Thursday, October 24, 2019

Wilayat(auliya allah) [وِلایت(اولیاءُاللہ)]

Wilayat(auliya allah) [وِلایت(اولیاءُاللہ)]

وِلایت(اولیاءُاللہ)۔


Best Web Hosting in Pakistan
وِلایت ایک قُربِ خاص ہے کہ مولیٰ عَزَّوَجَلَّ اپنے بَرْگُزیدہ(پسندیدہ) بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔وِلایت اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ اِنعام ہے، نہ یہ کہ اَعمالِ شاقّہ(سخت مشکل اعمال)سے آدمی خود حاصل کرلے، البتّہ اکثر اوقات اعمالِ حَسَنہ اِس عطیّۂ الٰہی کے لئے ذریعہ ہوتے ہیں اور بعضوں کو ابتداءً مل جاتی ہے۔
اولیاءُاللہ دو قسم کے ہیں: (۱)تَشْریعی ولی اور (۲)تَکْوِیْنی ولی۔ (۱)تَشْریعی ولی یعنی ”اللہ سے قُرب رکھنے والے اولیاء“ حضور کی اُمّت میں بے شُمار ہیں جہاں چالیس صالح مسلمان جمع ہوں وہاں ایک دو ولی ضَرور ہوتے ہیں۔ (۲)تَکْوِیْنی ولی وہ کہ جنہیں عالَم میں تَصرُّف کا اختیار دیا گیا ہو، ان کی مخصوص جماعت ہے جیسے غوث، قُطْب، اَبْدال وغیرہ ان کی مختلف اقسام ہیں اور یہ تمام قِیامت کے ڈَر اور رَنج سے یا دنیا کے مُضِر خوف و غم سے محفوظ ہیں۔
عُلَمائے کرام نے تکوینی اولیائے کرام کی مختلف اقسام و تعداد بیان کی ہے۔ ان میں سے آٹھ کا مختصر ذِکر ملاحَظہ فرمائیے:۔
قُطْب اس سے مراد وہ عظیم انسان ہے جو زمانہ بھر میں صرف ایک ہی ہو، اسی کو ”غوث“ بھی کہتے ہیں۔ ” قطْب“ اللہ پاک کا نہایت مُقرّب اور اپنے زمانے کے تمام اولیا کا آقا ہوتا ہے۔
اَئِمّہ یہ ہر دور میں صرف دو ہوتے ہیں۔ ایک کا صفاتی نام ”عبدُالرّب“ اور دوسرے کا صفاتی نام ”عبدالمِلک“ ہوتا ہے۔ یہ دونوں قُطْب کے وزیر ہوتے ہیں اور یہی اس کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ ہوتے ہیں۔
اَوْتاد یہ ہر دَور میں صرف چار حضرات ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ پاک مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کی حفاظت فرماتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی ولایت ایک جہت(زمین کی ایک سَمْت) میں ہوتی ہے۔ ان کے صفاتی نام یہ ہیں: عبدالحیّ، عبدالعلیم، عبدالقادر اور عبدالمرید۔

اَبْدال یہ سات سے کم و بیش نہیں ہوتے۔( ابدال سے مراد” بُدَلَاء“ ہیں کیونکہ عام ابدال کی تعداد۴۰ بلکہ۷۰ بھی بیان ہوئی ہے) اللہ پاک نے انہیں پوری آباد دنیا کی حفاظت کی ذمّہ داری عطا فرمائی ہے۔ ہر بُدَل کی ایک اِقْلِیم(آباد زمین کا ساتواں حصّہ) ہوتی ہے جہاں اس کی وِلایت کا سِکّہ چلتا ہے۔
نُقَبَا ہر دور میں ۱۲نقیب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر نقیب آسمان کے۱۲ بُرجوں میں سے ایک ایک بُرج کی خاصیتوں کا عالم ہوتاہے۔ شیطان اور اس کے ان پوشیدہ مُعامَلات کو بھی جانتے ہیں جن کو شیطان خود نہیں جانتا۔ اللہ پاک نے انہیں یہ شان عطا فرمائی ہے کہ کسی شخص کے زمین پر لگے پاؤں کے نشان ہی کو دیکھ کر انہیں اس کےبد بخت اور خوش بخت ہونے کا علم ہوجاتا ہے۔
نُجَبَا ہر دور میں آٹھ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان حضرات کے احوال سے ہی قبولیت کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ حال کا ان پر غلبہ ہوتا ہے اور اس غلبہ کو صرف وہ اولیاءِ عُظّام پہچان سکتے ہیں جو مرتبہ میں ان سے اوپر ہوتے ہیں۔
رِجالُ الغیب یہ حضرات ۱۰سے کم و بیش(یعنی کم اور زیادہ) نہیں ہوتے۔ ہمیشہ ان کے احوال پَر انوارِ الٰہی کا نُزول رہتا ہے لہٰذا یہ اہلِ خشوع ہوتے ہیں اور سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ یہ مَسْتُوْر (یعنی نظروں سے اوجھل) رہتے ہیں۔ اَہْلُ اللہ جب بھی لفظ رجالُ الغیب استعمال فرماتے ہیں تو ان کا مطلب یہی حضرات ہوتے ہیں۔ کبھی اس لفظ سے نگاہوں سے اوجھل انسان اور کبھی مومن جنّ بھی مراد لئے جاتے ہیں نیز کبھی اُن لوگوں کو بھی رجالُ الغیب کہہ دیا جاتا ہے جنہیں علم اور رزق خزانۂ غیب سے عطا ہوتا ہے۔
رَجَبِی یہ ہر دور میں ۴۰ ہوتے ہیں۔ انہیں رجبی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مقام کا حال صرف ماہِ رجب کی پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک طاری ہوتا ہے۔ البتّہ! بعضوں پر اس کیفیت کا کچھ اثر پورے سال رہتا ہے۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...