Wednesday, October 23, 2019

juwa[جُوا ]

juwa[جُوا ]

جُوا


Unlimited Web Hosting
جو برائیاں ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ان میں سے ایک ”جُوا“ بھی ہے، جس کے جال میں پھنس کر کئی لوگ بربادہوچکے ہیں۔ عادی جُواریوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے مَحض تفریح کے لئے چھوٹی چھوٹی رقمیں لگانے سے جوا کھیلنے کا آغاز کیامگر رَفتہ رَفتہ اس ’’ناسور ‘‘ کے ایسے عادی ہوئے کہ اب جُوئے کی لت چھوڑنا ان کے لئے دشوار ہو گیا۔ جوئے میں انسان بہت کچھ ہارجاتا ہے چنانچہ جواری مالی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں،کچھ نہیں سُوجھتا توسود پر قرض لیتے رہتے ہیں اور ایک لمباہاتھ مارنے کے چکر میں جوئے کی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں،اپنا وقت جوئے کے اڈوں میں برباد کرتے ہیں اوروہاں پر پھیلنے والی مزید برائیوں نشہ،چوری چکاری وغیرہ میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کئی جواری اپنی نوکری یا کاروبار سے بھی غافل ہوجاتے ہیں،انجام کار نوکری یا کاروبار ہاتھ سے جاتا رہتا ہے، ان کی گھریلو زندگی تباہ ہوکررہ جاتی ہے ،عزت برباد ہوجاتی ہے ، ٹینشن کے مارے یہ بیمار ہوجاتے ہیں،بعض اوقات جوا کھیلنے کی پاداش میں پولیس کے ہاتھوں گِرِفْتار بھی ہوجاتے ہیں،یوں ان کو جوئے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے ،جب انہیں کچھ سُجھائی نہیں دیتا تو اپنی زندگی سے اتنا مایوس ہوجاتے ہیں کہ(مَعَاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّ) خودکشی جیسے حرام کام کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔
جُوئے کی تعریف جُوئے کو عربی میں قِمار کہتے ہیں، حضرت میرسیّد شریف جُرجانی قُدِّسَ سرُّہُ الرَّبّانی لکھتے ہیں:ہر وہ کھیل جس میں یہ شر ط ہو کہ مَغْلُوب(یعنی ناکام ہونے والے)کی کوئی چیز غالِب (یعنی کامیاب ہونے والے )کو دی جائے گی یہ”قِمار“ (یعنی جُوا) ہے۔قراٰنِ پاک میں ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ (پ۲،البقرۃ:۲۱۹)ترجمۂ کنزالایمان: ”تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے“۔

خزائن العرفان میں ہے: نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سُرور پیدا ہوتا ہے یا اس کی خریدو فروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اورجوئے میں کبھی مُفْت کا مال ہاتھ آتا ہے اور گناہوں اور مفسدوں کا کیا شمار! عقل کا زوال، غیرت و حَمِیَّت کا زوال، عبادات سے محرومی، لوگوں سے عَدَاوَتیں ،سب کی نظر میں خوار ہونا ،دولت و مال کی اِضاعت(یعنی بربادی)۔
جوئے کا شرعی حکم اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلِ سنّت،امام اَحمد رضا خان فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:”جُوا بھی بَنَصِِّ قَطْعِیِ قرآن حرام ہے۔“ جبکہ جوئے سے حاصل ہونے والی رقم بھی حرام ہے چنانچہ فتاوٰی رضویہ میں ہے: سُود اور چوری اورغَصَب اورجُوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے“۔
چارفرامینِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ(۱)جس نے نَردشَیر(فارس کے بادشاہوں میں ایک بادشاہ آردشیر ابن تابک گزرا ہے اس نے یہ جوا ایجاد کیا۔نرد بمعنی ہار جیت کی بازی اردشیر آردشیر سے لیا گیا اس لیے اس کھیل کا نام نردشیر رکھا گیا یعنی اردشیر کا جوا، اس کی ایجادکردہ بازی۔) سے جُوا کھیلا تو گویا اُس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبویا۔(ابنِ ماجہ) سؤر کے گوشت و خون میں ہاتھ ساننا اِسے نجس بھی کرتا ہے اور گِھناؤنا عمل بھی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی۔ (۲)جو کوئی نَرد کھیلے اس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کی۔(مسندِبزار) (۳)جوشخص نَرد کھیلتا ہے پھر نماز پڑھنے اٹھتا ہے،اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو پیپ اور سؤر کے خون سے وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے۔(مسندامام احمد) (۴)جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا: آؤ! جُوا کھیلیں،تو اُس (کہنے والے) کو چاہئے کہ صدقہ کرے۔ (مسلم) یعنی جُوا کھیلنا تو درکنار اگر کسی کو جُوا کھیلنے کی دعوت بھی دے تو وہ جوئے کا مال جس سے جوا کھیلنا چاہتا ہے وہ یا دوسرا مال صدقہ کردے تاکہ اس اِرادے کا یہ کفارہ ہوجائے۔اس سے معلوم ہوا کہ ارادۂ گناہ بھی گناہ ہے،یہ ہی مذہبِ جُمْہور ہے۔

