گفتگو
فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:اِمْلَاء ُالْخَیْرِ خَیْرٌ مِّنَ السُّکُوْتِ وَالسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنْ اِمْلَاءِ الشَّرِّ یعنی اچّھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے(حدیث)۔
کس سے،کس وقت اور کس انداز میں کیا گُفْتگوکرنی ہے؟ یہ گُر سیکھنے سے آتا ہے۔ انسان جب بولتا ہے تو کبھی کسی کے دل میں اُتر جاتا ہے اور کبھی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دل سے اُترجاتا ہے ،لہٰذا ’’پہلے تولوبعد میں بولو‘‘ پر عمل کرنا چاہئے ۔
حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی نے گفتگو کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے :مکمّل نقصان دِہ بات(اس سے بچنا ضروری ہے) مکمَّل فائدے مند بات(اس میں احتیاط یہ کرنا ہوگی کہ زبان کھلنے کے بعد نقصان دینے والی باتوں میں مبتلا نہ ہوجائے)ایسی بات جو نقصان دِہ بھی ہو اور فائدے مند بھی(اس کے لئے نفع نقصان کی پہچان ہونا ضروری ہے)اورایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو نہ نقصان(اس میں وقت جیسی انمول دولت ضائع ہوتی ہے) ہمیں چاہئے کہ دنیا وآخرت کی کامیابیاں سمیٹنے کے لئے وہی گفتگو کریں جو مُفید ہو۔
ہم مختلف مَقامات پر مختلف لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں لہٰذا ہماری گفتگو بھی مختلف اور بہتر ہونی چاہئے۔ اپنی گفتگو کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں کچھ باتوں کو اپنانا پڑے گا اور کچھ چیزوں سے بچنا ہو گا ۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے عزت سے بات کی جائے تو آپ کو بھی اپنی گفتگو میں دوسروں کو عزت دینی ہوگی ، اس کی مِثال یوں سمجھئے کہ ربڑ کی گیند کو جتنی قوَّت سے دیوار پر مارا جائے اُسی رفتار سے واپس آتی ہے ۔ بولنے کی رفتار بھی اپنا اثر رکھتی ہے اگر رفتار زیادہ تیز ہوگی تو دوسرےکو الفاظ کم سمجھ میں آئیں گے اور اگر رفتار بہت کم ہوگی تو آپ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کا انتظار کرتے کرتے دوسرا اُکتا جائے گا ،لہٰذا اَوْسَط رفتار سے بات کرنا مُناسِب ہے۔ بولنے میں بلا شُبَہ زیادہ محنت نہیں ہوتی صرف زبان ہلانی پڑتی ہے مگر زبانیں صِرف رَس نہیں اُنڈیلتیں زہر بھی اُگلتی ہیں،نَرْم گفتگوآپ کا وَقار بڑھا دے گی اور تَلْخ گُفتگو آپ کی قَدْر گھٹا دے گی۔
بہترین چائے اگر گندے کپ میں پیش کی جائے تو اس کی اَہَمِّیَّت گِر جاتی ہے،گفتگو اگر چائے ہے تو لہجہ اس کا کپ ہے، ہما را لہجہ سننے والے کے قَلْب و ذِہن پر ہمارے لفظوں سے زیادہ اَثَر ڈالتا ہے،لیکن لہجہ حقیقت کے قریب ہوبناوَٹی نہ ہو،کیونکہ بناوٹی لہجہ لوگوں کو سمجھا دیتا ہے کہ آپ وہ نہیں ہیں جو نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پُرسکون لہجے کا استعمال، سمجھنے اور سمجھانے میں مددگار ہوتا ہے،چنانچہ اچھی سے اچھی گفتگوبھی اگر خراب لہجے میں کی جائے تو سننے والے کو ناگَوار گزرے گی۔ دورانِ گفتگو اپنی آواز کے اُتار چڑھاؤ پر نظر رکھئے،لوگ جلدی آپ کی بات سمجھ جائیں گے، آواز کی بُلندی و پستی آپ کی بلندی وپستی کا سبب بن سکتی ہے۔ہوائی باتیں کرنے سے بچیں، اس سے شروع شروع میں آپ کو لوگوں کی توجہ تو مل جائے گی لیکن بعد میں آپ کی باتیں قابلِ بھروسا نہیں رہیں گی،جوبھی دعویٰ کریں اُس کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل یاحوالہ ہونا چاہئے۔الفاظ کا مناسب اِستِعمال آپ کی گفتگو میں جان ڈال دیتا ہے۔
چنانچہ’’کھالو‘‘کی جگہ’’کھالیجئے‘‘،’’میرا فیصلہ یہ ہے‘‘ کی جگہ ’’میری رائے یہ ہے‘‘،’’میں یہ کہہ رہا تھا‘‘کی جگہ ’’میں یہ عرض کررہا تھا‘‘، ”مجھے تم سے کام ہے“ کی جگہ ”مجھے آپ سے کچھ کام ہے“ یا” آپ کو تھوڑی زَحْمت دینی ہے“،’’اندھے‘‘کی جگہ”نابینا“،’’بوڑھے‘‘کی جگہ ’’بُزُرگ‘‘ ،’’فلاں مرگیا‘‘ کی جگہ ’’فلاں کا اِنتِقال ہوگیا‘‘، ’’کیوں آئے ہو؟‘‘کی جگہ’’کیسے تشریف لائے؟‘‘ ، ’’مصیبت میں پڑگیا“ کی جگہ ’’آزمائش میں آگیا‘‘،’’آپ غلط کہہ رہے ہیں ‘‘ کی جگہ ’’میری ناقص رائے یہ ہے کہ یہ بات اس طرح ہے ‘‘،’’آپ میری بات نہیں سمجھے ‘‘کی جگہ ’’شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں پایا‘‘وغیرہ استعمال کیجئے اور اس کے فوائد اپنی آنکھوں سے دیکھئے ۔مخاطب کا نام لے کر اس سے بات کرنا،اَجنبیت کو کم کرتا اور گفتگو میں سامنے والے کی دلچسپی بڑھا دیتا ہے زبان سامنے والے کے منہ میں بھی ہے ،یہ پیشِ نظر رکھئے اور اس کی بھی سنئے کیونکہ گفتگو اسی کا نام ہے کہ کبھی ایک بولے اور دوسرا سنے تو کبھی دوسرابولے اور پہلا سنے ۔اگر آپ اپنی ہی سناتے چلے جائیں گے تو وہ دوبارہ آپ کو دیکھتے ہی راستہ بدل سکتا ہے ۔
اندازِ گفتگو کسی حد تک انسان کی چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کو ظاہر کردیتا ہے،اس لئے اِن چیزوں سے بچئے:گھبراہٹ میں بندہ اپنی بات بہتر طریقے سے نہیں سمجھا سکتا ،پہلے خود کو پرسکون کیجئے پھر گفتگو کا آغاز کیجئے۔ ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا ‘‘ ’’دیکھا نہ‘‘ ’’آپ میری بات لکھ لو ‘‘وغیرہ تَکِیہ کلام کی کثرت سامنے والے کی بَورِیَت کا سبب بن سکتی ہے، اس سے پرہیز کیجئے۔ زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ پاؤں کا استعمال بھی بعضوں کی عادت ہوتی ہے ، کبھی اس کے کندھے پر ہاتھ رَسِید کریں گے تو کبھی ہاتھ بڑھا کر فرمائش کریں گے:’’دے تالی‘‘یہ باوقار لوگوں کا انداز نہیں ہے،اس سے بچئے ۔’’میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا‘‘،’’میں اُس کو کھری کھری سناؤں گا‘‘ایسا کرنے والے کو سامنےسے بھی کھری کھری سننے کو ملتی ہیں ،آپ یہ انداز اختیار نہ کیجئے ، گولی کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے بعض اوقات اس پر شوگر کوٹنگ کی جاتی ہے ، لہذا بات کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے نرم الفاظ کا انتخاب اچھی حکمتِ عملی ہے ، آپ بھی اسی کو اِختِیار کیجئے ۔بعض لوگ اتنی دھیمی آوازمیں گفتگو کرتے ہیں کہ خود بولتے ہیں خود ہی سمجھتے ہیں ، اگر بات کسی دوسرے سے کرنی ہے تو اتنی آواز سے بولئے کہ اس کے کانوں تک پہنچ جائے ۔اُوٹ پٹانگ باتیں کرکے ہر محفل کی رونق بننے کی خواہش نہ پالئے کہ ایسا کرنے والے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اللہ کرے ہمیں صحیح بولنا آجائے ۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
No comments:
Post a Comment