اسٹک (، تانبے ، پیتل اور اسٹیل کے برتنوں کا اِسْتِعمال صِحَّت کیلئے مُضر(نقصان دِہ) ہے۔مٹکے یا مٹی کے برتن میں پانی محفوظ کر کے پینا گلے کے امراض، کھانسی اور سانس کی تکالیف سے بچاتا اور نظامِ ہاضمہ بھی درست رکھتا ہے۔

islamic events © 2019,

Saturday, January 4, 2020

hazrat Sheikh Syed Ahmed Kabir Rifai R.A[حضرت شیخ سَیِّد احمدکبیر رَفاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ]

hazrat Sheikh Syed Ahmed KabirRifai R.A[حضرت شیخ سَیِّد احمدکبیر رَفاعی رَحْمَۃُ اللہِ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ]

حضرت شیخ سَیِّد احمدکبیر رَفاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ


حضرت مُحْیُ الدین سَیِّد ابُوالعباس احمدکبیر رفاعی حسینی شافعی کا نام احمدبن علی بن یحیٰ بن حازم بن علی بن رَفاعہ ہے۔جَدِّامجد رفاعہ کی مناسبت سےرفاعی کہلائے۔ آپ سَیِّدُالشُّہدا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد میں سے ہیں،آپ کی کُنیت ابو العباس اورلقب مُحْیُ الدین ہےجبکہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں ۔حضرت سَیِّد احمدکبیر رَفاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ولادت ۱۵ رجبُ المرجب ۵۱۲ ھ بمقام اُم عبیدہ قصبہ حسن میں ہوئی۔
شیخ کبیررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابھی سات سال ہی کے تھے کہ والد ماجدسید علی ہاشمی مکی قدس سرہٗ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ اس کے بعد اُن کی نشو ونما اور پرورش شیخ سیدمنصور بطائحی قدس سرہٗ کی زیرنگرانی ہوئی، جو اُن کے حقیقی ماموں تھے۔ شیخ کبیررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کرلینے کے بعدشیخ عبدالسمیع حربونی کی نگرانی میں پہنچے اوراُن کی شاگردی میں قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا، اور مزید تعلیم وتربیت کے لیے شیخ ابوالفضل علی واسطی قدس سرہٗ کے سپرد ہوئے، جہاں شیخ کبیررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے علوم حدیث، تفسیر،منطق وفلسفہ نیز مروجہ علوم وغیرہ میں بطورخاص کمال ومہارت حاصل کی اور مختلف علمی فضل وکمال کے گوہرمراد سے اپنے دامن آرزو کو پُرکیا۔

حضرت سَیِّدُنا امام احمد کبیر رفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اپنے مُریدین و مُحبّین کی حُسنِ تربیت کے لئے وقتاً فوقتا ًشریعت و طریقت کے بہترین رہنما اصول بھی بیان کرتے رہے ۔ان کےچند ملفوظات مُلاحظہ کیجئے :جو اپنے اوپر غیر ضروری باتوں کو لازم کرتاہے وہ ضروری باتوں کو بھی ضائع کردیتا ہے ۔مخلوق کو اپنے ترازو میں مت تولو بلکہ اپنے آپ کو مومنین کے ترازو میں تولو تاکہ تم ان کی فضیلت اور اپنی مُحتاجی جان سکو ۔جوشخص یہ خیال کرے کہ اس کے اعمال اسے رَبِِّ قدیر عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچادیں گےتو اس نے اپنا راستہ کھو دیا (اپنے اعمال کے بجائے رحمتِ الہٰی پر نظر کرے )۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ غوث و قطب کو غیبوں پر مُطَّلَع فرمادیتاہے پس جو بھی درخت اُ گتا ہےاور پتَّا سر سبز ہوتاہے تو وہ سب جان لیتے ہیں ۔جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکُّل کرتاہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے دل میں حکمت داخل فرماتاہےاورہر مشکل گھڑی میں اسے کافی ہوجاتاہے۔ افسوس ہے ایسے شخص پر جو دنیا مل جانے پر اس میں مشغول ہوجاتاہے اور چھن جانے پرحسرت کرتاہے ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اولیاءُاللہ کے علاوہ تمام مخلوق سے وحشت ہو کیونکہ اولیا سے محبت اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت ہے ۔ہمارا طریقہ تین چیزوں پر مشتمل ہے : نہ تو کسی سے مانگو ،نہ کسی سائل کو منع کرو اور نہ ہی کچھ جمع کرو ۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے متَعَدَّد کتابیں تحریر فرمائیں لیکن اکثرکتب تاتاریوں کے حملے میں ضائع ہوگئیں البتہ جو کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں ۔ حَالَۃُ اَھْلِ الْحَقِیْقَۃِ مَعَ اللہِ ،ا َلسِّرُ الْمَصُوْن، رَاتِبُ الرَّفَاعِی ،اَلْبُرھَانُ الْمُؤیَّد
حضرت سَیِّد احمدکبیر رَفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی ٦٦ سال اس دارِ فانی میں رہ کر مخلوقِ خدا کی رُشد وہدایت کا کا م سرانجام دینے کے بعدبروزجمعرات ۲۲جمادی الاولی ۵۷۸ھ بوقتِ ظہر اس عالمِ فنا سے عالمِ بقا کا سفر اختیار کیا۔نمازِ جنازہ کے وقت کئی لاکھ کا مَجمَع موجود تھا،بعدنمازِ جنازہ خانقاہ ِاُمِّ عَبیدہ (صوبہ ذِیقار، جنوبی عراق) میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تدفین کی گئی۔
hazrat Sheikh Syed Ahmed KabirRifai R.A[حضرت شیخ سَیِّد احمدکبیر رَفاعی رَحْمَۃُ اللہِ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ]
آج آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال مُبارک کو صدیاں ہوچکیں مگر اس کے باوجود جنوبی عراق میں آپ کا مزارمبارک بے شمار عقیدت مندوں کی اُمیدوں کا مرکز بنا ہواہے۔

islamic events © 2019,

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...