جوئے سے توبہ کا طریقہ:جُوا کھیلنے والا اگر نادم ہوا تو اُس کو چاہئے کہ بارگاہِ الٰہیعَزَّ وَجَلَّ میں سچّی توبہ کرے مگر جو کچھ مال جیتا ہے وہ بدستور حرام ہی رہے گا اس ضِمْن میں راہنمائی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہل سنّت، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:جس قدر مال جوئے میں کمایا محض حرام ہے اور اس سے بَراء َ ت (یعنی نَجات)کی یِہی صورت ہے کہ جِس جِس سے جتناجتنا مال جِیتاہے اُسے واپَس دے، یا جیسے بنے اُسے راضی کرکے مُعاف کرالے۔ وہ نہ ہو تو اُس کے وارِثوں کو واپَس دے، یا اُن میں جو عاقِل بالِغ ہوں ان کا حصّہ اُن کی رِضامندی سے مُعاف کرالے۔ باقیوں کا حصّہ ضَرور انہیں دے کہ اِس کی مُعافی ممکن نہیں، اورجن لوگوں کا پتا کسی طرح نہ چلے، نہ اُن کا، نہ اُن کے وَرَثہ کا ، اُن سے جس قَدَر جیتا تھا اُن کی نیّت سے خیرات کردے، اگرچِہ (خود) اپنے (ہی) محتاج بہن بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے۔ آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:غَرَض جہاں جہاں جس قَدَر یاد ہو سکے کہ اِتنامال فُلاں سے ہار جیت میں زیادہ پڑاتھا، اُتنا تو انہیں یا اُن کے وارِثوں کو دے، یہ نہ ہوں تواُن کی نیّت سے تصدُّق (یعنی صدقہ )کرے، اورزیادہ پڑنے کے یہ معنیٰ کہ مَثَلًا ایک شخص سے دس بار جُوا کھیلا کبھی یہ جیتا کبھی یہ، اُس(یعنی سامنے والے جواری)کے جیتنے کی(رقم کی)مقدار مَثَلًا سو روپے کو پہنچی، اور یہ(خود)سب دَفعَہ کے مِلا کر سوا سو جیتا، تو سو سو برابر ہو گئے، پچیس اُس (یعنی سامنے والے جواری)کے دینے رہے۔ اِتنے ہی اسے واپس دے۔ وَعَلٰی ھٰذَا القِیاس (یعنی اور اسی پر قیاس کر لیجئے) اورجہاں یاد نہ آئے کہ(جُوا کھیلنے والے)کون کون لوگ تھے اور کتنا(مال جُوئے میں جیت)لیا، وہاں زیادہ سے زیادہ (مِقدار کا) تخمینہ (تَخ۔مِی ۔ نَہ ۔ یعنی اندازہ)لگائے کہ اِس تمام مدّت میں کس قَدَر مال جوئے سے کمایا ہوگا اُتنا مالِکوں(یعنی اُن نامعلوم جواریوں) کی نیّت سے خیرات کردے، عاقِبت یونہی پاک ہوگی۔ وَاللہ تَعَالٰی اَعْلَم۔
Unlimited Web Hosting

islamic events © 2019,

No comments:

Post a Comment

hazrat muhammad mustafa sallallahu alaihi wa sallam[حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم]

حضرت محمد مصطفٰی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلّم ...